آل انڈیا کشمیر کمیٹی۔۔ قادیانی ایجنڈا!

داستاں بدل گئی اِک نکتۂ مروان سے۔۔

ش م احمد، کشمیر

 تاریخ گواہ ہے کہ ۱۳؍ جولائی ١٩٣١ نے کشمیر کی سیاسی تاریخ کا رُخ یکسر بدل کر رکھ دیا تھا۔ بلاشبہ یہ شہدائے کشمیر کے پاک لہو کی دین تھی کہ اس خوں چکا واقعہ کے کچھ ماہ بعد ریاستی سطح پر ’’جموں و کشمیر مسلم کانفرنس‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ مگر اندوہناک سانحہ کا فوری رد عمل یہ بھی تھا کہ شمالی ہند میں رہنے والے کشمیری تارکین وطن سمیت عام پنجابی مسلمانوں میں مظلومانِ کشمیر کی حمایت کی زوردار لہر چل پڑی۔ یہاں دو سطحوں پر اہم پیش رفت ہوئی:

1- ’’مجلسِ احرار پنجاب‘‘ نے کشمیر کاز کے لیے انقلاب کا راستہ اختیار کر لیا۔

2-  25؍ جولائی 1931 کو کشمیریوں کا درد و غم بانٹنے کے نام پر ’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ کشمیریوں کے تئیں مجلس کے بے لوث اظہار یکجہتی کے پیچھے اس کا خالص مذہبی جذبہ کار فرما تھا ۔ اسی ناطے احرار نے اَٹل فیصلہ لیا کہ مجلس اہلِ کشمیر کے سلب شدہ حقوق کی بازیابی کے لیے راست اقدام تک سے گریز نہ کر ے گی۔ ابتداً افہام وتفہیم کو پہلی ترجیح دے کر انہوں نے شخصی حکومت سے گفت و شنید کا راستہ اختیار کیا. چنانچہ احرار کا ایک نمائندہ وفد سرکردہ لیڈر مولانا مظہر علی کی رہنمائی میں وزیر اعظم کشمیر سے مذکرات کی میز پر بیٹھا۔ مولانا نے مہاراجی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار کے سامنے کشمیریوں کا دُکھڑا مطالبات کی صورت میں پیش کیا۔ زبانی طور بھی کشمیریوں کی مدافعت میں اپنی قوتِ گویائی بھی خرچ کی مگر بے سود کیوں کہ مکالمے سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ ظاہر ہے شخصی راج کشمیری مسلمانوں کے تئیں نرم گوشہ اپنانے کا روادار نہیں ہوسکتا تھا۔ ویسے بھی تاناشاہی نظام کا اصل الاصول ظلم وجبر اور بربریت ہوتا ہے۔ اس نظام کے لیے رعایا کے ساتھ عدل گستری کا مطلب ہے خود اس کا خاتمہ۔ مہاراجی نظام بھی اسی اصول پر کاربند تھا۔ بایں ہمہ مذاکرات کی ناکامی سے نہ احرار کی ہمت متزلزل ہوئی نہ عزم و ارادوں کے قدم ڈگمگائے۔ انہوں نے راست اقدام کے طور پر اپنے ہزاروں رضاکار براستہ سوچیت گڑھ کشمیر روانہ کیے تاکہ وہ کشمیر میں ظلم کے خلاف عوامی انقلاب و بغاوت برپا کرسکیں۔ احراری رضاکاروں کا داخلہ کشمیر میں روکنے کے لیے حکومت نے امتناعی احکامات نافذ کیے، مگر جھتے پوری گرم جوشی کے ساتھ واردِ کشمیر ہوتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کشمیر کی حدود میں قدم رکھتے ہی انہیں پابند سلاسل کیا جاتا رہا۔ اس غیر متوقع صورت حال سے مہاراجہ کے اوسان خطا ہوئے۔ اُس نے مہاراجہ پنجاب سے درخواست کی کہ احراری جتھوں کو مارچ پنجاب میں ہی روکے۔ ان وجوہ سے احراریوں کی جوشیلی تحریک زیادہ دیر چل نہ سکی مگر اس سے 13؍ جولائی کے معاً بعد غیر منظم تحریک کشمیر میں ایک نئی حرکت و حرارت دوڑ گئی۔

 تحریکِ احرار کے بالکل برعکس کشمیر کاز کے نام پر ’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی‘‘ قائم ہوئی۔ کمیٹی کے زیر نظر ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘ کے مصداق کچھ اور ہی مقاصد کی آبیاری منظور تھی۔ اسے معرضِ وجود میں لانے میں چونکہ مرزائیوں کا زبردست عمل دخل تھا اس لیے زبانی کلامی کمیٹی جس نصب العین پر گامزن ہونے کا عندیہ دیتی تھی پس پردہ کمیٹی کی حقیقت کچھ اور تھی۔ موٹے طور پر کمیٹی کے اغراض و مقاصد میں کشمیر میں کسی سیاسی انقلاب کی دعوت تھی نہ شخصی نظام کے خلاف کسی ناراضگی کا شائبہ، بلکہ کمیٹی مرزائی سوچ کے عین مطابق حالات کو جوں کا توں رکھنے کی قائل تھی۔ البتہ مہاراجی قانون و آئین کے دائرے میں رہ کر اس کا سروکار کشمیری قیدیوں کی قانونی چارہ جوئی اور مقدموں کی پیروی تھا۔ اس کے منشور میں درج تھا کہ آئینی ذرائع سے مسلمانانِ کشمیر کے جائز اور واجبی حقوق دلائے جائیں گے اور نظر بند کشمیریوں کے مقدمات کی پیروی کی جائے گی۔ اُس وقت کشمیریوں کی بے نوائی کے پس منظر میں اتنا بھی غنیمت مانا جاتا۔ مگر کمیٹی کی رگ وپے میں مسلمانوں کے سواد اعظم سے کٹے مرزائیوں کا غیر معمولی اثر و رسوخ اس کے وجود پر سوالیہ نشان بنا ہوا تھا۔ اسی سوالیہ نشان نے ایک موڑ پر شیخ صاحب اور میر واعظِ کشمیر کو آپسی شکر رنجیوں، تلخیوں اور کدورتوں کی نذر کر کے ایک دوسرے سے بہت دور کر دیا۔

 کشمیر کی سیاست میں شخصیاتی ٹکراؤ کی یہ کڑواہٹ تاریخ کا المیہ تھا، ایک حادثہ تھا، اغیار کی سازش تھی، مقہور قوم کی بد نصیبی تھی یا جو کچھ بھی کہیے سو ٹھیک مگر مذکورہ دو اہم لیڈروں کے درمیان چپقلش کے پیچھے بنیادی طور قادیانی تنازعہ ہی ایک اہم معاملہ تھا۔ تنازعے کی ایک کڑی یہ بھی تھی کہ17 ؍ دسمبر 1932 کو جب شیخ صاحب مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور گئے تو ان کی عدم موجودگی میں میر واعظ صاحب نے شہر خاص کی خانقاہِ نقشبند صاحب میں اپنی مجلسِ وعظ کے دوران شیخ کو علانیہ طور پر مرزائی کہا۔ اس گل افشانی سے سری نگر میں ’’شیر بکرا‘‘ کے نام سے دو متحا

رب گروپ بن گئے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ پہلا دھڑا شیخ عبداللہ کا حامی تھا جب کہ دوسرا طبقہ میر واعظ کے عقیدت مندوں پر مشتمل تھا۔ دونوں کے درمیان ہاتھا پائی، پتھراؤ اور تصادمات ایک معمول بنا۔ لڑائی دنگوں کی اس آفت سے نجات پانے کے لیے دونوں لیڈروں کو ’’امن معاہدہ‘‘ نام سے ایک اعلامیہ، وقت کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس وزیر محمد خان کی موجودگی میں جاری کرنا پڑا مگر بے سود۔ اتنا ہی نہیں بلکہ میر واعظ نے مسلم کانفرنس تک سے بھی علحٰیدگی اختیار کرلی۔

 مسلم کانفرنس کی بالائی قیادت میں مذہبی اختلاف کی کوکھ سے جنم لینے والی سیاسی سر پھٹول سے جو شر انگیزیاں منصہ شہود پر آئیں انہوں نے بالآخر کشمیری مسلمانوں کے کھاتے میں اتنا بھاری نقصان درج کیا کہ ان کی تمام قربانیاں رائیگاں ہوئیں۔ صحیح تر لفظوں میں اُن کی سیاسی جدوجہد ایک بے لنگر جہاز ثابت ہوئی۔ سچ مچ مسلمانانِ کشمیر میں تصادم وتزاحم کا یہ نکتۂ مروان مسلم آبادی کے لیے اول تاآخر شکست کا افسوس ناک پیغام تھا۔

 کشمیری قیادت دو پہاڑ ہونے کی وجوہ میں مورخین ومبصرین ضمناً یہ اشارے دیتے ہیں کہ شیخ محمد عبداللہ اور میر واعظ یوسف شاہ صاحب کے مابین پھوٹ کی خارجی وجوہات کے ساتھ ساتھ کچھ داخلی اسباب بھی ذمہ دار تھے۔ ان کی رائے میں میر واعظ کے بعض خاص الخاص مصاحبوں نے مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے جب شیخ صاحب کی بڑھتی ہوئی ہردلعزیزی دیکھی تو اُنہیں کھٹکا لگا کہ جو اولیت اب تک میر واعظ خاندان کو کشمیر میں مسندِ قیادت پر براجمان رکھے ہوئی تھی اور جس والہانہ عقیدت کے سہارے خانوادۂ میر واعظاں اپنے ہم وطنوں کی اجتماعی زندگی میں سکہ جمائے تھا، نئی سیاسی قیادت اُبھر نے سے یہ حسنِ عقیدت اب شیخ صاحب کی ذات سے مرکوز اور منسوب ہو رہی تھی۔ اس مبنی بر حقیقت تجزیہ سے اُن لوگوں نے میر واعظ سے شیخ مخالف کن سوئیاں شروع کیں۔ ان فتنہ پرور کن سوئیوں کا میر واعظ پر کوئی اثر ہوا کہ نہیں اس بارے میں واللہ اعلم بالصواب کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ بہت جلد میر واعظ نے شیخ کو مرزائیوں کے دائرہ اثر سے باہر آنے اور مرزائیوں کو تنظیم سے نکال باہر کر نے کی صلاح دی شیخ نے میر واعظ کی صلاح کی اَن سنی کر دی۔ یہی وہ معاملہ تھا جس پر اُن میں ٹھن گئی۔ اس طرح وقت کے دو اہم سیاسی کرداروں میں اتنی خلیج پیدا ہوئی جو پھر کبھی پاٹی نہ جا سکی ۔

 جب حالات نے یہ منفی رُخ اختیار کیا کہ کشمیر کی ہنگامہ خیز سیاست شیخ بمقابلہ میر واعظ پر مرتکز ہوئی تو عوام میں بھی اختلافات اور تفرقہ بازی کی مسموم ہوائیں شدت کے ساتھ چلنے لگیں۔ یہ صورت حال مہاراجی نظام کے لیے گویا ہوا کا تازہ جھونکا تھی۔

یہاں یہ بات لکھے بغیر چارہ نہیں کہ کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر قادیانیت کے بڑھتے قدموں سے میر واعظ کو جو فکر و تشویش لاحق تھی، وہ قابلِ فہم تھی کیوں کہ دیو بند سے فارغ ایک حساس ذہن، زیرک مذہبی رہنما سے اسی چیز کی توقع کی جا سکتی تھی۔ میر واعظ کشمیری قادیانیت کے خلاف صف آراء علمائے دیو بند، خاص کر اپنے مرشد ومربی مولانا انور شاہ کشمیری کی جانب سے دفاعِ ختم نبوت کے حوالے سے اُن کی ہمہ و قت علمی، نظری اور مناظرانہ سرگرمیوں کے چشم دید گواہ تھے، وہ مقدمۂ بہاول پور جیسے عدالتی معرکوں سے لا تعلق ہو سکتے تھے اور نہ اپنی منصبی ذمہ داریوں سے بے اعتنائی برت سکتے تھے۔ اس بنا پر میر واعظ کا مسلم کانفرنس کی صفوں میں قادیانیوں کا سرگرم کردار اُن کے لیے ناقابل قبول تھا۔ البتہ کشمیر کے مرزائی شیخ عبدالصمد سے لے کر مولوی عبداللہ وکیل تک ناخواندگی اور لاعلمیت کی اندھیر نگری میں وہ پڑھا لکھا طبقہ تھا جن سے شیخ کی ذہنی قرابت تھی۔ اول تو شیخ بڑے سیاسی قد وقامت کے حامل لیڈر تھے دوم، ان کو تمام طبقاتِ خیال کو اپنے ساتھ رکھنے کی مجبوری تھی، سوم، ممکنہ طور قادیانیوں کی جانب سے تحریکِ کشمیر میں غیر معمولی دلچسپی کے سیاسی اغراض و مقاصد کا گورکھ دھندا میر واعظ اور شیخ کے فہم سے بالا تر تھا۔ یوں جہاں میر واعظ قادیانیوں کی مخالفت کرنے کے باوجود اُن کا کھیل نہ بگاڑ سکے بلکہ خود سیاسی اعتبار سے حاشیہ پر چلے گئے۔ وہاں قوم شیخ کے تئیں شخصیت پرستی کی رو میں بہ کر اپنے خراب ہوتے مستقبل تک کو نظر انداز کرتی گئی۔ لمحوں کی اس خطا نے کس کس طرح صدیوں کی سزا پائی، وہ آج بھی ہمارے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند عیاں و بیاں ہے۔ شیخ پر مرزائی ہونے یا اُن سے خفیہ ساز باز رکھنے کا الزام کوئی چھوٹا الزام نہ تھا۔ اس سے اُن کی سیاسی شبیہ پر حرف گیری ہوتی رہی۔ چنانچہ ایک موقع پر انہیں لاہور میں، جہاں یہ افواہیں کچھ زیادہ گشت کر رہی تھیں، اپنے تئیں مرزائی نہ ہونے کا اعلان تک کرنا پڑا ساتھ ہی یہ کہ کر انہوں نے اپنی سیاسی مجبوری کا رونا بھی رویا کہ ’’ہم اپنی اس جدوجہد میں ہر طبقہ کی امداد کا خیر مقدم کریں گے‘‘ (اشرف عطاء ’’کچھ شکستہ داستانیں، کچھ پریشان تذکرے‘‘)

 تاریخ دان اس امر پر متفق ہیں کہ قادیانیوں کے زیر اثر ’’کشمیر کمیٹی‘‘ محض ایک چھلاوا تھا، جب کہ اس کے پسِ پردہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اُنہیں مسلم اکثریتی کشمیر میں اپنے قدم جمانے کا موقع ملے۔ اصل میں قادیانیوں کی اوپری قیادت ملک میں نئی سیاسی کروٹوں کے بیچ اپنے لیے ایک سیاسی پناہ گاہ کی متلاشی تھی۔ اُن کی نظریں کشمیر پر پڑیں تو منہ میں یہ سوچ کر رال ٹپکی کہ ہو نہ ہو کشمیر میں وہ اپنی ایک جداگانہ ریاست قائم کر سکیں گے یا کم ازکم انہیں آگے ریاست کی طرف سے ویسی ہی حوصلہ افزائی، تحفظ اور سہارا ملے گا جیسے انگریزوں کی علانیہ وفاداری کے صلے میں انہیں ملتا رہا تھا۔ قادیانی اکابرین چاہتے تھے کہ انگریزوں سے آزادی پانے کے بعد بھی اس مذہبی اقلیت کو اُسی پیمانے کی حکومتی چھتر چھایہ ملے جو ملک کی جد و جہد آزادی سے جفاکاریاں کرنے اور گورے آقاؤں سے مصالحانہ اور دوستانہ روش اختیار کرنے کی شاباشی میں ان کو ملی تھیں۔ مرزا بشیر الدین کے ذہن میں برصغیر سے انگریز چلے جانے کے بعد کسی مرزائیت نواز ریاست کا خاکہ مچل رہا تھا تاکہ وہاں وہ اپنے فکر کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی بالا دستی قائم کر سکیں۔ اس کے لیے مرزا کی نظر انتخاب کشمیر پر پڑی۔

بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر ۶

مبصرین کی رائے میں یہی وجہ تھی کہ شملہ میں ذوالفقار علی خان کی رہائش گاہ پر جب کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تو اس کی صدارت مرزا بشیرالدین محمود احمد کے ہاتھ سونپ دی گئی اور عبدالرحیم دردؔ اس کے سیکرٹر ی بنائے گئے۔ شملہ اجلاس میں جو لوگ مدعو کیے گئے تھے ان کو دعوت نامے مرزا کی طرف سے ہی ملے تھے۔ ظاہر ہے وہ اکثریت میں مرزائی ہی تھے یا ان کے ہم نوا۔ کشمیری الاصل علامہ اقبال جیسی مستند ہستی کا کمیٹی کے مرکزی عہدے کے لیے منتخب نہ کیا جانا اس بات کی چغلی کھا رہا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اگرچہ علامہ اقبال بھی بعد ازاں کمیٹی کے مرکزی قائد بن گئے مگر وہ بھی کمیٹی میں مرزائیوں کے زبردست عمل دخل کے سبب اس سے مستعفی ہوئے۔ مرزا بشیرالدین کو بھی ایک موڑ پر کمیٹی سے مستعفی ہونا پڑا (تفصیلات آگے آئیں گی)

 مرزائی جماعت کشمیر کمیٹی کی آڑ میں نئی کشمیری قیادت سے بآسانی راہ ورسم رکھنے کے قابل ہوئی تھی۔ یہ روابط ملاقاتوں اور دوستیوں کے چکر سے آگے بڑھ کر ان لیڈروں کی مالی امداد تک پہنچ گئی تو سارا کھیل قادیانیوں کے ہاتھ آگیا۔ قائدین ِ کشمیر کو اپنا ممنونِ احسان کر کے مرزائی جماعت نے کہیں لوگوں کی ہمدردیاں جیت لیں تو کہیں اس کے لیے سماجی پذیرائی کا حصول ممکن بنا اور کہیں اس کے واسطے تبلیغ و اشاعت کے امکانات روشن ہوئے۔ مگر بہ حیثیت مجموعی مرزائیت کشمیری مسلمانوں میں اپنا اثر ونفوذ قائم نہ کر سکی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ سیاسی قیادت اس ایک نکتۂ مروان کی وجہ سے جس طرح دست وگریباں ہو کر باہم دگر شکوک وشبہات کی نذر ہوئی اس کی بھاری قیمت کشمیری عوام کو چکانی پڑی۔ جب کہ قیادت ذاتیات کے گرداب میں اُلجھ گئی، قوم کا ملّی اتحاد پارہ پارہ ہوا اور کشمیر کا سیاسی مستقبل ڈانوا ڈول ہو کر رہا۔

(   ش م احمد کشمیر کے آزاد صحافی ہیں)