حکمراں جماعت نفرت انگیز تقاریر پر نہ صرف خاموش ہے بلکہ اس کی تائید بھی کر رہی ہے: سابق جج روہنٹن نریمن

نئی دہلی، جنوری 19: سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس روہنٹن نریمن نے حال ہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں پر ملک میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقریرکو لے کر خاموشی پر تشویش کا اظہار کیا۔

نریمن نے یہ تبصرہ 14 جنوری کو ممبئی کے ڈی ایم ہریش اسکول آف لاء کے افتتاح کے موقع پر ’’قانون کی حکمرانی کی آئینی بنیادیں‘‘ کے موضوع پر کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کیا۔

نریمن نے کہا ’’ہماری بدقسمتی سے حکمران جماعت کے اعلیٰ طبقے کے لوگ نہ صرف نفرت انگیز تقریر پر خاموش ہیں بلکہ تقریباً اس کی تائید بھی کرتے ہیں۔‘‘

ان کے تبصرہ نے فرقہ وارانہ جرائم کے متعدد واقعات پر توجہ مرکوز کی جو ملک بھر میں رپورٹ ہو رہے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہندوتوا شدت پسندوں نے مسلمانوں کی نسل کشی کی ترغیب دی، کرسمس کی تقریبات میں خلل ڈالا اور عیسائیوں پر حملہ کیا۔ انھوں نے آن لائن پلیٹ فارمز پر مسلم خواتین پر نازیبا تبصرے بھی کیے ہیں اور انھیں ’’نیلامی‘‘ کے لیے سوشل میڈیا ایپ بنا کر پیش کیا، اور پولیس کے مطابق جعلی سکھ ناموں کا استعمال کرتے ہوئے مبینہ طور پر دو برادریوں کے درمیان دشمنی پیدا کی ہے۔

اگرچہ ان میں سے کچھ معاملات میں گرفتاریاں کی گئی ہیں لیکن کئی گروپوں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی حکومت کو قصورواروں کے خلاف آواز نہ اٹھانے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

جمعہ کو اپنے خطاب میں نریمن نے مودی کا نام لیے بغیر مغل حکمران اورنگ زیب اور مراٹھا حکمران شیواجی کے درمیان موازنہ کرنے پر بھی تنقید کی۔

وہ گزشتہ ماہ کاشی وشوناتھ کوریڈور کے افتتاح کے موقع پر مودی کے ایک تبصرہ کا حوالہ دے رہے تھے۔ مودی نے کہا تھا کہ ’’جب بھی کوئی اورنگ زیب تلوار کے زور سے ہماری ثقافت کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، ایک شیواجی اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔‘‘

نریمن نے کہا کہ وزیر اعظم کو مغل بادشاہوں بابر یا اکبر سے موازنہ کرنا چاہیے تھا، جو سیکولر اسناد کے حامل تھے۔

انھوں نے ایک خط بھی پڑھ کر سنایا جو بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کو لکھا تھا جس میں اسے مشورہ دیا گیا تھا کہ ’’ہندوستان‘‘ پر حکومت کیسے کی جائے۔

خط میں کہا گیا ہے ’’یہ مناسب ہے کہ آپ تمام مذہبی تعصبات سے پاک دل کے ساتھ، ہر برادری کے اصولوں کے مطابق انصاف کریں… اور خاص طور پر گائے کی قربانی سے پرہیز کریں…‘‘

ریٹائرڈ جج نے نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف عدم فعالیت کے مقابلے میں طلبا رہنماؤں اور اسٹینڈ اپ کامیڈین پر بغاوت کے قانون کے استعمال پر تنقید کی۔

انھوں نے زور دے کر کہا کہ آئین میں بغاوت کے قوانین کی ’’کوئی جگہ نہیں ہے‘‘ اور انھیں ختم کیا جانا چاہیے۔