ہندوؤں کی مذہبی کتابیں اور دعوت دین

اسلامی عقاید کی تائیدمیں ہندو مت کی کتابوں سےدلائل پیش کرنے کا طریقہ غیر موثر!

شبیع الزماں (پونہ)

 

موجودہ زمانے میں کچھ تو حالات کے تغیر کے سبب اور کچھ اسلامی تحریکات کی کاوشوں کے نتیجہ میں مسلمانوں کے اندر دعوت دین کا جذبہ پھر سے بیدار ہوا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں بھی ذوق تبلیغ پچھلے کچھ عرصہ سے بڑھ گیا ہے ۔ مختلف افراد اور تنظیمیں،مختلف سطحوں پر یہ کام انجام دینے لگی ہیں۔
ہندوستان میں برادران وطن بالخصوص ہندوؤں کو دعوت دیتے وقت کئی مرتبہ لوگ انہی کی مذہبی کتابوں سے توحید،رسالت اور آخرت کے دلائل دیتے ہیں ۔ بعض اوقات یہ طریقہ کار کامیاب بھی ہوتا ہے اور دعوتی کام میں اسے ایک supportive argument کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن مستقل اسی کی بنیاد پر دعوت دینا درست اور صحیح اپروچ نہیں ہے اور نہ ہی یہ طریقہ ہمیشہ فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے ۔اس کی درج ذیل وجوہات ہیں۔
اول یہ کہ ہندو مذہب کی جن کتابوں سے ڈھونڈ کر ہم اسلامی عقائد کے لیے دلائل لائیں گے ان کتابوں کی غالب تعلیمات بت پرستی،اگنی پوجا،سوریہ نمسکار ، شرک کی مختلف اقسام اور اوہام و خرافات سے بھری پڑی ہیں ۔ اگر ہم توحید کے حق میں وہاں سے ایک دلیل لائیں گے تو شرک کے حق میں دس دلائل اسی کتاب سے نکل آئیں گی۔
توحید کے علاوہ دوسرے عقائد کا معاملہ بھی اسی طرز پر ہوگا جہاں سے ہم اپنے مؤقف کے لیے چند دلائل دیں گے وہیں سے ہندوؤں کے موجودہ عقائد کے لیے بکثرت ’’مضبوط ‘‘دلائل مل جائیں گی۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ بیشترہندولوگ اپنی کتابوں سے بالکل بھی واقفیت نہیں رکھتے۔ان کے مابین مذہبی کتابوں کو ویسی مرکزیت حاصل نہیں ہے جیسی مسلمانوں کے یہاں ہے کیونکہ ہندو مذہب کتابوں سے نہیں بلکہ کلچر،رسوم اور روایات سے منتقل ہوتا ہے ۔ اب اس صورت میں ایک داعی کے لیے یہ دوہرا چیلنج ہوگا کہ پہلے مدعو کو ہندو دھرم کی کتابیں سمجھائے، اسے ایک جاہل ہندو سے جانکار ہندو بنائے اور اس کی بنیاد پر اسلام کی دعوت دے۔
تیسرا بڑا چیلنج جو ہندوؤں کو عمومی دعوت دیتے وقت در پیش ہوتا ہے اور اس طریقہ دعوت میں تو وہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے یہ ہےکہ ہندومذہب میں عقائد اور عبادات کا کوئی مشترکہ نظام نہیں ہے۔سماجی علوم کے ماہر Emile Durkhiem نے مذہب کی تعریف اس طرح بیان کی ہے کہ ’’مذہب نام ہے مشترکہ، عقائد اور مذہبی اعمال کا جو لوگوں کے درمیان سماجی تعلق پیدا کرتا ہے‘‘۔
لیکن مذہب کی اس تعریف پر ہندو ازم پورا نہیں اترتا۔ اسلام یا عیسائیت کی طرح ہندو ازم میں کچھ بھی مشترک نہیں ہے ۔ہندو ازم میں عقائد اور اعمال میں بہت زیادہ تنوع ہے اگر ہندو سماج کے مختلف افراد سے گفتگو کی جائے تو سبھی اپنے آپ کو ہندو بتائیں گے لیکن عقائد اوراعمال میں ویسا ہی فرق رہے گا جیسا بدھ، عیسائی اور مسلمانوں کے درمیان رہے گا لیکن اس کے بعد بھی حیرت انگیز طور پر وہ سب ایک ہی مذہب کا حصہ ہیں ۔ اس لیے تمام ہندوؤں کی کوئی متفق کتاب نہیں ہے جس کی بنیاد پر گفتگو کی جاسکے۔
چوتھی اور اہم ترین وجہ ہندوازم کی یہ خصوصیت ہے کہ یہاں طریقہ اور اعمال کو عقائد پر فوقیت ہے۔ ہندو کیا مانتا ہے اس سے زیادہ اہم یہ ہوتا ہے کہ ہندو کیا کرتا ہے۔ دھرم سے مراد کچھ باتوں پر ایمان لانا نہیں بلکہ سماج میں دی گئی ذمہ داریوں کو اپنی کاسٹ یا جنس کے مطابق ادا کرنا ہوتا ہے اور یہ ذمہ داریاں کاسٹ سسٹم کے مطابق ہندوؤں کا اعلیٰ طبقہ طے کرتا ہے اور وہی اس کا نگراں بھی ہوتا ہے۔فرٹس اسٹال کے مطابق:
A Hindu may be thiest, pantheist, atheist, communist and believe whatever he likes but what makes hi m into a Hindu are the rituals practices he performs and the rules to which he adheres, inshort what he does ‘‘
ماضی قریب میں سوامی دیانند سرسوتی جو آریہ سماج کے بانی تھے مورتی پوجا کے سخت خلاف تھے اور ہندو مذہب کی اوہام و خرافات پر سخت تنقید کی لیکن اس کے بعد بھی ہندو ہی تھے۔
موجودہ زمانے میں ہندتوا کے فکر ساز اور جدید ہندو سماج میں بڑے پیمانے پر اپنے اثرات چھوڑنے والے دامودر ساورکر نہ صرف مذہب مخالف بلکہ ملحد تھے لیکن ان کے ہندو ہونے میں کسے شبہ ہے۔ گاندھی جی ذاتی زندگی میں کٹر مذہبی شخص تھے لیکن مذہب کو ذاتی معاملے تک محدود رکھتے تھے اور ریاستی سطح پر سیکولرزم کے قائل تھے وہ بھی ہندو تھے ۔
گولوالکر سنیاسی تھے اور ہندو راشٹر کے قائل تھے وہ بھی ہندو تھے۔
یہ تمام شخصیات ہندو دھرم کے الگ الگ ورژن کو مانتی تھیں اس کے باوجود ہندوازم کی جدید شخصیات کی فہرست میں نمایاں مقام رکھتی ہیں کیونکہ ہندو، عقیدے سے نہیں بلکہ اعمال اور سماجی ضابطوں سے بنتا ہے اسے سوامی وویکانند نے بہت اچھی طرح واضح کیا تھا کہ "ہندو مذہب میں کسی عقیدہ اور نظریہ کو ماننے کی کوئی کشمکش یا پابندی نہیں ہے۔ ہندو وہ نہیں جو کسی پر یقین رکھے بلکہ ہندو وہ ہے جو خود کو ہندو محسوس کرے اور ہندو بننے کی کوشش کرے۔” اس لیے ہندو دھرم میں ایک ملحد اور مشرک بھی ویسا ہی ہندو ہو سکتا ہے جیسا کہ ایک خدا کو ماننے والا ملحد بشرطیکہ وہ ہندو طریقہ زندگی کو اپنائے۔
ہندوازم بہت ہی لچکدار مذہب ہے اور اس کے دامن میں مختلف عقائد رکھنے والوں کےلیے جگہ ہے ۔ اس کے اصول و ضوابط کو ماننے اور ان پر عمل کرنے والا بھی ہندو ہے اور ان اصولوں سے بے پرواہ آدمی بھی ہندو ہے ۔ وحدانیت میں یقین رکھنے والا بھی ہندو ہوسکتا ہے اور تیتیس کروڑ خداؤں میں وشواس رکھنے والا بھی ہندو رہ سکتا ہے ۔ یہاں تک کے انسانوں کو پوجنے والے بھی ہندوازم کا حصہ ہیں اور کلیتاً خدا کا انکار کرنے والا ملحد بھی ۔اس کی کوئی متعیّن اور واضح شکل نہیں ہے یہ وقت اور حالات کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے اور مختلف ادیان و نظریات کو اپنے اندر جذب کر تا رہتا ہے ۔ اسی لیے جدید ہندو اسکالرز کہتے ہیں کہ ہندوازم کی بنیاد ( belief and faith) ایمان و یقین نہیں بلکہ seeking یعنی مستقل تلاش و جستجو ہے ۔ اس لیے اس کا کوئی متفق علیہ عقیدہ،اصول یا فلسفہ نہیں ہے۔
ان تمام وجوہات کے بعد بھی اگر کسی درجے میں مدعو یہ باتیں تسلیم کر بھی لیتا ہے کہ ہندو ازم میں توحید ،رسالت ،آخرت اور دوسری خوبیاں پائی جاتی ہیں تو فطری طور پر اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ جب یہ تمام خوبیاں ہندو مذہب میں موجود ہیں، جو اس کا آبائی مذہب بھی ہے اور ملک کی اکثریت کا مذہب بھی ہے اور جس کی تہذیب پانچ ہزار سال پرانی ہے تو پھر وہ اس کے مقابلےمیں ایک بیرونی مذہب کو کیوں تسلیم کرے۔اس لیے یہ تصور کرنا کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں سے توحید رسالت اور آخرت کے حق میں کچھ منتر اور اشلوک پیش کر دینے سے ہندو عوام اسلام یا خدا کے قریب آجائے گی خیال خام کے سوا کچھ نہیں ہے۔اس لیے دعوت دین کا وہی فطری اور تاریخی طور پر ثابت شدہ طریقہ ہی اپنانا چاہیے جو ماضی میں بھی اشاعت اسلام کا سب سے زیادہ کارگر اور نتیجہ خیز ذریعہ تھا۔
اسلامی عقائد اس قدر سادہ ہیں کہ انہیں ایک معمولی فہم رکھنے والا آدمی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ اس میں ہندو ازم کی طرح پیچیدہ اور فلسفیانہ تعلیمات جیسے موکشا،تناسخ، ادویاتا ویدانتا یا کرما نہیں ہیں۔ اس لیے پروفیسر مانٹیٹ اسلامی عقائد کے بارے میں لکھتا ہے ’’ ایسا عقیدہ جو اس قدر واضح ، فلسفیانہ پیچیدگیوں سے اس قدر مبرا اور اس قدر معمولی عقل میں آجانے کے قابل ہو اس میں یقیناً انسانی نفس کو مسخر لینے کی معجزہ نما قوت ہونی چاہیے اور وہ فی الواقع ایسی قوت رکھتا ہے‘‘۔
اس لیے دعوت کی بنیاد اسی انبیائی طریقہ پر رکھی جانی چاہیے جو ہمیشہ سے نتیجہ خیز رہا ہے ۔
***

یہ تصور کرنا کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں سے توحید رسالت اور آخرت کے حق میں کچھ منتر اور اشلوک پیش کر دینے سے ہندو عوام اسلام یا خدا کے قریب آجائے گی خیال خام کے سوا کچھ نہیں ہے۔اس لیے دعوت دین کا وہی فطری اور تاریخی طور پر ثابت شدہ طریقہ ہی اپنانا چاہیے جو ماضی میں بھی اشاعت اسلام کا سب سے زیادہ کارگر اور نتیجہ خیز ذریعہ تھا۔