روٹی کپڑا اور مکان

لوگ جنہیں مسائل سمجھتے ہیں وہ تو وسائل ہیں اقتدار کے!

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

للن خان نے کلن پانڈے سے پوچھا: یار یہ وزیر داخلہ تو اپنے بعد کوئی مسئلہ چھوڑے گا ہی نہیں تو آگے آپ لوگ کیا کریں گے؟
کلن پانڈے نے سوال کیا: کیوں ہمارے شاہ جی نے اب کوئی نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے کیا؟
جی ہاں! ان کا فرمان ہے کہ اب وہ یونیفارم سول کوڈ لانے والے ہیں۔
اچھا! لیکن پھر ہمارے ہندو کوڈ کا کیا ہو گا؟ یہ ناممکن ہے۔ ہندو سرمایہ دار شاہ جی کا دماغ درست کر دیں گے۔
ارے بھائی! شاہ جی کے پاس پولیس اور سارے حفاظتی دستے ہیں۔ فی الحال کس کی مجال ہے جو ایسی جرأت کر سکے۔
کلن نے کہا: بھائی ہم جیسا عام آدمی تو کچھ نہیں کرسکتا لیکن سرمایہ دار اگر چندہ دینا بند کردیں تو شاہ جی کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے ۔
لیکن سرمایہ دار یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کیوں کرے گا؟
وہ اپنے ہندو کوڈ بل کی حفاظت کے لیے ایسا کرے گا کیونکہ اس کے سبب وہ وراثت میں کروڑوں کا ٹیکس بچا لیتا ہے۔
للن نے حیرت سے کہا اچھا تو یہ بات ہے لیکن شاہ جی تو اقتدار کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
اگر کر سکتے ہیں تو کر لیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ انہوں نے رام مندر کے حق میں فیصلہ کروالیا لیکن اس کا کیا کوئی فائدہ ہوا؟
کیا فائدہ! شاندار رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے۔
کلن بولا اور ساتھ میں بدعنوانی بھی شباب پر ہے۔ اسی لیے حالیہ یو پی انتخاب کی مہم میں کیا تم نے رام مندر کا ذکر سنا؟
جی ہاں یہ بات تو ہے اس کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا۔
اس کا ہی کیوں؟ کشمیر کی دفعہ 370 کو ہٹے تین سال ہونے والے ہیں کیا وہاں تشدد ختم ہو گیا؟
نہیں بھائی ختم کہاں ہوا! پچھلے ہفتہ وزیر اعظم کا دورہ تھا۔ اس کے پہلے بھی جلسہ گاہ سے چند میل کے فاصلے پر دھماکہ ہوا۔
کلن بولا یہی تو میں کہتا ہوں وہ لوگ دعویٰ تو خوب کرتے ہیں لیکن زمینی سطح پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
وہ تو ہے لیکن آپ کے سر سنگھ چالک نے تو شاہ جی کو بھی مات دے دی، وہ تو بڑے انتر یامی نکلے۔
کیوں خاں صاحب کہیں آپ ہمارے عظیم قائد کا تمسخر تو نہیں اڑا رہے ہو؟
کیسی باتیں کر رہے ہیں پانڈے جی آپ؟ آج کل ایسی ہمت کون کر سکتا ہے؟
کیوں بھائی! اس میں کون سی بڑی بات ہے؟ یہ ایک جمہوری ملک ہے اس میں ہر کسی کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔
جی ہاں کاغذ پر تو ہے لیکن یہاں ہر کوئی اپنے من کی بات نہیں بول سکتا۔ اس کے لیے اس کا پردھان سیوک یا کم ازکم سنگھ سیوک ہونا ضروری ہے۔
اچھا اگر کسی اور نے اپنی من کی بات کہہ دی تو کیا ہو گا؟
بہت کچھ ہو سکتا ہے جیسے ای ڈی کا چھاپہ، سی بی آئی کی تفتیش، یو اے پی اے کے تحت گرفتاری یا پھر بلڈوزر۔
یہ بلڈوزر درمیان میں کہاں سے آگیا؟
اوہو آپ نہیں جانتے جب کسی بابا یا ماما کے من میں آئے تو وہ کسی کو بھی بلڈوزر سے کچل سکتا ہے۔ اس کو کوئی قاعدہ قانون روک نہیں سکتا۔
ارے بھائی خاں صاحب! آپ بلڈوزر پر بیٹھ کر بہت دور نکل گئے۔ میں تو پوچھ رہا تھا کہ آپ نے ہمارے سر سنگھ چالک کو انتریامی کیوں کہا؟
وہ انہوں نے بھویشیہ وانی (پیشنگوئی) جو کی ہے کہ ہندوستان پندرہ سالوں میں اکھنڈ بھارت بن جائے گا اور ہم اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیں گے۔
ہاں ہاں تو اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ انہوں نے کہہ دیا تو کہہ دیا بھارت ترقی کر کے اکھنڈ بھارت بن جائے گا۔
للن ہنس کر بولا پانڈے جی! یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اکھنڈ بھارت کا بننے کا کیا مطلب ہے؟
جی نہیں مجھے یہ سب نہیں معلوم۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ہمارے قائد نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔ وہ ہو کر رہے گا۔
لیکن آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں پانڈے جی یہ تو ناممکن ہے۔
اوہو خاں صاحب۔ آپ نہیں جانتے ان کے پاس مودی نامی جادو کی چھڑی ہے اور مودی ہے تو ممکن ہے۔
للن بولا پانڈے جی یہ بات آپ اس لیے کہہ رہے ہیں کیونکہ آپ کو یہی نہیں پتہ کہ اکھنڈ بھارت کا کیا مطلب ہے؟
مان لیا مجھے نہیں پتہ مگر آپ تو جا نتے ہیں، اس لیے آپ ہی بتا دیجیے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ ورنہ ان سے پوچھنے کے لیے ناگپور جانا پڑے گا۔
ارے پانڈے جی، زحمت کی ضرورت نہیں میں بتاتا ہوں اکھنڈ بھارت کا مطلب ہے پاکستان، بنگلادیش، نیپال، میانمار، سری لنکا اور تبت کا بھارت میں ضم ہو جانا۔
اچھا تو اس میں کیا مسئلہ ہے۔ چھوٹی موٹی ندیاں بڑے دریا میں ضم ہو جاتی ہیں۔
للن نے کہا آپ الٹا بول گئے خیر اگر ان کی حالت ہم سے اچھی ہو تو وہ ہم سے کیوں ملیں گے؟
ان کی حالت ہم سے اچھی کیسے ہوسکتی؟ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ بہت جلد ہم وشو گرو بننے جارہے ہیں؟
بھئی پانڈے جی! جب بنیں گے تب بنیں گے مگر فی الحال تو وہ ہم سے بہتر حالت میں ہیں۔
کس دیش دروہی (قوم دشمن) نے آپ سے یہ کہہ دیا خاں صاحب؟ آپ کسی پاکستانی واٹس ایپ گروپ میں تو نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو فوراً نکل جائیے۔
اچھا! اس میں کیا مشکل ہے۔ ذرائع ابلاغ نے پوری دنیا کو ایک گاوں بلکہ کنبہ بنا دیا ہے۔
وہ ایسا ہے خاں صاحب کے آج کل پاکستانی گانے سننے پر بھی ایف آئی آر درج ہو جاتی ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کسی مشکل میں پڑ جائیں۔
جی ہاں چھڑانے کے لیے تو آپ کو ہی آنا پڑے گا لیکن پانڈے جی جب ہم ان کے گانے نہیں سن سکتے تو انہیں اکھنڈ بھارت میں شامل کیسے کریں گے؟
اوہو خاں صاحب! ہم کیوں شامل کریں گے۔ وہ خود آکر ہمارے دروازے پر گہار لگائیں گے کہ خدارا ہمیں اپنے ملک میں ضم کرلیں۔
للن نے کہا لیکن بھیا عالمی ہنگر انڈیکس یعنی بھکمری کی فہرست میں ان کی حیثیت ہم سے بہتر ہے اس لیے وہ کیوں آئیں گے بھلا؟
کلن بولا یہ کیسی بات کرتے ہیں خاں صاحب آپ؟ ہمارے مودی جی نے 80 کروڑ لوگوں کو مفت اناج دیا اور بدلے میں انہوں نے ووٹ بھی دے دیا۔
تبھی تو 2021 بھکمری کی درجہ بندی کے مطابق ممالک کی فہرست میں ہندوستان 101ویں مقام پر ہے ورنہ 117ویں پر ہوتا۔
خیر یہ بتائیے کہ ہمارے ملک نے راشن بانٹ کر پہلے کے مقابلے ترقی کی یا نہیں؟
کاہے کی ترقی 2020 میں ہندوستان 94ویں مقام پر تھا یعنی ایک سال بعد اس درجہ بندی میں 7 مقام نیچے گر گیا۔
ٹھیک ہے لیکن جو 16 ممالک ہم سے گئے گزرے ہیں ان میں ہمارے ہم سایہ ممالک ضرور ہوں گے۔ انہیں کو تو ضم کرنا ہے۔
جی نہیں پانڈے جی میانمار (71)، بنگلہ دیش (76) اور نیپال بھی (76) پر ہے۔
کلن نے کہا یار سری لنکا تو کنگال ہوگیا ہے ۔ وہ خوشی خوشی رام سیتو پر چل کر بھارت میں آجائے گا۔ فاقہ کشی کے معاملے وہ کہاں کھڑا ہے؟
کیا بتاوں پانڈے جی اس ابتری کے باوجود بھکمری کے معاملے میں وہ 66ویں نمبر پر ہے۔ اس کی حالت سارے پڑوسیوں میں سب سے اچھی ہے۔
کلن بولا یار یقین نہیں آتا کہ مودی یگ میں بھارت اتنا پچھڑ گیا ہے۔
ہاں بھائی! سری لنکا میں رہنے والے ہندوستانی اب بھی پر امید ہونے کے سبب لوٹ نہیں رہے اور یہاں سے کھیپ کی کھیپ امریکہ بھاگ رہی ہے۔
کلن نے کہا: دیکھا خاں صاحب آپ نے ڈنڈی مار دی۔ سب کی حالت بتائی مگر پاکستان کو گول کر گئے۔ بس اس پر قبضہ ہو جائے یہ کافی ہے۔
پانڈے جی! پاکستان کی حالت بھی ہم سے اچھی ہے کیونکہ وہ 92 پر ہے۔ کیا سمجھے؟
کلن نے کہا اچھا تب تو یہ فہرست ہی غلط ہے۔
للن نے حیرت سے پوچھا یہ آپ کو کیسے پتہ چل گیا؟
اوہو خاں صاحب آپ اتنا بھی نہیں جانتے؟ جو پاکستان کو ہم سے بہتر بتائے وہ فہرست درست کیوں کر ہو سکتی ہے؟
للن نے کہا خبر غلط یا صحیح لیکن آپ یہ بتائیے کہ ایسے میں اکھنڈ بھارت کیسے بن پائے گا؟
حاضر جواب کلن بولا: یہ کوئی مشکل نہیں میں آپ کو ایک آسان سی مثال سے سمجھاتا ہوں کہ یہ کتنا سہل ہے۔
اچھا چلیے! مثال سے تو بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔ آپ تمثیل بیان کریں۔
ٹھیک ہے یہ بتائیں کہ آپ کے خیال میں جے این یو کا بھگوا کرن کرنے کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟
ارے پانڈے جی! یہ بیچ میں جے این یو کہاں سے چلا آیا؟ میں تو اکھنڈ بھارت کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔
کلن بولا دیکھیے خاں صاحب: سوال پر سوال مت کیجیے۔ جو پوچھا جائے بس اس کا جواب دیجیے۔
ٹھیک ہے۔ جے این یو کا بھگوا کرن کرنے کے لیے اس میں بھگوا دھاری طلبہ کو داخلہ لینا پڑے گا۔
لیکن وہ تو بہت مشکل ہے کیونکہ سارے ہندوستان سے بچے وہاں آنا چاہتے ہیں مسابقت بہت سخت ہوتی ہے۔ اچھا بتائیے اور کیا کرنا ہو گا؟
دیگر طلبہ کو اپنے نظریات سے متاثر کرکے انہیں ہمنوا بنانا پڑے گا۔
یہ بھی آسان نہیں۔ خیر اور کوئی مشکل؟
جی ہاں یونین کا انتخاب لڑ کر اپنی طاقت کا لوہا منوانا ہو گا۔
یہ تو نا ممکن ہے، لیکن ہمارے پاس ایک شارٹ کٹ ہے جس کا استعمال ہندو سینا نے کیا ہے۔
اچھا! للن نے چونک کر پوچھا وہ کیا؟
کلن بولا اس نے کسی پینٹر سے ایک بورڈ لکھوایا ’بھگوا جے این یو‘ اور اسے گیٹ کے پاس نصب کروا کر اس کی تصویر ذرائع ابلاغ کو بھجوا دی۔
للن نے قہقہہ لگا کر کہا بہت خوب۔ تو اس طرح جے این یو بھگوا ہو گیا لیکن اکھنڈ بھارت کا بورڈ کہاں لگواوگے؟
کلن نے فوراً جواب دیا آئین پر اور کہاں؟ خاں صاحب آپ بہت بھولے ہیں۔ آپ کچھ بھی نہیں جانتے۔
یہ آئین والی بات سمجھ میں نہیں آئی پانڈے جی ذرا کھول کر بتائیں۔
وہ ایسا ہے خاں صاحب کہ ہمارے وزیر داخلہ ایک آئینی ترمیم پیش کریں گے جس میں ملک کا نام ’بھارت‘ کے بجائے ’اکھنڈ بھارت‘ لکھنے کی تجویز ہو گی۔
للن نے چونک کر پوچھا لیکن اس نامعقول تجویز کا کوئی جواز بھی تو ہونا چاہیے؟
دیکھیے! موجودہ سرکار بہت سارے نامعقول کام بلا جواز بھی کر دیتی ہے لیکن اس کی ضرورت یہ بتائی جائے گی کہ ہمارے ملک کا نام بہت چھوٹا ہے۔
للن نے جھنجھلا کر کہا یہ چھوٹا بڑا کیا ہوتا ہے؟
ارے بھائی چھوٹا چھوٹا اور بڑا بڑا ہوتا ہے۔کیا آپ نہیں جانتے کہ ہندوستان بہت بڑا اور پاکستان بہت چھوٹا سا ملک ہے۔
اوہو پانڈے جی آپ اپنے ملک کے چھوٹے نام سے بہت دور پاکستان نکل گئے۔
جی ہاں وہ تو میں مثال دے رہا تھا خیر پاکستان کا نام ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان، برطانیہ کا گریٹ برٹن، روس کا رشین فیڈریشن وغیرہ
لیکن اس سے ہمارا کیا لینا دینا؟
بھائی ایک چھوٹے سے ملک کا نام ہے متحدہ عرب امارات اور ہمارے عظیم ملک کا نام ہے صرف ’بھارت‘ اس کا بھی کوئی بھاری بھرکم نام ہونا چاہیے۔
اچھا تو وہ لحیم شحیم نام کیا ہو؟
’اکھنڈ بھارت‘ اور کیا۔ ایک آئینی ترمیم کے ذریعہ ملک کا نیا نام ہندو راشٹر اکھنڈ بھارت کر دیا جائے گا اور موہن بھاگوت جی کی پیشنگوئی سچ ہو جائے گی۔
اچھا تو کیا اس کے علاوہ کچھ نہیں بدلے گا؟
جی نہیں اس طرح نہ صرف سر سنگھ چالک کی پیشنگوئی سچ ثابت ہوجائے گی بلکہ اگلے انتخاب میں کامیابی بھی یقینی ہو جائے گی ۔
للن نے کہا لیکن پانڈے جی! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے رہنما انسانوں کے بنیادی مسائل مثلاً ’روٹی کپڑا اور مکان‘ کی بات کیوں نہیں کرتے؟
کلن بولا اس لیے کہ ان مسائل کو حل کرنے کی نہ ان میں صلاحیت ہے اور نہ ہی دلچسپی۔
لیکن اگر یہی حالت رہی تو وہ عوام کو کیا منہ دکھائیں گے؟ ووٹ کیسے مانگیں گے؟
ارے خاں صاحب! آپ نے سنا نہیں کہ اگر کسی مسئلہ کا حل نہ نکلے تو مخاطب کو الجھا دو وہ بہل جاتا ہے۔
میں نہیں مانتا پانڈے جی! کیونکہ یہ تو زندگی اور موت کا سوال ہے اس سے توجہ کیسے ہٹائی جاسکتی ہے؟
یہ کون سا مشکل کام ہے۔ لوگ روٹی کا سوال کریں تو ان سے پوچھو کہ کیا تم حلال گوشت کے ساتھ روٹی کھانا چاہتے ہو۔ یہ ملک سے غداری ہے۔
روٹی کے ساتھ حلال گوشت بہت خوب اور اگر کوئی کپڑے کے بارے میں پوچھے تو کیا کرو گے؟
اس صورت میں اس سے کہیں گے آج تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا مانگ رہے ہو کل حجاب کا سوال کرو گے؟ ہندو راشٹر میں یہ نہیں ہو گا۔
ارے پانڈے جی آپ نے تو کپڑے کا مسئلہ بھی الجھا دیا۔ اب اگر کوئی مکان کا مطالبہ کرے تو اس کا کیا ہو گا؟
اس کو ہم بلڈوزر سے دھمکائیں گے کہ مکان سے کیا حاصل کیونکہ جب بھگوا بلڈوزر چلے گا تو مکان دکان سب زمین دوز ہو جائے گا۔
للن نے پوچھا: اچھا اگر کوئی مہنگائی کی شکایت کرے تو اس سے کیا کہو گے؟
اس کو بولیں گے کہ مسلمانوں کو قابو میں رکھنے کے لیے مہنگائی کی مار برداشت کرنا ضروری ہے۔ اسی ٹیکس سے سرکار مہنگا اسلحہ خرید تی ہے۔
للن بولا یہ اچھا ہے کہ اسلحہ خرید کر کمیشن خود کھاو اور عوام کو بیوقوف بناو لیکن اس گرمی میں جو بجلی کا بحران آگیا اس کے بارے میں کیا کہنا ہے؟
اس بابت ہم عوام کو بتایا جائے گا کہ سرحد پر ہمارے فوجی کیسی مشکل کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان سے یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے یہ قربانی دینی ہو گی۔
یار پانڈے جی! میں تو کہتا ہوں کہ آپ لوگ بیروزگاری کا مسئلہ حل کر دیں گے تو باقی سارے مسائل از خود حل ہو جائیں گے۔
کلن نے کہا خاں صاحب! آپ نے یہ کیسا مطالبہ کر دیا؟ اس سے تو ہمارا اقتدار فوراً چلا جائے گا۔
للن نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے؟
بھائی سب کام میں لگ گئے تو ہمارے جلسوں میں کون آئے گا؟ ہجومی تشدد کون کرے گا؟ ٹرول آرمی کا حصہ کون بنے گا؟ ہمارا سامراج ڈھے جائے گا۔
یہ سن کر للن خاں صاحب تو حیرت سے چکرا کر بے ہوش ہو گئے اور کلن مشرا خوشی سے مد ہوش ہو گئے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  08 تا 14 مئی  2022