ہنادی حلوانی: فلسطینی ماں، جن کے حوصلوں کے سامنے صہیونی جبر نے شکست تسلیم کرلی!

عمّارہ رضوان، نئی دلی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ

 

دنیا میں کون ایسا مسلمان ہوگا؟ ،جسے مسجدِ اقصی ٰ سے عقیدت و محبت نہ ہو‏۔ مسجدِ حرام اور مسجدِ نبوی کے بعد مسجد اقصیٰ ہی توہے ، جو امّت ِ مسلمہ کو امّت ہونے کا درس دیتے ہیں ، ہمارا قبلہ تو مکہ مکرّمہ ہے ، مگر ہمارے پیارے نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب نے ایک مدّت تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے اللہ کی کبریائی بیان کی ہے اور اللہ کے حکم پر بیت المقدس سے اپنا رخ خانۂِ کعبہ کی طرف کیا ہے‏۔
اس وقت بیت المقدس یہودیوں کے ناپاک عزائم کے نشانے پر ہے، مسجد اقصیٰ سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کے لیے تمام طرح کے حربے اختیار کئے جارہے ہیں ‏۔ جبر وظلم کی پوری تاریخ رقم کی جارہی ہے ، تیس سال سے کم عمر کے لوگوں کو مسجدِ اقصیٰ میں داخل ہونے سے روکا جارہاہے ۔ ایسے میں قابل مبارکباد ہیں وہ لوگ جو مسجدِ اقصی ٰ کو صہیونیت کے پنجے سے آزاد کرانے کے لیے ہرطرح کی قربانی پیش کررہے ہیں بالخصوص امّت مسلمہ کی جاں باز مائیں اور بہادر بہنیں ‏۔
مسجد اقصی ٰاور اس کے دفاع و حفاظت کا جب بھی ذکر آتا ہے ، آنکھوں کے سامنے صبر وعزیمت کی پیکر ، جرأت و شجاعت کی علامت عظیم فلسطینی ماں ہنادی حلوانی اور ان کی سہیلیوں کی تصویر رقص کرنے لگتی ہے ‏۔ اقصی ٰ کے درو دیوار ہنادی حلوانی کی ثبات قدمی اور فدائیت کے گواہ ہیں ، مسلسل بیس سالوں سے ہنادی اپنے خون ِ جگر سے دفاع ِ اقصی ٰ ٰکی تاریخ رقم کررہی ہیں اوراپنی اس ثبات قدمی کی وجہ سے وہ غاصب یہودی فوجیوں اور ان کے حواریوں کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہیں ۔ اب تک چھتیس (36) بار وہ اپنے اس اقراری جرم کی سزا بھگت چکی ہیں، مگر ہر بار وہ پہلے سے زیادہ فولادی اور مضبوط ارادوں سے اپنے مشن پر لگ جاتی ہیں ‏۔
ہنادی حلوانی مسجد اقصی ٰ کے بالکل قریب والی گلی وادی الجوز کی رہنے والی ہیں ، وہ اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں:’’ میں اپنے گھر کی کھڑکی سے قبۃ الصخرۃ کا دیدار کرلیتی تھی ، میں نے اپنا بچپن اقصی ٰ کے میدانوں میں گزارا ہے ، میری والدہ مجھے ہرشام یہیں لےآتی تھیں اور عصر سے عشاء کا وقت ہم مسجدِ اقصی ٰ کے صحن میں گزارتے تھے ، اگر میں یہ کہوں کہ میں مسجد اقصٰی کے ہرگوشے سے واقف ہوں تو مبالغہ نہ ہوگا ‏۔ میں نے اقصٰی کے تہ خانوں میں قرآن کو تجوید سے پڑھنا سیکھا ہے اور اس کی سیڑھیاں پر چھوٹی سورتوں کو یاد کرنے اور دہرانے کی مشق کی ہے‘‘ ‏۔
ہنادی حلوانی چار بیٹوں کی ماں ہیں ، اس وقت مسجدِ اقصی ٰ میں طالبات کو قرآن مجید کی تعلیم دیتی ہیں ، گرچہ انہوں نے سوشیولوجی میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ہے اور اپنے ہم سبق ساتھیوں میں بہت ممتاز رہی ہیں ، لیکن قرآن کی تعلیم اور مسجد اقصی ٰ کی مصاحبت کو انہوں نے اپنے متوقع کیرئر پر ترجیح دی ۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب میری شادی ہوئی ،اس وقت میری عمر بمشکل اٹھارہ سال تھی ،مگر میرے شوہر نے مجھے تعلیم کو مکمل کرنے کی ترغیب دی اور اس سلسلہ میں میرا ہر طرح سے تعاون کیا ‏۔ ’’ ہنادی کا چہرہ یہ بتاتے ہوئے خوشی سے دَمک اٹھتا ہے کہ جب میں ایم اے کررہی تھی اسی وقت مسجدِ اقصی ٰ کی چوبیس گھنٹے حفاظت کے لیے شیخ رائد صلاح نے ایک منصوبہ بنایا کہ مسجد کو ہر وقت کیسے آباد رکھا جائے ، اس کے لیے شیخ رائد نے ’’حلقہ ہائے علم ‘‘ کے نام سے مسجد اقصی ٰ کے ہر گوشے اور کونے کے نام سے حلقے بنوائے ، جس میں قرآن کی تعلیم ہوتی ، حفظ قرآن کے حلقے ہوتے ، فہم قرآن کی کلاسز ہوتیں ، میں نے اپنے شوہر کی اجازت سے اس مہم کا حصہ بننا پسند کیا ، اس وقت سے آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک ہفتہ گزرا ہو اور اسرائیلی پولیس کے سامنے میری پیشی نہ ہوئی ہو ‏۔
اس بار تو آپ پرمسجد اقصی ٰ میں داخلے کےسلسلے میں چھ ماہ کی پابندی عائد کی گئی ہے ۔ اس پر معلمہ ہنادی کا کہنا تھا ’’ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے ، میں نے تین درجن بار اس پابندی کو جھیلا ہے اور آگے بھی اس راہ میں اس طرح کی پابندیوں کا خیرمقدم کرنا پسند کروں گی ‏۔ یہ لوگ مسجد اقصیٰ سے ہنادی کے جسم کو تو دور کرسکتے ہیں مگر اس کے روح کو نہیں، جو اقصی ٰ ہی میں بستی ہے اور اقصی ٰ میری روح میں بستا ہے ‘‘‏۔
آپ کی بار بار گرفتاری اور دربدری کا تو آپ کے بچوں پر بھی اثر پڑتا ہوگا، آن لائن پروگرام میں ایک طالبہ نے سوال کیا :جی ضرور پڑتا ہے، یہ چیزیں میرے بچوں کو آگے کے لیے تیار کررہی ہیں، کئی بار ایسا ہوا کہ اسرائیلی فوجی میرے گھر میں بغیر کسی اطلاع کے ‏گھس آئے اور پورے گھر کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا، اور پھر میرے ہاتھوں میں بیڑیاں ڈال دیں، یہ سب میرے بچوں کی آنکھوں کے سامنے ہوا، میں سمجھتی ہوں کہ ان غاصبوں کا یہ مکروہ عمل میرے بچوں کے ذہن ودماغ میں نقش ہورہا ہوگا اور وہ مزاحمت کی تاریخ صرف کتابوں میں پڑھ نہیں رہےہیں بلکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پھر وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’فلسطینی مائیں اپنے بچوں کی اسی طرح تربیت کرتی ہیں ۔ کچھ دیر ٹھہر کر ہنادی پھر گویا ہوتی ہیں :’’کتنے ہی رمضان اور کتنی ہی عیدیں میرے جگر گوشوں نے میرے بغیر گزاری ہیں اور میں نے ان کے بغیر جیل کی سلاخوں کے پیچھے، لیکن اس کا مجھے ذرّہ برابر افسوس نہیں ہے‘‘۔ آپ کے شوہر کبھی کسی خبر کی سرخی نہیں بنتے اور نہ ہی کسی ٹی وی چینل پر نظر آتے ہیں ، اس کا کیا راز ہے؟ ’’ میرے شوہر میری اس ثبات قدمی کے پیچھے اللہ کے بعد سب سے بڑا سہارا ہیں، وہ خاموش طبیعت کے مالک ہیں، مگر میری عدم موجودگی میں وہی میرےبچوں کے لیے ماں اور باپ دونوں ہیں، اور وہ بچوں کو میری کمی محسوس نہیں ہونے دیتے، مجھے یقین ہے ہر فلسطینی گھر ایک ہی کہانی رقم کر رہا ہے، کہیں شوہر میدان میں ہے تو کہیں خاتونِ خانہ، اور بعض گھروں نے قربانی اور فدویت کی ناقابل تسخیر مثالیں قائم کی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ میرے شوہر مجھ سے بے فکر ہیں بلکہ انہیں میرے تعلق سے ہمیشہ اندیشہ لگا رہتا ہے، مگر جب بھی میری جانب سے کسی کمزوری کا اظہار ہوتا ہے تو وہی میری ہمت بندھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اپنے اسی راہ پر گامزن رہوں اور میں اس کانٹے بھرے راستے کو عبور کرنے پر قدرت رکھتی ہوں‏۔ ان کے یہ کلمات میرے لیے ہمیشہ آگے بڑھنے اور اپنی منزل کو پانے پر ابھارتے رہتے ہیں ‏۔
ہنادی حلوانی اس وقت دفاع بیت المقدس کی ایک علامت بن کر پوری دنیا میں فلسطین کی نمائندگی کررہی ہیں‏۔ صہیونی حکومت نے معلمہ ہنادی کو بلیک لسٹ میں شامل کررکھا ہے اور اُن ’’خطرنا ک خواتین ‘‘ کی فہرست میں سرفہرست ہیں جو اپنے پرامن رباط اقصی ٰ کے ذریعے صہیونیت کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہیں‏۔ مگر اس لسٹ کو بھی ہنادی اپنے لیے تمغہ سمجھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ صہیونی حکومت اپنے جبر وظلم کے ذریعے مزاحمت کی تحریک کو خود خوراک فراہم کررہی ہے‏۔

ہر فلسطینی گھر ایک ہی کہانی رقم کر رہا ہے، کہیں شوہر میدان میں ہے تو کہیں خاتونِ خانہ، اور بعض گھروں نے قربانی اور فدویت کی ناقابل تسخیر مثالیں قائم کی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ میرے شوہر مجھ سے بے فکر ہیں بلکہ انہیں میرے تعلق سے ہمیشہ اندیشہ لگا رہتا ہے، مگر جب بھی میری جانب سے کسی کمزوری کا اظہار ہوتا ہے تو وہی میری ہمت بندھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اپنے اسی راہ پر گامزن رہوں اور میں اس کانٹے بھرے راستے کو عبور کرنے پر قدرت رکھتی ہوں۔