دہلی فسادات: ’’افسوس ناک صورت حال‘‘، عدالت نے جون میں درج ایف آئی آر سے متعلق کوئی پیش رفت نہ ہونے پر پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا

نئی دہلی، ستمبر 29: دہلی کی ایک عدالت نے منگل کو دارالحکومت میں فروری 2020 کے تشدد سے متعلق جون میں درج کیس میں کوئی پیش رفت نہ کرنے پر سٹی پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے کہا کہ یہ واقعی افسوسناک صورت حال ہے۔

یہ تبصرے اس وقت سامنے آئے جب پولیس نے عدالت کو بتایا کہ جن لوگوں کے نام شکایت میں درج ہیں ان سے ابھی پوچھ گچھ نہیں کی گئی ہے۔

اپریل میں عدالت نے پولیس کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس سلسلے میں ایف آئی آر درج کرے، جب دہلی کے بھاگی رتھی وہار کے رہائشی ناصر احمد کے طور پر شناخت شدہ شخص نے دعویٰ کیا کہ وہ تشدد کا گواہ ہے۔ اس نے دعوی کیا تھا کہ اس نے 200 سے 250 افراد کے ہجوم میں سے کئی لوگوں کی شناخت کی جو گزشتہ سال 24 فروری کو گوکل پوری ٹول ٹیکس عمارت کے قریب ہنگامہ آرائی کر رہے تھے۔

دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق احمد نے رواں سال 13 مارچ کو اپنی شکایت میں الزام لگایا کہ ہجوم نے لاؤڈ اسپیکر لگائے تھے اور ’’ایک مخصوص کمیونٹی کے افراد کو جا کر توڑ پھوڑ کرنے اور دیگر کمیونٹی کے لوگوں کے گھروں کو آگ لگانے کی تلقین کر رہے تھے۔‘‘

انھوں نے کہا تھا کہ 25 فروری 2020 کو ان کے گھر میں بھی توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی گئی۔

احمد نے عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ اس نے پولیس کو اس دن مدد کے لیے بلایا تھا جب اس کے گودام کو آگ لگائی گئی تھی اور جب لاؤڈ اسپیکر لگائے گئے تھے لیکن انھوں نے (پولیس نے) کوئی جواب نہیں دیا۔

پی ٹی آئی کے مطابق اس نے اس کے بعد پولیس میں کئی شکایات درج کرائی تھیں لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ احمد نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے دھمکیاں بھی ملی تھیں جس کے بعد گواہ تحفظ کمیٹی نے پولیس سے اس کی حفاظت کرنے کو کہا تھا۔

اس کے بعد اس نے ڈسٹرکٹ کورٹ سے رجوع کیا تھا کہ پولیس کو ہدایت دی جائے کہ وہ اس کی شکایت کو ایف آئی آر کے طور پر لے۔ عدالت نے 26 اکتوبر کو ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے پولیس کو مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دی تھی۔

پولیس نے اس حکم کو چیلنج کیا لیکن ایڈیشنل جج ونود یادو نے اسے 26 اپریل کو خارج کردیا۔ پولیس نے یادو کی ہدایت کے تقریباً دو ماہ بعد جون میں ایف آئی آر درج کی تھی۔

منگل کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ دہلی پولیس کمشنر یا نو تشکیل شدہ خصوصی تفتیشی سیل کی طرف سے اس معاملے پر توجہ نہیں دی گئی ہے، جسے فسادات کے معاملات کی تحقیقات کی نگرانی کا کام سونپا گیا ہے۔

جج نے کہا ’’پولیس کی طرف سے فسادات کے دیگر معاملات میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ فسادات کے دوران اور اس کے تقریباً چار ہفتوں کے بعد کے حالات واقعی مشکل تھے اور پولیس مقدمات کی صحیح تفتیش نہیں کر سکی۔ اس کے بعد دہلی کورونا وائرس کی وبا میں پھنس گئی اور اس طرح اس معاملے میں معیاری تحقیقات نہیں ہو سکیں۔‘‘

عدالت نے پوچھا کہ کیا پولیس اسی عذر کو موجودہ کیس میں استعمال کر سکتی ہے؟ عدالت نے کہا ’’جواب واضح طور پر ’نہیں‘ ہونا چاہیے۔‘‘

اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر سنجیو سہائے، جنھوں نے حال ہی میں پہلے ایڈووکیٹ کی جگہ لی ہے، نے کہا کہ وہ چارج شیٹ سے گزر چکے ہیں لیکن اس معاملے کے ساتھ ساتھ دہلی تشدد سے متعلق دیگر کے بارے میں جاننے کے لیے اس معاملے پر ہدایات لینے کی ضرورت ہے۔

عدالت نے انھیں 22 اکتوبر کو اگلی سماعت تک ہدایات حاصل کرنے کے لیے وقت دیا اور پھر عدالت کو تفتیش کی حالت سے آگاہ کرنے کے لیے کہا۔

دہلی فسادات سے متعلق مقدمات پر عدالتوں کے خیالات

حالیہ مہینوں میں دہلی کی کئی عدالتوں نے پولیس کے 2020 کے تشدد سے متعلق مقدمات کو سنبھالنے کے طریقے پر سرزنش کی ہے۔

17 ستمبر کو چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ ارون کمار نے تشدد کے مقدمات کی کارروائی کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنے پر پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا تھا کہ اگر پولیس مقدمات کی مؤثر کاروائی کو یقینی نہیں بناتی ہے تو اسے منفی احکامات دینے پڑیں گے، بشمول ذمہ دار افسران کی تنخواہوں سے کٹوتی سے التوا کے اخراجات عائد کرنا۔‘‘

3 ستمبر کو یادو نے کہا تھا کہ پولیس فسادات کے معاملات میں منصفانہ تحقیقات کرنے اور متاثرین کو انصاف ملنے کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔

جج نے مزید کہا ’’میں اپنے آپ کو اس مشاہدے سے نہیں روک سکا ہوں کہ جب تاریخ دہلی میں تقسیم کے بعد بدترین فرقہ وارانہ فسادات پر نظر ڈالے گی، تو دیکھے گی کہ یہ تحقیقاتی ایجنسی کی ناکامی ہے جو جدید ترین سائنسی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے بھی مناسب تفتیش نہیں کرسکی، یہ یقیناً جمہوریت کے حاکموں کو اذیت پہنچائے گا۔‘‘

مزید یہ کہ کم از کم تین مقدمات میں عدالتوں نے ایف آئی آر درج کرنے کے طریقے میں بےضابطگیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کچھ مواقع پر پولیس نے ایک ہی واقعہ کے لیے ایک ہی تھانے میں متعدد مقدمات درج کیے۔ دوسرے معاملات میں اس نے ایک ہی ایف آئی آر میں متعدد شکایات کو جمع کر دیا ہے۔