کشمیریوں پر شورش کے نفسیاتی اثرات پر صائبا ورما کی تحقیق

را کے سابق افسر کی بیٹی ہونا مصنفہ کے لیے تنازعہ کا سبب بن گیا

غازی سہیل خان؍ سری نگر

کیلی فورنیا یونیورسٹی سین ڈیاگو کے کرٹیکل جینڈر اسٹڈیز پروگرام (university of california,san Diego’s critical Gender Studies department)نے بھارت سے تعلق رکھنے والی شعبہ بشریات(Medical and cultural anthropologist) میں اسوسی ایٹ پروفیسر اور سابق سی جی ایس(CGS) یعنی کرٹیکل جینڈر اسٹڈیز ایگزیکٹیو کمیٹی کی رکن اور فیکلٹی صائبا ورما سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی سین ڈیاگو نے ایک طویل بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ’’ہم سمجھتے ہیں کہ ’’ورما‘‘ کا کشمیر میں کام کرنے کا ایسا پُر تشدد فیصلہ تھا جسے کسی نے محسوس تک نہیں کیا کیوں کہ کشمیر میں انٹلی جنس ادارے نے ان کے والد کو (جو پہلے را میں ایک اعلیٰ عہدے دار تھے) اپنے مشن پر لگایا تھا۔ را بھارت کا خفیہ ادارہ ہے جس نے کشمیر اور بھارت کی دیگر ریاستوں میں تشدد، انسداد بغاوت اور انسداد دہشت گردی سے متعلق پالیسیوں کے تحت مختلف منصوبوں کو آزمایا ہے۔ کشمیری اسکالرز اور دیگر کارکنوں کی جانب سے ورما کو یونیورسٹی سے الگ کرنے کے مطالبے کے بعد کرٹیکل جنڈر اسٹڈیز نے ڈاکٹر ورما سے علیحدگی اختیار کر لی ہے ۔یعنی اب صائبا ورما یونیوسٹی سے منسلک نہیں ہوں گی ۔دراصل گزشتہ سال کشمیر پر ان کی جانب سے لکھی گئی ایک کتاب پر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ صائبا جو ماہر بشریات ہیں انہوں نے کارنل یونیورسٹی سے اسی شعبے میں پی ایچ ڈی کی ہے اور اس وقت وہ کیلی فورنیا یونیوسٹی سین ڈیاگو میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کا کام کشمیر اور جنوبی ایشیائی خطوں کے اردگرد تحقیق پر مرکوز ہے ۔صائبا ورما کی کتاب ’’مقبوضہ مطب : کشمیر میں مسلح افواج اور نگہداشت ‘‘(The occupied clinic: Militarism and care in kashmir) اکتوبر 2020 میں امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی پریس اور بھارت میں یودھا پریس کی جانب سے شائع کی گئی تھی ۔کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں جاری شورش کا لوگوں کے نفسیات پر کتنا برُا اثر پڑا ہے ۔ کتاب میں پوری تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ 2006 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق کشمیر کی ساٹھ فیصدی آبادی ڈپریشن، پریشانی، پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر ( PTSD) اور شدید تناو کا شکار ہے ۔مذکورہ کتاب میں مصنفہ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ محاصروں کا تعلق کس طرح سے انسانی موضوع کے ساتھ ہے۔ انہوں نے لوگوں کی گمشدہ کہانیوں کو منظر عام پر لانے کے لیے کشمیر کی ابتدائی سیاسی تاریخ کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے ۔ایک مبصر نے اس کتاب کے متعلق لکھا ہے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے ذریعے مستقبل میں b[hrtکے تمام قوم پرست نظریات اور خیالات رکھنے والے لوگوں کی پہچان ہوسکتی ہے۔ ورما اپنی اس کتاب میں ایک جگہ لکھتی ہیں کہ اگست 2016 میں اپنے دورے کے دوران SMHS ہسپتال سرینگر کا دورہ کیا جو تصادم کا مرکز بن گیا تھا، میں نے وہاں شورش کا مشاہدہ بھی کیا۔ جھڑپوں اور کرفیو کے دوران ہسپتال اُس وقت ایک ایسی جگہ تھی جہاں لاشیں اور زخمیوں کے ساتھ ساتھ فورسز کی زیادتیوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔صائبا ورما نے اس کتاب میں یہ بتانے کی بھی کوشش کی ہے کہ کس طرح کشمیر میں برسوں کی شورش نے کلینکس (مطب) اور لوگوں میں باہمی عدم اعتماد کو جنم دیا ہے اور اسی شورش کے سبب کلینک (مطب) بذات خود آدمی میں خوف پیدا کرتا ہے ۔
اس کتاب پر تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش تب کی گئی جب یہ انکشاف ہوا کہ صائبا ورما کے والد نوے کی دہائی میں کشمیر میں ہی ملکی خفیہ ایجنسی (RAW) یعنی ریسرچ اینڈ انالیسز ونگ کے افسر حیثیت سے تعینات تھے ۔کتاب کے شائع ہونے کے کئی روز بعد چودہ ستمبر کو سیٹلر اسکالر (Settler scholarship) نامی گمنام ٹوئٹر اکاونٹ کی جانب سے سلسلہ وار ٹوئٹس کیے گئے ۔ اس ٹوئٹر اکاونٹ نے دعویٰ کیا کہ وہ کشمیر کے کارکنوں طلباء اور محققین کے ایک گروپ کی نمائندگی کرتا ہے۔ ٹوئٹس میں بتایا گیا کہ صائبا ورما بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ریٹائرڈ رکن ’’کرشن ورما ‘‘کی بیٹی ہیں جو نوے کی دہائی میں کشمیر میں تعینات تھے۔ ٹوئٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’کیا ٹراما کے شکار مریض جانتے تھے کہ وہ کس سے بات کر رہے ہیں۔ کیا وہ تب بھی صائبا ورما سے بات کرنے میں آسانی محسوس کرتے جب انہیں یہ علم ہوتا کہ ان کے والد کون ہیں۔ کیا ان کے والد کے اثر نے اس کی تحقیق کے دوران صائبا ورماکی کسی طرح مدد کی؟ کیا صائبا نے کشمیر میں خصوصی رسائی حاصل کی؟ کیا صائبا ورما نے کشمیر میں والد کے کردارکو عوامی طور پر مسترد کر دیا ہے؟ وہ کتاب میں ان کا شکریہ ادا کرتی ہیں‘‘۔ اس کے جواب میں اپنے ٹوئٹر ای کاونٹ سے صائبہ ورما نے کہا کہ ایک گمنام اکاؤنٹ میرے والد کی ہندوستانی ریاست میں سابقہ پوزیشن کو لے کر میری تحقیق پر حملہ کر رہا ہے۔میرے والد ملکی تحفظ کے لیے کام کرتے تھے ۔جب میں دس سال کی تھی تب وہ کشمیر میں تھے۔میرا کام کشمیر میں ماضی اور حال کی تمام شورش سے نمٹنے (Counter insurgency) کو مسترد کرتا ہے۔ میں نے جو تحقیق کی ہے اس پر میرے والد کا براہ راست کوئی اثر نہیں تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپنے فیلڈ ورک کے دوران کشمیر میں اسکالروں اور صحافیوں کو اس کے بارے میں علم تھا۔ وہیں اس کے بعد صائبا کی حمایت میں را کے دو سابق افسر ’’اے ایس دلت‘‘ اور’’ وکرم سود‘‘ آے جنہوں نے صائبا کی جانب سے والد کی کشمیر میں پوسٹنگ کا افشا نہ کرنے پر کھڑے تنازعے کو غیر ضروری قرار دیا تھا۔ اس کے بعد والد کی کشمیر میں تعیناتی پبلشر کو نہ بتانے پر یودھا پریس نے جنوبی ایشیا میں اس کتاب کی اشاعت کو منسوخ کر دیا تھا۔ تاہم ڈیوک یونیوسٹی پریس کی جانب سے شائع ہونے والی یہ کتاب ایمزون پرموجو ہے۔ صائبا کے والد کرشن ورما ایوی ایشن ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر اور حکومت ہند کے لیے خصوصی سکریٹر ی بھی رہے ہیں۔ اپنے پینتیس سالہ کرئیر میں وہ جموں وکشمیر کے علاوہ شمال مشرقی ریاستوں میں بھی رہے ہیں۔ اس وقت وہ راشٹرا رکشا یونیورسٹی میں ریسورس فیکلٹی کے علاوہ عالمی انسداد دہشت گردی فورم (Global counter terrorism forum) کے ایڈوائزری بورڈ کے ممبر بھی ہیں۔
اب ایک تو اُنہیں یونیورسٹی نے مبینہ طور کشمیری اسکالرز کے کہنے پہ الگ کر دیا ہے تو دوسری طرف بھارت میں بعض دائیں بازو کے سخت گیر ہندوؤں کی جانب سے انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان ہی میں سے ایک ٹوئٹر صارف ’’وویک رنجن اگنی ہوتری‘‘ ہیں جنہوں نے ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے۔’’1) کشمیر میں اپنی خدمات دینے والے ایک را افسر کی بیٹی لبرل امریکی یونیورسٹی میں جہادیوں کو خوش کر کے مغربی سپاہی بننے کی کوشش کر تی ہے۔ 2) اپنے ہی لوگوں کو دھوکہ دیتی ہے اور ہندوستان کے دشمنوں اور جہادیوں سے ہمدردی رکھتی ہے۔ 3) پھر بھی جہادی اکیڈمی اسے رد کرتی ہے‘‘۔ ایک اور صارف سریندر چودھری نے لکھا ’’ڈاکٹر صائبا ورما نے جہادیوں کا ساتھ دینا پسند کیا ہے، ان کے حق میں کتاب لکھ دی۔ انہوں نے اسے استعمال کیا، پھر اس کے خلاف رپورٹ دی اور اسے چھوڑ دیا‘‘ ۔ایک اور ٹوئٹر صارف نے طنزیہ انداز میں لکھا ’’میرے ساتھ صائبا ورما پر ہنسنے کے لیے شامل ہو جائیں جو کہ بشریات کی پروفیسر ہیں، یونیورسٹی میں جس نے کشمیر پر ایک کتاب لکھی ہے اور بھارت کو استعمار کے بطور دکھایا ہے اس کے باوجود بھی اسے مسلمانوں نے مسترد کر دیا اور اب اپنے جینڈر اسٹڈیز کے پروگرام سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی۔ اسلام پسند اب اس کی نوکری کے پیچھے پڑ گئے ہیں‘‘ اس کے علاوہ درجنوں ٹوئٹس کے ذریعے ڈاکٹر صائبا ورما کو مسلسل ٹرول کیا جا رہا ہے ۔
اس سارے منظر نامے کو سمجھتے ہوئے یہاں غیر جانب داری سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ صائبا ورما کے والد را افسر کے بطور کشمیر میں تعینات ہونے کے باوجود اس کے تحقیقی کام پر کوئی اثر نہیں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔تحقیقی کام تاریخ سے جُڑا ہوتا ہے اور تاریخ کبھی جھوٹی نہیں ہوتی۔ایک محقق تبھی اپنی تحقیق میں کامیاب اور کسی نتیجے پر پہنچ سکتا ہے جب وہ بغیر اپنے کسی مفاد کے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے پیش کرنا چاہے۔ غیر جانب دارانہ تحقیق کے سبب ہی قومیں آگے بڑھتی ہیں لہٰذا ورما کی کشمیر کے متعلق اس تحقیقی کتاب کے شائع ہونے کے بعد یونیورسٹی کے پروگرام کو کھونے کے حوالے سے ایک محقق نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ورما نے اپنی تحقیقی کتاب میں ابھی تک کسی حد تک کشمیر کے اصل حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم جو یہ کہا جا رہا ہے کشمیری طلبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ سے یہ اعتراض کیا ہے کہ مصنفہ کے والد کشمیر میں را کے افسر کے طور کام کر رہے تھے جس کو موصوفہ نے اپنی تحقیق کے دوران چھپائے رکھا تھا لہٰذا وہ یونیورسٹی کے ساتھ منسلک رہنے کا کوئی حق نہیں رکھتیں، میرے خیال میں یہ کشمیریوں اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے، کوئی کشمیری مسلمان اس طرح کی حرکت نہیں کر سکتا کہ بھارت کی شہری ہونے کے باوجود کشمیر کے اصل حالات کی عکاسی اپنی کتاب میں کرنے پر اس کے خلاف اس طرح کی کارروائی کا سببب بنے۔ یہ تو قابل افسوس ہے۔ محقق موصوف نے مزید کہا کہ اصل میں مجھے لگتا ہے کہ ورما کے خلاف اس طرح کا ماحول بنایا جا رہا ہے تاکہ اس کتاب کو لکھنے کی سزا کے طور اُسے ایک تو یونیورسٹی سے الگ کیا جائے اور دوسرا مشکلات میں اضافہ کر کے دیگر لوگوں کے لیے اسے نشان عبرت بنایا جائے تاکہ اگر کسی نے بھی اس طرح کی حرکت یا ملک میں کسی کے بھی خلاف ظلم یا زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی یا کچھ لکھنے کی کوشش کی تو اس کی زندگی کو بھی اسی طرح مشکل بنا دیا جائے گا۔
[email protected]
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  23 جنوری تا 29جنوری 2022