عید کے تہوار کی حقیقت

ایک امت بنے رہنے اور اجتماعی خیر خواہی و خبر گیری کا درس

ڈاکٹر حسن رضا

برادران وطن اور مسلمانوں میں تصور عید کو درست کرنے کی ضرورت
ہندوستان مذہبی رسموں،تہواروں جشنوں اور میلے ٹھیلوں کا ملک ہے۔ مسلمان بھی یہاں ہزار برسوں سے رہتے بستے چلے آرہے ہیں اور ان کے اندر بھی ہندوستان کے یہ اثرات کسی نہ کسی حد تک رچ بس گئے ہیں جن کی اصلاح تمام مذہبی واصلاحی کوششوں کے باوجود ابھی تک پوری طرح نہیں ہو پائی ہے۔
چنانچہ عید کے بارے میں برداران وطن میں جہاں عام طور سے یہ تصور پایا جاتا ہے اسلام میں رمضان کے مہینے میں اللہ کی طرف سے دن میں کھانا پینا پوری طرح منع ہے اس لیے مسلمان اس مہینے میں دن میں اپواس کرتے ہیں اور رات میں خوب نماز اور قرآن پڑھتے ہیں اور سحری تک بھر پور کھاتے پیتے ہیں ۔اس طرح ایک مہینہ گزارنے کے بعد عید کا چاند نظر آتے ہی کھانے پینے اور اپواس کی تمام پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں ۔اسی لیے عید کے دن خوشیاں مناتے ہیں کہ رمضان کی پابندی پوری کرنے کے بعد اب گیارہ مہینے حسب معمول ہر طرح کے کھانے پینے کی آزادی نصیب ہوگئی ہے ۔
آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ عید کی خوشی کا یہ تصور پوری طرح اسلامی نہیں ہے بلکہ مسلم معاشرے کو باہر سے اور اسلامی تہوار کی حقیقت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ یہ ہماری کوتاہی ہے کہ برادران وطن کو عیدالفطر کے تہوار کی حقیقت نہ سمجھا سکے۔
بہرحال مسلم عوام میں بھی اس سے تھوڑا مختلف لیکن عید کے بارے میں روایتی تصور پایاجاتا ہے چنانچہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے مسلم قوم کو رمضان المبارک کا ایک خاص ماہ عطا کیا ہے جس میں روزہ فرض کیا گیا اور قرآن کا تحفہ بھی دیا گیا تاکہ قوم روزہ رکھ کر اور قرآن پڑھ کر خوب ثواب حاصل کرے اور اپنے سارے گناہ اس ماہ میں اللہ میاں سے بخشوالے۔ مزید اس ماہ میں شب قدر بھی عطا ہوا جس میں تقدیریں اور اہم فیصلے ہوتے ہیں لہٰذا اس میں اللہ تعالی سے جو مانگنا ہو مانگ لے اور جو کسر روزہ کے باوجود رہ گئی ہو اس کو شب قدر کی طاق راتوں میں پوری کرلے ۔چنانچہ رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی مسلمان قوم میں ایک مذہبی جوش ولولہ پیدا ہوجاتا ہے اور اپنے گناہوں کی مغفرت، ثواب کمانے کا شوق اور درجات کی بلندی کا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک والہانہ جوش و خروش رمضان المبارک کے مہینے میں مسلم قوم میں دیکھا جاسکتا ہے ۔واعظین کرام خطیب اور مقررین حضرات بھی اس مذہبی جذبے کو جوش تقریر اور اپنی تذکیر سے دو آتشہ کرتے رہتے ہیں ۔تقریروں اور تذکیروں کی بھی بہار آجاتی ہے۔ غرض جس کو جہاں موقع ملتا ہے ثواب کمانے کی تجارت میں لگ جاتا ہے ۔مسجدیں تراویح میں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، جمعة الوداع میں مسلمانوں کا ہجوم اور شب قدر میں بھیڑ بھاڑ بہت بڑھ جاتی ہے ۔اس طرح عام مسلمانوں کا تصور بھی یہی ہے کہ عیدالفطر کا یہ تہوار پورے رمضان المبارک میں گناہ بخشوانے اور ثواب کمانے کی خوشی کا دن ہے۔ عام طور سے مسلمان عوام یہی سمجھتے ہیں کہ ہم نے جو روزہ، نماز، تلاوت اور صدقات وخیرات اس ماہ میں کیا ہے عید اس کی مزدوری کی خوشی ہے۔
مسلمانوں کا یہ تصور غلط نہیں ہے بلکہ ایک حد تک صحیح ہے لیکن یہ بات مکمل نہیں ہے ۔عید کے تہوار کی پوری حقیقت کو سمجھنے کے لیے رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے ساتھ نزول قرآن، روزہ اور قرآن کا رشتہ، نزول قرآن کی ساتھ رسول اللہ ﷺ کی بعثت اور اعلان ختم نبوت کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ پھر اس قرآنی مشن اور کار نبوت کو قیامت تک جاری رکھنے کے لیے امت مسلمہ کی تشکیل وتکمیل کی خدائی اسکیم بھی اسی شب قدر اور رمضان المبارک کا حصہ ہیں۔ اس پورے تناظر میں عید کے تہوار کی معنویت واہمیت کو سمجھنا چاہیے اور اس تہوار میں اخلاقی فرحت، روحانی مسرت اجتماعی اظہار تشکر اخروی کامیابی اور ثروت مندی سے حاصل ہونے والی جمالیاتی آسودگی کو سمجھا جاسکتا ہے۔ آئیے اس کو ذرا تفصیل سے سمجھیں رمضان المبارک کا مہینہ عرب میں محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے روزہ اور جشن کا مہینہ نہیں تھا اور نہ عام عربوں میں یہ کسی طرح متبرک مہینہ سمجھا جاتا تھا۔ عربوں کے پاس توحید کی امانت اور اس کی علامت یعنی خانہ کعبہ مرکز تھا جن کی تولیت اور مجاوری ان کا سرمایۂ افتخار، عظمت کا راز، قوت کا مرکز اقتدار کا تاج، یہاں تک کہ امن کی گارنٹی اور ضروریات زندگی کے حصول کا ذریعہ تھا۔ ان کی تہذیب وتجارت،مذہب ادب سیادت وقیادت سب اسی توحید کے مرکز کعبہ سے وابستہ تھی جس کو بد قسمتی سے انہوں نے شرک کا اڈا بنا دیا تھا۔اور سمجھتے تھے کہ اسی کی وجہ سے ساری اقبال مندی اب وابستہ ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے بت پرستی کو ختم کرکے کعبے کو دوبارہ توحید کا مرکز بنانے کی دعوت دی تو ان کی قوم کے سرداروں کو لگ رہا تھا کہ یہ شخص تو قریش کی پوری سیادت وقیادت معیشت ومعاشرت اور بین الاقوامی رابطہ وساکھ کو ملیا میٹ کردے گا۔ اس لیے آپ کی تمام ذاتی خوبیوں کے باوجود
وہ مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہویے۔ بات ذرا پھیل گئی اور دوسری طرف چلی گئی لیکن اسلام کے دونوں تہواروں کو سمجھنے کے لیے اس بات کو بھی سمجھنا بہت اہم ہے۔ کیوں کہ اسلام نے دو تہوار ہمیں عطا کیے ہیں۔ایک عیدالفطر جس کا تعلق توحید کی ایک بڑی امانت کلام الہی یعنی قرآن سے ہے جو رمضان المبارک میں نازل ہوا اور جس سے ہدایت کے لیے تقویٰ ضروری ہے اور اسی میں روزہ فرض کیا گیا تاکہ مسلمان قرآن سے پوری طرح ہدایت پاسکیں۔ اس طرح عید الفطر کا تعلق رمضان المبارک کے مہینے میں نزول قرآن اور روزے سے وابستہ ہے اور دوسرا عید الاضحیٰ جس کا رشتہ خانہ کعبہ اور سنت ابراہیمی سے ہے۔
واضح رہے کہ خانہ کعبہ کی مرکزیت کے حوالے سے عرب میں فقط چار مہینے حج اور عمرہ کی وجہ سے حرام اور مقدس سمجھے جاتے تھے۔ رجب، ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم الحرام۔ رمضان کے مہینے کو مرکزیت یا خصوصی تقدس نزولِ قرآن سے پہلے حاصل نہیں تھا ۔قرآن کے نزول کے بعد اس خدائی راز یعنی اس مہینے کی عظمت اور تقدس سے دنیا اس طرح واقف ہوئی۔ جب آخری رسول کی بعثت کی خدائی اسکیم اور آپ کے ذریعے امت محمدیہ کی تشکیل وتعمیر کی بنیاد نزول قرآن سے شروع ہوئی۔اس طرح یہ ماہ صیام جشن قرآن کا عظیم مہینہ بن گیا اور قرآن جیسی عظیم الشان نعمت کا نزول اس ماہ میں خدا کے جود و کرم رحمت مغفرت اور مغفرت کا عمومی سامان ہو گیا ۔اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا: فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ جو شخص تم میں اس مہینے کو پائے وہ روزہ رکھے۔ پھر آگے بتایا کہ ولتکبروا اللہ علی ما ھداکم ولعلکم تشکرون تاکہ تم ہدایت ربانی پر اللہ کی تکبیر کرو اور شکر گزار بنو۔ایمان وتقوی وروزہ وصبر نماز تکبیر اور تشکر یہ سب رمضان المبارک سے متعلق آیتوں کے کلیدی الفاظ ہیں۔رمضان المبارک کا مہینہ ایک موسم بہار ہے جس میں ایمان تقویٰ صبر و شکر، نماز وتکبیر، حمد ودعا سب پر بہار آجاتی ہے، اور یہ سب الفاظ عمل میں ڈھل کر تازہ زندہ اور پر بہار پھل پھول سے لدے ہویے ثمر بار ہو جاتے ہیں اور اہل اسلام کے لیے سابقوا الی مفغرة اور سارعوا الى مفغرة من ربكم کی متحرک فعال فضا ہر سال مومن کے لیے تیار کر دی جاتی ہے جو مسلمانوں کی روحانی زندگی کی رگوں میں اخلاص وللّٰہیت کا تازہ خون رواں دواں کردیتی ہے تاکہ امت قرآنی مشن کے لیے ہر سال تازہ ہوتی رہے، اور اسی میں امت کی ترقی کا راز ہے۔ اس پورے پس منظر کے سیاق میں عیدالفطر کے تہوار کو سمجھنا چاہیے تاکہ پوری حقیقت واضح ہو سکے۔ کسی تہذیبی گروہ کے لیے تہوار کی یہی اہمیت ہے کہ وہ اس گروہ کے فلسفہ حیات سے عوام کو شعوری لا شعوری جذباتی اور جمالیاتی سطح پر وابستہ رکھے۔ عیدالفطر کا تہوار ہمیں یہ راز بتاتا ہے کہ قرآن ہمارا مشن ہے یہ انسانیت کے لیے آب حیات ہے۔ سچی خوشی کا راز بتانے والی یہی کتاب ہے۔ رمضان المبارک میں مسلمان روزہ رکھ کر تقویٰ کے ذریعے اس سے ہدایت پانے کے راز کو اپنے لیے تازہ کرتے ہیں اور اس خوش بختی توفیق ایزدی اور تکمیل ماہ صیام پر خوشی مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہماری ایمانی زندگی کی اجتماعی اور جمالیاتی پہلو پر سب سے زیادہ نکھار اور جمال عید کے دن ہوتا ہے جس سے ہمیں عید کی حقیقی خوشی نصیب ہوتی ہے ۔
یاایھا الناس قد جآتکم موعظةمن ربكم وشفألما فى الصدور رحمة للمومنين قل بفضل الله وبرحمته فبذالك فليفرحوا ھو خیر مما یجمعون(سورہ یونس ٥٨)
آخر میں یاد رکھنا چاہیے کہ روزہ کی عظمت فضائل اور مزدوری پر ہزار وعدہ خداوندی ہے۔ حدیث میں ’’الصوم لی وانا اجر بہ‘‘ کی خوش خبری اپنی جگہ لیکن یہ ٣٠ روزے معلق رہتے ہیں جب تک عید کی خوشی میں شریک ہونے سے محروم بھائیوں کی عیدی بشکل فطرہ ادا نہ کی جائے۔ مادیت و روحانیت کا کیسا حسین امتزاج ہے یہ، یہ تہوار ہمیں امت پن کا کیسا راز سکھاتا ہے۔ یہی اسلامی اجتماعیت ہے۔ واضح رہے کہ اجتماعیت نظم وضبط کے اسٹرکچر کا نام نہیں ہے۔ یہ اصلاً اجتماعی خیر خواہی خبر گیری، داد رسی ضروریات زندگی کی فراہمی خوشی وغمی میں پوری شرکت۔آشوب ذات کے بھنور سے نکل کر امت پن کے بحر میں بیکراں ہو جانے کا نام ہے۔کیسا حسین تہوار اللہ نے عطا کیا ہے۔ایسا تہوار سارے انسانوں کو مبارک ہو ۔
فی الوقت تو اس مبارک کے مستحق وہ ہیں جنہوں نے رمضان المبارک کے ماہ میں ایمان تقوی صبر ورضا حمد و شکر کے درخت پر لگے ہوئے زیادہ سے زیادہ میٹھے پھلوں سے اپنی جھولی بھرلی ہے ۔عید الفطر اسی مٹھاس کی لذت سے روحانی سطح پر بہرہ ور ہونے کانام ہے
عید الفطر کی حقیقی خوشیاں تمام اہل ایمان کو مبارک ہوں اورشب قدر کے آسمانی فیصلے میں ان کے لیے نئی نئی کامرانیوں کی بشارت کا سامان ہو خصوصاً اہل غزہ اور فلسطین کے ستم رسیدہ لوگوں کے لیے بلکہ سارے مظلوموں بے کسوں اور محتاجوں کے لیے۔ والسلام عید مبارک ہو۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 عید الفطر کی حقیقی خوشیاں تمام اہل ایمان کو مبارک ہوں اورشب قدر کے آسمانی فیصلے میں ان کے لیے نئی نئی کامرانیوں کی بشارت کا سامان ہو خصوصاً اہل غزہ اور فلسطین کے ستم رسیدہ لوگوں کے لیے بلکہ سارے مظلوموں بے کسوں اور محتاجوں کے لیے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اپریل تا 27 اپریل 2024