جنتر منتر پر مسلم مخالف اشتعال انگیز نعرے بازی: دہلی ہائی کورٹ کی خواتین وکلا کے فورم نے سپریم کورٹ کو خط لکھا، ملزمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا

نئی دہلی، اگست 10: بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق دہلی ہائی کورٹ کی خواتین وکلا فورم نے پیر کو سپریم کورٹ کو خط لکھ کر ان لوگوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے جنھوں نے جنتر منتر پر ایک ریلی میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد اشتعال انگیز نعرے لگائے تھے۔

فورم نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو لکھے گئے اپنے خط میں کہا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے یہ نعرے ہندوستانی آئین کے تحت محفوظ تقریر نہیں ہیں اور یہ پہلی نظر میں نفرت انگیز تقریر ہے۔ ’’ریلی میں کی جانے والی تقریروں کو اختلاف رائے یا تنقیدی تقریر کی آزادی کے حق سے نہیں ملانا چاہیے۔‘‘

اتوار کی شام منعقد ہونے والی اس ریلی کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی دہلی یونٹ کے سابق ترجمان اشونی اپادھیائے نے ’’بھارت جوڑو تحریک‘‘ کے حصے کے طور پر بلایا تھا۔ منتظمین نے ملک میں یکساں سول کوڈ قائم کرکے ’’نوآبادیاتی دور کے قوانین‘‘ کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ دہلی پولیس نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ انھوں نے اس ریلی کے لیے اجازت نہیں لی تھی۔

ایونٹ کی ویڈیوز میں لوگوں کے ایک گروہ کو یہ نعرہ لگاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے: ’’مُلّے کاٹے جائیں، رام رام چلائیں گے‘‘۔ سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیوز وائرل ہوتے ہی عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔

ریلی میں شرکت کرنے والوں نے کوویڈ 19 کے رہنما خطوط کی بھی خلاف ورزی کی کیوں کہ انھوں نے نہ تو ماسک پہنا اور نہ ہی جسمانی دوری کے اصولوں کو برقرار رکھا۔ اسکرول کی خبر کے مطابق جنتر منتر پر موجود ایک صحافی پر بھی حملہ کیا گیا اور اسے ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگانے کو کہا گیا۔

تاہم اشونی اپادھیائے نے دعویٰ کیا کہ تقریب کے اختتام کے بعد یہ نعرے لگائے گئے۔

اپنے خط میں فورم نے کہا کہ ریلی میں کی جانے والی تقریریں مسلمانوں کے خلاف ’’براہ راست اور واضح طور پر تشدد کی دعوت دے رہیں تھیں‘‘ اور سامعین تشدد کی حمایت کر رہے تھے۔

فورم نے 1994 میں روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کا بھی حوالہ دیا جس میں ’’منظم نفرت انگیز تقریر‘‘ نے تتسس برادری کے افراد کو قتال کا نشانہ بنا دیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق 1994 میں صرف 100 دنوں میں تقریباً 8 لاکھ تتسس برادری کے افراد کے ساتھ ساتھ نسلی ہٹو انتہا پسندوں کے سیاسی مخالفین کو بھی قتل کیا گیا تھا۔

فورم نے مزید کہا ’’مذکورہ بالا واقعہ کی ویڈیوز چونکا دینے والی ہیں اور انھیں ہلکے میں رد نہیں کیا جا سکتا۔ ریلی کا انعقاد دہلی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی مروجہ کووڈ 19 ہدایات کی خلاف ورزی میں کیا گیا تھا۔‘‘

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے مجرمانہ طرز عمل میں ملوث افراد کو معافی جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے اور خط میں شہریوں پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ ’’نفرت پھیلانے والوں‘‘ کے خلاف آواز اٹھائیں۔

دریں اثنا دہلی پولیس نے پیر کے روز اس واقعہ کے سلسلے میں نامعلوم افراد کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج کی۔ ایف آئی آر میں کسی مخصوص شخص کا نام نہیں لیا گیا حالاں کہ ریلی کی متعدد ویڈیوز میں شرکا کی شناخت واضح طور پر ہو رہی ہے۔

گزشتہ ایک ہفتے میں یہ دوسرا واقعہ تھا جہاں قومی دارالحکومت میں مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ نعرے لگائے گئے۔

اس سے قبل جمعہ کو ہندوتوا گروہوں اور دیگر تنظیموں نے علاقے میں حج ہاؤس کی تعمیر کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے دوارکا میں ایک مہا پنچایت یا جماعت منعقد کی۔

ایونٹ کی ویڈیوز میں دکھایا گیا تھا کہ مظاہرین فرقہ وارانہ طور پر حساس تبصرے کررہے تھے اور حج ہاؤس بنائے جانے پر تشدد کی دھمکی دے رہے تھے۔ دہلی بی جے پی کے سربراہ آدیش گپتا بھی دوارکا کی اس تقریب میں موجود تھے۔