اچھے کام پر حوصلہ افزائی دین کا مزاج

حسنِ عمل کی تعریف و قدردانینبی کریم ﷺ کا طریقہ

محب اللہ قاسمی، دلی

کار خیر انجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی سے معاشرہ میں خیر پنپتا ہے
کوئی اچھا کام انجام دینے والے کی حوصلہ افزائی اور اس کی تحسین وتوصیف بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ رویہ معاشرہ کے دوسرے لوگوں کو بھی اس طرح کے کاموں کی طرف متوجہ کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس تنگ نظری یا خشک مزاجی کے سبب حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور یہ عمل نہ صرف اختلاف ونااتفاقی کا سبب بن کر معاشرے کو خراب کرے گا، بلکہ اس کے نتیجے میں ایسے لوگوں کی تعداد کم ہوجائے گی جو کسی نہ کسی درجہ میں دعوت دین، فلاح و بہبود اور تعلیم وتربیت کی خدمات انجام دیتے ہیں۔کسی شخص کا کوئی کار خیر اگر ہمیں معلوم ہو تو اس کی تعریف کی جانی چاہیے کیونکہ حوصلہ افزائی کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ معاشرہ میں عمل صالح کا ماحول بنے گا اور دوسرے لوگ بھی اچھے کام انجام دینے کی طرف مائل ہوں گے۔انسان کا مزاج ہے کہ وہ کوئی کام انجام دیتا ہے تو اس کا بدلہ چاہتا ہے، خواہ کسی بھی شکل میں ہو، وہ بدلہ دکھائی دینے والی چیز ہو یا نہ دکھائی دینے والی۔اللہ تعالی نے جب انسان کو اس مزاج کا بنایا تو اس بات کا لحاظ بھی فرمایا۔چنانچہ اس نے قرآن کریم میں بیشتر مقامات پر جہاں عمل صالح کا حکم دیا ہے وہاں اس کے نتائج اور انعامات کا بھی تذکرہ کیا ہے تاکہ لوگوں کو اس کی رغبت پیدا ہو اور اس راہ میں جدوجہد ان کے لیے آسان ہو۔ ذیل میں چند آیات کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، ان کے لیے ان کے دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے، اور ان کی (موجودہ) حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، پس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔‘‘ (النور:55)
’’جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی خطاوں سے درگزر کیا جائے گا اور انہیں بڑا اجر ملے گا۔‘‘(المائدۃ:9)
’’اور اے پیغمبر جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کرلیں انہیں خوشخبری دے دو کہ ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے۔ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے‘‘(البقرہ:25)
’’اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مومن تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہو گی۔‘‘(النساء:124)
’’حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ اُن کے لیے بڑا اجر ہے ‘‘ (بنی اسرائیل:9)
’’بخلاف اس کے جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا ہے اور اچھے کام کیے ہیں اور اس باب میں ہم ہر ایک کو اس کی استطاعت ہی کے مطابق ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ اہل جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ‘‘(الاعراف:42)
’’پھر جو نیک عمل کرے گا، اس حال میں کہ وہ مومن ہو تو اس کے کام کی ناقدری نہ ہوگی اور اسے ہم لکھ رہے ہیں‘‘ (الانبیاء:94)
’’اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کیے ان کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور اُن کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انہیں ہم گھنی چھاوں میں رکھیں گے‘‘(النساء:57)
’’اْس وقت وہ لوگ جنہوں نے ایمان لاکر نیک طرز عمل اختیار کیا ہے اپنے اجر پورے پورے پائیں گے اور اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید اجر عطا فرمائے گا، اور جن لوگوں نے بندگی کو عار سمجھا اور تکبر کیا ہے ان کو اللہ درد ناک سزا دے گا اور اللہ کے سوا جن جن کی سرپرستی و مددگاری پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں ان میں سے کسی کو بھی وہ وہاں نہ پائیں گے۔‘‘ (النساء:173)
رہے وہ لوگ جو مان لیں اور نیک عمل کریں تو یقینا ہم نیکو کار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔ (کہف:30)
تو جو شخص اپنے خالق ومالک سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ (کہف:110)
اور جنہوں نے ایمان اور نیک عملی کا رویہ اختیار کیا ہے انہیں ان کے اجر پورے پورے دے دیے جائیں گے۔ اور (خوب جان لے کہ) ظالموں سے اللہ ہرگز محبت نہیں کرتا۔‘‘ (آل عمران:57)
ہاں، جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ان کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں۔(البقرۃ:277)
بخلاف اس کے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنا گھر بار چھوڑا اور جہاد کیا ہے، وہ رحمتِ الٰہی کے جائز امیدوار ہیں اور اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرنے والا اور اپنی رحمت سے انہیں نوازنے والا ہے۔(البقرۃ:218)
اگر ہم سیرت نبوی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ نبی اکرم ﷺ بچپن سے ہی نیک دل، سچے، امانت دار اور بہت سی خوبیوں کے حامل تھے، جس کا چرچا سارے عرب میں تھا۔ ہر شخص کو آپ پر اعتبار تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کفار مکہ آپ کو اچھے القاب سے یاد کرتے اور آپ کے محاسن بیان کرتے تھے۔ اطراف مکہ میں بھی اس بات کا چرچا ہونے لگا جسے سن کر لوگ آپ سے ملنے کے لیے بے چین رہتے۔ اعلان نبوت کے بعد جب اہل مکہ اور سرداران قریش آپ کے دشمن ہوگئے اور آپ کے متعلق طرح طرح کی باتیں کرنے لگے تب دوسرے قبیلے والوں میں آپ سے ملنے کا اشتیاق مزید بڑھ گیا ۔ یہ سب آپ کی ان خوبیوں اور اعمال خیر کے سبب تھا جن کے سارے لوگ قائل تھے۔
حضرت محمد ﷺ نے جب اسلام کا مرکز مدینہ منورہ کو بنایا تو وہاں بھی معاشرے کو بہتر اور اعمال خیر سے آراستہ کرنے کے لیے آپ نے صحابہ کرام کو نہ صرف دین کی تعلیمات سے آراستہ کیا بلکہ ان کے اچھے کاموں اور خوبیوں کے سبب ان کی تعریف وتوصیف فرمائی اور انہیں اچھے القاب سے نوازا۔ ذیل میں صحابہ کرام کے بعض واقعات بطور نمونہ بیان کیے جارہے ہیں:
حضرت ابوبکرؓ : جلیل القدرصحابی اور خلیفہ اول ہیں، جن کو ’صدیق‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے یعنی تصدیق کرنے والا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو واقعہ معراج کی تصدیق کرنے کی وجہ سے یہ خطاب عطا فرمایا تھا۔ جب اہل مکہ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے سامنے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ تمہارے صاحب تو ایک رات میں بیت المقدس جا کر آئے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں تو اس سے بھی بڑی خبر کی تصدیق کرتا ہوں، جب وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس صبح وشام آسمان سے خبر آتی ہے تو میں اسے مان لیتا ہوں۔
خلیفہ ثانی حضرت عمربن الخطاب ؓ کو نبی کریم ﷺ نے ’فاروق‘ کا لقب عطا کیا تھا۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ جس وقت آپ حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو نبی کریم ﷺ سے کہا کہ ہم چھپ کر نماز کیوں پڑھیں جب کہ ہمارا دین حق ہے،ہماری نماز حق ہے، اس دن تمام لوگوں نے خانہ کعبہ میں علانیہ نماز ادا کی۔ حضرت عمرؓ تاحیات اس لقب کے معنوی اثرات بکھیرتے رہے۔ آپ کے عدل وانصاف کے قصے معروف ہیں۔آپؓ کی دلیری، قوت ارادی اور دور رس افکار و خیالات کے سبب رسول اللہ ﷺ نے آپ کو یہ اعزاز بھی بخشا، فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے ۔
حضرت عثمان غنیؓ :عثمان بن عفان تیسرے خلیفہ راشد ہیں۔ آپ کے دو القاب سے مشہور ہیں ایک ’غنی‘ دوسرے ’ذوالنورین‘ ہے۔ مؤخرالذکر لقب کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کی زوجیت میں آئیں۔ آپ نہایت ہی باحیا، فیاض، محسن،نرم طبیعت اور خوش اخلاق تھے۔مدینہ منورہ میں صحابہ کرام کے پاس پینے کے لیے میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا وہ ایک یہودی کے کنوے سے پانی لیتے تھے، رسول اللہ ﷺ کی ایما پر آپ نے وہ کنواں خرید کر عام لوگوں کے لیے وقف کر دیا۔ اسی طرح اسلام کی اشاعت میں آپ نے اپنا بہت سارا مال خرچ کیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ: اسلام قبول کرنے والوں میں آپ کا نمبر دوسرا ہے۔ آپ چوتھے خلیفہ ہیں۔ آپ فاتح خیبر کے لقب سے مشہور ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے جنگ خیبر کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا: میں ایک ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جس کے ذریعے اللہ فتح عطا کرے گا۔ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہوں گے۔
حضرت جعفربن ابی طالب ؓ : آپؓ نے محض 33 سال کی عمر پائی اور جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔ اس جنگ میں اولاً آپ کے دونوں بازوں کٹ گئے پھر بھی اسلام کا جھنڈا زمیں پر گرنے نہ دیا۔ حضرت جعفرؓ غریبوں اور مسکینوں کا بہت خیال رکھتے اور ان کی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔اس وجہ سے آپ ابولمساکین کے لقب سے مشہور تھے۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ : آپ کو کونبی کریم ﷺ نے بطل المشاۃ (بہادر پیادہ پا) کا لقب عطا فرمایا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی پیادہ پا بہادر اور تیر انداز و نیزہ باز تھے جو دشمنوں کو کھدیڑ دیتے تھے۔ غزہ ذی قرد کے موقع پر آپ نے انہیں یہ اعزاز بخشا تھا۔
حضرت زبیربن العوامؓ :آپؓ حواری رسول کے لقب سے مشہور ہیں۔جنگ خندق کے موقع پر حضور ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے دریافت کیاکہ کون بنو قریظہ کی خبر لائے گا۔ حضرت زبیرؓ نے خود کو پیش کرتے ہوئے کہا: "میں” یہی سوال آپ نے تین بار دہرایا۔ہر بار آپؓ ہی آگے آئے۔ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا:
ہر نبی کے حواری اور دوست ہوتے ہیں میرے حواری زبیرؓ ہیں۔
حضرت حنظلہ بن ابی عامر الانصاریؓ: آپ کو غسیل الملائکۃ کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی، جب صبح ہوئی تو جہاد کی پکار نے ان کو بے قرار کر دیا اور آپ نے اپنی تلوار لٹکائی اور ذرہ پہن کر نکل پڑے، میدان احد میں آپ نے ابوسفیان کو دیکھا اور اس پر وار کرنے کے لیے لپکے مگر اس کی چیخ وپکار پر بہت سے شہسوار قریش جمع ہو گئے اور انہوں نے حضرت حنظلہؓ کو شہید کر دیا۔ جب نبی کریم ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے ارشاد فرمایا: میں نے دیکھا ہے کہ فرشتے حنظلہ کو آسمان وزمین کے درمیان چاندی کے برتن سے بادلوں کے پانی سے نہلا رہے ہیں۔ یہ سن کر صحابہ ان کی طرف دوڑے تو دیکھا کہ ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے۔ جب ان کے حالات دریافت کیے گئے تو پتہ چلا کہ وہ صبح شوق جہاد میں بغیر نہائے ہی نکل گئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو سیف اللہ کے خطاب سے نوازا۔ چنانچہ جب آپ نے فوجی قیادت سنبھالی تو اپنے اس فن میں ماہر ہونے کی حیثیت سے وہ کارنامے انجام دیے جو ایک بہادر فوجی لیڈرکے شایا نِ شان تھے اور آپ کے فہم وبصیرت اور جرأت وبہادری سے بہت سے مقامات فتح ہوئے۔
حضرت معاذبن جبل ؓ زود فہمی، قوت استدلال، خوش بیانی اور بلند ہمتی کے لحاظ سے ایک منفرد و ممتاز مقام رکھتے تھے۔ ان کی تعریف وتوصیف اللہ کے رسول نے ان الفاظ میں بیان فرمائی: میری امت میں معاذ بن جبلؓ حلال وحرام کو بہتر جاننے والے ہیں۔
حضرت ابو عبیدۃ بن الجراحؓ : حضور ﷺ نے ان کی خوبیوں کے پیش نظر انہیں ’’امین‘‘ کا خطاب عطا کیا تھا۔ ایک موقع سے یمن کے کچھ لوگ آئے اور آپ سے دریافت کیا کہ ہمیں کوئی ایسا شخص دیجیے جو ہمیں اسلام سکھائے۔ چنانچہ آپ نے حضرت ابوعبیدۃ ؓ کا ہاتھ تھاما اور فرمایا: ’اس امت کے امین‘۔ ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا:
ہر قوم میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ ؓ ہیں۔
ان کے علاوہ صحابہ کرام کی ایک طویل فہرست ہے جن کو اللہ کے رسول نے ان کے عمدہ اوصاف اور کارناموں کی تعریف کرتے ہوئے انہیں اعزازات والقاب سے نوازا۔ یہی طریقہ صحابہ کرام اور تابعین کا بھی رہا ہے۔ ان لوگوں نے بھی یہی رویہ اختیار کیا کہ وہ لوگوں کے اچھے کاموں پر ان کی تعریف وتحسین کیا کرتے تھے۔
اگر ہمارے معاشرے میں کوئی شخص فلاح عام کا کام انجام دے رہا ہو یا کوئی دینی ماحول بناکر کسی نیک کام کو فروغ دے رہا ہو یا تربیتی نقطہ نظر سے کسی طرح کا کوئی عمل انجام دے رہا ہو جو شریعت کے مطابق اور اس کے مزاج کے موافق ہو تو ایسے شخص کی تعریف وتحسین کی جانی چاہیے، بلکہ وقتا فوقتا اسے انعام سے بھی نوازنا چاہیے تاکہ دوسرے لوگوں میں بھی کار خیرکا جذبہ پیدا ہو۔ دوسری طرف ایسے مخلصین وخیرخواہ حضرات جو کسی درجہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کو بھی چاہیے وہ کسی تعریف وتوصیف کی پروا کیے بغیر ایسے کام انجام دیتے رہیں جن سے ملت کو فائدہ پہنچے اور قیامت میں وہ سرخ رو ہوں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 مئی تا 27 مئی 2023