یو اے پی اے کیا ہے؟

دلی فسادات کیس میں عمر خالد کو یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔انسداد دہشت گردی کا یہ سخت قانون کیا ہے؟ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہوئے ملک گیر احتجاج میں نمایاں ہونے والی طاقتور آوازوں کو دلی فسادات کی سازش رچنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے کورونا وائرس کے وباء کے دوران لگے لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر دلی پولیس نے بے شمار گرفتاریاں عمل میں لائیں۔ زبردستی اعترافِ جرم اور اقبالی بیانات کے ذریعے من مانی چارج شیٹ داخل کیے گئے۔

انگریزی روزنامہ ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ کی کالم نگار صوفی احسن نے عمر خالد پر یو اے پی اے لگائے جانے کے تناظر میں ایک چھوٹا سا مضمون تحریر کیا ہے جس کے تحت یہ سمجھایا گیا ہے کہ یو اے پی اے کیا ہے اور اس کے عواقب وعوامل کیا ہیں۔

یو اے پی اے (UAPA) کیا ہے اور اس کا استعمال کیا ہے؟

یو اے پی اے (UAPA) دراصل بنیادی طور پر دہشت گردی مخالف قانون ہے جس کا مقصد انفرادی یا اجتماعی غیر قانونی دہشت گردانہ سرگرمیوں پر مؤثر طور پر قابو پانا ہے۔ یہ قانون 1967میں علیحدگی پسند تنظیموں سے نمٹنے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ اس قانون کو ٹاڈا اور پوٹا جیسے قوانین کا پیشرو مانا جاتا ہے۔ یہ دونوں قوانین بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے تھے لیکن حقوق انسانی کی تنظیموں نے دونوں قوانین کو بھی بہت سخت اور سیاہ قوانین قرار دیا تھا جس کے بعد انہیں واپس لے لیا گیا تھا۔ یو اے پی اے میں وقتاً فوقتاً ہونے والی ترمیموں نے اس کو اور زیادہ سخت بنا دیا ہے۔ 2019میں ہونے والی آخری ترمیم کی رُو سے اب کسی بھی انفرادی شخص کو دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے تنظیموں کو ہی دہشت گرد قرا ر دیا جا سکتا تھا۔ یو اے پی اے کے مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔

اس قانون کا استعمال روایتی قسم کی دہشت گردی یا دہشت گردانہ سرگرمیوں کی بجائے دوسرے واقعات میں ہوتا رہا ہے۔ یہ قانون عرصہ سے رضا کاروں، طلبا، لیڈروں اور صحافیوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بھیما کورے گاؤں کیس میں بھی رضا کاروں کے خلاف اس قانون کے تحت مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ کشمیر میں دو صحافیوں کے علاوہ دلی میں طلبا تنظیم پنجرہ توڑ کی رضاکار دیونگنا کلیتا اور نتاشا نروال، کانگریس کی سابق کونسلر عشرت جہاں، یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کے خالد سیفی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ صفورا زرگر اور اب عمر خالد کے خلاف اس قانون کا استعمال کیا گیا ہے۔

عمر خالد اور دیگر کے خلاف یہ کارروائی ایک ایف آئی آر نمبر 2020-59 کی بنیاد پر کی گئی ہے جس میں آئی پی سی کی دفعات 302 , A-153اور 124-A بھی شامل کی گئی ہیں۔ یہ دفعات بالترتیب قتل، مذہب کی بنیاد پر مختلف طبقات میں دشمنی کو فروغ دینے اور ملک سے غداری سے بحث کرتی ہیں۔ پولیس نے اپنے کیس میں اس الزام کو کلیدی بنیاد بنایا ہے کہ مشرقی دہلی میں فروری 2020کے فرقہ وارانہ فسادات کا پیشگی منصوبہ عمر خالد اور دوسروں نے بنایا تھا۔ عمر خالد پر الزام ہے کہ انہوں نے اشتعال انگیز تقریریں کیں اور لوگوں کو سڑکوں پر نکل آنے کے لیے اکسایا تاکہ ٹرمپ کے دورہ کے دوران اس پروپگنڈے کی زیادہ سے زیادہ تشہیر ہو کہ ہندوستان میں اقلیتوں کو ستایا جا رہا ہے۔ پولیس نے عمر خالد کے خلاف وہاٹس ایپ کے مکالموں کے تبادلہ کو، سازش کو انجام دینے کے لیے استعمال کرنے نیز، مبینہ طور پر گواہوں کے بیانات اور اندرون ملک اور غیر ملکوں سے حاصل شدہ فنڈ کے ثبوت اکٹھا کرنے کا دعویٰ کیا ہے لہذا ان کے خلاف درج مقدمہ میں بعد میں یو اے پی اے کی دفعات 13, 17, 16  اور 18 کا اضافہ کیا گیا ہے۔اس ایکٹ کے تحت غیر قانونی سرگرمیوں کی تشریح اس طرح کی گئی ہے: کوئی بھی ایکشن‘ خواہ بول کر ہو یا لکھ کر ہو‘ علامت اور اشارے کے طور پر ہو یا نظر آنے والا ہو۔جس کا مقصد ملک کے کسی بھی حصہ میں علیحدگی پسندی کا دعویٰ کرنا ہو یا اس میں تعاون کرنا ہو اور جو کسی کو بھی علیحدگی پسندی پر ابھارتا ہو‘ جو ہندوستان کی علاقائی سالمیت پر سوال اٹھاتا ہو‘ یا اس میں خلل ڈالتا ہو یا خلل ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہو اور جس سے ہندوستان میں نا امیدی یا عدم استحکام پیدا ہوتا ہو۔ (نا امیدی کی قانون میں مزید تشریح نہیں کی گئی ہے اور یہ لفظ صرف ایک بار استعمال ہوا ہے)

یو اے پی اے کے سیکشن 13 کے تحت ہر اس شخص کو سات سال تک کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے جو کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی وکالت کرے‘ کسی کو اس پر آمادہ کرے‘ کسی کو اس کا مشورہ دے یا اسے انجام دینے کے لیے اکسائے۔سیکشن 16 کے تحت اس شخص کو موت یا عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے جس کے غیر قانونی عمل سے کسی کی موت واقع ہوگئی ہو۔۔۔ یہ قانون کسی دہشت گردانہ سرگرمی کی تشریح اس طرح کرتا ہے: ایسا ایکشن جو ملک کے اتحاد‘ اس کی سالمیت‘ تحفظ یا اقتدار اعلی کے لیے خطرہ پیدا کرے یا اس کا ارادہ کرے اور ایسا ایکشن جس سے کوئی زخمی ہوجائے یا اس کی موت ہو جائے یا اس کا سبب بنے اور پراپرٹی کو نقصان پہنچائے یا اس کا سبب بنے۔

سیکشن 17 کے تحت دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے اور سیکشن 18 کے تحت کسی دہشت گردانہ سرگرمی کے لیے سازش کرنے یا اس کی تیاری کرانے کی پاداش میں سزا دینے کا حق ہے۔

دلی پولیس انسداد دہشت گردی کے قانون کے اطلاق کا کس طرح جواز فراہم کرتی ہے؟

عمر خالد کے خلاف یو اے پی اے لگانے پر جو لوگ نکتہ چینی کر رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ اختلاف رائے یا پر امن احتجاج‘ ملک کے خلاف عدم استحکام کا سبب نہیں بنتا لیکن پولیس نے عدالت میں کہا ہے کہ یہ فسادات حکومتی مشینری کو خوف زدہ کرنے کے لیے ایک بڑی سازش کے طور پر کرائے گئے تھے اور یہ کہ حکومت ہند کے خلاف عدم استحکام اور بغاوت پیدا کرنا سازش رچنے والوں کا ایک خاص مقصد‘ ہدف اور مینڈیٹ تھا۔ استغاثہ نے یہ بھی کہا ہے کہ احتجاج کا مقصد حکومت ہند کو برباد کرنا‘ غیر مستحکم کرنا اور توڑنا تھا تاکہ حکومت دباؤ میں آکر سی اے اے اور این آر سی کو واپس لے لے۔

کیا یو اے پی اے دوسرے قوانین کے مقابلے میں زیادہ سخت ہے؟

یو اے پی اے کے تحت ماخوذ ملزموں کو  شاذ ونادر ہی ضمانت ملتی ہے۔ اس ضمن میں صرف صفورا زرگر کو ضمانت ملی ہے اور وہ بھی دہلی ہائی کورٹ نے انسانی بنیادوں پر دی ہے‘ کیس کے میرٹ کی بنیاد پر نہیں۔ عدالت اگر مطمئن ہو کہ بادی النظر میں ملزم پر مقدمہ درست ہے تو وہ ضمانت کی درخواست کو مسترد کر سکتی ہے۔ ملزم پیشگی ضمانت کا مطالبہ نہیں کر سکتا اور تفتیش کی مدت 90دن سے بڑھا کر 180دن کی جا سکتی ہے۔ یعنی ملزم کو کم سے کم 180دن تو ضمانت ملنے کا کوئی امکان نہیں۔ یو اے پی اے کے تحت ملزم کو 15دن کے بجائے 30 دن کے لیے پولیس کی تحویل میں دیا جا سکتا ہے۔