یہ بازی کس نے ہاری ہے؟

غزہ پر اسرائیلی بمباری سے بے پناہ نقصان مگر حماس کی عسکری طاقت کو محدو دنہیں کیا جا سکا

مسعود ابدالی

 

کیا امریکی کانگریس اسرائیل پر پابندیاں لگانے کی اجازت دے گا؟
غزہ پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ ’تھم‘ گیا ہے۔ ہم نے جان کر ختم ہونے کے بجائے تھمنا لکھا ہے کہ رمضان کی ستائیسویں شب سے 11 دن تک جاری رہنے والی بربریت کی مہم نئی نہیں تھی۔ کئی دہائیاں گزر گئیں کہ اہل غزہ نے امن اور خوشی وخوشحالی کا سورج نہیں دیکھا۔ اس بدنصیب خطہِ ارض کا مطلع ظلم وجبر کے بادلوں سے ڈھکا رہتا ہے اور دور دور تک آتش وآہن کی بارش یہاں کے موسم کی پہچان ہے۔ دنیا کے باقی حصوں میں تو بارش صرف آسمان سے ہوتی ہے لیکن اہل غزہ کو آسمان کیساتھ زمین اور سمندر سے آنے والے آتشیں گولوں کا بھی سامنا ہے۔
قتلِ عام کی حالیہ مہم میں کتنے فلسطینی تہ تیغ ہوئے اسکے حقیقی اعداد وشمار تو شاید کبھی نہ مل سکیں کہ بہت سے خاندان بلند وبالا عمارتوں کے ملبے میں زندہ دفن ہو گئے جن کی لاشیں تو دور کی بات ان مظلوموں کا نام ونشان بھی صرف ان کے رب کے علم میں ہے۔ امریکی ایوان بالا (سینیٹ) سے اپنے خطاب میں سینٹر برنی سینڈرز نے نیویارک ٹائمز کے حوالے سے جو تفصیلات بیان کیں ان کے مطابق:
• غزہ کے دوسو ساٹھ افراد اپنی جانوں سے گئے جن میں 64 معصوم بچے اور 38 خواتین تھیں
• ساڑھے تین ہزار افراد زخمی ہوئے
• سترہ شفا خانے مسمار کر دیے گئے
• سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کے Desalination پلانٹ اور آب نوشی کے ذخائر کو تاک تاک کر نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں آٹھ لاکھ افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہو گئے
• مکانوں کی بربادی سے 72 ہزار افراد بے گھر ہوئے
• غزہ میں کرونا کی مرکزی لیبارٹری اور جدرین کاری (Vaccination) کے مراکز کو پیوندِ خاک کر دیا گیا
• اسرائیلی بمباروں نے اسکولوں اور مدارس کو چن چن کر نشانہ بنایا اور چھ لاکھ سے زیادہ بچوں کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا
• جناب برنی سینڈرز نے جامعہ کیلیفورنیا، سان فرانسکو کے ایک مشہور ماہر نفسیات کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بمباری اور گولہ باری کے نتیجے میں پھیلنے والے جس ہیجان کا غزہ کے نونہالوں کو سامنا ہے، دنیا کے دوسرے علاقوں کے بچے ایسی اذیت سے کبھی اور کہیں نہیں گزرے۔
• تکلیف دہ اعداد شمار بیان کرتے ہوئے سینیٹر سینڈرز نے کہا کہ: غزہ دنیا کا گنجان ترین علاقہ ہے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ غزہ میں 365 مربع کلومیٹر رقبے پر 20 لاکھ نفوس آباد ہیں یعنی 5000 افراد فی مربع کلو میٹر۔ غزہ کی 48 فیصد آبادی 18 سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے جنہیں اسکولوں، دارالمطالعوں، کھیل کے میدانوں اور سماجی سرگرمیوں کیلئے سماعت گاہوں اور تفریحی مراکز کی ضرورت ہے۔
• اسرائیل اور مصر نے گزشتہ 14 سال سے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے جسکی وجہ سے یہاں معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ غزہ کے 48 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں۔ واضح رہے کہ مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی نے جون 2012 میں اقتدار سنبھالتے ہی غزہ کی ناکہ بندی ختم کر کے مصر کے صحرائے سینائی میں کھلنے والی رفحاح گیٹ کا تالہ اپنے ہاتھوں سے توڑا تھا لیکن ایک سال بعد جب جنرل السیسی نے اقتدار پر قبضہ کیا تو بابِ رفحاح بند کر کے ناکہ بندی اور سخت کر دی گئی۔
• غزہ کی 56 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے ہے جسکا گزارہ اقوام متحدہ کے راشن پر ہے
• امریکی سنیٹر نے اپنے خطاب میں کہا کہ غربت ومعاشی بے بسی کی یہ صورتحال امن کیلئے خطرہ ہے اور اس ضمن میں انہوں نے اپنے رفقا کے ساتھ مل کر مئی 2018 میں صدر ٹرمپ کو ایک خط لکھا جس میں اسرائیلی وزارت دفاع کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا تھا۔ برنی سینڈرز کے مطابق اس خفیہ رپورٹ میں وزرات دفاع کے حکام نے غزہ کی بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اہلِ غزہ، خاص طور سے نوجوانوں کی مایوسی کا ازالہ نہ کیا گیا تو ایک دھماکہ خیز صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جس سے سارے علاقے کا امن متاثر ہو گا۔ سینیٹر سینڈرز نے کہا کہ ہم نے اپنے خط میں اسوقت کے امریکی صدر سے صورتحال کا نوٹس لینے کو کہا تھا لیکن صدر ٹرمپ نے ہماری گزارشات کو یکسر نظر انداز کر کے اپنے انتہا پسند اسرائیلی دوستوں کی پشتیبانی جاری رکھی جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔
اپنے خطاب میں سینٹر سینڈرز نے اسرائیل کے اس موقف کو مسترد کر دیا کہ غزہ پر بمباری حماس کی راکٹ بازی کا ردعمل تھا۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی پولیس کے تشدد نے اشتعال کو جنم دیا۔ شہری آبادی پر راکٹ پھینکنا قابل مذمت ہے لیکن راکٹ کے جواب میں درجنوں طیاروں کی ٹکریوں سے نہتی شہری آبادی پر تباہ کن بمباری کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ ہی اسکا دفاع کیا جا سکتا ہے۔
سینٹر سینڈرز نے حماس کو دہشت گرد اور بدعنوان قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی جانب سے کرپٹ نیتن یاہو کی غیر مشروط حمایت نے حماس کو اہل غزہ کی امیدوں کا مرکز بنا دیا جو ایک المیے سے کم نہیں۔
نوٹ: حماس کے بارے میں فاضل امریکی سینیٹر کا تجزیہ متعصب امریکی میڈیا سے حاصل ہونے والی معلومات پر مشتمل ہے جس سے راقم الحروف متفق نہیں۔
مسلسل گیارہ دن بمباری سے ہونے والے نقصانات کا جو احاطہ سینٹر سینڈرز نے کیا وہ فوری اور ابتدائی نوعیت کے ہیں۔ والدین وسرپرست شہید ہو جانے سے سینکڑوں بچے بے سہارا ہو گئے۔ علاقے کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ جامعہ اسلامیہ غزہ منہدم کردی گئی اور درجنوں تجربہ کار، اساتذہ ماہرین اور سائنسدان اسکے ملبے میں دفن ہو گئے۔ یہ جامعہ طب اور سائنس وٹیکنالوجی کا مرکز تھی۔ جامعہ کو مسمار کرنے سے جب ظالموں کو تشفی نہ ہوئی تو اسکے قریب درسی کتب اور اسٹیشنری کے ایک بازار کو بھی بم مار کر خاکستر کر دیا گیا۔ مکانوں کی تباہی سے مالی نقصان کے علاوہ 72000 بے گھر افراد کو جس ذہنی اذیت کا سامنا ہے اسکا تصور بھی ناممکن ہے۔ اس بربریت سے ہلاکت وبربادی کا ازالہ تو شاید ہو جائے کہ وقت کا مرہم غمِ دوراں و غمِ جاناں کے ہر زخم کیلئے اکسیر ہے اور آزمائش میں ڈالنے والا رحیم وکریم رب صبر دے کر دلوں کو مطمئن فرما دیتا ہے لیکن اس انسانیت سوز مظالم نے دلوں میں جو نفرتیں پیدا کردی ہیں وہ شاید قیامت تک نہ ختم ہوں۔
فلسطینیوں کی تباہی کا نوحہ اپنی جگہ لیکن اسرائیلی ماہرین اور سیاسی حلقے جو تجزیہ کر رہے ہیں اسکے مطابق یہ ایک ناکام فوجی آپریشن تھا۔ قوتِ قاہرہ کے بدترین استعمال کے باوجود اسرائیل اپنا فوجی ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ بمباری کے آغاز سے ہی اسرائیلی وزیر اعظم کامیابی کا دعویٰ کر رہے تھے۔ جنگی جنون سے سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے انہوں نے غزہ قتل عام کو ’آپریشن پاسبانِ دیوارِ (گریہ) Operation Guardian of Walls کا نام دیا۔ میڈیا کے سامنے نام کی وضاحت کی گئی کہ اسکا مفہوم راکٹ حملوں سے ’چادرو چار دیواری‘ کا تحفظ ہے لیکن سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر جو نغمے گونجتے رہے اس میں مذہبی رنگ نمایاں تھا۔ حتیٰ کہ ایک ٹویٹ میں سورہ الفیل کا عبرانی ترجمہ نقل کر کے تاثر دیا گیا کہ اسرائیلی بمبار دراصل وہ ابابیلیں ہیں جو بیت المقدس پر حملہ آور ابرہہ کے لشکر کو بھُس بنا رہے ہیں۔
اس دوران اسرائیل بھر میں جنون کا یہ عالم تھا کہ مذہبی انتہاپسند Religious Zionist Party سے لے کر بائیں بازو کی لیبر اور قوم پرست اسرائیل مادرِ وطن پارٹی تک سب کے سب غزہ کو کچل دو کا راگ الاپ رہے تھے۔ ہر روز شام کو بمباری سے ریت کی دیوار کی طرح ڈھیر ہوتی بلندو بالا عمارتوں کی ویڈیو دکھا کر نیتن یاہو قوم سے دادِ شجاعت وصول کرتے نظر آئے۔ جنگ بندی سے ایک دن پہلے انہوں نے بہت رعونت سے کہا کہ دشمن کی مکمل تباہی تک بمباری کا سلسلہ نہیں رکے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ گئے کہ غزہ پر قبضے کیلئے بری فوج کی پیشقدمی بھی خارج از مکان نہیں۔
قارئین کو یقیناً معلوم ہوگا کہ اس وقت اسرائیل میں حکومت سازی کا اعصاب شکن مرحلہ درپیش ہے۔ اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی بنا پر صدر نے بی بی (نیتن یاہو) کو حکومت سازی کی دعوت دی۔ سرتوڑ کوششوں اور سنہرے وعدوں کے باوجود موصوف مطلوبہ 61 ارکان جمع نہ کر سکے چنانچہ یہ شمع قائد حزب اختلاف یار لیپڈ Yair Lapid کے آگے رکھ دی گئی اور انہوں نے ’بے ایمان بی بی سے جان چھڑاو‘ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر ساری حزب اختلاف کو اپنے گرد جمع کرلیا لیکن جنگ نے پانسہ پلٹ دیا اور ’قومی مفاد‘ کے نام پر سب لوگ یار کو چھوڑ کر بی بی کے قدموں میں بیٹھ گئے۔ اس یو ٹرن کا بنیادی محرک یہ خوف تھا کہ جنگی جنون کے سبب اسرائیلیوں کی آنکھوں کا تارہ بن جانے والے بی بی کی مخالفت سیاسی عاقبت کیلئے اچھی نہیں۔
لیکن جنگ بندی کے بعد صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ حزب اختلاف سے پہلے حکومت کے انتہا پسند اور قوم پرست اتحادیوں میں چہ مہ گوئیاں شروع ہو گئیں کہ غزہ فتح کرنے کے دعویدار بی بی، غیر مشروط جنگ بندی پر کیوں تیار ہوئے؟ وہ تو بڑک مار تے پھر رہے تھے کہ اہلِ غزہ راکٹ بازی روکیں اس کے بعد اسرائیل جنگ بندی کے بارے میں ’غور‘ کرے گا۔یار لیپڈ نے بی بی پر تنقید کا پہلا پتھر پھینکا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اسرائیلی شہریوں نے راکٹ بازی کی بھاری قیمت اداکی جسکے جواب میں حاصل کیا ہوا؟ بی بی نے غیر مشروط جنگ بندی قبول کر کے شکست کا اعتراف کرلیا‘۔ بی بی کی داستانِ ناکامی میرن سے غزہ اور Temple Mount (القدس شریف) سے لُد تک پھیلی ہوئی ہے۔ کسی نئی ہزیمت وشرمندگی سے پہلے انہیں ہماری جان چھوڑ دینی چاہیے۔
میرن کا قصہ یہ ہے کہ 30 اپریل کو میرن کے مقام پر ایک مذہبی تقریب میں بھگڈر سے 45 افراد کچل کر ہلاک ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہیں۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق مذہبی جوش وخروش کے ہونکے میں وزیر اعظم کے حکم پر انتظامیہ نے یہاں گنجائش سے کئی گنا زیادہ لوگوں کو آنے کی اجازت دیدی جو اس حادثے کا سبب بنا۔ اسی طرح تل ابیب کے مضافاتی علاقے لُد میں بی بی کے حمایت یافتہ دہشت گردوں نے عرب آبادی پر حملہ کیا۔ اس دوران ضعیف عربوں پر بہیمانہ تشدد کی جو بصری مشمولات (video clips) سامنے آئیں اس پر وزیر اعظم سخت تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
یار کے مصرعہِ طرح کی دیر تھی کہ اس قافیے اور ردیف پر مشاعرہ شروع ہوگیا۔ قدامت پسند امیدِ نو پارٹی کے گیدون سعر، مذہبی زائنسٹ پارٹی کے سربراہ Bezalel Smotrich، جماعت کے سینئر رہنما اتمار بن گِور، قوم پرست مادرِ وطن پارٹی کے لائیبرمین، لیبر پارٹی کی سربراہ محترمہ مشیلی، بائیں بازو کی میرٹس Meretz پارٹی کے تامر زینڈبرگ، سب ہی اس آپریشن کو غیر موثر وغیر ضروری قرار دے رہے ہیں۔ سیاسی قیادت کا خیال ہے کہ اسرائیل نے حماس کی شرائط پر جنگ بندی قبول کی ہے جس سے ’دہشت گردوں‘ کے ہاتھ مضبوط ہوئے۔
دائیں بازو کی یمینہ پارٹی کے سربراہ نفتالی بینیٹ جو حزب اختلاف کو چھوڑ کر سب سے پہلے بی بی سے جا ملے تھے، ایک طویل سجدہ سہو سے سر اٹھا کر گویا ہوئے کہ اب بی بی کا جانا ٹہر گیا ہے۔ ان کی جماعت حکومت سازی کیلئے یار سے مذاکرات کا دوبارہ آغاز کرےگی کہ وزیر اعظم نے ہمیں سخت مایوس کیا ہے۔
غزہ سے متصل شہر سدیروت کے رئیس شہر (Mayor) ایلن ڈیوڈ جنگ بندی پر سخت غصے میں ہیں۔ سیدروت راکٹ حملوں کا نشانہ بنا تھا اور سارا شہر دو ہفتہ اس حد تک مفلوج رہا کہ بلدیہ کچرا بھی نہ اٹھا سکی اور بدترین تعفن کی وجہ سے شہریوں کا سانس لینا مشکل ہو گیا۔ میئر نے کہا کہ غیر مشروط جنگ بندی پر آمادگی سے ایسا لگ رہا ہے کہ حماس ناقابل تسخیر ہے یا بی بی ان دہشت گردوں کو شکست نہیں دینا چاہتے۔
سیاستدانوں کیساتھ سیاسی وعسکری تجزیہ نگار بھی گیارہ روزہ آپریشن کو اسرائیل کی شکست قرار دے ہے ہیں۔ اسرائیل کے قدیم ترین اور سب سے بڑے اخبار ہاریٹز Haaretz نے ’’آپریشن گارڈین آف دی والز‘‘ کو اسرائیل کی ناکام ترین اور بے معنی مہم جوئی قرار دیا۔ اپنے اداریہ میں اخبار نے لکھا کہ بی بی سمجھتے تھے کہ غزہ میں تباہی، بربادی اور موت پھیلا کر وہ اسرائیلیوں کے ہیرو بن جائینگے لیکن یہ ہدف بھی حاصل نہ ہو سکا۔ غزہ آپریشن، اہلِ غزہ اور اسرائیل دونوں کیلئے تباہی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اپنے اداریہ میں فاضل مدیر نے کہا کہ نام نہاد ’’آپریشن گارڈین آف دی والز‘‘ سے اسرائیلی فوج کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اداریہ میں جو نکات اٹھائے گئے ہیں وہ کچھ اسطرح ہیں:
• گیارہ دن تک چوبیس گھنٹے بمباری کے باوجود حماس کی سرنگیں تباہ کرنے میں ناکامی سے اسرائیلی فوج کی تزویراتی (Strategic) کمزوری طشت از بام ہو گئی
• بی بی دعویٰ کر رہے ہیں کہ بمباری میں حماس کے نامی گرامی کمانڈر مارے گئے لیکن اس سے دشمن کی صلاحیت میں ذرا برابر فرق نہ آیا۔ جنگ بندی سے چند لمحے پہلے تک راکٹ پھینکے جاتے رہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بمباری سے نہ تو حماس کا عصبی مرکز (کمان اور کنٹرول سسٹم) تباہ ہوا نہ ان کی راکٹ برسانے کی صلاحیت محدود ہوئی
• اس تصادم سے اسرائیل کے دفاعی نظام آئرن ڈوم کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھنا شروع ہو گئے۔ اس بار حماس نے جب ایک ساتھ بہت بڑی تعداد میں راکٹ داغے تو بہت سے ’پٹاخے آئرن ڈوم کو غُچّہ دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اسرائیل میں دور دور تک جتنی بڑی تعداد میں راکٹ اس بار گرے ہیں، اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔
• حماس نے انتہائی مہارت سے مرکزی بندرگاہ اشدود کو متعدد بار نشانہ بنا کر اسے 10 دن تک مفلوج رکھا۔ لائیڈ آف لندن نے اشدود کی طرف محوِ سفر جہاز وں کیلئے بیمے کے جو نئے پریمیم نافذ کیے ہیں وہ آبنائے باب المندب اور آبنائے ہرمز سے گزرنے والے جہازوں کی شرح سے زیادہ ہیں
• دوسری طرف لُد میں تل ابیب کے مرکزی بن گوریان ایئرپورٹ پر بھی راکٹ پھینکے گئے جسکی وجہ سے یہ ہوائی اڈہ بارہ دن معطل رہا۔
• شہریوں کی ہلاکتوں پر ساری دنیا مضطرب ہے اور اسرائیل کو ہر جگہ تنقید کا سامنا ہے
• اسرائیل کے طول وعرض میں عربوں اور یہودیوں کے تعلقات پہلے بھی قابل رشک نہیں تھے اور اب بقائے باہمی کی صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔
دفاعی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے تجزیہ نگار کہ رہے ہیں کہ حالیہ لڑائی سے سبق سیکھتے ہوئے حماس نے غزہ کو ریت کی بوری کی تبدیل کر دیا ہے جس پر بمباری سے حملہ آور کو جھنجھلاہٹ کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہو گا۔ بمباری سے بے پناہ شہری نقصان تو ہوا لیکن حماس کی عسکری صلاحیت کم یا محدود کرنے میں اسرائیلی فوج ناکام رہی۔
بی بی کے شیطانی شوقِ کشوَر کشائی کا تجزیہ کرتے ہوئے اسرائیل کے ممتاز تجزیہ نگار ایلن پِنکَس Alon Pinkas کہتے ہیں کہ عسکری ناکامی کے ساتھ غزہ مہم جوئی سے اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔ امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ترقی پسند خواتین رہنماوں اور سینٹر برنی سینڈرز کی ’اسرائیل مخالف‘ تقریر کے بعد بھی ’سب اچھا ہے‘ کی رٹ کو حماقت کی حد تک سادہ لوحی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ قیام اسرائیل کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ جب امریکی کانگریس میں اسرائیل پر پابندیاں لگانے کی بات کی جا رہی ہے۔ اس قرارداد کی منظوری کا کوئی امکان نہیں لیکن بارش کے اس پہلے قطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 29 مئی تا 05 جون 2021