تدریس کے اصول اور گُر

استاد کو منظم طریقے سے تدریس کو ترتیب دینا چاہیے

کلاس کے مطالبات اور طلباء کی نفسیات کا خیال رکھتے ہوئے تدریسی اصولوں اور گُر کا استعمال ہونا چاہیے
پچھلے دنوں مرکزی تعلیمی بورڈ کی جانب سے منعقدہ خصوصی پروگرام میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے استاذ ڈاکٹر محمد محمود صدیقی نے اصولِ تدریس کے سلسلے میں نہایت ہی اہم اور مفید باتیں کہیں۔ جو قارئین ہفت روزہ دعوت کے استفادے کے لیے پیش کی جا رہی ہیں۔ خطاب کے پہلے حصے کا خلاصہ پہلے پیش کیا جا چکا ہے۔محمد شفیق عالم ندوی ،معاون مرکزی تعلیمی بورڈ، نئی دلی
تدریس کے عمومی اصول
(General Principles of Teaching)
مشق اور تکرار کے اصول
(Principle of exercise and repeatition)
تدریس کے اصول میں سے ایک یہ ہے کہ چھوٹے بچوں سے جب کسی سبق کا باربار اعادہ کرایا جاتاہے تو وہ سبق انہیں اچھی طرح سے یاد ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے ان کے سیکھنے کا عمل (learning) بہت موثر (effective) ہو جاتا ہے، مشق اور تکرار کا اصول استاد کو جہاں جہاں ضرورت ہو وہاں وہاں استعمال کرتے رہنا چاہیے۔
تبدیلی اور آرام کا اصول
(principle of change and rest)
استاد نے دوران تدریس طلبا کے اعضائے محسوسات میں سے کسی عضو کا استعمال کیا، مثلاً سماعت کا استعمال کیا تو مسلسل پوری مدت (period) صرف سماعت کا استعمال نہ کرے بلکہ اسے تھوڑی دیر کے لیے آرام (rest) دے۔ اس وقفے میں بصارت کا استعمال کرلے۔ آرام (rest) کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی چیز کا مسلسل استعمال نہ ہو بلکہ اس کو آرام ملے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ استاد اعلان کر دیتا ہے کہ تمام طلبا کو ایک جہت (position) میں بیٹھنا ہے۔ اگر کسی طالب علم کو خاص جہت میں بیٹھنے سے آرام نہیں ملتا ہے اور وہ تھوڑی دیر میں تھکاوٹ محسوس کرنے لگتا ہے اور وہ دوسری جہت میں بیٹھنا چاہتا ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اصل مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ کس جہت میں بیٹھاہے، اصل مقصد یہ ہے کہ استاد جو کچھ پڑھا رہا ہے وہ اس کو سیکھتا ہے یا نہیں۔ اس بنا پر سیکھنے کے لیے جیسی بھی جہت (position) ہو اگر اس میں طلبا کو آرام ملتا ہو تو اس کی اجازت ملنی چاہیے۔
حواس کی تربیت کا اصول
(Principle of training of senses)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پانچ حواس عطا کیے ہیں۔ ان کے ذریعے سے وہ علم حاصل کرتاہے۔ ان حواس کی صحیح طریقے سے تربیت ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر انسان مشاہدے کے ذریعے بہت کچھ سیکھتاہے لیکن بسا اوقات استاد شاگر سے کہتا ہے کہ ہم جو کہہ رہے ہیں اس کو لکھ لو، اس سے آگے کے بارے میں مت سوچو، یہ درست نہیں ہے۔ استاد نے طالب علم کو سیکھنے کا موقع فراہم کیا تو اسے دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کا بھی موقع دینا چاہیے۔
استاد زندگی بھر استاد کا کردار ادا نہیں کر سکتا، کم از کم جسمانی طور پر طلبا کے ساتھ تو نہیں رہ سکتا، لہٰذا جو کچھ استاد نے طلبا کو سکھایا یا تربیت کی اس کا استعمال وہ بعد میں خود سے سیکھنے (self learning) پر کرے۔ بہتر ہوگا کہ استاد حواس کی تربیت کے ذریعے طلبا کو تیار کرے۔
گروپ کی حرکیات کا اصول
(principle of group dynamics)
بے شک سیکھنا مکمل طور پر انفرادی عمل ہے۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ کسی کلاس میں ساٹھ ستر طلبا موجود ہوں اور ایک استاد ایک مضمون کا درس دے تو اس کی تدریس تو سب کے لیے یکساں ہوگی، لیکن آموزش کی سطح ہر ایک کی الگ الگ ہوگی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر ایک کی ل سیکھنے کی صلاحیت جداگانہ ہوتی ہے، گویا سیکھنا مکمل طور پر انفرادی رجحان ہے۔ اس کے باوجود ایک طالب علم حوصلہ افزا ہے، بہت ہی فعال طور پر شامل ہو رہا ہے، استاد نے مزید اس کے ساتھ کچھ اور طلبا کو جوڑ دیا تو وہ ایک گروپ کی حیثیت سے کام کریں گے اور وہ طلبا جو پہلے حوصلہ افزائی محسوس نہیں کر رہے تھے وہ بھی اب حوصلہ افزا ہو جائیں گے اور فعال طور پر شامل ہو جائیں گے۔ گروپ کی حرکیات (group dynamics) کا یہ ایک فائدہ ہو سکتا ہے۔ اجتماعی طور پر جب زیادہ تر طلبا کسی چیز کی طرف راغب ہوتے ہیں تو ان میں جو زیادہ راغب نہیں ہیں رغبت بڑھتی جاتی ہے، تو اس طرح استاد کو گروپ کی حرکیات کا مثبت انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔
تخلیقی صلاحیتوں کا اصول
(principle of creativity)
ہر طالب علم میں تخلیق کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ وہ کچھ کرنا چاہتا ہے اور بہت سے عنوانات میں اس بات کی گنجائش بھی موجود ہوتی ہے کہ استاد اس کو ایسے مواقع فراہم کریں لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ تخلیق ایک بہت اہم چیز ہے۔ اگر استاد کلاس روم میں ایسے مواقع فراہم نہیں کرتا تو یہ صلاحیت ضائع ہو جائے گی۔ اس پر ایک طرح سے روک لگ جائے گی جو اچھی بات نہیں ہے۔ ایک طالب علم کی تخلیقی صلاحیت عموماً استاد کے لحاظ سے ادنیٰ درجے کی ہوتی ہے لیکن اگر وہ طالب علم اس سے خوشی محسوس کرتا ہے تو یہ چیز اس کے لیے بہت اہم اور کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے تخلیقی صلاحیت کے جہاں جہاں مواقع ہوں وہاں مواقع فراہم کرنا چاہیے۔
زندگی سے جڑنے کا اصول
(principle of linking with life)
علم کا تعلق صرف کتاب تک محدود نہ ہو بلکہ روز مرہ کی زندگی سے بھی مربوط ہو۔ بچوں کو جو تعلیم دی جائے وہ صرف نظری (theoretical) نہ ہو اور نہ اسے صرف کتابی باتیں سمجھی جائیں، بلکہ جو کچھ اساتذہ پڑھا رہے ہیں ان کا تعلق عام زندگی سے مربوط کرتے چلیں۔
ارتباط کا اصول
(principle of correlation)
دوران تدریس استاد اس بات کا خیال رکھے کہ مضمون کے ایک عنوان کا تعلق دوسرے عنوان سے یا ایک مضمون کے ایک عنوان کا دوسرے مضمون کے کسی دوسرے عنوان سے کیا تعلق ہو سکتا ہے اسے مربوط کرکے دکھائے۔
فعال شمولیت اور شرکت کا اصول
(principle of active involvement & participation)
اگر طلبا تدریس میں فعال ہوکر شرکت کریں تو زیادہ اچھی طرح سے موثر انداز میں سیکھ سکتے ہیں ۔
تعاون کے اصول
(principle of cooperation)
استاد کارویہ بھی امدادی (cooperative) ہو اور طلبا بھی اگر اصول وضابطے کی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہتے ہوں تو انہیں اس کے مواقع فراہم کرنا چاہیے، اس لیے اگر استاد نے کلاس روم میں تعاون کے جذبے کو فروغ دیا اسے پروان چڑھایا تو عملی زندگی میں بھی وہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کریں گے۔
اصلاحی تعلیم کا اصول
(principle of remedial teaching)
کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ کسی طالب علم کو استاد کے درس کا کوئی نکتہ (point) سمجھ میں نہ آئے تو اس کے علاج کا بھی انتظام ہونا چاہیے، چوں کہ ہر طالب علم کی آموزش کی سطح ایک جیسی نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے استاد اس کی تشخیص کرے کہ کس طالب علم کو کیا سمجھ میں نہیں آیا ہے، پھر اس بات کا خیال رکھتے ہوئے اپنی تدریس کا منصوبہ بنائے۔
ساز گار ماحول کا اصول
(principle of creating conducive environment)
ساز گار ماحول کا مطلب ہے ہر وہ چیز جو سیکھنے میں مدد کرے۔ ایسا ماحول استاد کلاس روم میں پیدا کرے کہ وہ ساری چیزیں سیکھنے کے عمل میں مفید و کارآمدہو، مثلاً بجلی کی ترسیل کرنے میں جو تار اور برقی تار جڑے ہوئے ہیں، ان میں ایسی دھات کا استعمال کیا گیا ہے، جو موصل (conductive) ہے یعنی وہ بجلی کو اچھی طرح سے فوری طور پر اپنے اندر سے گزار دیتی ہے۔ بعینہ ماحول کی ایک ایک چیز مثلاً کلاس روم کا نظم، وینٹی لیشن (ventilation) اور پنکھا وغیرہ سیکھنے کے عمل میں ساز گار ثابت ہو۔
منصوبے کے اصول
(principle of planning)
تدریس ایک منصوبہ بند عمل ہے۔ اس لحاظ سے کبھی یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ تدریس ایک فن ہے اور میں فن کار ہوں لہٰذا جس طریقے سے میں چاہوں گا اس طریقے سے کلاس روم کو لے چلوں گا۔ یہ تو استاد کے انفرادی فرق کی بات ہے اور بہت اچھی بات ہے کہ ہر استاد اپنے آپ کو ایک فن کار سمجھے لیکن کچھ بنیادی اصول ہیں جن کا خیال رکھنا ہر استاد کے لیے ضروری ہے، اور اس کے لحاظ سے ضروری ہے کہ استاد اپنی تدریس کو منصوبہ بند کرے۔
موثر حکمت عملی کے اصول
(principle of effective strategies)
جو طریقے استاد کی جانب سے اختیار کیے جا رہے ہیں، دیکھنا چاہیے کہ وہ موثرثابت ہو رہے ہیں یا نہیں۔ اس کا پیمانہ یہ ہے کہ تدریس اس وقت تک تدریس نہیں ہے جب تک اس کی مدد سے آموزش یا اکتساب نہ ہو، چاہے استاد کے اشارات سبق کتنے ہی اچھے ہوں، اس کو زبان پر کتنی ہی قدرت حاصل ہو، لیکن اگر ایک مدت کے بعد طلبا کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا، ان کی آموزش کچھ نہیں ہوئی تو وہ تدریس موثر تدریس نہیں کہلائی جاسکتی۔ موثر حکمت عملی کے اصول کا مطلب یہ ہے کہ آموزش کے نقطہ نظر سے استاد کو موثر طریقہ اور حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔
لچک کے اصول
(principle of flexibility)
تدریس میں لچک ایک اہم نقطہ ہے۔ اس کے لیے حکمت عملی طے کرنی ہوگی۔ انگریزی کے استاد نے کوئی ایک مخصوص حکمت عملی طے کی ہے، لیکن کلاس روم میں داخل ہونے کے بعد محسوس ہوا کہ یہ حکمت عملی زیادہ کام یاب نہیں ہے۔ مثلاً اس نے سوچا تھا کہ ذخیرۂ الفاظ کو ترقی دینے کے لیے کلاس میں رکھنا ہے، لیکن اس کو یہ احساس ہوا کہ طلبا کے پاس بنیادی الفاظ کی ہی معلومات نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ طلبا کے پاس ذخیرۂ الفاظ کی کمی ہے تو وہ کام یاب نہیں ہو سکتا ہے تو وہ حکمت عملی یہاں پر کام یاب نہیں ہوسکتی ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ اس میں لچک پیدا کرے۔ پہلے طلبا کو بنیادی الفاظ سکھائے پھر اس کے بعد word game کی جانب راغب کرے۔
گُر (maxims) کے بارے میں یہ بات اس سے پہلے ذکر کی جا چکی ہے کہ اساتذہ کے تجربات سے استفادہ کرکے اسے وضع کیا گیا ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ گُر کا استعمال تدریس کو موثر بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
تدریس کے عمومی اصول
(General Principles of Teaching)
نا معلوم سے معلوم کی طرف بڑھنا
(proceed from the known to the unknown)
استاد کو اپنی تدریس کا رخ معلوم سے نامعلوم کی جانب کرنا چاہیے۔ جو چیز معلوم ہے، طالب علم جس چیز سے مانوس ہے، اس کے سامنے وہ پہلے کھل جاتی ہے، اس کے بعد پھر وہ آہستہ آہستہ نا معلوم چیز کو سمجھتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب کوئی اجنبی شخص پہلی مرتبہ کسی کے گھر آتا ہے تو مالکِ خانہ کا بچہ اس سے گھلتا ملتا نہیں بلکہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سلام کرنے کے لیے بھی اس سے اصرار کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ ان کے درمیان اجنبیت حائل ہوتی ہے۔ لیکن بعد میں وہی بچہ جب مانوس ہو جاتا ہے تو یہ چیز ختم ہو جاتی ہے۔
آسان سے پیچیدہ کی طرف بڑھنا
(proceed from simple to complex)
کسی استاد نے تدریس کا آغاز کسی پیچیدہ عمل (complicated process) سے کیا اور طلبا پہلے ہی مرحلے میں یہ سوچنے لگیں کہ یہ چیز بہت ہی مشکل ہے تو بعد میں کتنی ہی آسان چیزیں پیش کی جائیں وہ اخذ نہیں کر سکتے، چوں کہ وہ پہلے ہی طے کر چکے ہیں ان کا سیکھنا محال ہے۔ اس لیے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ استاد آسان سے مشکل کی جانب اقدام کرے۔
غیر معین سے معین کی جانب بڑھنا
(proceed from indefinite to definite)
کوئی چیز غیر معین ہے اس سے معین کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ غیر معین سے معین کی طرف سفر کیسے ہو؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ معین سے غیر معین کی جانب آئے۔ لیکن غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس وقت کوئی شخص ایک تصور کو فروغ دیتا ہے تو اس وقت معین صورت حال نہیں ہوتی۔ مختلف چیزیں ہوتی ہیں اور وہ غیر معین شکل میں ہوتی ہیں لیکن جب پوری چیز سامنے آجاتی ہے تو اس کی ایک معین شکل بنتی ہے۔ استاد کی یہی کوشش ہونی چاہیے کہ غیر معین سے شروع کرے اور معین کی طرف لے جائے۔
عقلی دلیل سے عملی تجربے کی جانب بڑھنا
(proceed from empirical to rational)
استاد کو چاہیے کہ پہلے اپنی تدریس کا آغاز تجرباتی ومشاہداتی چیزوں سے کرے، پھر ایسی چیزوں کی جانب بڑھے جو صرف عقلی ہیں، یعنی جن کے لیے استاد کے پاس طلبا کے حواس کو استعمال کرنے کے مواقع کم ہیں۔ مثلاً استاد نے علم ہندسہ (geometry)میں اگر دائرے کے متعلق بہت ساری چیزیں بتا دیں تو دائرے کو استاد نے بورڈ پر بنایا، بورڈ میں طلبا کو تصویر استاد نے بتائی، اس کے نصف قطر (radius) کو تو بتا سکتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں اگر کُرّہ کی شکل ہو تو گیند کی شکل میں بتایا جا سکتا ہے۔ لیکن کُرّے کا نصف قطر (radius) بتانا اتنا آسان نہیں ہے، تو اس لیے استاد کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ تجرباتی عمل سے عقلی دلیل کی جانب بڑھے۔
نفسیاتی سے منطقی کی جانب بڑھنا
(proceed from psychological to logical)
نفسیاتی چیز وہ ہے جو طالب علم کی نفسیات کو اپیل کرتی ہے، پہلے استاد وہ چیز بیان کرے جس کا تعلق نفسیات سے ہے، پھر اس کی مدد سے ان چیزوں کی جانب بڑھے جن میں منطق محسوس ہوتی ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کتاب میں ایک ترتیب دی ہوئی ہوتی ہے اور اس ترتیب سے آگے بڑھنا استاد اپنے لیے بالکل لازم کر لیتا ہے حالانکہ ایسا ضروری نہیں ہے۔ استاد پہلے ان چیزوں سے تدریس کا آغاز کرے جو طالب علم کی نفسیات کو اپیل کرتی ہیں اور منطق کا استعمال بعد میں کرے۔ جو منطقی ترتیب ہے اس کو بعد میں ایک بار سمجھا دے۔ مثال کے طور پر منطق کا تقاضا یہ ہے کہ صفر کی اہمیت چوں کہ سب سے کم ہے اس لیے اس تصور کو سب سے پہلے واضح کیا جائے، لیکن نفسیات کا تقاضا یہ ہے کہ چوں کہ صفر کے تصور کو طالب علم نہیں سمجھ پائے گا، اس لیے ایک، دو، تین، چار سے استاد گنتی شروع کرے اور نو تک پہنچ جائے۔ اب دس کے تصور میں صفر کا تصور آ جاتا ہے، اس لیے نو پر جانے کے بعد پھر استاد صفر پر آتا ہے تو one to nine نفسیاتی ترتیب ہے، پھر صفر پر جانا یہ منطقی ہے۔ منطقی اعتبار سے دیکھا جائے تو منطق کا تقاضا یہ ہے کہ صفر سے شروع کیا جائے، لیکن یہاں نفسیاتی ترتیب کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔
پورے حصوں سے آگے بڑھنا
(proceed from whole to parts)
استاد کو چاہیے کہ کسی چیز کے اجزا کی تشریح کرنے کے بجائے پہلے بچوں کے سامنے اس کی صحیح سالم صورت رکھے، مثلاً پھول کے مختلف حصے سمجھانا ہے تو ایسا نہیں ہے کہ استاد پہلے ہی پھول کے چار حصے کرے اور پھر ایک ایک حصے کو بتائے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ پہلے پھول کو سالم حالت میں بتائے اور اس کے بعد پھر حصوں کے سلسلے میں گفتگو کرے۔
قریب سے آگے بڑھنا
(proceed from near to far)
تدریس میں استاد اس بات کا خیال رکھے کہ بچوں کے سامنے ایسی مثالیں دے جن سے بچے مانوس ہوں، یعنی ان کو قریب سے دور کی جانب لے جائے، کیوں کہ وہ اپنے ماحول اور اس میں موجود ایک ایک چیز سے مانوس ہوتے ہیں۔ اگر استاد نے ایسی مثالیں دیں جو ان کی معلومات سے متعلق نہیں ہیں تو ممکن ہے کہ وہ آسانی سے سمجھ نہ سکیں۔ اسی لیے ایسی مثالوں کا انتخاب کیا جائے جو کلاس روم کی صورت حال اور اسکول کے ماحول سے متعلق ہوں یا جن جگہوں پر وہ رہتے ہیں ان کے آس پاس کی بابت ہو تو سمجھنے میں سہولت ہو جائے گی۔
تجزیہ سے ترکیب کی جانب بڑھنا
(proceed from analysis to synthesis)
جب استاد نے ایک چیز کا مکمل حصہ بیان کر دیا تو اجزا پر جانے کے بعد رک نہیں جانا چاہیے، بلکہ مجموعی حیثیت سے اس کی صورت کیا بنتی ہے اس کو بھی واضح کر دینا ہے، پھر تجزیہ سے ترکیب کی جانب جانا چاہیے۔
اصل سے نمائندہ تک بڑھنا
(proceed from actual to representative)
جو چیز اصل ہے اس کے نمونے کی بات کریں۔ مثال کے طور پر استاد جانوروں اور چوپایوں سے متعلق کوئی چیز پڑھا رہا ہے یا ان کی خصوصیات کے سلسلے میں کچھ بتا رہا ہے تو وہ ہاتھی کا نمونہ کلاس روم میں لے کر آیا اور نمونے کو سامنے رکھ دیا۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو طلبا کی پوری توجہ کا مرکز ہاتھی ہے۔ ہاتھی کی مختلف خصوصیات کو وہ جانتے ہیں، کیوں کہ چڑیا گھر میں انہوں نے دیکھا ہے۔ اب ان خصوصیات کی بنیاد پر چوپایوں کی جو خصوصیات ہیں ان کو اخذ کرنا، ان کو پڑھانا زیادہ آسان ہو گا۔ یہ سب اہم تدریسی گر (maxims) میں سے ہیں۔
استاد کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جو چیزیں گُر (maxims) کے لیے لکھی گئی ہیں ان کے بارے میں یہ نہ سمجھا جائے کہ استاد کو ان کا پابند قرار دیا گیا ہے بلکہ یہ تدریس کو موثر بنانے کے ذرائع ہیں۔ گُر ایک طرح سے ہمارے خادم ہیں۔ وہ مالک نہیں ہیں کہ ہم ان کے پابند ہوں۔ کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس گُر کا استعمال کرنے میں اس عنوان کاحق ادا نہیں ہو پائے گا یا طلبا کے سیکھنے میں یہ رکاوٹ پیدا کردے گا تو وہاں پر اس کا استعمال نہ کرنا بہتر ہے۔
مختلف گُر مختلف حالات کے مطابق
(Different maxims suit different situations)
مختلف گُر کا استعمال مختلف حالات میں ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ استاد نے جتنے گُر پڑھے ہیں ان سب کا استعمال کسی ایک گھنٹے میں بیک وقت کرلے، بلکہ انہیں حالات کے اعتبار سے استعمال کرنا پڑے گا۔ استاد کو چاہیے کہ وہ آج جو عنوان پڑھانے والاہے اور جس کلاس کے طلبا کو پڑھانے والا ہے، اس عنوان اور اس درجے کے اعتبار سے انتخاب کرلے کہ ان اصولوں میں سے کون سا اصول اور گُروں میں سے کون سا گُر موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
منصفانہ استعمال
(judicious use)
استاد بہت مناسب وموزوں ترین اصول و گُر کا استعمال کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ لکیر کا فقیر بن جائے، بلکہ جہاں جس چیز کا استعمال ہو سکتا ہے وہاں اس چیز کا استعمال کرنے کی کوشش کرے۔ اس طریقے سے اگر استاد تدریس کے اصولوں اور گر کا خیال رکھے تو اس کی تدریس موثر ہو سکتی ہے۔ استاد کوئی ایسا اصول نہ وضع کرے کہ ہر حال میں اس کا استعمال کیا جائے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ استاد اس پر اپنی شناخت بنائے، بلکہ یہ عنوان کو یا سبق کو موثر بنانے کاذریعہ ہے۔ اس طریقے سے تدریس کے اصول و گُر دونوں ہی بہتر اور موثر تدریس بنانے کے لیے وسائل ہیں۔ ان کا استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ درجے کے جو مطالبات ہیں، طلبا کی جو نفسیات ہیں ان تمام کا خیال رکھتے ہوئے ہی ان کا استعمال کیا جائے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اپریل تا 27 اپریل 2024