اداریہ

سیاسی خود احتسابی

عربی کی ایک قدیم کہاوت ہے’’۔ ۔ ۔ أبغِض بَغیضَکَ ھَوناما، عسیٰ أن یَکونَ حَبیبَکَ یَوماما‘‘ جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ دشمنی ایسی کرو کہ پھردوستی کی گنجائش بنی رہے۔ راجستھان کی سیاسی اُتھل پتھل میں بھارتی جمہوریت کے ڈرامے کے تمام سین دکھائی دے رہے ہیں جس کی اسکرپٹ ملک کی دو بڑی پارٹیاں اپنے اپنے نظریہ کے مطابق لکھ رہی ہیں۔ حالانکہ موجودہ بی جے پی خراماں خراماں ہی سہی بعینہٖ کانگریس کے نقشِ قدم پر چل پڑی ہے۔ کانگریسی کلچر کو مٹانے کی بات کرتے کرتے وہ خود تمام ایسے کام کرنے لگی ہے جن کے خلاف کسی زمانے میں وہ آکاش پاتال ایک کیاکرتی تھی۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخرکس جمہوریت میں ایسا ہواہوگا کہ ایک وزیر اعلیٰ نے اپنے ہی نائب وزیر اعلیٰ سے ڈیڑھ سال تک کوئی بات چیت نہیں کی ہو؟ اپنے ہی کابینی وزیرکے خلاف جانچ کا نوٹس بھجوایا ہو؟ باغی لیڈرسچن پائلٹ کاالزام یہ ہے کہ ’’عوام کے لیے کام‘‘ کرنے میں میری راہ میں رکاوٹوں کے ذمہ دار خود وزیر اعلیٰ ہیں۔ باغی (اب برخواست) ڈپٹی وزیراعلیٰ سچن پایلٹ کے خلاف زبانی حملوں کے دوران گہلوت نے کانگریس ہائی کمان کی وارننگ کے بعد اپنا جارحانہ رویہ کسی قدرنرم کیا۔ پھر بھی کانگریس قائدین کے درمیان پَلنے والی آپسی کڑواہٹ کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ایک سیاست داں گیا لال نام کے گزرے ہیں جن کا پارٹیاں بدلنا بھارتی جمہوریت میں ایک نئے محاورے کو جنم دینے کا سبب بن گیا تھا۔ 1967 میں یہ گیا لال کانگریس میں تھے جو بعد میں یونائٹیڈ فرنٹ میں شامل ہوئے پھر کا‌نگریس میں آئے، پلٹ کر ایک مرتبہ پھر باریونائیٹڈ فرنٹ میں چلے گئے۔ تب ہریانہ کے راؤ وریندر سنگھ نے چندی گڑھ کی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اب یہ گیا رام نہیں ہیں بلکہ آیا رام ہو گئے ہیں۔ اسی دن سے سیاسی اتھل پتھل کے اس عمل کو ’’آیا رام، گیا رام‘‘ کی ایک نئی اصطلاح ملی۔ سیاست۔ جمہوریت کے اس مذاق کوروکنے کی غرض سے دستور کی 52 ویں ترمیم کے‌ذریعے آنجہانی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے 31 جنوری 1985 کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں انسداد انحراف قانون (اینٹی ڈیفیکشن لاء) پاس کیا۔ پارٹی لائن سے انحراف کرنے والے لوگوں سے کم و بیش ہر سیاسی جماعت متاثرہوئی ہے۔ 1980 کے زمانے میں ہریانہ میں تاؤجی کے لقب سے معروف ایک نمایاں آیارام گیارام سیاست کے علم بردار بھجن لال 50 میں سے 35 ایم ایل ایز کو لے کر اپنی کابینہ سمیت دَل بدل کر کے اس اہم قانون کی دھجیاں اڑا چکے ہیں۔ 2019 میں تلنگانہ کانگریس کے بارہ ممبرانِ اسمبلی حکم راں جماعت ٹی آر ایس میں شامل ہو گئے۔ گوا میں 15 میں سے کانگریس کے دس ممبرانِ پارلیمان بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ آج بھی منی پور میں آیارام،گیارام اپنی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق حالیہ دنوں میں قریب 119 ایم ایل ایز سات مختلف ریاستوں سے کانگریس پارٹی کوچھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔ دیگرعلاقائی پارٹیوں کے آیا رام گیا رام زمرے کے سیاست دانوں کی گنتی کیا کی جا سکتی ہے؟ البتہ اس بات پر تعجب نہیں کہ ان ضمیر فروشوں کا ایک قابل لحاظ حصہ بی جے پے کی چَھترچھایا کے تَلے جمع ہوا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق نصف بی جے پی سے کسی قدرکم (قریب چالیس فی صد) نیتا اور کیڈر کسی نہ کسی پارٹی سے زعفرانی ٹولے میں شامل بتائے جاتے ہیں۔ ان میں بھی اکثریت کانگریس سے نکل کر سیدھے بی جے پی میں شامل ہونے والوں کی ہے۔ موجودہ کانگریس کے اندر کوئی فکری بنیادیں نہیں بچی ہیں جو نئی نسل کو نئی امنگوں کے مطابق ایک ’سیکیولر دائرے‘ میں رہ کرترقی کا موقع فراہم کرا سکے۔ نظریہ و فکر کی یہی کمزوری تھی یاجلد بازی، کہ سچن نے اپنے سیاسی و فکری حریف کے ساتھ مل کر اپنی ہی حکومت گرانے کا سوچا اوراپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار لی۔ حالانکہ پائلٹ اوران کے حامی ایم ایل ایز کم از کم اعلانیہ طور پر تو بی جے پی میں ان کی شمولیت سے برابر انکار کرتے آئے ہیں۔ لیکن بی جے پی کی حکومت والےہریانہ میں جاکر وہاں ان کی میزبانی میں رہے اورباغیوں کی اسمبلی کی رکنیت خارج کرنے کے اسمبلی اسپیکر سی پی جوشی کے نوٹس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے پائلٹ خیمے نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ انہوں نے سرے سے کوئی بغاوت ہی نہیں کی ہے۔ حد تو یہ کہ مرکزی حکومت کی سپریم کورٹ میں پیروی کرنے والے وکیل ہریش سالوے پائلٹ کے معاملے کی پیروی کرنے آگئے ہیں، کیا اس میں بی جی پی کی پس پردہ رہ کربغاوت کو شہ دینے کی بُو سے انکارممکن ہے؟ کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ گہلوت کے بعض حامیوں پر چھاپے مارے گئے تاکہ مزید ایم ایل ایز اپنے پالے میں کھینچ لائیں؟ نیز ایسا کر کے کیا مرکزی حکومت نے سیدھے پائلٹ خیمے کے حق میں کھڑے ہونے کا سگنل نہیں دے دیا؟

وزیراعظم جب یہ کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی الیکشن جیتنے کی مشین نہیں ہے تو پھر ملک میں اپوزیشن کی حکومتوں کو متزلزل کرنے کی بالواسطہ اور بلاواسطہ کوششیں کس بات کی غماز ہیں؟ ابھی ہم نہیں بھولے ہیں کہ وزیر اعظم مودی نے(minimum government and maximum governance) کا ایک نعرہ دیا تھا۔ آج کل کے حالات کے لیے سیاسی تجزیہ کار ’’مودی سرکار کے گھوڑے‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کر رہے ہیں یعنی بھارت کی انتظامیہ کے ادارے عوامی خدمت کے لیے کم اور سیاسی و نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو ورغلانے، خوف زدہ کرنے، زک پہنچانےیا پھرکچلنے کے لیے زیادہ استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، انکم ٹیکس سے لے کردلی پولیس تک کا بے جا استعمال جس کی نمایاں مثالیں ہیں۔

ان حالات میں کیا عوام کو خاموش تماشائی بنے رہنا ہےیا سِپر ڈال دینا چاہیے؟ اول تو اَقدارپرمبنی سیاست کو پروان چڑھانے کا منصوبہ رکھنے والے افراد اور جماعتوں کے لیے یہ ایک چیلنج بھی ہے اور ایک موقع بھی۔ ان ہی حالات میں ملک کی سیاست میں بنیادی تبدیلیوں کی آواز کو لے کر ایک بیداری مہم چلائی جاسکتی ہے۔ ملک کے بہوجن سماج یعنی اقلیتوں، پس ماندہ طبقات اورتمام ذاتوں کو مل کر علاقائی سیاست کوتقویت دینے کے لیے اپنے اپنے ووٹ بینک کو سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی دوسرا نظریہ اس پر شب خون مارنے کی جرأت نہ کر سکے ورنہ زمینی کیڈر پھسل کر ان کے پاس چلا جائے گا صرف ٹویٹر نیتا ہی بچ جائیں گے۔ اب ووٹروں کو یہ حق حاصل ہو جائے کہ اگر ان کا کوئی عوامی منتخب نمائندہ دغابازی کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ اس کو واپس بلا سکیں جسے Right to Recall

کہا جاتا رہا ہے۔ Anti-Defection Lawکی خامیوں کو دور کرنے کے لیے کمر کسنے کی ضرورت ہے جس سے ہارس ٹریڈنگ کی تمام شکلیں بند ہوں۔ مطالبہ کیا جائے کہ پارٹی منشور میں آئین ہند کی روح کے خلاف کوئی بات شامل نہ کی جائے اور نہ منتخب ہونے کے بعد ان کا نمائندہ وعدہ خلافی کا مرتکب ہو۔ وگرنہ اس کا انتخاب کالعدم تسلیم کیا جائے جیسا کہ فی زمانہ جعلی ذات سرٹیفکیٹ دے کر ریزرو انتخابی سیٹ سے جیتنے والے کا انتخاب رد کیا جاتاہے۔ نیز ہمارے اس ملک اور روئے زمین پر جان و ایمان کے تحفظ کی اصل گارنٹی اسی میں ہے کہ ملت اسلامیہ کے اندر اپنے داعیانہ منصب کا شعورپھرجاگ اٹھے اور وہ انفرادی و اجتماعی طور پرصدیوں کی اپنی اس بھول کی اصلاح کرلیں۔ العطش العطش پکارتے بندگانِ خدا کی تشنگی کو دور کرنے والے ربانی نسخے کو بھی عوام و خواص سب تک پہنچانے میں لگ جائیں۔

راجستھان کا اونٹ چاہے جس کروٹ بیٹھے، باغی پائلٹ کو دیر سویر جئے پور کے رَن وے پر اتر آنا ہے۔ کانگریسی سمراٹ اشوک سے دشمنی مول لے کر بھی سچن نے اب تک کوئی ایسا شاٹ نہیں کھیلا ہے کہ ہائی کمان امپائر نے اسے میدان سے باہر کا راستہ دکھا دیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا اپنی سیاسی و غیر سیاسی زندگی کی تطہیر کے لیے ہم خود احتسابی کے ذریعے اپنی نجات کا سامان کرسکیں گے؟ اسی کے جواب میں یہ پیشن گوئی پنہاں ہے کہ

’لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی اِمامت کا‘!