دہلی-مرکزی حکومت میں اختیارات سے متعلق جھگڑا: انتظامی خدمات پر کس کا کنٹرول ہے؟ اس معالے پر دائر درخواست پر سماعت کرے گی آئینی بنچ

نئی دہلی، ستمبر 5: سپریم کورٹ نے پیر کو کہا کہ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی پانچ ججوں کی آئینی بنچ 7 ستمبر کو قومی دارالحکومت میں انتظامی خدمات کے کنٹرول کو لے کر مرکز اور دہلی حکومت کے درمیان تنازعہ سے متعلق کیس کی سماعت کرے گی۔

یہ فیصلہ اس وقت لیا گیا جب دہلی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل اے ایم سنگھوی نے چیف جسٹس ادے امیش للت کی سربراہی والی بنچ سے اس معاملے کو فوری طور پر درج کرنے کی درخواست کی۔

چیف جسٹس نے کہا ’’میں جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ سے بات کروں گا۔ ہم اسے پرسوں جسٹس چندر چوڑ کی سربراہی میں سی بی [آئینی بنچ] کے سامنے پیش کریں گے۔‘‘

دریں اثنا سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے مرکز کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ انھیں کارروائی کی تیاری کے لیے کچھ اور دن درکار ہیں۔

اپریل میں مرکز نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اس تنازعہ کو بڑی بنچ کے پاس بھیج دیا جانا چاہیے۔ مرکزی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے دہلی میں عہدیداروں کے تبادلے اور تقرری کے لیے طاقت کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ ملک کا دارالحکومت ہے۔

2018 میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے کہا تھا کہ دہلی کا لیفٹیننٹ گورنر، جسے صدر ہند کے ذریعہ مقرر کیا جاتا ہے، دہلی حکومت کے وزرا کی کونسل کی ’’مدد اور مشورہ‘‘ کا پابند ہے، ان تمام معاملات میں جو کہ اس کے دائرہ اختیار میں ہیں۔

اس نے یہ بھی کہا تھا کہ لیفٹیننٹ گورنر میکانکی انداز میں کام نہیں کر سکتا۔ بنچ نے مزید کہا تھا کہ مرکز ’’ریاستوں کے زیر تسلط معاملات کے اختیارات پر قبضہ نہیں کر سکتا۔‘‘ تاہم یہ بھی نوٹ کیا کہ دہلی کو ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہے۔

دریں اثنا دہلی میں حکمراں عام آدمی پارٹی کی حکومت نے مرکز کی عرضی کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ اس معاملے کو بڑی بینچ کو بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایڈوکیٹ سنگھوی نے کہا تھا کہ 2018 کے فیصلے میں ریاستی حکومت کے اختیارات کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

اس سے قبل فروری 2019 میں سپریم کورٹ کی دو ججوں کی بنچ نے دہلی میں اقتدار کے جھگڑے پر الگ الگ فیصلہ سنایا تھا۔

جسٹس اے کے سیکری اور جسٹس اشوک بھوشن، جو دو ججوں کی بنچ میں شامل تھے، نے ’’سروسز‘‘ کے دائرۂ اختیار کے معاملے کو بڑی بنچ کو بھیج دیا۔ زیر غور دیگر معاملات پر ججوں نے متفقہ فیصلے سنائے۔