ہوا کی رفتار میں کمی

پیڑ پودوں کی کٹائی اہم وجہ ۔شہری زندگی گزارنے والوں کے لیے تازہ ہوا ایک عجوبہ

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان تبدیلیوں سے متعلق ہمیں تقریباً ہر روز ہمیں خبریں ملتی رہتی ہیں، اب اپنی ذاتی زندگی میں بھی ان تبدیلیوں کے اثرات رونما ہونے لگے ہیں۔ ہم آج کل یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ہوا بہت کم رواں ہو رہی ہیں، گرما کی خاصیت یہ ہوتی تھی کہ اس موسم میں صبح اور شام کے اوقات میں فرحت بخش ہوائیں چلتی تھیں جس سے ہمیں بھر پور راحت ملا کرتی لیکن اب ایسی ہوائیں ماضی کا حصہ بن چکی ہیں۔ بیس پچیس سال قبل لوگ اپنے گھروں کے صحنوں میں چار پائی پر ہی سو جایا کرتے اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہوتے تھے اور انہیں اچھی نیند بھی آتی تھی۔ آج بھی لوگ اس سہانے دور کو یاد کرتے ہوئے ماضی یادوں میں کھو جاتے ہیں۔ اس دور میں جب ہم اپنے گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں کو کھولتے تو فرحت بخش ہوا کے جھونکے اندر آنے لگتے تھے جس سے گھر کے تمام افراد آرام محسوس کرتے لیکن آج شہری زندگی گزارنے والوں کے لیے تازہ ہوا ایک عجوبہ کی طرح ہو گئی ہے۔ دور جدید کے نوجوانوں کو اگر ہم ہمارے بچپن کی یادیں سنائیں اور ان سے یہ کہیں کہ شام کے اوقات میں ٹھنڈی ہوائیں چلا کرتی تھیں تو وہ اس بات کو تعجب سے سنیں گے لیکن محسوس نہیں کر پائیں گے، کیوں کہ ان کی زندگی کی ابتدا تو شہروں میں ہوئی، یہیں پلے بڑھے۔ انہیں کیا معلوم کے قریوں میں، دیہاتوں میں شام اور صبح کے اوقات میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں بھی چلتی ہیں، وہ تو چھ سو مربع مکعب میں رہتے ہیں۔ ہمہ منزلہ عمارتوں میں رہنے والوں کے لیے اس طرح کی باتیں ایک افسانہ ہی نظر آئیں گی کیوں کہ ہمہ منزلہ عمارتوں میں ہوا کا داخل ہونا محال ہوتا ہے، اونچی اونچی عمارتیں ہوا کو روک لیتی ہیں۔ شہروں میں زندگی گزارنے والے اللہ کی اس عظیم نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ موسم گرما میں شام اور صبح کے وقت کی ٹھنڈی ہواؤں سے دن بھر کی تھکان دور ہوجاتی تھی لیکن آج کی نئی نسل اس نعمت سے محروم ہے۔ یہ صرف میرا ذاتی تجربہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے سائنسی ثبوت موجود ہیں۔
ہمارے ملک کے ایسے دس بڑے شہروں کا مطالعہ کیا گیا جو تیزی کے ساتھ ترقی پذیر ہیں۔ 1958 سے لے کر اب تک کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان شہروں میں بڑی تیزی کے ساتھ ہوا کی رفتار میں کمی واقع ہوئی ہے جس کے نتیجے میں تازہ ہوا کا حصول کم ہوتا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے شہر حیدرآباد اور بنگلور میں ہوا کی تیزی (ونڈ اسپیڈ) میں 47 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ کلکتہ میں 46 فیصد، احمد آباد 34 فیصد اور پونے میں 25 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ کوئی معمولی کمی نہیں ہے، یہ بہت بڑی کمی ہے۔ اگر ہوا کی تیزی میں پانچ فیصد کمی واقع ہو گی تو سترہ فیصد ونڈ انرجی کی پیداوار میں کمی واقع ہو گی۔ ہوا کی تیزی میں کمی کے باعث ونڈ انرجی کی پیداوار گھٹ جاتی ہے۔ ہوا سے پیدا ہونے والی توانائی صاف ہوتی ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی نہیں ہوتی۔ پوری دنیا اور خاص کر ہمارا ملک ماحولیاتی آلودگی کے نقصانات سے نبرد آزما ہے اور کوششوں میں لگا ہوا ہے کہ کس طرح ماحولیاتی آلودگی میں کمی لائی جائے۔ شمسی توانائی اور ہوائی توانائی کی پیداوار بڑھائی جائے۔
ہوا کی تیزی میں کمی کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ فضائی آلودگی میں اضافہ ہو گا، آلودگی بڑھے گی۔ اس کی مثال ہمارے ملک کا دارالحکومت دلی ہے، فضائی آلودگی سے وہاں کے شہری جس قدر پریشان ہیں وہ تو بس وہی جانتے ہیں۔ ہر سال موسم سرما میں جبکہ ہوا نسبتاً کم تیز رفتار سے چلتی ہے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے اور اس میں کمی لانے کے لیے مصنوعی پنکھے لگائے جاتے ہیں، کاروں کو طاق و جفت نمبروں سے چلایا جاتا ہے اور نہ جانے کیا کیا جتن کیے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس فضائی آلودگی کو سنجیدگی سے نہیں لیا، اسے ہم نے اتنا مہلک نہیں سمجھا جتنا کہ غذائی یا آبی آلودگی کو مہلک سمجھا جبکہ فضائی آلودگی ان دونوں سے زیادہ مہلک ہے۔ یہ اس قدر مہلک ہے کہ اس کے اثرات سے انسانی دماغ پھیپھڑے اور آنکھیں سبھی تیزی سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہوا کی تیزی میں کمی کی وجہ سے آلودگی ماحول میں جمی ہوئی رہتی ہے، تحلیل نہیں ہو پاتی۔
اس کا تیسرا نقصان یہ ہے کہ رطوبت زیادہ دور تک نہیں پہنچ سکتی اور جمود کا شکار رہتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بارشوں میں بے قاعدگیاں ہونے لگتی ہیں۔ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ شہروں میں بے وقت اور بے موسم کی بارشیں ہو رہی ہیں۔ بعض شہروں میں بارشوں کی وجہ سے سیلاب کی صورتحال بھی پیدا ہو رہی ہے۔
ہوا کی تیزی میں کمی کی کیا وجوہات ہیں؟ یہ مسئلہ صرف ہمارے ملک کا ہی نہیں ہے بلکہ یہ سارے عالم کا مسئلہ بنا ہوا ہے، لیکن ہمارے ملک میں اس کی صورت حال بہت خراب ہے اور بڑی تیزی سے بگڑتی چلی جا رہی ہے۔ ہمارے ملک کے حکم راں تو اس جانب توجہ ہی نہیں دے رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اس مسئلہ سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ وہ ترقی کے نام پر ماحولیات کو تباہ وہ برباد کر رہے ہیں۔ جنگلات کو کاٹا جا رہا ہے، معدنیات کو بے دریغ نکالا جا رہا ہے، بے ضرورت ڈیموں کی تعمیر وغیرہ یہ سارے کام ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔
پیڑ پودوں کو کاٹنے کی وجہ سے ہوا کی رفتار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ دوسری وجہ آبادیوں کا مرکوز ہونا بھی ہے۔ آبادی کی کثافت بھی ایک وجہ ہے ہوا کی رفتار میں کمی کی۔ جب بھی آبادی ایک جگہ مرکوز ہوتی ہے تو اس کے نقصانات میں بھی اضافہ ہوتا ہے، اونچی اونچی عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں، شہر پھیلنے کے بجائے سکڑتا چلا جاتا ہے لیکن آبادی بڑھتی جاتی ہے۔ لوگ مضافات میں رہنے کے بجائے شہر میں بلند عمارتوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ جہاں جہاں شہر کاری (اربن آئزیشن) ہوگی وہاں ہوا کا مسئلہ پیدا ہو گا۔ اونچی عمارتوں سے، سڑکوں اور نالوں کی تعمیر سے، چھوٹے چھوٹے تالابوں کو ختم کرنے سے پانی کے قدرتی بہاو کو متاثر کیا جا رہا ہے جس کا نتیجہ سیلاب کی صورت میں ہمارے سامنے ظاہر ہو رہا ہے لیک ہم اسے محسوس نہیں کر رہے ہیں، اس کی تباہی ہمیں نظر نہیں آ رہی ہے۔ تیس سال قبل ہمارے ذہنوں کے کسی بھی گوشہ میں بھی یہ بات نہیں تھی اور ہم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ مستقبل میں پانی کو خرید کر پینا پڑ سکتا ہے لیکن آج ہم اسے خرید رہے ہیں۔ اسی طرح وہ وقت دور نہیں جب ہوا کو بھی خریدنا پڑے گا بلکہ ہم خرید بھی رہے ہیں۔ آکسیجن سیلنڈر تو خریدے ہی جا رہے ہیں، ابھی تو امراض تنفس میں مبتلا افراد کے لیے آکسیجن خریدا جا رہا ہے لیکن مستقبل قریب میں جس طرح ہم پانی کی بوتل خرید رہے ہیں اسی طرح تازہ ہوا کی بوتل بھی خریدنے لگیں گے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ہوا کی کمی کو دور کرنے کی کوششیں کرے اور شہر کو عمودی طور پر ترقی دینے کے بجائے اس کو پھیلنے دیا جائے۔ مضافات میں بھی وہی سہولتیں فراہم کرے جو شہروں میں دستیاب ہیں، عوام بھی اس جانب بھر پور توجہ دیں شہری زندگی کے بجائے گاؤں کی زندگی کو ترجیح دیں۔

 

***

 ہوا کی تیزی میں کمی کی کیا وجوہات ہیں؟ یہ مسئلہ صرف ہمارے ملک کا ہی نہیں ہے بلکہ یہ سارے عالم کا مسئلہ بنا ہوا ہے، لیکن ہمارے ملک میں اس کی صورت حال بہت خراب ہے اور بڑی تیزی سے بگڑتی چلی جا رہی ہے۔ ہمارے ملک کے حکم راں تو اس جانب توجہ ہی نہیں دے رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اس مسئلہ سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ وہ ترقی کے نام پر ماحولیات کو تباہ وہ برباد کر رہے ہیں۔ جنگلات کو کاٹا جا رہا ہے، معدنیات کو بے دریغ نکالا جا رہا ہے، بے ضرورت ڈیموں کی تعمیر وغیرہ یہ سارے کام ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  08 تا 14 مئی  2022