اللہ کے چار اسما حسنیٰ اور نبی اکرمؐ کے چار فرائض

فہم قرآن

مرتب: محمد مجیب الاعلیٰ

 

يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ ۝ هُوَ الَّذِىْ بَعَثَ فِى الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِىْ ضَلٰلٍ
مُّبِيْنٍۙ ۝ (سورہ الجمعہ آیات ۱ تا ۲)
’’اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے۔ بادشاہ ہے، قدوس ہے، زبردست اور حکیم ہے۔ وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود اُنہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے‘‘۔
سورۃ الجمعہ کی یہ ابتدائی دوآیتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبی فرائض اور دعوت دین کی اصل اساس پر روشنی ڈالتی ہیں۔ اس میں اللہ تعالی کے چار اسماء حسنیٰ اور نبی اکرمؐ کے فرائض چہارگانہ کو بیان کیا گیا ہے ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی کے اسماء وصفات عام طور پر آیات کے آخر میں وارد ہوتے ہیں‘ لیکن اکثر و بیشتر جوڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ مثلاً وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ‘ وَہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ‘ وَہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ ‘ وَہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ۔لیکن یہاں اکٹھے چار اسماء وارد ہوئے ہیں اور ساتھ ہی نبی اکرمؐ کے طریق کار کے ضمن میں چار اصطلاحات آئی ہیں: تلاوتِ آیات‘ تزکیہ‘ تعلیمِ کتاب اور تعلیمِ حکمت۔ درحقیقت ان چاروں کا بڑا گہرا ربط ہے ان چار اسماءِ حسنیٰ کے ساتھ! وہ ’’الملک‘‘ ہے یعنی بادشاہِ ارض و سماوات ہے۔ چنانچہ اس کی آیات پڑھ کر سنائی جا رہی ہیں‘ جیسے کوئی منادی کرنے والا شہنشاہ کے فرامین (proclamations) لوگوں کو سنا رہا ہو۔ گویا یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہ عکس ہے اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی ’’الۡمَلِکِ‘‘ کا۔ دوسری شان اللہ تعالی کی یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ الۡقُدُّوۡسِ ہے‘ یعنی انتہائی پاک۔ غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی شانِ قدوسیت کا بڑا گہرا تعلق ہے نبی اکرمؐ کے بارے میں بیان کردہ دوسری اصطلاح وَ یُزَکِّیۡہِمۡ یعنی عمل تزکیہ کے ساتھ اسی طرح وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ (وہ تعلیم دیتا ہے انہیں کتاب یعنی احکامِ شریعت کی) میں اللہ تعالیٰ کی شان ’’العزیز‘‘ کا عکس جھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہ زبردست ہے‘ مختارِ مطلق ہے‘ وہ جو چاہے حکم دے‘ بندوں کا کام ہے کہ اس کے احکام کی بے چون و چرا اطاعت کریں۔ سورۃ التغابن میں یہ مضمون آ چکا ہے: وَ اسۡمَعُوۡا وَ اَطِیۡعُوۡا ’’سنو اور اطاعت کرو‘‘۔ سورۃ البقرۃ میں سود کے بارے میں فرمایا: وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا۔ کان کھول کر سن لو! اللہ نے سود حرام کیا ہے اور بیع کو حلال ٹھیرایا ہے‘ تم کون ہوتے ہو اُس پر اعتراض کرنے والے؟ یہ ہے ’’العزیز‘‘ کا مفہوم۔یعنی ایک ایسی ہستی جس کے اختیارات پر کوئی تحدید نہ ہو‘ کوئی limitations نہ ہوں‘ کوئی Cheks and balance نہ ہو‘ مختارِ مطلق! اور آخری اور چوتھا لفظ جو اللہ تعالی کی شان میں آیا ہے ’’الۡحَکِیۡمِ‘‘ ہے۔ اس کا ربط وتعلق گویا از خود ظاہر ہے نبی اکرمؐ کے فرائض چہارگانہ میں سے چوتھے کے ساتھ ہے جو درحقیقت نبی اکرم کے اساسی منہاج کا نقطۂ عروج ہے‘ یعنی تعلیمِ حکمت! تو پہلی آیت کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک پُرشکوہ اور پُرجلال تمہید کے ساتھ اس حقیقت کو آشکار کیا ہے: ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ۔ اس ’ ہُوَ ‘کو جوڑ لیجیے پہلی آیت کے ساتھ کہ محمد ؐ کا بھیجنے والا ہے کون؟ وہ کہ جس کی تسبیح میں آسمان و زمین کی ہر شئے ہمیشہ سے اور ہر آن لگی ہوئی ہے اور وہ ہمیشہ ہمیش تسبیح میں لگی رہے گی جو ‘الملک ہے‘ القدوس ہے ‘العزیز ہے‘ الحکیم ہے۔ وہی ہے کہ جس نے اٹھایا اُمِّیّٖنَ میں سے ایک رسول جو انہی میں سے ہے۔
امی کا مفہوم
صاحب تفہیم القرآن نے اس کی تشریح میں لکھا ہے :’’یہاں امی کا لفظ یہودی اصطلاح کے طور پر آیا ہے، اور اس میں ایک لطیف طنز پوشیدہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن کو یہودی حقارت کے ساتھ امی کہتے اور اپنے مقابلہ میں ذلیل سمجھتے ہیں، انہیں میں اللہ غالب و دانا نے ایک رسول اٹھایا ہے۔ وہ خود نہیں اٹھ کھڑا ہوا ہے بلکہ اس کا اٹھانے والا وہ ہے جو کائنات کا بادشاہ ہے، زبردست اور حکیم ہے، جس کی قوت سے لڑ کر یہ لوگ اپنا ہی کچھ بگاڑیں گے، اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید میں’’اُمی‘‘کا لفظ متعدد مقامات پر آیا ہے اور سب جگہ اس کے معنی ایک ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف مواقع پر وہ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کہیں وہ اہل کتاب کے مقابلہ میں ان لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جن کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے جس کی پیروی وہ کرتے ہوں۔ مثلاً فرمایا قَلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَا لْاُمِّیِّنَءَ اَسْلَمْتُمْ (آل عمران۔ 20) ۔’’اہل کتاب اور امیوں سے پوچھو کیا تم نے اسلام قبول کیا‘‘ یہاں امیوں سے مراد مشرکین عرب ہیں، اور ان کو اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ سے الگ ایک گروہ قرار دیا گیا ہے۔ کسی جگہ یہ لفظ خود اہل کتاب کے اَن پڑھ اور کتاب اللہ سے ناواقف لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جیسے فرمایا وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّا اَمَانِیَّ (البقرہ۔ 78) ۔ ’’ان یہودیوں میں کچھ لوگ امی ہیں، کتاب کا کوئی علم نہیں رکھتے، بس اپنی آرزوؤں ہی کو جانتے ہیں‘‘۔ اور کسی جگہ یہ لفظ خالص یہودی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے جس سے مراد دنیا کے تمام غیر یہودی ہیں۔ مثلاً فرمایا ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ (آل عمران۔ 75 ) یعنی ’’ان کے اندر یہ بد دیانتی پیدا ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں امیوں کا مال مار کھانے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے‘‘۔ یہی تیسرے معنی ہیں جو آیت زیر بحث میں مراد لیے گئے ہیں۔ یہ لفظ عبرانی زبان کے لفظ گوئیم کا ہم معنی ہے، جس کا ترجمہ انگریزی بائیبل میں Gentiles کیا گیا ہے، اور اس سے مراد تمام غیر یہودی یا غیر اسرائیلی لوگ ہیں۔لیکن اس یہودی اصطلاح کی اصل معنویت محض اس کی اس تشریح سے سمجھ میں نہیں آسکتی۔ دراصل عبرانی زبان کا لفظ گوئیم ابتداءً محض اقوام کے معنی میں بولا جاتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہودیوں نے اسے پہلے تو اپنے سوا دوسری قوموں کے لیے مخصوص کر دیا، پھر اس کے اندر یہ معنی پیدا کر دیے کہ یہودیوں کے سوا باقی تمام اقوام ناشائستہ، بد مذہب، ناپاک اور ذلیل ہیں، حتیٰ کہ حقارت اور نفرت میں یہ لفظ یونانیوں کی اصطلاح Barbarian سے بھی بازی لے گیا جسے وہ تمام غیر یونانیوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ربیوں کے لٹریچر میں گوئیم اس قدر قابل نفرت لوگ ہیں کہ ان کو انسانی بھائی نہیں سمجھا جاسکتا، ان کے ساتھ سفر نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ان میں سے کوئی شخص ڈوب رہا ہو تو اسے بچانے کی کوشش بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ آنے والا مسیح تمام گوئیم کو ہلاک کر دے گا اور جلا کر خاکستر کر ڈالے گا ‘‘۔
(ماخوذ: تفہیم القرآن، مولانا مودودی ؒ۔ منتخب قرآنی نصاب، ڈاکٹر اسرار احمدؒ)

سورۃ الجمعہ کی یہ ابتدائی دوآیتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبی فرائض اور دعوت دین کی اصل اساس پر روشنی ڈالتی ہیں۔ اس میں اللہ تعالی کے چار اسماء حسنیٰ اور نبی اکرمؐ کے فرائض چہارگانہ کو بیان کیا گیا ہے ۔