الزامات کو عدالت میں ثابت کرنا ممکن نہیں

سی اے اے مخالف تحریک کی پرزور آوازیں نشانے پر. ہفت روزہ دعوت سے ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس سے خاص بات چیت

ڈاکٹر قاسم رسول الیاس ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر ہونے کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبر اور ماہ نامہ افکار ملی کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ دہلی تشدد سے متعلق ایک چارج شیٹ میں ان کے بھی نام کا ذکر ہے۔ 1500 صفحات کی ایک چارج شیٹ میں دلی پولیس نے ایک گواہ کے ذریعہ ان پر چاند باغ میں چل رہے شہریت ترمیمی قانون مخالف احتجاجی مظاہرے میں اشتعال انگیز تقریر کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ذیل میں پیش ہے ان سے بات چیت کے چند اہم اقتباسات:

دلی فساد کے معاملے میں ملک میں جو لگاتار یکطرفہ گرفتاریاں ہو رہی ہیں اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

حکومت یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت میں چلنے والی تحریک عوامی تحریک نہیں تھی بلکہ یہ کچھ افراد کے ذریعے آرگنائز کی گئی تھی اور اس کے آرگنائزر عمر خالد، ہرش مندر، اپوروانند اور یوگیندر یادو وغیرہ تھے۔ ان ہی لوگوں نے اس تحریک کو بڑا بنایا اور اس کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ جب کہ یہ بات خلافِ واقعہ اور خلافِ حقیقت ہے۔ بنیادی طور پر سی اے اے کی مخالفت میں جو تحریک اٹھی تھی وہ عوامی تحریک تھی اور عوام نے ہی اسے چلایا تھا کسی تنظیم یا گروپ کا اس کو چلانے میں کوئی رول نہیں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس تحریک میں بحیثیت مقرر حصہ لیا تھا ان سب کو ایک ایک کر کے ٹارگیٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جو اس طرح کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا اسے ہم برداشت نہیں کریں گے۔ اس طرح آئین میں جو اظہار خیال کی آزادی دی گئی ہے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ دلی میں جو فسادات ہوئے ہیں بنیادی طور پر ان کو بی جے پی کے لوگوں نے ہی بھڑکایا تھا۔ ان فسادیوں کے نام واضح طور پر سب کے سامنے ہیں۔ اور اب جن کا اس فساد سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، انہی کو اس میں پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کی جانب سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کوئی بھی شخص جو سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کرے گا، ہم اس کو فرضی مقدموں میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیں گے۔

دلی پولیس نے ایف آئی آر میں یہ بھی لکھا ہے کہ عمر خالد کی ایک میٹنگ شاہین باغ میں طاہر حسین کے ساتھ ہوئی تھی۔ کیا یہ سچ ہے؟

یہ ایک بے بنیاد الزام ہے۔ عمر خالد کی طاہر حسین کے ساتھ آج تک کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ اور میٹنگ کی جو تاریخ بتائی جارہی ہے، اس تاریخ تک طے ہی نہیں تھا کہ ٹرمپ انڈیا آر ہے ہیں۔ یہ پوری کہانی جھوٹی ہے۔ سرکار کو بھی یہ معلوم ہے کہ یہ کہانی عدالت میں ٹکے گی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمر خالد پر تقریباً 24 دفعات لگائے گئے ہیں۔ اتنے دفعات لگانے کا مطلب صاف ہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ عمر خالد کو کم از کم ایک دو سال جیل میں رکھا جائے، عدالت میں آسانی سے ضمانت نہ ملے اور وہ اپنے سیاسی فائدے کے لیے جو چاہے میڈیا میں چلاتے رہیں۔ بھیما کورے گاؤں معاملے میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اس میں ہر تین یا چھ مہینے کے بعد ایک نئے آدمی کی گرفتاری ہوتی ہے، اس طرح سے یہ کیس چلتا ہی جا رہا ہے اور عدالت میں ابھی تک سنوائی نہیں ہو پا رہی ہے۔ بالکل یہی چیز دلی پولیس، دلی فسادات کے معاملے میں بھی کرنا چاہتی ہے۔

عمر خالد کے خلاف مقدمہ 6 مارچ 2020 کو ہی درج ہو گیا تھا۔ اس درمیان عمر خالد کو کب کب پوچھ تاچھ کے لیے بلایا گیا؟

عمر خالد کو پہلی بار پوچھ تاچھ کے لیے 31 جولائی کو بلایا گیا تھا۔ اس کے بعد اگست کے پہلے ہفتے میں کرائم برانچ نے بلایا اور ان کا موبائل فون بھی جانچ کے لیے ضبط کر لیا۔ 11 ستمبر کو دلی پولیس کے ایک اہلکار نے گھر آکر نوٹس دیا کہ کل عمر خالد کو پوچھ تاچھ کے لیے بلایا جا رہا ہے لیکن عمر خالد اس دن دہلی میں موجود نہیں تھے۔ اگلے دن پھر نوٹس آئی کہ اتوار کو آنا ہے۔ ہم لوگوں نے عمر خالد کو اطلاع کردی تھی۔ چنانچہ وہ دہلی پہنچے اور خود اسپیشل سیل گئے۔ پولیس افسران ان سے مسلسل 11 گھنٹے پوچھ تاچھ کرتے رہے اور رات میں انہوں نے عمر کے وکیل کو بتایا کہ ہم نے عمر خالد کو گرفتار کر لیا ہے۔

گرفتاری کے پہلے آپ سے عمر خالد کی کوئی بات چیت ہوئی۔ عمر نے پوچھ تاچھ کے سلسلے میں آپ کو کچھ بتایا؟

13 ستمبر کو عمر خالد کے گھر سے جانے کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔ رات کو 11 بجے ان کے وکیل نے بتایا کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اگلے دن جب عمر خالد کو عدالت میں پیش کیا گیا تو میں بھی وہاں پہنچا تھا، مگر پولیس نے ان سے ملنے نہیں دیا البتہ وکیل کو ملاقات کی اجازت دی گئی ہے۔

اس گرفتاری سے پہلے جب پولیس والوں نے بلایا تھا، اس کے بعد تو آپ کی عمر خالد سے بات ہوئی ہوگی۔ آخر پولیس والے ان سے کیا پوچھتے تھے؟

پچھلے دنوں پوچھ تاچھ میں کوئی خاص بات چیت نہیں تھی۔ پولیس والوں کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ جس وقت دلی فساد جب ہو رہا تھا وہ دلی میں موجود نہیں تھے۔ عمر خالد نے جب یہ بتایا تو انہیں بڑا تعجب ہوا۔ طاہر حسین سے ملاقات کے سلسلے میں جب پوچھا تو عمر خالد نے بتایا کہ اس سے میری ملاقات ہوئی ہی نہیں۔ پھر عمر خالد نے پولیس والوں سے اس ملاقات کا ثبوت دریافت کیا تو پولیس کا کہنا تھا کہ تم دونوں کا موبائل لوکیشن وہاں موجود ہے یہی ثبوت ہے۔ عمر خالد نے ان سے پوچھا کہ لوکیشن سے کیا مراد ہے کیا لوکیشن یہ بتا رہا ہے کہ ہم تینوں ایک ہی مقام پر تھے یا آپ صرف اس بات پر کہانی گڑھ رہے ہیں کہ اس وقت ایک ہی ٹاور کے رینج میں تھے؟ پولیس والوں نے بتایا کہ ایک ہی ٹاور کے رینج میں تھے۔

عدالت سے آپ کو کیا امید ہے؟

عدالت میں اگر بحث شروع ہوگی تو مجھے سو فیصد یقین ہے کہ دلی پولیس نے جو بھی الزامات لگائے ہیں، ان میں سے کسی بھی الزام کو وہ ثابت نہیں کرسکے گی۔ عمر خالد پر لگائی گئی کوئی دفعہ نہیں ٹکے گی۔ البتہ ہر دن عمر خالد کے ساتھ رہنے والے نوجوانوں کو بار بار پوچھ تاچھ کے لیے بلا کر دہلی پولیس یہ دباؤ ضرور بنا رہی ہے کہ وہ عمر خالد کے خلاف بیان دیں۔ انہیں دھمکی دی جارہی ہے کہ اگر تم نے اس کے خلاف بیان نہیں دیا تو ہم تمہیں بھی گرفتار کر لیں گے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس طرح کے بیانات کوئی حیثیت نہیں رکھتے جب تک کہ وہ مجسٹریٹ کے سامنے درج نہ ہوں۔

ایک چارج شیٹ میں آپ کا بھی نام ہے۔ کیا پولیس نے آپ کو اس کی  اطلاع دی؟

نہیں، پولیس کی جانب سے ابھی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ البتہ ایک چارج شیٹ میں انہوں نے ایک گواہ کے حوالے سے یہ کہا ہے کہ جن لوگوں نے بھڑکاؤ تقریریں کیں، ان میں ایک مَیں بھی تھا۔ لیکن پولیس نے ابھی اس بیان کو چارج شیٹ کا حصہ نہیں بنایا ہے۔ صرف admissible statement کے طور پر رکھا ہے۔ اس پر باضابطہ طور پر کوئی چارج فریم نہیں کیا ہے۔ کویتا کرشنن اور سیتارام یچوری کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔

عمر خالد کی گرفتاری کے بعد آپ کی پارٹی کیا کر رہی ہے؟

ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے عمر خالد کی گرفتاری کے بعد مہاراشٹر، مغربی بنگال، کیرالا اور کرناٹک میں بڑے پیمانے پر مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی مہم چل رہی ہے۔ صدر جمہوریہ کو میمورنڈم بھی دیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کی پارٹیوں سے بات چیت چل رہی ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنا اسٹینڈ واضح کریں۔

سی اے اے مخالف تحریک کا مستقبل آپ کی نظر میں کیا ہے؟

یہ ایک عوامی تحریک تھی اسے ملک کے نوجوانوں اور خواتین نے چلایا تھا۔ اگر حکومت دوبارہ این پی آر یا این آر سی کے بارے میں کچھ کرنے کی سوچ رکھتی ہے تو پھر مجھے امید ہے کہ یہ عوامی تحریک خود بخود دوبارہ شروع ہو جائے گی۔