کشمیر: انتہائی مطلوب لشکر کمانڈر پولیس کے ساتھ تصادم میں ہلاک: اے ڈی جی پی

نئی دہلی، اگست 10: ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار کا کہنا ہے کہ وتر وہیل خانصاحب میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں تین جنگجو مارے گئے جن میں ایک سیکورٹی فورسز کو انتہائی مطلوب لشکر کمانڈر لطیف راتھر بھی شامل ہیں جس نے سیکورٹی فورسز کو کافی پریشان کیا ہوا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ وادی کشمیر میں اس وقت 80 مقامی اور 45 سے 50غیر ملکی جنگجو سرگرم ہے جبکہ سری نگر ضلع میں ایک مقامی عسکریت پسند ایکٹیو ہے۔ ان باتوں کا اظہار موصوف نے سری نگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

اے ڈی جی پی، وجے کمار نے بتایا کہ منگل کی شام کو سری نگر پولیس کو تکنیکی ذرائع سے خبر ملی کہ وتر ہیل خانصاحب میں تین جنگجو چھپے بیٹھے ہیں جس کے بعد سیکورٹی فورسز نے درمیانی شب اس علاقے کو محاصرے میں لے کر تلاشی آپریشن شروع کیا۔

انہوں نے بتایا کہ رات کے دوران ہی وتر ہیل خانصاحب میں سیکورٹی فورسز اور جنگجوؤں کے مابین جھڑپ شروع ہوئی جو 13 گھنٹے تک جاری رہی جس دوران لشکر کمانڈر لطیف راتھر عرف عبداللہ سمیت تین جنگجو مارے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ لطیف راتھر کی ہلاکت سیکورٹی فورسز کے لئے بڑی کامیابی ہے کیونکہ اُس نے ہمیں کافی پریشان کیا تھا۔

اے ڈی جی پی نے بتایا کہ لطیف راتھر نامی جنگجو کمانڈر سال 2001 میں عسکری تنظیم میں شامل ہوا اور لگاتار تیرہ برس یعنی 2013 تک اس سے جڑا رہا ۔

انہوں نے بتایا کہ سال 2013 میں لطیف راتھر کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور پچھلے سال یعنی 2021 کے دسمبرمہینے میں ہیلتھ گراونڈ پر اس کو رہا کیا گیا اور رہائی پاتے ہی اُس نے دوبارہ عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ۔

اے ڈی جی پی نے بتایا کہ 24 جون 2013 کو حیدر پورہ میں فوجی کانوائی پر حملہ ہوا اور اُس حملے میں جنگجوؤں کی معاونت لطیف راتھر نے ہی کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ حملے کو انجام دینے کی خاطر لطیف راتھر نے غیر ملکی جنگجو کو اپنے گھر پر رکھا اور اپنی گاڑی کے ذریعے حیدر پورہ تک پہنچایا جس کے بعد فوجی کانوائی پر حملہ کیا گیا جس میں آٹھ جوان شہید ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ لطیف راتھر ابو قاسم کا دست راست تھا ۔ دسمبر 2021 میں رہائی کے بعدل لطیف راتھر نے لشکر طیبہ میں شمولیت اختیار کی اور تب سے اُس نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سال مئی کے مہینے میں چاڈورہ میں کشمیری پنڈت ملازم راہل بھٹ اور امبرین بھٹ پرقاتلانہ حملہ اسی نے کیا تھا۔ اے ڈی جی پی کے مطابق لطیف راتھر کی ہلاکت سیکورٹی فورسز کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے۔

سری نگر میں سرگرم جنگجوؤں کی تعداد کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں اے ڈی جی پی نے کہا کہ فی الوقت سری نگر میں مومن نامی ایک جنگجو سرگرم ہے اور کبھی کبھار باسط ڈار جو جنوبی کشمیر کا ساکن ہے، یہاں آیا کرتا ہے جس کے پیچھے ہم لگے ہوئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پچھلے دو سال کے دوران جتنی بھی ٹارگیٹ کلنگ کے واقعات ہوئے اُن میں ملوث سبھی جنگجوؤں کو مار گرایا گیا ہے اور اب صرف باسط ڈار بچ گیا ہے جس کو بہت جلد انجام تک پہنچایا جائے گا۔

اُن کے مطا بق باسط ڈار کولگام کا ساکن ہے اور جس دن مہران کو سری نگر میں مار گرایا گیا اُس روز وہ زخمی ہوا کر جائے وقوع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا تھا۔

اے ڈی جی پی نے مزید کہا کہ جنوبی اور شمالی کشمیر میں سرگرم جنگجو سری نگر آتے جاتے رہتے ہیں اور آج کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ فی الوقت وادی کشمیر میں 80 مقامی اور 45 سے 50غیر ملکی جنگجو سرگرم ہے۔

اُن کے مطابق امسال 130 جنگجوؤں کو مار گرایا گیا اس کے علاوہ ملی ٹینٹوں کے دو گائیڈ بھی تصادم کے دوران مارے گئے۔

ایک اور سوال کے جواب میں اے ڈی جی پی نے کہا کہ مارے گئے عسکریت پسندوں میں 35 فیصد ہائی برڈ ملی ٹینٹ تھے۔

انہوں نے ایک دفعہ پھر واضح کیا کہ ہائی برڈ جنگجو اب ہمارے لئے کوئی چیلنج نہیں کیونکہ تکنیکی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اب اُن کی شناخت کرنا آسان ہو گیا ہے۔

وجے کمار نے بتایا کہ امسال ہم نے بہت سارے ہائی برڈ جنگجو وں کی گھر واپسی کو یقینی بنایا اور اس بارے میں میڈیا کو کچھ نہیں بتایا ہے کیونکہ یہ معاملہ اگر صیغہ راز میں رہیں تو اُن کے لئے بہترہوگا۔

اے ڈی جی پی نے کہا کہ ہائی برڈ جنگجو دراصل آن لائن موڈ کے ذریعے ملی ٹینٹ تنظیم میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اور اس بارے میں سیکورٹی فورسز کو قبل از وقت جانکاری نہیں ملتی۔

انہوں نے بتایاکہ آج بھی سیکورٹی فورسزنے پلوامہ میں ایک آئی ای ڈی کو ناکارہ بنایا لہذا آئی ای ڈیز کا خطرہ  برقرار ہے۔