یو پی: انتخابی ریلیوں پر پابندی

اترپردیش کے انتخابی عمل میں سیاسی ریلیوں اور روڈ شوز کا بہت اہم رول ہوتا ہے ۔ ملک کے تقریبا تمام بڑے سیاسی قائدین اترپردیش کے دورے کرتے ہوئے بڑے جلسے اور ریلیاں کرتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں عوام کی شرکت کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔ ملک کے وزیر اعظم ‘ وزیر داخلہ سے لے کر ریاستی جماعتوں کے سربراہان ‘ دوسری جماعتوں کے قائدین وغیرہ ریاست کے دورے کرتے ہیں اور یہاں عوام کو اپنی اپنی پارٹی یا اتحاد کے حق میں راغب کرنے کی سرتوڑ کوششیں کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا گیا تھا اور اسی وقت 15 جنوری تک ریلیوں اور جلسوں وغیرہ پر پابندی عائد کردی گئی تھی ۔ آج الیکشن کمیشن کی جانب سے اس پابندی میں مزید ایک ہفتے کی توسیع کی گئی ہے ۔ انتخابی ریلیوں کے عدم انعقاد سے حالانکہ ریاست میں انتخابی ماحول میں اس قدر شدت دیکھنے کو نہیں مل سکتی لیکن در پردہ سرگرمیوں میں پہلے ہی سے تیزی آگئی ہے ۔ بی جے پی کے تقریبا ایک درجن ارکان اسمبلی بشمول وزراء نے پارٹی سے ترک تعلق کرتے ہوئے سماج وادی پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے ریاست کے سیاسی ماحول کو گرما دیا تھا ۔ دعوے تو یہ بھی کئے جا رہے ہیں کہ کئی قائدین اور بھی ایسے ہیں جو بی جے پی کو چھوڑ کر سماج وادی پارٹی میں شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن پارٹی سربراہ اکھیلیش یادو نے ان قائدین کیلئے عملا اپنے دروازے بند کرلئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اب سماج وادی پارٹی میں مزید چند قائدین کی جگہ نہیں ہے ۔ اس طرح بی جے پی نے دوسری جماعتوں کے چند قائدین کو اپنی صفوں میں شامل کرتے ہوئے اپنے لئے ماحول سازگار بنانے کی کوشش کی تھی ۔ کانگریس کی جانب سے اپنی الگ سے تیاریاں جاری ہیں اور خواتین پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پرینکا گاندھی ریاست کی سیاست میں اپنی پارٹی اور خود اپنی سیاسی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ یہ سرگرمیاں اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں تاہم کورونا قواعد کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے اسی لئے کمیشن کی جانب سے انتخابی ریلیوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔
اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے احکام کو سیاسی جماعتوں اور مقامی سطح پر امیدواروں کی جانب سے خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔ پولیس اور دوسرے متعلقہ عہدیدار بھی اس طرح کی خاموشیوں پر تماشائی بنے رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ تاہم اب جبکہ ملک بھر میں کورونا کی تیسری لہر شدت دکھاتی جا رہی ہے ۔ یومیہ کیسوں کی تعداد میں مسلسل ریکارڈ اضافہ ہوتا جا رہا ہے ایسے میں سیاسی جماعتوں کو خود بھی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ان پابندیوں کا پاس ولحاظ رکھنا چاہئے ۔ کل ہی ریاست میں بی جے پی سے ترک تعلق کرنے والے قائدین کی سماجوادی پارٹی میں شمولیت کے موقع پر کورونا قواعد اور الیکشن کمیشن کے احکام کی سنگین خلاف ورزی ہوئی ہے اور وہاں ہزاروں کی بھیڑ امڈ آئی تھی ۔ پولیس کی جانب سے حالانکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے لیکن صرف مقدمہ کا اندراج سیاسی قائدین اور جماعتوں کو ایسی حرکتوں سے باز رکھنے کو کافی نہیں ہوسکتا ۔ یہ لوگ مقدمات سے خوفزدہ نہیں ہونے والے ۔ ان کیلئے مزید سخت کارروائیوں کو ترجیح دی جانی چاہئے ۔ کچھ ایسے قواعد تیار کرنے کی ضرورت ہے جن کے نتیجہ میں سیاسی جماعتیں اور ان کے امیدوار انتخابی ضابطوں کی پابندی کیلئے مجبور رہیں۔ انتخابات میں کامیابی کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار رہنے والے قائدین کو صرف مقدمات سے روکنا ممکن نہیں ہے ۔ الیکشن کمشین کو اس معاملے میں دوسرے موثر اقدامات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
خود عوام میں بھی اس تعلق سے شعور بیدار کیا جانا چاہئے ۔ عوامی صحت کو اولین ترجیح دیتے ہوئے پروگرامس تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر اترپردیش کی سیاسی اہمیت کے اعتبار سے یہاں انتخابی قوانین کی خلاف ورزی اور کورونا قواعد کو نظر انداز کرنے کے واقعات زیادہ پیش آسکتے ہیں۔ اس تعلق سے قبل از وقت عوام میں شعور بیدار کرنے اور امیدواروں میں بھی ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو حالات مزید ابتر ہوسکتے ہیں۔ ہمارے سامنے مغربی بنگال کی مثال ہے جہاں انتخابات میں خلاف ورزیوں کے مابعد انتخابات کورونا کیس حد سے زیادہ ہوگئے تھے ۔ یو پی میں اسکا اعادہ نہیں ہونا چاہئے ۔
مایاوتی کی خاموشی
اترپردیش انتخابات کیلئے تمام جماعتیں سرگرم ہوچکی ہیں۔ انتخابی شیڈول اور پہلے مرحلے کا اعلامیہ بھی جاری ہوچکا ہے ۔ ریاست میں بی جے پی اقتدار بچانے کیلئے جدوجہد کر رہی ہے تو سماج وادی پارٹی اقتدار پر واپسی کیلئے سردھڑ کی بازی لگا رہی ہے ۔ پرینکا گاندھی کی قیادت میں کانگریس پارٹی بھی ہاتھ پیر مار رہی ہے تاہم ریاست کی سیاست میں کبھی اہمیت رکھنے والی بہوجن سماج پارٹی اور اس کی سربراہ مایاوتی کی خاموشی سب کو کھل رہی ہے ۔ مایاوتی نے حالیہ عرصہ میں عوامی حلقوں میں کوئی مہم نہیں چلائی ہے ۔ اس کے دوسرے قائدین کی بھی سرگرمیاں زیادہ شدت سے دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ اترپردیش کے انتخابات کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے مایاوتی کی خاموشی پر کئی قیاس آرائیاں بھی ہو رہی ہیں تاہم وہ خود اس معاملے میں خاموشی اختیار کی ہوئی ہیں۔ مایاوتی کی خاموشی کیا رنگ لاتی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ یہ بھی کہنا مشکل ہوگا کہ ان کی خاموشی کب ٹوٹے گی تاہم ان کی خاموشی معنی خیز ضرور کہی جاسکتی ہے ۔
(داریہ 16 جنوری 2022 روزنامہ سیاست، حیدر آباد)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  23 جنوری تا 29جنوری 2022