سیرت صحابیات سیریز(۱۶)

خاتون جنت حضرتفاطمہ الزہراؓ 

رفتار و گفتار اور عادات و خصائل میں رسول کریمؐ کا بہترین نمونہ
فاطمہ نام۔ رسول اللہ ﷺ کی چوتھی اور سب سے چھوٹی صاحب زادی تھیں۔ والدہ حضرت خدیجۃ الکبریؓ تھیں۔ سیدۃ النسا العالمین، سیدۃ النسا اہل الجنۃ زہرا، بتول، طاہرہ، مطہرہ، راضیہ، مرضیہ اور زاکیہ ان کے مشہور القاب ہیں۔
سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے زمانہ ولادت کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ان کی ولادت بعثت نبوی سے پانچ سال قبل ہوئی جب کہ سرور کائنات کی عمر مبارک پینتیس برس کی تھی۔ ایک اور روایت کے مطابق ان کی پیدائش بعثت سے ایک سال پہلے ہوئی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ ۱بعثت میں پیدا ہوئیں۔
بچپن ہی سے نہایت متین اور تنہائی پسند تھیں۔ نہ کبھی کسی کھیل کود میں حصہ لیا اور نہ گھر سے قدم باہر نکالا۔ ہمیشہ والدہ ماجدہ کے پاس بیٹھی رہتیں۔ ان سے اور رسول اکرمؐ سے ایسے ایسے سوالات پوچھتیں جن سے ان کی ذہانت و فطانت کا ثبوت ملتا۔ دنیا کی نمود و نمائش سے نفرت تھی۔ ایک دفعہ حضرت خدیجۃ الکبریؓ کے کسی عزیز کی شادی تھی۔ انہوں نے فاطمۃ الزہرا کے لیے عمدہ کپڑے اور زیورات بنوائے۔ جب گھر سے چلنے کا وقت آیا تو سیدہ نے یہ قیمتی کپڑے اور زیور پہننے سے انکار کردیا اور سادہ حالت میں ہی محفل میں شرکت کی۔ گویا بچپن ہی سے ان کی حرکت و سکنات سے خدا پرستی اور استغنا کا اظہار ہوتا تھا۔
حضرت خدیجۃ الکبریؓ سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیتی تھیں۔ ایک دفعہ جب وہ ان کو تعلیم دے رہی تھیں تو ننھی بچی نے پوچھا۔ ’’اماں جان اللہ تعالیٰ کی قدرتیں تو ہم ہر وقت دیکھتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ خود نظر نہیں آسکتے‘‘۔
حضرت خدیجۃ الکبریؓ نے فرمایا : ’’میری بچی اگر ہم دنیا میں اچھے کام کریں گے اور خدا کے احکام پر عمل کریں گے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے مستحق ہوں گے اور یہی اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا‘‘۔
۱۰ بعثت میں حضرت خدیجۃ الکبریؓ نے وفات پائی تو سیدہؓ پر کوہ غم ٹوٹ پڑا۔ حضورؐ نے سیدہؓ کی تربیت اور نگہداشت کے خیال سے حضرت سودہؓ سے نکاح کرلیا۔ حضورؐ کی حیات مبارکہ یکسر تبلیغ حق کے لیے وقف تھی لیکن جب بھی آپؐ کو فرصت ملتی آپ بیٹی کے پاس تشریف لاتے انہیں دلاسا دیتے اور نہایت قیمتی نصائح سے نوازتے۔
تنہائی کے اوقات میں حضرت حفصہ بنت عمر فاروقؓ ۔ حضرت عائشہ بنت ابو بکر صدیقؓ۔ حضرت اسما بنت ابوبکر صدیق ؓ اور فاطمہ بنت زبیرؓ وغیرہ سیدہؓ کے پاس وقتاً فوقتاً آبیٹھتیں اور ان کی غمگساری و دلجوئی کرتیں۔ تبلیغ حق کے جرم میں مشرکین، رسول مقبولؐ کو بڑی تکلیفیں پہنچاتے۔ کبھی سر اقدس پر خاک ڈال دیتے کبھی راستے میں کانٹے بچھا دیتے۔ جب حضور گھر تشریف لاتے تو حضرت فاطمہؓ انہیں تسلی دیا کرتیں۔ کبھی وہ خود بھی اپنے جلیل القدر باپ کی مصیبتوں پر اشک بار ہوجاتیں، اس وقت حضورؐ نہیں تسلی دیتے اور فرماتے ’’میری بچی گھبراو نہیں خدا تمہارے باپؐ کو تنہا نہ چھوڑے گا‘‘۔
ایک مرتبہ حضورؐ خانہ کعبہ میں نماز ادا کررہے تھے ۔ کفار کو شرارت سوجھی۔ انہوں نے اونٹ کی اوجھڑی لاکر سجدے کی حالت میں حضور کی گردن مبارک پر ڈال دی۔ اس شریرگروہ کا سرغنہ عقبہ بن ابی معیط تھا۔ کسی نے حضرت فاطمۃ الزہراؓ کو آکر بتایا کہ تمہارے باپ کے ساتھ شریروں نے یہ حرکت کی ہے۔ بے چین ہوگئیں، دوڑتی ہوئی کعبہ پہنچیں اور حضورؐ کی گردن مبارک سے اوجھڑی ہٹائی۔ کفار ارد گرد کھڑے ہنستے اور تالیاں بجاتے تھے۔ سرور کونین کی جلیل القدر بیٹی نے ایک نگاہ چشم آلود ان پر ڈالی اور فرمایا: ’’شریرو احکم الحاکمین تمہیں ان شرارتوں کی ضرور سزا دے گا‘‘۔
خدا کی قدرت کہ چند سال بعد یہ سب جنگ بدر میں ذلت کے ساتھ مارے گئے۔
جب کفار مکہ کی شر انگیزی اور ایذا رسانی حد سے زیادہ بڑھ گئی تو بارگاہ الٰہی سے رسول کریمؐ کو ہجرت کا حکم ہوا۔ 13بعد بعثت میں حضورؐ یک رات حضرت علی کو اپنے بستر مبارک پر سلا کر حضرت ابو بکر صدیق کی معیت میں عازم مدینہ ہوئے۔ مدینہ پہنچنے کے لیے کچھ دن بعد حضور نے اپنے اہل و عیال کو لانے کے لیے اپنے غلام حضرت ابو رافع اور حضرت زید بن حارثہ کو مکہ بھیجا۔ ان دونوں حضرات کے ہم راہ حضرت فاطمہ حضرت ام کلثوم ، حضرت سودہ بن زمعہ، حضرت ام ایمن اور اسامہ بن زیدق نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ مدینہ پہنچ کر حضرت سودہؓ اور بنات طاہرات حضورؓ کے پاس اپنے نئے گھر میں قیام پذیر ہوئیں۔
سیدہ فاطمۃ الزہراؓ رفتار و گفتار اور عادات و خصائل میں رسول کریمؐ کا بہترین نمونہ تھیں۔ وہ نہایت متقی، صابر قانع اور دین دار خاتون تھیں۔ گھر کا تمام کام کاج خود کرتی تھیں، چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے۔ گھر میں جھاڑو دینے اور چولہا پھونکنے سے کپڑے میلے ہوجاتے تھے لیکن ان کے ماتھے پربل نہیں آتا تھا۔ گھر کے کاموں کے علاوہ عبادت بھی کثرت سے کرتی تھیں۔ حضرت علیؓ، سلطان الفقرا تھے۔ فاطمۃ الزہراؓ نے بھی فقر و فاقہ میں ان کا پورا پورا ساتھ دیا ۔ جلیل القدر والد شہنشاہ عرب بلکہ شہنشاہ دو جہاں تھے لیکن داماد اور بیٹی پر کئی کئی وقت کے فاقے گزر جاتے تھے۔ ایک دونوں میاں بیوی آٹھ پہر سے بھوکے تھے۔ حضرت علیؓ کو کہیں سے مزدوری میں ایک درہم مل گیا۔ رات ہوچکی تھی۔ ایک درہم کے جو کہیں سے خرید کر گھر پہنچے۔ فاطمہ بتولؓ نے ہنسی خوشی اپنے نامدار خاوند کا استقبال کیا جو ان سے لے کر چکی میں پیسے، روٹی پکائی اور علی کے سامنے رکھ دی جب وہ کھاچکے تو خود کھانے بیٹھیں۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ مجھے اس وقت سید البشرؐ کا یہ ارشاد یاد آیا کہ فاطمہ دنیا کی بہترین عورت ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب فتوحات اسلام روز بہ روز وسعت پذیر ہورہی تھیں۔ مدینہ منورہ میں بہ کثرت مال غنیمت آنا شروع ہوگیا تھا۔ ایک دن حضرت علیؓ کو معلوم ہوا کہ مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں آئیں ہیں۔ سیدہ فاطمہؓ سے کہا ’’فاطمہ چکی پیستے پیستے تمہارے ہاتھوں میں آبلے پڑگئے ہیں اور چولہا پھونکتے پھونکتے تمہارے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا ہے۔ آج حضورؐ کے پاس مال غنیمت میں بہت سی لونڈیاں آئی ہیں، جاو سرکار دو عالم سے ایک لونڈی مانگ لاو‘‘۔ حضرت فاطمہ الزہراؓ نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئیں لیکن شرم و حیا حرف مدعا زبان پر لانے میں مانع ہوئی۔ تھوڑی دیر حضورؐ کی خدمت میں حاضر رہ کر واپس آگئیں، اور حضرت علیؓ سے کہا کہ مجھے حضور سے کنیز مانگنے کا حوصلہ نہیں پڑتا۔ پھر دونوں میاں بیوی حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اپنی تکالیف بیان کیں اور ایک لونڈی کے لیے درخواست کی۔ سرور کائنات نے فرمایا:میں تم کو کوئی قیدی خدمت کے لیے نہیں دے سکتا۔ ابھی اصحاب صفہؓ کی خوردو نوش کا تسلی بخش انتظام مجھے کرنا ہے، میں ان لوگوں کو کیسے بھول جاوں، جنہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر خدا اور خدا کے رسول کی خوشنودی کی خاطر فقر و فاقہ اختیار کیا ہے‘‘۔دونوں میاں بیوی خاموشی سے گھر واپس آ گئے۔ ابن سعد اور حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ رات کو حضور ان کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ تم جس چیز کے خواہش مند تھے اس سے بہتر ایک چیز میں تم کو بتاتا ہوں۔ ہر نماز کے بعد دس دس بار سبحان اللہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر پڑھا کرو اور سوتے وقت سبحان اللہ الحمدللہ ۳۳، ۳۳ بار اور اللہ اکبر ۳۴ بار پڑھ لیا کرو۔ یہ عمل تمہارے لیے بہترین خادم ثابت ہوگا۔
ایک دفعہ رسول کریمؐ حضرت فاطمہ الزہراؓ کے ہاں تشریف لے گئے دیکھا کہ سیدۃ النساؓ اونٹ کی کھال کی لباس پہنے ہوئی ہیں اور اس میں بھی تیرہ پیوند لگے ہیں۔ آٹا گوندھ رہی ہیں اور زبان پر کلام الٰہی کا ورد جاری ہے۔ حضورؐ یہ منظر دیکھ کر آب دیدہ ہوگئے اور فرمایا: ’’فاطمہ! دنیا کی تکلیف کا صبر سے خاتمہ کرو اور آخرت کی دائمی مسرت کا انتظار کرو اللہ تمہیں نیک اجر دے گا‘‘۔
حضرت ابو ذر غفاریؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضورؐ نے مجھے حکم دیا کہ علیؓ کو بلا لاو۔ جس وقت میں ان کے گھر گیا تو دیکھا کہ سیدۃ النسا حضرت حسینؓ کو گود میں لیے چکی پیس رہی ہیں۔
فی الحقیقت سیدہؓ کا اکثر یہ حال ہوتا تھا کہ دو وقت کے فاقے ہوتے تھے اور بچوں کو گود میں لے کر چکی پیسا کرتی تھیں۔
ایک دفعہ فاطمۃ الزہرا مسجد نبوی میں تشریف لائیں اور روٹی کا ایک ٹکڑا سرکار دو عالمؐ کو دیا ۔ حضور نے پوچھا : ’’یہ کہاں سے آیا ہے‘‘۔ سیدہ نے جواب دیا ’’ابا جان تھوڑے سے جو پیس کر روٹی پکائی تھی جب بچوں کو کھلا رہی تھی، خیال آیا کہ آپ کو بھی تھوڑی سی کھلا دوں۔ اے خدا کے رسول برحق یہ روٹی تیسرے وقت نصیب ہوئی ہے‘‘۔ حضورؐ نے روٹی تناول فرمائی اور عرض کیا:
اے میری بچی چار وقت کے بعد یہ پہلا ٹکڑا ہے جو تیرے باپ کے منہ میں پہنچا ہے۔
سرور عالمﷺ حضرت فاطمۃ الزہراؓ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی نے غورا بنت ابی جہل سے نکاح کا ارادہ کیا۔ سیدہ النسا سخت آزردہ ہوئیں۔ جب رسول کریمؐ ان کے پاس تشریف لائے تو سیدہؓ نے عرض کیا : ’’یا رسول اللہ علی مجھ پر سوکن لانا چاہتے ہیں۔‘‘ حضورؐ کے دل پر سخت چوٹ لگی۔ ادھر غورا کے سرپرست بھی حضورؐ سے نکاح کی اجازت لینے آئے۔ سرور کائناتؐ مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر چڑھ کر فرمایا:آل ہشام علیؓ سے اپنی لڑکی کا عقد کرنے کے لیے مجھ سے اجازت چاہتے ہیں۔ لیکن میں اجازت نہ دوں گا۔ البتہ علی میری لڑکی کو طلاق دے کر دوسری لڑکی سے شادی کرسکتے ہیں۔ فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جس نے اس کو اذیت دی، اس نے مجھے اذیت دی۔ جس نے اس کو دکھ پہنچایا اس نے مجھے دکھ پہنچایا۔ میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرنا چاہتا لیکن خدا کی قسم اللہ کے رسولؐ کی بیٹی اور دشمن خدا کی بیٹی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں‘‘۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ حضرت علیؓ نے ارادہ نکاح فوراً ترک کردیا اور سیدہ فاطمۃ الزہراؒ کی زندگی تک پھر دوسرے نکاح کا خیال تک دل میں نہ لائے۔
حضورؐ کو جیسی اپنی بیٹی سے محبت تھی ویسے ہی اپنے داماد اور نواسوں سے بھی بے حد پیار تھا۔ فرمایا کرتے ’’جن لوگوں سے تم ناراض ہوگئے میں بھی ان سے ناخوش ہوں گا، جن سے تمہاری لڑائی ہے ان سے میری بھی لڑائی ہے، جن سے تمہاری صلح ہے ان سے میری بھی صلح ہے‘‘۔
حضرت علی سے فرمایا کرتے ۔ ’’اے علیؓ تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو‘‘
فاطمۃ الزہراؓ کے فرزندوں امام حسنؓ اور حسینؓ کو حضورؐ بھی اپنے جگر کے ٹکڑے سمجھتے تھے۔ نہایت محبت سے انہیں بوسے دیتے اور اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے تھے۔
وفات نبویؐ سے کچھ دن پہلے حضرت فاطمہ الزہراؓ حضور ؐ کی خبر گیری کے لیے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حجرہ میں تشریف لائیں۔ حضورؐ نے نہایت شفقت سے انہیں اپنے پاس بٹھالیا اور ان کے کان میں آہستہ سے کوئی بات کہی، جسے سن کر وہ رونے لگیں۔ پھر حضور نے کوئی اور بات ان کے کان میں کہی، جسے سن کر وہ ہنسنے لگیں۔ جب چلنے لگیں تو عائشہ صدیقہؓ نے ان سے پوچھا ’’اے فاطمہؓ تیرے رونے اور ہنسنے میں کیا بھید تھا‘‘ سیدہ ؓ نے فرمایا : جو بات حضورؐ نے اخفا میں رکھی ہے میں اسے ظاہر نہ کروں گی‘‘۔رسول کریم ﷺ کی رحلت کے بعد ایک دن حضرت عائشہ صدیقہؓ اور بعض روایتوں کے مطابق حضرت ام سلمہؓ نے حضرت فاطمہؓ سے اس دن کے واقعہ کی تفیصل پوچھی۔ حضرت فاطمۃ الزہراؓ نے فرمایا: ’’پہلی دفعہ حضور نے فرمایا تھا کہ پہلے جبریل سال میں ہمیشہ ایک بار قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے۔ اس سال خلاف معمول دوبار کیا ہے اس سے قیاس ہوتا ہے کہ میری وفات کا وقت قریب آگیا ہے‘‘ اس پر میں رونے لگی۔
پھر حضور نے فرمایا تھا : ’’تم اہل بیت میں سب سے پہلے مجھے ملو گی اور تم جنت کی عورتوں کی سردار ہوگی‘‘۔ اس بات سے مجھے خوشی ہوئی اور میں ہنسنے لگی۔
رحلت سے قبل جب حضورؐ پر بار بار غشی طاری ہوئی تو حضرت فاطمۃ الزہراؓ کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ فرمایا و اکرب اباہ۔ ہائے میرے باپ کی بے چینی۔
حضورؐ نے فرمایا: ’’تمہارا باپ آج کے بعد بے چین نہ ہوگا‘‘
سرور کائناتؐ کی وفات سے حضرت فاطمۃ الزہراؓ پر غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ انہوں نے بے اختیار ہوکر فرمایا:پیارے باپ نے دعوت حق کو قبول کیا اور فردوس بریں میں داخل ہوئے۔ آہ جبریل کو ان کے انتقال کی خبر کون پہنچاسکتا ہے۔
پھر دعا مانگی : ’’بار الٰہا روح فاطمہ کو روح محمدؐ کے پاس پہنچا دے۔ خدایا مجھے رسول کریم کے دیدار سے مسرور کردے۔ الٰہی بہ روز محشت شفاعت محمدؐ سے محروم نہ فرما‘‘۔
بعض روایتوں میں ان میں سے ایک مرثیہ بھی منسوب ہے، جو انہوں نے حضور کے وصال پر کہا۔ اس مرثیہ میں وہ کہتی ہیں
’’آسمان غبار آلود ہوگیا۔ آفتاب لپیٹ دیا گیا۔ دنیا میں تاریکی ہوگئی۔ نبی کے بعد زمین نہ صرف غمگین ہے بلکہ فراط الم سے شق ہوگئی ہے۔ ان پر قبیلہ مضر کے لوگ اور تمام اہل یمن روتے ہیں۔ بڑے بڑے پہاڑ اور محلات روتے ہیں۔ اے خاتم الرسلؐ خدا آپ پر رحمت نازل فرمائے‘‘۔
نبی اکرم ﷺ کی تجہیز و تکفین کے بعد صحابیات اور صحابہ کرامؓ تعزیت کے لیے ان کے پاس آتے تھے لیکن ان کو کسی پہلو قرار نہ آتا تھا۔ تمام کتب سیر متفق ہیں کہ حضور کی وفات کے بعد کسی نے سیدہ فاطمۃ الزہرا کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔
حضورؐ کی وفات کے بعد آپؐ کی میراث کا مسئلہ پیش ہوا۔ فدک ایک موضع تھا۔ جو حضور نے بعض لوگوں کو اس شرط پر دے رکھا تھا کہ جو پیداورا ہو نصف وہ رکھیں اور نصف حضور کو بھیج دیا کریں۔ حضور اپنے حصے میں سے کچھ اپنے اہل وعیال کے خرچ کے لیے رکھ لیتے اور باقی مسافروں اور مساکین پر صرف کردیتے تھے۔ حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ کو بعض لوگوں نے بتایا کہ فدک نبی کریمؐ کی ذاتی ملک تھا اور آپ اس کے وارث ہیں۔ چناں چہ انہوں نے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کے پاس فدک کی وراثت کا دعویٰ کیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا ’’اے فاطمہ میں رسول اللہ کے اعزہ کو اپنے اعزہ سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ انبیا کرام جو متروکہ چھوڑتے ہیں وہ کُل کا کُل صدقہ ہوتا ہے۔ اور اس میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔ اس لیے میں اس جائیداد کو تقسیم نہیں کرسکتا۔ البتہ حضورؐ کی حیات اقدس میں اہل بیت اس سے جو استفادہ کرتے تھے وہ اب بھی کرسکتے ہیں‘‘۔
حضرت فاطمہ الزہراؓ کو اس جواب سے بہت رنج پہنچا اور وہ حضرت ابو بکر صدیقؓ سے ناراض ہوگئیں اور اپنی زندگی تک ان سے نہ بولیں۔
ایک راویت میں ہے کہ وہ بیمار ہوئیں تو حضرت ابوبکر صدیقؓ عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ سیدہؓ نے انہیں اپنے مکان کے اندر آنے کی اجازت دے دی اور اپنی رنجش دور کردی۔
رسول کریمؐ کی جدائی کا سب سے زیادہ صدمہ سیدۃ فاطمۃ الزہراؒ کو ہوا اور وہ ہر وقت غمگین و دل گرفتہ رہنے لگیں۔ ان کا دل ٹوٹ چکا تھا۔ حضورؐ کی وفات کے چھ ماہ بعد ہی ۳ رمضان المبارک ۱۱ ہجری کو ۲۹ سال کی عمر میں عازم فردوس بریں ہوئیں۔ وفات سے پہلے حضرت اسما بنت عمیس کو بلا کر فرمایا: ’’میرا جنازہ لے جاتے وقت اور تدفین کے وقت پردے کا پورا لحاظ رکھنا اور سوائے اپنے اور میرے شوہر نامدار کے اور کسی سے میرے غسل میں مدد نہ لینا۔
تدفین کے وقت زیادہ ہجوم نہ ہونے دینا‘‘
حضرت اسماؓ نے کہا ’’اے بنت رسول! میں نے حبش میں دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر ایک ڈولے کی صورت بنالیتے ہیں اور اس پر پردہ ڈال دیتے ہیں‘‘۔ پھر انہوں نے کھجور کی چند شاخیں منگوائیں اور انہیں جوڑ کر اور ان پر کپڑا تان کر سیدہ بتولؓ کو دکھایا۔ انہوں نے اسے پسند فرمایا۔ چناں چہ وفات کے بعد ان کا جنازہ اسی طریقے سے اٹھایا گیا۔ جنازے میں بہت کم لوگوں کو شرکت کا موقع ملا کیوں کہ سیدہؓ کی وفات رات کے وقت ہوئی اور حضرت علیؓ نے وصیت کے مطابق رات ہی کو دفن کیا۔ نماز جنازہ حضرت عباسؓ نے پڑھائی اور حضرت علی نے حضرت عباس اور حضرت فضل بن عباس نے قبر میں اتارا۔ دار عقیل کے ایک گوشے میں مدفون ہوئیں۔
سیدۃ النسا فاطمۃ الزہراؓ کو چھ اولادیں ہوئیں۔ حضرت امام حسن حضرت امام حسینؓ حضرت محسنؓ ، حضرت ام کلثومؓ ، رقیہؓ اور زینبؓ ۔ محسن ؓ اور رقیہؓ نے بچپن ہی میں انتقال کیا۔ حضرت امام حسنؓ ،امام حسین، حضرت زینبؓ اور حضرت ام کلثوم تاریخ اسلام کی نامور شخصیتیں ہیں۔ حضورؐ کی نسل فاطمۃ الزہراؓ ہی سے باقی رہی۔
اہل سیر نے حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے بے شمار فضائل و مناقب بیان کیے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:
سیدالمرسلینؐ نے حضرت ’’فاطمہؓ کو جنت کی عورتوں کا سردار‘‘ فرمایا ہے۔
حضورؐ حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کرتے : اے فاطمہؓ تم اور تمہارا خاوند اور تمہاری اولاد میرے ساتھ جنت میں سب ایک جگہ ہوں گے‘‘
حضرت فاطمہ الزہراؓ ان کے شوہر نامدار اور فرزندوں کی شان میں اللہ تعالیٰ نے آیت تطہیر نازل کی۔
حضرت فاطمۃ الزہراؓ سے کتب احادیث میں اٹھارہ حدیثیں مروی ہیں۔ ان کے رواۃ میں حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ام سلمہؓ جیسی جلیل القدر ہستیاں شامل ہیں۔
(طالب الہاشمی کی کتاب ’تذکار صحابیات‘ سے ماخوذ)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  23 جنوری تا 29جنوری 2022