خبرونظر

پرواز رحمانی

اجودھیا میں تازہ شرارت
اجودھیا (فیض آباد) کی پولیس نے سات ایسے افراد کو گرفتار کیا ہے جو مختلف مساجد کے پاس سخت قابل اعتراض اشیا پھینک رہے تھے۔ پولیس کے مطابق اس عمل سے ان کا مقصد دو فرقوں کے درمیان کشیدگی اور اشتعال پیدا کرکے باہم دنگا فساد کرانا تھا۔ ان اشیا میں کتاب مقدس کے پھٹے ہوئے اوراق، گوشت کے لوتھڑے، اشتعال انگیز نعروں کے پوسٹر اور کچھ خاص ٹوپیاں تھیں۔ شرپسندوں نے یہ کام ٹوپیاں پہن کر انجام دیا۔ یہ کل 11 افراد تھے جن میں سے پولیس نے 7 کو دھرلیا ہے جبکہ 4 فرار ہو گئے۔ پولیس نے ان اشیا کے ساتھ کچھ موٹر سائیکلیں بھی اپنی تحویل میں لے لیں۔ یہ تمام افراد غیر مسلم ہیں جن میں سے کچھ چھٹے ہوئے جرائم پیشہ ہیں۔ پولیس نے ان کی شناخت مہیش کمار مشرا، پراتیوش سری واستو، نتن کمار، دیپک کمار، گوڑ عرف گنجن، برجیش پانڈے، شترو گھن پرجا پتی اور ومل پانڈے۔ ان تمام کا تعلق اجودھیا (فیض آباد) سے ہے۔ ان میں سب سے کم عمر گوڑ ہے جس کی عمر 22 سال ہے جبکہ مشرا کی عمر 37 سال ہے۔ اجودھیا پولیس کا کہنا ہے کہ اس مہم کا ماسٹر مائنڈ (سرغنہ) مہش کمار مشرا ہے اور یہ تخریبی پروگرام دلی کے جہانگیر پوری میں ہوئے پروگرام کے ’’ردعمل‘‘ کے طور پر بنایا گیا تھا۔

سنگھ کا طریقہ
لیکن ضلع اجودھیا کا یہ شر انگیز پروگرام اپنی نوعیت کا واحد پروگرام نہیں تھا، اس طرح کے پروگرام بیشتر ریاستوں میں کسی نہ کسی درجے میں ہو رہے ہیں۔ حکومتیں اور حکمراں پارٹیاں خود کو ان سے الگ بتاتی ہیں۔ اجودھیا پولیس نے بھی کہا ہے جن لوگوں نے ضلع اجودھیا میں شرارت کی ان کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے نہیں ہے۔ لیکن یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس قیبل کے تمام گروپ اور افراد کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو لوگ مساجد کے پاس شر انگیز پروگرام کر رہے ہیں ان کا واضح تعلق حکمراں پارٹی سے یا پارٹی کے کسی ذیلی گروہ سے ہے۔ اترپردیش میں آدتیہ ناتھ یوگی کی قائم کردہ ہندو یووا واہنی آج بھی سرگرم ہے۔ آر ایس ایس کے سیکڑوں ذیلی گروپ مختلف میدانوں میں کام کر رہے ہیں جن میں کچھ کے ذمے وہ سرگرمیاں ہیں جس کا ایک نمونہ حال ہی میں اجودھیا میں دیکھا گیا۔ سنگھ کا طریقہ یہ ہے کہ کسی گروپ کو کوئی کام کرنے کا حکم دیتا ہے، اگر گروپ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تو کریڈٹ آگے بڑھ کر خود لے لیتا ہے، لیکن اگر ناکام رہا تو اس سے لا تعلق ہوجاتا ہے۔ وشوہندو پریشد کے ساتھ اس نے یہی کیا تھا۔ پریشد نے جب رام مندر کا مسئلہ اٹھایا تو ابتدا میں سنگھ لا تعلق رہا لیکن جب اس میں جان پڑنے لگی تو سنگھ فی الفور فرنٹ پر آگیا۔

طریقہ وہی ہے
خلاصہ یہ کہ ضلع اجودھیا کے قبیل کے جو چھوٹے بڑے واقعات ملک میں جہاں بھی ہو رہے ہیں، ایک ہی ایجنڈے کے مطابق ہو رہے ہیں اور انہیں سنگھ کی بھرپور تائید حاصل ہے۔ حتی کہ ممبئی میں راج ٹھاکرے کا بیان جو مساجد کے لاوڈ اسپیکر سے متعلق ہے اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ اس بیان سے ایک دو دن قبل بی جے پی کے کچھ لیڈروں نے راج ٹھاکرے سے ملاقات کی تھی۔ ادھو ٹھاکرے سے علیحدہ ہونے کے بعد راج ٹھاکرے نے جو ’’مہاراشٹر نونرمان سینا‘‘ بنائی تھی، اس میں تشدد اور سخت گیری کا کوئی شائبہ بظاہر نہیں تھا۔ ان کے کارکنوں نے اتر پردیش اور بہار کے ان غریب لوگوں کے خلاف توڑ پھوڑ ضرور مچائی تھی جو عام بازاروں میں ٹھیلے اور خواچے لگا کر اپنی اور اپنے بچوں کی گزر اوقات کا سامان کرتے تھے۔ کسی فرقے کے خلاف بطور فرقہ ان لوگوں نے کبھی کچھ نہیں کیا۔ نونرمان سینا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ راج نے ایک نہایت حساس مسئلے پر فرقہ وارانہ بیان دیا جس سے مرکز کی حکمراں پارٹی کو یقیناً خوشی ہوئی ہو گی، یا ہو سکتا ہے کہ راج ٹھاکرے نے سوچا ہو کہ نرم روی اور شرافت سے دکان نہیں چل رہی ہے لہٰذا ہمیں بھی سنگھ کی ڈگر پر چلنا چاہیے جس پر بی جے پی علانیہ چل رہی ہے۔ حربہ بہرحال وہی ہے اور یہ حکمراں پارٹی کے ایجنڈے میں بہ آسانی فٹ ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  08 تا 14 مئی  2022