نفرت کا عفریت : شمال سے جنوب تک

ساحلی کرناٹک تلوناڑو میں قدیم روایتی بین مذہبی تعلقات میں دراڑ

آسیہ تنویر ، حیدرآباد

مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیلیں اشتعال انگیز بیانات اور پوسٹرس کے ذریعے بد امنی کو فروغ
حال ہی میں اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پاس کرتے ہوئے یہ اعلان کیا گیا کہ 15مارچ کو پوری دنیا میں’’ کامبیٹ اسلاموفوبیا‘‘ یعنی اسلام کو ایک ڈراؤنے مذہب کی شکل میں پیش کرنے کی مخالفت کے دن کے طور پر منایا جائے گا ۔اس قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کیا گیا۔ تاہم ہندوستانی سفیر برائے اقوام متحدہ نے یہ کہہ کر اعتراض اٹھایا کہ’’ کسی ایک خاص مذہب کے تئیں خوف کے جذبے کو بین الاقوامی دن کی شکل میں منائے جانے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ قرارداد ہندو منافرت کا احاطہ بھی نہیں کرتی‘‘۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عالمی سطح پر اپنے عروج سے بہت پہلے سے ہی اسلامو فوبیا ہندوستان میں موجود تھا ۔ کئی دہائیوں پہلے شروع ہونے والی فرقہ وارانہ سیاست کی وجہ سے ہندوستان میں اسلاموفوبیا کا اثر دیگر ممالک کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہے ۔ پہلے پہل یہ اثرات فرقہ وارانہ سیاسیات کے دائرہ کار میں آنے والی چند مخصوص ریاستوں کے مخصوص علاقوں تک محدود رہے لیکن مرکزی حکومت کی خاموش سرپرستی میں اب یہ اثر اندرون جنوب مشرقی ہندوستان کے ان خالص سیکولر علاقوں میں بھی سرایت کر گیا جہاں لوگ صدیوں سے بغیر کسی مذہبی تفریق کے آپس میں مل جل کر رہتے تھے ۔جہاں صدیوں سے ان کے ثقافتی ورثے ایک دوسرے سے وابستہ تھے ۔
شمال میں کونکن کے ساحل، مشرق میں مغربی گھاٹ اور جنوب میں کیرالا کے میدانی علاقوں سے متصل کرناٹک کی ساحلی پٹی قدیم زمانے سے متعدد مذاہب کے لوگوں سے آباد ہونے کے باوجود اپنی ایک مشترکہ شناخت کو قائم رکھے ہوئے تھی۔اس خطے کے اپنے ترقی یافتہ اصل روایتی ذائقے ، رقص اور آرٹ کے نمونے، مذہبی تفریق کے بغیر مستند ثقافتی رسومات، متحرک مقامی زندگیوں میں فعال تھے۔ یہاں صدیوں پرانے مندروں کے سلسلوں کے علاوہ مسجدیں، درگاہیں، چرچ وغیرہ بھی ملتے ہیں ۔کرناٹک کی یہ ساحلی پٹی اُڈپی، کاپو، مُلکی، منگلورو اور دیگر چار اضلاع پر مشتمل ہے جسے’’ تَلّو ناڑو‘‘ کہا جاتا ہے ۔یہ علاقہ کیرالا کے برابر90فیصد سے زائد شرح خواندگی کے ساتھ ملک بھر میں سرفہرست ہے۔اس ساحلی پٹی کو مستقل طور پر بی جے پی کے ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کا کھیل پچھلے تیس سالوں سے جاری ہے ۔
تین دہائیوں قبل رام مندر تحریک کو لے کر جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے قومی توجہ حاصل کی اس وقت جنوبی ہند کی بیشتر ریاستیں ہندی پٹی کی سیاست سے متاثر نہیں تھیں ۔اس وقت وی ایچ پی اور راشٹریہ سویم سیوک کی مدد سے بی جے پی نے کرناٹک میں اپنا اثر ورسوخ قائم کرنا شروع کیا ۔اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خطے کے اندر ایک دشمن متعارف کروایا گیا۔جوکہ کرناٹک کے جنوبی ساحل کے’’ بیری‘‘ مسلم تاجر برادری کے لوگ ہیں، جو وہاں پندرہ صدیوں سے زیادہ عرصے سے مقیم ہیں ۔ مشترکہ روایات اور باہمی ہم آہنگی والے اس علاقے کو ہندوتوا نظریات کی تجربہ گاہ کے طور پر آزمایا جانے لگا۔ لو جہاد، گو رکھشک سے آگے بڑھ کر اب اسکولوں میں حجاب پر پابندی عائد کر دی گئی، ساٹھ مندروں کے اطراف مسلم تاجروں کے ساتھ معاشی بائیکاٹ کا اعلان، ہندو ریسٹورنٹ کے مالکینسے اپنے ہوٹلوں کے سائن بورڈز سے ’’حلال‘‘ لفظ کو ساقط کرنے کا دباؤ، جیسی مذموم حرکات سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
ہائی کورٹ کی جانب سے اسکولوں میں حجاب پر پابندی کی تصدیق کے بعد فرقہ پرست تنظیموں کے حوصلے مزید بلند ہوگئے ۔ مرکزی و ریاستی حکومت غیر قانونی اور غیر آئینی دھمکیوں کو خاموشی سے منظوری دیتی رہی جبکہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے ۔ آرٹیکل 14 نامی ویب پورٹل
(https://article-14.com) پر جی وشنو اپنے آبائی وطن تَلوناڑو سے ایک چشم کشا رپورٹ تحریر کی کہ کس طرح ہندو انتہا پسند حکومت کی مدد سے خوشحال ساحلی کرناٹک کے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان قدیم رشتوں کو توڑ رہے ہیں ۔
جی وشنو نے تلوناڑو کی تازہ صورتحال کا اس طرح احاطہ کرتے ہیں :’’ ساحلی ضلع ملکی کا’’ بپاناڑو‘‘ مندر جسے درگاپرمیشوری مندر بھی کہا جاتا ہے اس کی تاریخی ہم آہنگی، مندر کی سجاوٹ و آرائش سے ظاہر ہونے والی مسلم ثقافتی اہمیت سے کہیں زیادہ آگے ہے۔مسلمان مندر کی ظاہری شناخت کا کلیدی حصہ ہیں۔اس مندر کی تزئین و آرائش میں ہر جگہ موجود تصویری جھلکیوں میں’’بپابیری‘‘ نامی شخص کے عکس ملتے ہیں ۔ مسلم سیاح اور تاجر بپابیری نے، جس کی شامبھوی ندی میں کشتیاں چلتی تھیں، 13 ویں صدی میں اس مندر کی بنیاد رکھی ۔کہا جاتا ہے کہ بپابیری کو کئی ہاتھوں والی دیوی نے خواب میں اس مندر کی تعمیر کا اشارہ کیا ۔ایک جین بادشاہ درگاساونت نے اس مندر کے لیے زمین فراہم کی تھی اور آٹھ صدیوں تک تمام مذاہب کے لوگ اس مندر میں چنبیلی کے پھول چڑھانے کے بعد بپابیری کے مزار پر حاضری دینے کے لیے آتے ہیں ‘‘۔
” دریائے شامبھوی کے کنارے سرسبز ساحلوں سے متصل شہر ملکی سیاحتی اعتبار سے سرفنگ کے لیے مشہور ہے ۔ جہاں 34 سالہ ریحان اب تک بے خوف ہوکر اپنے تمام مذاہب کے دوستوں کے ساتھ 800 سالہ قدیم مندر اور اس کے سالانہ میلے سے جڑی تقریبات میں حصہ لیا کرتا تھا ۔جس میں ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمان اور عیسائی عقیدت مند بھی شامل ہوا کرتے تھے ۔بپاناڑو مندر کا یہ میلہ تلو ناڑو کے مقامی لوگوں میں بہت مشہور ہے ۔یہ رنگا رنگ تقریب جس میں نمایاں بڑے بڑے پہیوں والے رتھ پر نکلنے والی جھانکی اور اس مندر کے ساتھ لگے پھولوں، ناریل، نمکین، کھلونے ، کپڑے، نقلی زیورات اور موتیوں کے سیکڑوں اسٹالز ہوتے ہیں جہاں مسلمان تاجر بھی اپنی دکانیں لگاتے ہیں ۔بپاناڑو مندر کا پرساد خاص طور پر مندر کے پروہتوں کی جانب سے بپابیری کے خاندان کے گھر کو بھی پہنچایا جاتا ہے ۔اس سال بھی24 مارچ کو حسب سابق میلہ اپنی روایتی شان سے شروع ہوا اور مندر کے پروہتوں کی جانب سے بپابیری کے گھر پرساد بھی پہنچایا گیا ۔جبکہ اس سال بپابیری مندر کمیٹی کے سربراہ دگنا ساونت ( جنہیں بادشاہ کی اولادکہا جاتا ہے)اور ان کے پروہت ساتھیوں کے دعوت ناموں کے باوجود ہندو بنیاد پرستوں کی دھمکیوں کے خوف اور ان کی عدم حمایت کی وجہ سے مسلمان اس میلے سے دور رہے‘‘ ۔
’’ ریحان اور اس کے تین بھائی بھی ہمیشہ چنبیلی کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اس میلے میں شامل ہوتے تھے لیکن پہلی بار انہوں نے اس میلے میں شرکت نہیں کی ۔ اس پر ریحان اپنے دوستوں کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ’’ کیسے جاؤں، جب انہیں پسند نہیں ہے ‘‘۔ریحان کو دو چیزوں سے تکلیف ہوئی ہے پہلی مقامی انتہا پسند عناصر کی جانب سے مسلمانوں کو اسٹالز چلانے سے روک دیا جانا اور دوسری ان دوستوں اور خاندانوں کی خاموشی جن کے ساتھ وہ پلا بڑھا تھا ۔ بظاہر پریشان ریحان کہتا ہے’’ سب خاموش تھے، ایسا لگتا تھا جیسے وہاں اب ہماری مزید پذیرائی نہیں ہوگی‘‘۔
بلاگر جرنلسٹ جی وشنو کہتے ہیں’’ریحان کے احساسات یہ انکشاف کرتے ہیں کہ 1200 سالہ قدیم مشترکہ ثقافت اچانک خطرے میں پڑ گئی اور بڑی حد تک ہندو مسلم فرقہ پرستی کی زد میں آگئی ہے‘‘ ۔ واضح رہے کہ اس علاقے میں 90 فیصد سے زائد خواندگی کی شرح ہے اور 12 میں سے 11 ارکان اسمبلی بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں ۔
’’ شہر ملکی کے بپاناڑو میلے سے پہلے اچانک نمودار ہونے والے کنڑ پوسٹرز میں یہ واضح کردیا گیاتھا کہ اب مسلمانوں سے مزید تعلقات استوار نہیں رکھے جائیں گے ۔شہر ملکی کے ان پوسٹرز میں کہا گیا’’نہ ہم ان متعصبوں کے ساتھ کاروبار کریں گے اور نہ ہی اُن کے ساتھ تجارت کی اجازت دیں گے جو ملک کے قانون کا احترام نہیں کرتے ہیں، اب ہندو بیدار ہو گیا ہے ‘‘۔ اس طرح اگلے سات دنوں میں یہ پوسٹرز ریاست کے آٹھ اضلاع، دکشنہ کنڑ، چکمگلور، شیموگہ،ٹمکور،ہاسن اور بنگلورو کے گردونواح کے دسیوں مندروں کے اطراف پھیلائے گئے۔ اڈپی اسٹیٹ وینڈرز اور ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے ترجمان محمد عارف کے مطابق ہندو بنیاد پرست تنظیموں کی جانب سے مارچ 2022 میں اڈپی اور کرناٹک میں 60 سے زائد مندروں کے اطراف عائد کیے گئے بائیکاٹ سے کئی ہزار مسلم تاجر راست طور پر متاثر ہوئے ہیں ۔ جس پر کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بسواراج بومائی 2002 کے کسی مبہم قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس قانون کے تحت غیر مسلموں کو مندروں کے اندر اور اس کے قریب جائیداد لیز پر نہیں دی جاسکتی ۔ جبکہ ان کا بیان آئین کے آرٹیکل 15(1)اور آرٹیکل 15(2) کے صریح خلاف ہے۔ جس کے تحت ریاست کسی بھی مذہب، نسل، ذات، جنس یا جائے پیدائش یا ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر کسی سے بھی امتیازی سلوک نہیں کر سکتی ۔اس کے علاوہ ملکی شہر کے متنازعہ پوسٹرز کا یہ بیانیہ‘‘ جو ملک کے قانون کا احترام نہیں کرتے ان کے لیے ہندو بیدار ہوگیا ‘‘ پر مضحکہ خیز توجیہ پیش کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ ہائی کورٹ کی جانب سے 15 مارچ کو حجاب پر پابندی برقرار رکھنے کے فیصلے پر احتجاج کے لیے 17 مارچ کو ریاست میں مسلم علاقوں میں بند کے اعلان کو اس کے لیے ذمے دار ٹھہرایا اور اس کو عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی قراردیا اور بتایا کہ ان پوسٹرز میں اسی کا ذکر ہے‘‘۔
اس سے ایک اور قدم آگے بڑھتے ہوئے وزیر اعلیٰ بسواراج بومائی نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت بی جے پی کے نیشنل جنرل سیکرٹری سی ٹی روی کے ان مطالبات کو دیکھے گی جن میں حلال گوشت کےلیے اسلامی طریقے پرجانوروں کو ذبح کرکے دراصل ہندوؤں کے خلاف’’ معاشی جہاد‘‘کیا جارہا ہے، اسی لیے حلال گوشت کی فروخت پر پابندی عائد کر دی جائے ۔وزیر اعلیٰ کرناٹک کے اس موقف سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کی مدد سے ہندو انتہا پسند عناصر مختلف برادریوں کے درمیان پوسٹرز اور اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے بد امنی اور اشتعال پھیلارہے ہیں اور حکومت کوئی مصالحتی رویہ اختیار نہیں کر رہی اور نہ ہی پولیس ان پوسٹرز کےذریعے پھیلائی جانے والی منافرت کی طرف پر کوئی توجہ دے رہی ہے۔
حجاب پر پابندی کے فیصلے پر ہائی کورٹ کی مہر کے بعد مندروں کے اطراف میلوں پر پابندی اور حلال گوشت پر پابندی جیسے معاملات تیزی سے بڑھنے لگے۔ اس طرح کے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک بین مذہبی وفد مصالحت کی غرض سے اڈپی کے سب سے بڑے پروہت وشواپرسنّاتھیرتھا کے پاس گیا لیکن ان کا یکطرفہ رویہ وفد کے لیے حیران کن رہا ۔ انہوں نے کہا گائے کے ذبیحہ اور حجاب کی وجہ سے ہندوؤں کو نقصان پہنچا ہے ہندو سماج ناانصافیوں سے تنگ آچکا ہے۔ ٹھیک اسی طرح حکومت کرناٹک کے وزیر داخلہ نے بھی پابندی کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور حجاب کے فیصلے پر مسلمانوں کے مظاہروں کی وجہ سے مندروں کے اطراف میلوں پر پابندی کا الزام لگایا ۔وزیر داخلہ ضلع کوپل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ہندو انتہا پسندوں کی کارروائی اور دلائل کی تائید کی اور یہ بھی کہا جو لوگ آئین کے فیصلے کا احترام نہیں کرتے اور عدالتی فیصلے کا احترام نہیں کرتے انہیں سبق سکھایا جانا چاہیے ۔ اس سارے پس منظر میں پولیس کی سرد مہری اور بے عملی بھی قابل گرفت ہے ۔اس صورتحال پر مبصرین کہتے ہیں کہ حجاب پر پابندی اور مندروں کے احاطے میں بائیکاٹ سے اچانک منافرت میں اضافہ ہواہے۔ جس کو اب بظاہر بی جے پی سے منسلک ہندوانتہا پسند تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں کو ہندو سماج کے حاشیے پر دھکیلنے کی ملک گیر کوشش سمجھی جارہی ہے ۔
ملک میں کامیاب بائیکاٹ اور مقامی ہندوؤں کی معنی خیز خاموشی ایک ایسے طرزِ عمل میں تبدیل ہوگئی جو پورے کرناٹک میں واضح طور پر نمایاں ہورہی ہے ۔ خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں مسلمان ہندو مذہبی امور سے گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔
آرٹیکل 14 کے بلاگر وی وشنو تعصب پرستی کی نظر ہونے والے ایک اور علاقائی صورتحال کا اس طرح ذکر کرتے ہیں ۔
بدلتی روایات اور متاثر ہوتی ہوئی ہم آہنگی کے درمیان متنازعہ پوسٹرز کے اثرات ملکی کے بپاناڑو مندر کے بعد ضلع اڈپی کی سرحد سے متصل تعلقہ کاپو کے مریمّا کے مزار کے ماڑی میلے میں ظاہر ہونے لگے ۔ نفرت انگیز پوسٹرز جس میں مندروں کے اطراف مسلمانوں سے معاشی بائیکاٹ کے اعلانات درج تھے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اس میلے سے دور رکھا گیا ۔ کاپو مریمّا ہندو دیوی نہیں ہے بلکہ ان بھوٹا میں سے ایک ہے جو تلو ناڑو کی حفاظت کرتی ہیں ۔ جہاں والدین اپنے بچوں کو وبائی امراض کے فوری علاج کے لیے نذرانے پیش کرتے ہیں ۔
بھوٹا پوجا، واضح طور پر غیر برہمنی روایت ہے جو تقریباً 1400 سال قبل اس خطے میں ویدک ثقافت کی آمد سے قبل موجود ہے۔ ہندوتوا گروہوں نے اس رواج کو بھی بدلنے کی کوشش کی ہے۔
دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں لسانیات کے سابق پروفیسر پروشوتم بلیملے نے کہا، ’’ کئی سالوں سے، سنگھ پریوار بھوٹا کی روایات کو برہمنی بنا رہے ہیں ۔‘‘ مثال کے طور پر، کالودا بھوٹا نامی ایک روح کو اب کلڈیشوری کہا جا رہا ہے، اور ایک مسلمان جمادی بھوٹا اب دھوماوتی بن رہا ہے۔ ’’یہ مذموم ارادوں کے ساتھ روایات کی تحریف ہے۔‘‘ بلیملے نے اور کہا۔ ’’تاریخی رواج کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘
شہر کاپو میں تین مریما کے مزار ہیں جنہیں پرانا مزار، دوسرا مزار اور کلیا مزار کہا جاتا ہے۔ سبھی تین مزاروں پر موسموں کے مطابق ہر سال تین ماڑی تہوار منعقد کیے جاتے ہیں۔ ماڑی میں مرغوں اور بھیڑوں کی قربانی کی رسم شامل ہے۔ روایتی طور پر، ماڑی میلوں میں 70 فیصد سے زیادہ تجارت مسلمان چلایا کرتے تھے۔ قربانی کے مرغوں اور بھیڑوں کی فروخت پر صدیوں سے روایتی طور پر مسلمان تاجروں کی اجارہ داری رہی ہے۔ تاہم اس بار ایک بھی مسلمان فروخت کنندہ کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ 22 مارچ 2022 کو جب کاپو میں سوگی ماڑی میلہ شروع ہوا تو وہاں کوئی مسلمان تاجر نہیں تھا۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیپو سلطان کی سلطنت میں ایک مسلمان انتظامی افسر نے 19ویں صدی کے اوائل میں پرانے ماڑی مندر کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔کاپو ماڑی تہوار کی چار سو سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب مسلمانوں کو اس میلے سے دور رکھا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق وہ مسلمان خاندان جو تقریبات میں حصہ لیتے تھے انہوں نے اس سال گھر میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ 22 مارچ تہوار کی رات، مقامی مسلمانوں کے دور رہنے کے باوجود، مزار پر رات بھر فضا میں نداسوارا کی آواز ( موسیقی) سے گونجتا رہا۔ نداشورا بجانے والا شخص 53 سالہ شیخ جلیل ہے، جو ایک تجربہ کار نداشورا کافن کار ہے، اس کے خاندان کے فنکاروں کی اب چھٹی نسل کاپو کے ماڑی مزار پر اپنے فن کے جوہر دکھارہی ہے۔
جلیل نے کہا ’’میں باہر کیا ہو رہا ہے اس پر زیادہ توجہ نہیں دیتا‘‘ جلیل ایک دیندار مسلمان جو دن میں پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے اور 12 سال کی عمر سے مزار پر اپنے فن کا مظاہرہ کررہا ہے۔ ’’میرے آباؤ اجداد نے مجھے کہا کہ مجھے اس پیشے کا احترام کرنا چاہیے۔ اور میں اس کا لحاظ کرتا ہوں ہے۔ یہاں کی اماں (دیوی) سب کی اماں ہیں۔ میں جو جانتا ہوں وہ یہ کہ یہاں کے ہندو اور مسلمان ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ لیکن میلے پر اس جھگڑے نے گھروں کے آپسی تعلقات کو متاثر کیا ہے۔
کاپو کے ایک اور مقامی شخص پرشانت نے کہا ’’میں نے اتنی چھوٹی والی ماڑی کبھی نہیں دیکھی، یہاں کے موگاویرا، بنٹ، بلواس اور بیری مسلمان لازم و ملزوم ہیں۔ چونکہ یہاں ماہی گیری اہم پیشہ ہے، کمیونٹیز کے درمیان تعلقات اور روایات صدیوں سے ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔ پرشانت نے مزید کہا’’ہمارے بچپن کے دوست ہمیشہ تمام برادریوں سے رہے ہیں ۔ ’’یہاں تک کہ بی جے پی لیڈر بھی مسلم تاجروں کے ساتھ تجارت کرتے ہیں۔‘‘ کاپو میں بی جے پی لیڈروں نے اس بات کی تصدیق بھی کی ۔ ایک بی جے پی لیڈر نے کہا، ’’یہ کبھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ "کاپو ہم آہنگی کی جگہ ہے۔ یہاں ہماری دشمنی نہیں ہو سکتی۔‘‘ اس کے باوجود، اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف عداوت بڑھ رہی ہے، ہندوتوا انتہا پسند گرہوں کی طرف سے عداوت تیزی سے پھیل رہی ہے جنہیں حکومتی تحفظ سے حوصلہ ملتا ہے۔
کپو مریمّا مندر کمیٹی کے ارکان، اپنے مزارات پر مشترکہ ہندو مسلم وراثت کے بارے میں آف ریکارڈ سنجیدگی سے بات کرتے ہوئے سنگھ پریوار کے گروہوں کے دباؤ کا آزادانہ طور پر اعتراف کریں گے۔
آرٹیکل 14 کے بلاگر وی وشنو مندروں کے اطراف مسلمان تاجروں سے راست ملاقات کرتے ہوئے ان کے نقصانات کا بھی احاطہ کیا ہے۔ ان کے مطابق، عمران اور موسیٰ اور فرقان ان تاجروں میں سے ہیں جنہیں ملکی شہر کے بپاناڑو مندر کے میلے سے نکال دیا گیا ہے۔ اتر پردیش کے ضلع بلند شہر کے گلی کوچوں سے نکل کر یہ دکاندار تین دن کا سفر طے کر کے گرمیوں کے موسم کے میلے کے لیے منگلورو پہنچے تھے۔یہ تینوں پچھلی دو دہائیوں سے ملک بھر میں مندروں کے میلوں میں کپڑے، ٹراؤزر اور شرٹ فروخت کر رہے ہیں۔ 24 مارچ کو انہوں نے ملکی کے بپاناڑو کے درگا پرمیشوری مندر کے میلے میں اپنے اسٹالز لگائے۔ اسٹال لگانے کے بمشکل آدھے گھنٹے بعد، ہندو انتہا پسند بجرنگ دل کے کئی نوجوان، زعفرانی شالیں پہن کر غیر قانونی طور پر اپنے آدھار کارڈ، شناخت کو قومی ڈیٹا بیس سے منسلک دیکھنے کا مطالبہ کیا۔ پھر چند لمحوں بعد ان تینوں کو بتایا گیا کہ یہاں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
جب آرٹیکل 14 کے جرنلسٹ ان سے ملے توان تینوں نے کہا کہ ہم وہ پوسٹر نہیں پڑھ سکے جس میں کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کو اجازت نہیں ہے۔وہ مایوسی سے کہنے لگے”مسلمانوں کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے، یہاں تک کہ یوگی کے شہر میں بھی ہمیں پریشان نہیں کیا گیا۔“ حامد نے مزید کہا، ’’ہم اپنے نقصانات کے بارے میں غمگین نہیں ہیں۔ ہم کاروبار میں نقصان برداشت کرنے کے عادی ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمیں صرف اس لیے یہ جگہ چھوڑنے کے لیے کہا گیا کہ ہم مسلمان ہیں۔ ہم کمبھ میلے میں گئے ہیں۔ ہم نے یوگی (یو پی کے وزیر اعلی ) کے شہر گورکھپور میں کاروبار کیا ہے۔ ہمیں کبھی بھی مسلمان ہونے کی وجہ سے کوئی جگہ چھوڑنے کو نہیں کہا گیا تھا۔ آج پہلی بار صرف ہمارے مذہب کی وجہ سے ہم پر اعتراض کیا گیا۔ ایسا پورے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ لیکن ہمیں یہاں اس کی توقع نہیں تھی۔ ہمارے پاس 2 لاکھ روپے کا مال ہے، ہم اس کا کیا کریں؟‘‘۔اسی طرح 25 مارچ کو پڑوسی قصبے سسیہتھلو میں بھگوتی مندر کے میلے سے 16 مسلم تاجروں کو بے دخل کر دیا گیا ۔
کرناٹک ہائی کورٹ کی جانب سے حجاب کے فیصلے کی برقراری کے بعد مسلمانوں کے بند کے اعلان کے بائیکاٹ پر جواز پیش کرتے ہوئے، بہت سی ہندو تنظیموں نے الزام لگایا کہ مسلمان” دہشت گرد “ہیں ۔ گائے ذبح کرتے ہیں اور ہندوؤں یا ہائی کورٹ کا احترام نہیں کرتے۔ ان الزامات کو خوب استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا خاص طور پر واٹس ایپ اسٹیٹس پر بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے کارکنوں کی طرف سے جاری کی گئی مسلم مخالف پوسٹس خطے میں وائرل ہو گئیں۔ جس میں کہا گیا کہ مسلمانوں نے ایک بند کا اعلان کیا جس میں انہوں نے میڈیکل اسٹورز اور ضروری دکانیں بھی بند کر دیں۔ ’وہ (مسلمان) ہائی کورٹ کا احترام نہیں کرتے۔ وہ ہمارے جذبات کا احترام نہیں کرتے۔ وہ گائے ذبح کرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے“۔
مقامی لوگوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پوسٹس میں وہ خطرات مضمر ہیں جو جین، ہندو، مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان بقائے باہمی کی 12 صدی کی طویل تاریخ کو نظر انداز اور رد کر دیتے ہیں ۔ وہ اس منفرد ’’تولوا‘‘ شناخت کو ختم کردیتے ہیں جو مذہبی اختلافات سے بالاتر ہے۔ ‘‘یہ ہمارا ماضی ہے۔ یہی ہمارا مقدر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سنگھ پریوار نے بپاناڑو اور کاپو کی ہم آہنگی اور ثقافتوں کو پیچھے کردیا ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے وہ ہمارے ہم آہنگ ماضی کو مکمل طور پر جلادینا چاہتے تھے اور اپنے ویدک ہندوتوا کو ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں“ ۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  08 تا 14 مئی  2022