خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

2014 اور اس کے بعد
2014 میں جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو چند ماہ بعد درندگی کا ایک بڑا واقعہ پیش آیا۔ ایک بڑا اور پرتشدد ہجوم محمد اخلاق نامی ایک شخص کے گھر میں گھس گیا اور اسے پیٹ پیٹ کر اس وقت ہلاک کر دیا جب وہ کھانا کھا رہا تھا۔ ہجوم کے کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ محمد اخلاق بیف یعنی گائے کا گوشت کھا رہا تھا اور یہ کہ یہی خبر سن کر وہ اس کے گھر میں گھسے تھے۔ ہجوم کو ورغلانے میں بی جے پی ک کچھ لوکل لیڈروں کا بھی ہاتھ تھا۔ لیکن اس درندگی کا حکومت نے کچھ نوٹس لیا؟ نہیں، کچھ بھی نہیں۔ کئی دن تک وزیر اعظم یا کسی اور بڑے لیڈر نے کوئی بیان تک نہ دیا۔ کئی دن بعد حکومت کی تنقید اور مخالف لیڈروں کے بیانات کے بعد ارون جیٹلی نے وزیر اعظم کی طرف سے بیان دیا کہ وزیر اعظم کو اس واقعہ کا بہت افسوس ہے۔ خود وزیر اعظم نے کبھی کچھ نہیں کیا آج تک نہیں۔ اس کے برعکس بی جے پی اور اس کے حامیوں کی شرارتیں مزید بڑھ گئیں۔ ماب لنچنگ کے واقعات سڑکوں پر اور بازاروں میں ہونے لگے ، راہ گیروں کے کھانے کے ٹفن چیک کیے جانے لگے کہ ان میں کیا ہے۔ برقع پوش خواتین تک کو نہیں چھوڑا گیا۔ بی جے پی کی روایتی شراتیں زوروں پر آگئیں، اس لیے بھی کہ اب حکومت پولیس اور انتظامیہ کا کوئی ڈر کسی کو نہ تھا۔
سلسلہ بھلا کب تھمے گا؟
پورے سات سال ہو گئے، ماب لنچنگ ہی نہیں بلکہ لاک ڈاؤن میں بھی پولیس حراست میں اموات کا سلسلہ کسی نہ کسی درجے میں اب بھی جاری ہے۔ حال ہی میں اس کے‌ کئی ‌معاملات‌ سامنے آئے ہیں۔ حکمرانوں اور ان کی پارٹی کے لوگوں کی دیگر سرگرمیاں بھی ہنوز جاری ہیں۔ کورونا وائرس نے ان پر کوئی روک نہیں لگائی۔ فلسطین پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کی مذمت ساری دنیا کر رہی ہے لیکن بھارت کی حکمراں پارٹی کے لوگ ان پر جشن منا رہے ہیں۔ ماب لنچنگ کے خلاف سخت قانون بنانے کا مطالبہ ایک عرصے سے کیا جا رہا ہے لیکن وزیر اعظم کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ ہاں ماب لنچنگ کے گنہگاروں کو ڈرانے کے لیے وزیر اعظم نے دو بار بیان دیا۔ بہت سخت اور زور دار۔ معلوم ہوتا تھا کہ اسٹیج سے اتر کر ابھی ان کے ہاتھ پاوں توڑ دیں گے مگر کچھ بھی نہیں ہوا۔ البتہ ان بیانات پر خود ان کی پارٹی کے لوگوں کو ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر طنزیہ مسکراتے ہوئے ضرور دیکھا گیا۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ گائے اور گوشت کے نام پر کیے جانے والے خون خرابے کو حکومت روکنا نہیں چاہتی۔ اور آگے بڑھ کر وبائی قوانین کی آڑ میں انتظامیہ اور پولیس نے گویا خونی کھیل جاری رکھا ہے۔
سماجی و مذہبی حلقے حرکت کریں
وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کی اس نوعیت کی جو بھی سرگرمیاں ہیں وہ ان کے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق ہیں۔ کورونا وائرس ہو یا کوئی اور آفت، انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑا، وہ اپنا کام کرتے رہیں گے۔ جو لوگ ماب لنچنگ، نفرت کے قتل، حراستی اموات اور اس قسم کے دیگر جرائم پر پابندی لگانے اور ان کے خلاف سخت قانون سازی کا مطالبہ کر رہے ہیں، انہیں خود میدان میں آنا چاہیے، وہ اپنے طور پر سپریم کورٹ جائیں۔ یہ کام اپوزیشن سیاسی پارٹیوں کو بھی کرنا چاہیے۔ یہ خیال کہ یہ پارٹی اگر برسر اقتدار آگئی تو اپنے ایجنڈے کے مطابق تمام شہریوں کے لیے مسائل پیدا کرے گی، 2012 ہی میں عام تھا جب گجرات کے وزیر اعلیٰ کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ خیال ضرورت سے کچھ زیادہ درست ثابت ہو رہا ہے۔ اب اس صورت میں حریف سیاسی پارٹیوں اور متاثرہ سماجی و مذہبی حلقوں کو ازسر نو حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ خصوصاً جب انتظامیہ، عدلیہ، کارپوریٹ اور دیگر ادارے اس شر پسند گروہ کی پشت پر نظر آتے ہوں۔ سیاسی پارٹیوں پر تو زیادہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا کہ وقت اور حالات کے لحاظ سے رنگ بدلتی ہیں۔ لیکن سماجی اور مذہبی حلقے یہ کام آزادانہ اور اپنے طور پر انجام دے سکتے ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ بھی ان باتوں پر توجہ دے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 29 مئی تا 05 جون 2021