گھڑیالی آنسو کہیں یا مودی جی کے آنسو۔۔!

کیا رو دینے سے کووڈ۔۱۹ بد انتظامی کے داغ دھل جائیں گے؟

ڈاکٹر سلیم خان

 

کورونا کے لاک ڈاون میں لوگ وقت گزاری کے لیے فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں۔ تفریح کی تلاش میں کبھی کامیڈی پر ہنستے ہیں اور کبھی ٹریجڈی پر آنسو بہاتے ہیں۔ انسانوں کی اس ضرورت کا خیال کر کے فلمی دنیا اپنے وارے نیارے کرتی ہے۔ انسان تنوع بھی چاہتا ہے اس لیے ڈبل رول فلمیں بنائی گئیں مثلاً رام اور شیام جس میں شہنشاہِ جذبات دلیپ کمار کبھی رام بن کر شائقین کو رلاکر ان کی ہمدردی وصول کرتا ہے تو کبھی شیام بن کر انہیں ہنسا ہنسا کر سیٹیاں بجواتا ہے۔ اس کے بعد سنجیو کمار نے نیا دن نئی رات میں نو عدد کردار ادا کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا تھا مگر ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے رائے دہندگان کی تفریح کے لیے اتنے بہروپ بھرے کہ ان کے آگے آنجہانی ہری بھائی زری والا عرف سنجیو کمار بھی پانی بھرتے نظر آئے۔ مودی جی ہنوز اپنی قیادت کا لوہا تو نہیں منوا سکے ہاں اداکاری کا ڈنکا ضرور بجوا چکے ہیں۔ بھارت کی جنتا نے ان کو ایک بے جان نیتا اور مہان ابھینیتا تسلیم کر لیا ہے۔ انتخابی جلسوں میں ان کی اداکاری سے خوش ہو کر رائے دہندگان نوٹ لے کر ووٹ اچھالتے ہیں اس طرح کمل کھل جاتا ہے۔ اس سودے میں جنتا اور نیتا دونوں کا فائدہ ہے۔ عوام کو مفت میں تفریح اور مودی کو فری میں کرسی مل جاتی ہے۔ ویسے مودی جی سے اگر اکشے کمار پوچھتے کہ وہ ایسی نوٹنکی کیوں کرتے ہیں تو وہ ممکن تھا کہ وزیر اعظم اپنی جوانی کے دور کی فلم’ ایک کنوارہ ایک کنواری ‘ کا نغمہ معمولی ترمیم کے ساتھ پیش کر دیتے ؎
ووٹر ہمارا شیشے کے بدلے پتھر کا ہوتا
نہ ٹوٹتا نہ پھوٹتا ، نہ مانتا نہ روٹھتا
نہ بار بار ہنستا ، نہ زار زار روتا
تو نیتا نہ ہنستا، نہ روتا رلاتا
فی الحال وطن عزیز کی حالت یہ ہے کہ مودی جی ہر الیکشن کے بعد اپنی جیت پر خوب جی بھر کے ہنستے ہیں اور لوگ اپنی غلطی پر زار وقطار روتے ہیں۔ مغربی بنگال میں الٹا ہو گیا۔ مودی جی نے بہار اور اتر پردیش سے آنے والی بھیڑ کو اپنی ریلیوں میں دیکھ دیکھ کر خوب قہقہے لگائے لیکن وہ مجمع ووٹ نہیں دے سکا۔ اس لیے دو مئی کو دیدی تو نہیں گئی لیکن مودی جی کی آبرو چلی گئی۔ اس غم کو وزیر اعظم نے انیس دنوں تک اپنے چھپن انچ کے سینے میں دبائے رکھا کہ کسی طرح صدر راج لگا کر اقتدار ہتھیا لیں لیکن جب وہ کوشش بھی ناکام ہو گئی تو صبر کا دامن چھوٹ گیا اور انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب میں معالجوں کے سامنے رو دھو کر اپنا من ہلکا کرلیا۔ مودی جی کی تمام اداکاری چونکہ میک اپ کے بعد لائٹ اور کیمرے کے سامنے ہوتی ہے اس لیے پوری قوم اس سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ پچھلے 7 سالوں میں اس ایک کام کے سوا کوئی اور کام اتنی یکسوئی اور جانفشانی سے نہیں کیا گیا۔ مودی جی اگر اس ڈرامہ بازی سے اپنا قیمتی وقت نکال کر تھوڑی بہت توجہ ملک کے انتظامی امور پر بھی دیتے تو نہ ان کو رونے کی ضرورت پڑتی اور نہ قوم آنسو بہاتی۔
ایک سوال یہ ہے کہ آخر سیاستدانوں کو عوام کے سامنے رونے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اس کا ایک آسان جواب تو یہ ہے کہ آخر بچہ کیوں روتا ہے؟ وہ در اصل ماں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانا چاہتا ہے۔ جمہوریت میں چونکہ سیاستدانوں کا مائی باپ ووٹر ہوتا ہے اس لیے وہ ان کی توجہ حاصل کرنے کی خاطر روتا اور گڑگڑاتا ہے۔ ایک معصوم بچے کی ضرورت محدود ہوتی ہے وہ دودھ پی کر سو جاتا ہے لیکن گھاگ سیاستداں ای وی ایم کے ذریعہ ووٹوں سے پیٹ بھرنے کے بعد ہی پر سکون ہوتا ہے۔ اربابِ سیاست چونکہ بچے کی مانند بھولے بھالے نہیں ہوتے اس لیے یہ مثال ان پر صادق نہیں آتی۔ نیتا کے لیے ابھینیتا یعنی اداکار کی مثال زیادہ قرین قیاس ہے۔ اداکار ویسے تو شائقین کا دل بہلانے کی خاطر روتا دھوتا ہے لیکن اس کا مقصد اس کے بدلے اول تو فلم کا معاوضہ وصول کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اس دولت پر عیش کر سکے۔ وہ اس کے ذریعہ اپنی شہرت بھی بڑھاتا ہے تاکہ اگلی فلم میں معاوضہ کی رقم میں اضافہ کیا جا سکے۔ سیاستداں بھی ووٹ لے کر اقتدار پر فائز ہوتا ہے تاکہ عیش وعشرت کی زندگی گزار سکے نیز اپنی شہرت بڑھا کر اپنی سرکار کو مضبوط سے مضبوط تر کر سکے۔ مودی جی کا رونا پیٹنا اسی مقصد کے حصول کی خاطر ہے۔ اس پر عاشقی-۲ کا یہ نغمہ صادق آتا ہے؎
سن رہا ہے نہ تو رو ہا ہوں میں سن رہا ہے نہ تو کیوں رو رہا ہوں میں
منزلیں رسوا ہیں کھویا ہے راستہ، آئے لے جائے اتنی سی التجا
مودی جی کی قیادت میں قوم نے نہ صرف راستہ بلکہ منزل بھی کھو دی ہے اور وہ زندگی سے مایوس ہو کر ملک الموت کو آوازیں دے رہی ہے۔ وزیر اعظم ان کا غم غلط کرنے کی خاطر روئے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے لوگوں نے انہیں اس طرح ماتم کرنے کی خاطر واضح اکثریت کے ساتھ کامیاب کیا تھا؟ کیا ان کے پاس دنیا کی ساتویں بڑی معیشت کا خزانہ ٹیلی ویژن کے سامنے بھاشن دینے اور رونے کےلیے ہے؟ اور یہ رونا دھونا بھی عوام کو بیوقوف بنانے کی مشق ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس تماشے کے اگلے ہی دن ریزرو بینک نے اپنے ریزرو فنڈ سے مرکزی سرکار کو ۹۹ ہزار ۱۲۲ کروڑ روپے منتقل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ آر بی آئی کے گورنر شکتی کانت داس کی صدارت میں بورڈ نے موجودہ اقتصادی صورتحال عالمی اور گھریلو چیلنجوں، کووڈ-۱۹ کی دوسری لہر کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا۔ اس رقم کا ایک بڑا حصہ کورونا سے لڑنے کے بجائے وزیر اعظم کے محل اور دیگر سرکاری دفاتر کی تعمیر پر سینٹرل ویسٹا پروجیکٹ کے تحت خرچ ہوگا یعنی عوام تو روئیں اور سرکار دربار کے لوگ موج کریں گے۔
وزیر اعظم کی یہ نوٹنکی اب گھس پٹ گئی ہے اور جس طرح گھسی پٹی فلم باکس آفس پر نہیں چل پاتی اسی طرح ان کی اداکاری بھی فلاپ ہونے لگی ہے۔ اس بار تو زر خرید ذرائع ابلاغ نے بھی ان کے گھڑیالی آنسووں کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی اور ساری محنت اکارت چلی گئی۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ ان کی اس فلم کا پیشگی اعلان کسی بھکت نے نہیں بلکہ ایوان پارلیمان میں کٹر دشمن عآپ کے سنجے سنگھ نے ایک ماہ قبل کر دیا تھا۔ مودی جی جس وقت مغربی بنگال میں ہنس ہنس کر ممتا بنرجی کا مذاق اڑا رہے تھے تو پرینکا گاندھی نے ان پر تنقید کرتے ہوئے ٹویٹ کیا تھا کہ دیش کورونا کے قہر سے رو رہا ہے اور وزیر اعظم ہنس رہے ہیں۔ اس زمانے میں ۱۷؍ اپریل کو سنجے سنگھ نے ایک پیشنگوئی کی جو ۲۱؍ مئی کو پوری ہوئی۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’’ذرا انتظار کیجیے، وہ (وزیر اعظم) آپ کے سامنے آئیں گے۔ وہ لائٹس اور کیمروں کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ٹیلی ویژن کے سامنے روئیں گے۔ ملک کے سارے چینلس یہ دکھائیں گے کہ کس طرح وزیر اعظم نے جذبات سے مغلوب ہو رونا شروع کر دیا ہے۔ سنجے سنگھ کا نصف قیاس درست نکلا۔ وزیر اعظم نے اداکاری تو خوب کی مگر افسوس کہ مگر مچھ کے ان آنسووں پذیرائی نہ ہو سکی کیونکہ بقول ندا فاضلی ؎
اچھا سا کوئی موسم تنہا سا کوئی عالم
ہر وقت کا رونا تو بے کار کا رونا ہے
وزیر اعظم کا رونا اس لیے بھی بے وقعت ہو گیا کہ کورونا سے نا معلوم مرنے والے کے لیے تو وہ آنسو بہاتے ہیں لیکن ان کو کسی نے اپنے وزیر خزانہ، وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور سابق وزیر اعظم کی موت پر آبدیدہ ہوتے نہیں دیکھا۔ مودی جی کا رونا دھونا بڑا پرانا ہے۔ جنوری ۲۰۰۴ میں گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نریندر مودی کو پہلی مرتبہ کیمرے نے روتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس وقت وہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ زلزلہ زدہ شہر بُھج میں ایک اسپتال کے افتتاح میں شریک تھے۔ زلزلہ کے بعد تین سال کا وقفہ گزر چکا تھا اس درمیان گجرات میں دل دہلا دینے والے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ دو ہزار مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی لیکن مودی جی کی آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہیں ٹپکا۔ ان کے وزیر داخلہ ہرین پنڈیا کو قتل کر دیا گیا اس کے باوجود ان کا دل نہیں پگھلا مگر اسپتال کے افتتاح میں وہ نامعلوم زلزلہ زدگان کی یاد میں آنسو بہانے لگے تاکہ اگلے انتخاب میں ان کی مدد سے ووٹ مانگے جائیں۔ اس موقع پر مودی جی پر فلم ’گھر کا چراغ‘ کا یہ نغمہ صادق آتا ہے جسے کیفی اعظمی نے لکھا تھا؎
جال ہر راستے میں بچھاتا رہا، ظلم ڈھاتا رہا مسکراتا رہا
پھنس گیا خود تو بے چین ہوتا ہے کیوں، آج روتا ہے کیوں؟
گجرات کا زلزلے سے متاثر ہونے والا سوراشٹر دراصل سابق وزیر اعلیٰ کیشو بھائی پٹیل کا علاقہ ہے۔ ان کو بد انتظامی کے سبب ہاتھ آنے والی مقبولیت کے پیش نظر ہٹا کر نریندر مودی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔ اس لیے وہاں کے لوگ کیشو بھائی کو ہٹائے جانے کی وجہ سے ناراض تھے۔ وزیر اعلیٰ مودی نے اس موقع کا فائدہ اٹھا کر مقامی آبادی کی ہمدردیاں بٹورنے کی کوشش کی۔ وارانسی میں یہی صورتحال تھی کہ کورونا کی وبا عروج پر ہے۔ اس سنگین صورتحال کے لیے سارا عالم مودی جی کی بد انتظامی کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔ بی جے پی کی مقبولیت کا گراف دن بہ دن گر تا جا رہا ہے ایسے میں مودی جی کو اپنے حلقہ انتخاب کے رائے دہندگان کا خیال آیا۔ وہ وارانسی کے ڈاکٹروں سے ہمدردی جتاتے ہوئے رو پڑے۔ ان سترہ سالوں میں یہ فرق ضرور ہوا کہ اس بار ان کے آنسو ڈھلک کر رخسار پر نہیں آئے ممکن ہے وقت کے ساتھ مودی جی کے آنسو خشک ہو گئے ہوں اور خون سفید ہو گیا ہو۔
ان دو واقعات کے درمیان وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد مودی جی کم ازکم سات مرتبہ آنسو بہانے کا ڈرامہ کر چکے ہیں۔ وہ ہنستے کھیلتے قومی انتخاب تو جیت گئے لیکن اس کے بعد حلف برداری سے قبل ان کے گرو نے جب کہا کہ انہوں نے پارٹی کو کامیاب کرا کے اس پر احسان کیا ہے تو مودی جی جذباتی ہو گئے۔ اس کے جواب میں نمناک مودی بولے ہندوستان کی مانند بی جے پی بھی میری ماں ہے۔ کوئی بیٹا اپنی ماں پر احسان کیسے کر سکتا ہے؟ انہوں ایک ’غریب لڑکے‘ کو اس مقام پر پہنچانے کے لیے پارٹی کو سراہا۔ انتخابی نتائج کے بعداڈوانی جی یہ کہہ کر مودی جی کو ناراض کر چکے تھے کہ بی جے پی کی کامیابی کا سہرا کسی فرد کے نہیں بلکہ منموہن سرکار کی ناکامی کے سر ہے۔ انہیں اپنی اس غلطی کا احساس بعد میں ہوا اور اس کا کفارہ ادا کرنے کی خاطر مودی کی تعریف کر دی۔ حلف برداری کے وقت چونکہ مودی جی نے اپنی اہلیہ کی حق تلفی کی تھی اس لیے اس کی پردہ پوشی کی خاطر اس دن ان کی ماں ہیرا بین کی خوشی کے آنسو ٹیلی ویژن پر دکھلا کر جشودھا بین کے آنسو چھپا دیے گئے۔ مودی جی نے دہلی میں ہندوستان کو ماں کہا لیکن اپنی والدہ کو یاد کر کے رونے کا ناٹک ملک کے باہر بھی کیا۔ ستمبر ۲۰۱۵ کو فیس بک کے دفتر میں انہیں اپنی والدہ کی یاد آگئی۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے لیکن اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کہا اس سے سارا کھیل بگڑ گیا۔ ایک سال پہلے جو ’غریب لڑکا‘ وزیر اعظم بن گیا تھا اب وہ اپنی والدہ کے متعلق بتا رہا تھا کہ ۹۰ سال کی عمر میں وہ اپنے سارے کام خود کرتی ہیں۔ اس کے بعد آبدیدہ ہو کر وہ بولے والدہ نے ان کی پرورش کے لیے پڑوسیوں کے برتن مانجھے۔ یہ چونکانے والا انکشاف تھا اس لیے واشنگٹن پوسٹ کے صحافی نلنجن مکھو پادھیائے سے اس تصدیق کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس کے ثبوت سے انکار کر دیا۔ نلنجن نے چونکہ تحقیق کر کے مودی جی کی سوانح لکھی ہے اس لیے ان کی تردید کو رد کرنا آسان نہیں ہے۔ ویسے مودی جی جس خیالی پلیٹ فارم پر چائے بیچتے تھے وہاں مسافر نہیں بلکہ صرف مال گاڑی آتی تھی۔ چائے کون پیتا تھا کسی کو نہیں معلوم۔ ایک سال بعد اگست ۲۰۱۶ میں سوامی نارائن تنظیم کے سربراہ بوچا سنوانی کی موت پر مودی نے روتے ہوئے کہا کہ انہیں مندر کے افتتاح میں بلایا گیا تو سوامی جی نے شاگرد سے پیسے بھجوائے۔ انہیں پتہ تھا کہ میری جیب خالی رہتی ہے یعنی غریب لڑکا اب بھی غریب ہی تھا۔ اس مسکین لڑکے نے پوری قوم کو غربت میں جھونکنے کی خاطر نوٹ بندی کروادی۔ سارے ملک میں ہنگامہ مچ گیا تو وزیر اعظم نے نومبر ۲۰۱۶ کو رُندھی ہوئی آواز میں احسان جتایا ’’میں یہاں کرسی کے لیے نہیں آیا میں نے ملک کے لیے اپنا گھر اور خاندان چھوڑ دیا ہے‘‘۔ کاش کہ وہ ملک بھی چھوڑ دیتے۔ خیر لوگ اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔ انہوں پچاس دنوں کا وقت مانگ کر کہا تھا میں نے جن لوگوں کو للکارا ہے وہ مجھے جینے نہیں دیں گے۔ ویسے مودی جی کی مہربانی سے گوتم اڈانی ایشیا کا دوسرا سب سے امیر بن چکا ہے اور وبا کے باوجود مکیش امبانی پہلے نمبر پر ہے۔ سیاست میں امیت شاہ اور معیشت میں امبانی اور اڈانی کے کرم فرما کو گجرات کے صوبائی الیکشن میں راہل گاندھی نے دوڑا دیا۔ بڑی مشکل سے فتح حاصل ہوئی تو دسمبر ۲۰۱۷ میں اپنے وزیر اعظم تک کے سفر کو بیان کرتے ہوئے مودی جی تین بار روئے لیکن یہ بھی کہا کہ ان سے قبل کسی وزیر اعظم نے اتنے انتخابات نہیں جیتے۔ یہ بالکل درست بات ہے کیونکہ پہلے والے وزیر اعظم قوم کی فلاح بہبود میں وقت صرف کرتے تھے مودی جی تو صرف انتخاب میں مصروف رہتے ہیں۔
سن ۲۰۱۸ پھر سے جب مودی جی پولیس کی قومی یادگار بناتے ہوئے روئے تو لوگوں کو ہنسی آنے لگی۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی کی خاص خاتون الکا لامبا نے ٹویٹ کیا پہلے لوگ کہتے تھے ’عورتوں کی طرح بار بار کیوں روتے ہو۔ اب کہتے ہیں بار بار مودی کی مانند کیوں روتے ہو‘۔ اس بیچاری نے شاید یہ نغمہ نہیں سنا تھا
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر ایک بات پہ رونا آیا
ویسے اس تنقید سے بے نیاز مودی جی نے روتے ہوئے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل پچھلے ستر سالوں میں یہ یادگار کیوں تعمیر نہیں ہوئی؟ یعنی یہاں بھی سیاست کار فرما تھی۔ ۲۰۱۹ میں دوبارہ انتخاب جیتنے کے باوجود رونے دھونے کا کاروبار جاری رہا۔ فروری ۲۰۲۱ میں غلام نبی آزاد کی جدائی پر مودی جی ایوان پارلیمان میں اتنا روئے کہ درمیان میں پانی پینا پڑا۔ یہ آنسو دراصل کشمیر میں گجرات کے سیاحوں کے قتل پر بہائے گئے تھے۔ اس کے جواب میں آزاد بھی روئے اور اس مشہور نغمے کی یاد دلا دی
نہ اب آنسو رکے تو دیکھنا پھر ہم بھی رو دیں گے
ہم اپنے آنسووں میں چاند تاروں کو ڈبو دیں گے، فنا ہو جائے گی ساری خدائی آپ کیوں روئے
مودی کے رونے دھونے نے قوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔وزیر اعظم سے اگر پوچھا جائے کہ وہ بار بار روتے کیوں ہیں تو ممکن ہے یہ نغمہ سننے کو ملے
یہ آنسو میرے دل کی زبان ہیں
میں ہنس دوں تو ہنس دیں آنسو
میں رووں تو رو دیں آنسو
لیکن ان کے رونے کی داستان میں جھوٹ کا عنصر شامل ہے۔ حالیہ ماتم میں انہوں نے یوگی آدتیہ ناتھ کے ایوان پارلیمان میں پھوٹ پھوٹ کر رونے کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ وہ اتر پردیش میں بچوں کے دماغی بخار میں مبتلا ہونے سے روئے تھے جبکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ یوگی کی ویڈیو یو ٹیوب پر موجود ہے۔ وہ رو رو کر اپنی جان کو خطرے کا گلہ کر رہے تھے اور اسپیکر سومناتھ چٹرجی انہیں دلاسہ دے رہے تھے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ ان کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ یعنی مودی جی روتے ہوئے نہ صرف اپنے بارے میں بلکہ دوسروں سے متعلق بھی جھوٹ موٹ کی کہانی سناتے ہیں اس لیے ان کے گھڑیالی آنسووں پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ویسے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ مودی جی کو کورونا سے مرنے والوں کا دکھ ہے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ یہ سلسلہ اس وقت بھی جاری تھا جب وہ بنگال میں قہقہے لگا رہے تھے۔ دراصل مقبولت کی کمی سے وہ رنجیدہ ہیں۔
امریکہ کی ڈیٹا اینٹلیجنس کمپنی ’مارننگ کنسلٹ‘ کے مطابق اگست ۲۰۱۹ کے بعد سے مودی کی مقبولیت نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اینٹیلیجنس کا کہنا ہے کہ مودی کی ریٹنگ میں سب سے زیادہ گراوٹ اپریل میں ۲۲ پوائنٹ کے ساتھ درج ہوئی۔ یہ گراوٹ دہلی اور دوسرے شہروں کے اندر اسپتالوں میں بیڈز، آکسیجن، ادویات اور دیگر لازمی اشیاء کی کمی کی وجہ سے مریضوں کی ہلاکتوں مں اضافے کے دوران آئی۔ سروے کے مطابق ایک سال قبل جب کورونا کی پہلی لہر آئی تھی تب ۸۹ فی صد افراد نے کہا تھا کہ حکومت نے وبا پر بہتر انداز میں قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ کورونا کی دوسری لہر کے دوران اپریل کے آخر میں صرف ۵۹ فی صد افراد نے کہا کہ حکومت نے بہتر انداز میں اس بحران سے نمٹنے کی کوشش کی ہے۔
عام طور پر جب کسی غیر ملکی ادارے کی رپورٹ مودی یا سرکار کے خلاف ہوتی ہے تو اس کو ملک دشمن قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اسی سال جنوری میں جب اس ادارے نے مودی جی کو مقبول رہنما قرار دیا تھا تو بی جے پی کے سینئر لیڈر اور مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر نے اس پر فخر جتاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’مارننگ کنسلٹ‘‘ نے دنیا کے ۱۳ بڑے جمہوری ممالک کے لیڈروں کی مقبولت کے حوالے سے سروے کیا۔ اس جائزے میں مودی جی کو سب سے زیادہ ۵۵ فیصد مقبولیت کی شرح حاصل ہوئی ہے جو ان کی مقبولت کا ثبوت ہے‘‘۔ اس وقت ڈیٹا سروے آرگنائزیشن ’مارننگ کنسلٹ‘ کے مطابق تقریباً ۷۵ فیصد لوگوں نے کورونا سے متعلق انتظام کی بابت مسٹر مودی کے حق میں رائے ظاہر کی تھی۔ اب چار ماہ بعد اسی ادارے کی رپورٹ کو جھٹلانا سرکار کے لیے مشکل ہو گیا ہے اس لیے بی جے پی والے اس پر چپیّ سادھے ہوئے ہیں۔ سنگھ پریوار تن من دھن سے وزیر اعظم کی شبیہ سدھارنے میں جٹا ہوا ہے اور خود ان کا اپنا یہ حال ہے کہ؎
یوں حسرتوں کے داغ سیاست میں دھو دیے
لوگوں سے دل کی بات کہی اور رو دیے
***

سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے لوگوں نے انہیں اس طرح ماتم کرنے کی خاطر واضح اکثریت کے ساتھ کامیاب کیا تھا؟ کیا ان کے پاس دنیا کی ساتویں بڑی معیشت کا خزانہ ٹیلی ویژن کے سامنے بھاشن دینے اور رونے کےلیے ہے؟ اور یہ رونا دھونا بھی عوام کو بیوقوف بنانے کی مشق ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس تماشے کے اگلے ہی دن ریزرو بینک نے اپنے ریزرو فنڈ سے مرکزی سرکار کو ۹۹ ہزار ۱۲۲ کروڑ روپے منتقل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 29 مئی تا 05 جون 2021