دہلی اقلیتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ تین طلاق اور کثرت ازدواج کے معاملات مسلم برادری میں موجود نہیں

نئی دہلی، جولائی 18: دہلی اقلیتی کمیشن کی انٹرویو پر مبنی سروے کی ’’شمال مشرقی دہلی میں مسلم خواتین کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حیثیت‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ کے مطابق مسلم طبقہ میں تین طلاق اور متعدد ازدواجی معاملات جیسے مسائل موجود نہیں ہیں۔

یہ رپورٹ جمعرات کو اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کمیشن کے ممبران کرتار سنگھ کوچر اور محترمہ انستاسیا گل کی موجودگی میں اپنے صدر دفتر سے جاری کیا۔

86 صفحات پر مشتمل سروے کی رپورٹ شمال مشرقی دہلی کے 15 علاقوں بابرپور، بقیہ آباد، گوکل پور، جعفرآباد، جنتا کالونی، جیون پور عرف جوہری پور، کاروال نگر، کھجوری خاص، خان پور دھانی، منڈولی، میرپور ترک، مصطفیٰ آباد، سادت پور گوجران، سیلم پور اور زین الدین پور کی 600 خواتین کے انٹرویو پر مبنی ہے۔

شمال مشرقی دہلی میں مسلم خواتین کی سماجی و معاشی اور تعلیمی حیثیت کی وضاحت کرتے ہوئے رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ سروے ٹیم کو اس علاقے میں تین طلاق کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔ تمام جواب دہندگان متفق تھے کہ فوری طور پر تین طلاق کے واقعات مسلمانوں میں بالکل نہیں ملتے ہیں۔

متعدد شادیوں کا بھی رپورٹ کے مطابق یہی حال ہے۔ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ تمام شادی شدہ خواتین اپنے شوہروں کی واحد منکوحہ ہیں۔

ٍرپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں میں تین طلاق اور کثرت ازدواج عام رواج نہیں ہے۔ یہ صرف پروپیگنڈا ہے۔‘‘

سروے کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے بجائے غیر مسلموں میں کثرت ازواج کے زیادہ واقعات پائے جاتے ہیں۔

سروے میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان خواتین اپنے حقوق اور فرائض سے بخوبی آگاہ ہیں۔ سروے کے دوران جن خواتین سے رابطہ کیا گیا، ان میں سے تیس فیصد نے بتایا کہ وہ تین طلاق پر اگست 2017 میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے سے آگاہ ہیں۔ اور انھوں نے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔

اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ کچھ سالوں کے دوران مسلم خواتین کی سماجی اور معاشی حالت اپنے علاقوں میں بہتر ہوئی ہے۔ تمام لڑکیاں اسکول جاتی ہیں اور پہلے سے بہتر تعلیم حاصل کرتی ہیں اور ان کی سوچ میں بھی تبدیلی آئی ہے۔

اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ فسادات کے بعد شمالی مشرقی دہلی میں امن و امان

میں واقع ہونے خلل نے لڑکیوں میں زیادہ فاصلے پر واقع اسکولوں میں جانے کو لے کر خوف پیدا کر دیا ہے۔ والدین پڑوس کے اسکولوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیوں کہ انھیں اپنی لڑکیوں کی سلامتی کا خوف ہے۔ علاقے میں امن و امان کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ بلدیاتی حکومت کو اسکولوں، کھیل کے میدانوں اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات سمیت مزید سہولیات کی تعمیر کی ضرورت ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی نشان دہی کی گئی ہے کہ اس علاقے میں مسلم خواتین میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق صرف 9.2 فیصد جواب دہندگان نے بتایا کہ وہ فی الحال کوئی کام کر رہی ہیں۔ اور وہ کم سے کم اجرت اور معمولی تنخواہ پر کام کر رہی ہیں۔

وہیں رپورٹ کے مطابق مسلم خواتین با اختیار بننے کی سمت بڑھ رہی ہیں اور 31.8 فیصد خواتین اپنی جائیداد کی مالک ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمان خواتین تعلیم میں کمزور ہیں۔ اس علاقے میں صرف 1.3 فیصد خواتین پوسٹ گریجویٹ ہیں، جب کہ 8.7 فیصد گریجویٹ ہیں۔ ان میں زیادہ تر سرکاری اسکولوں میں پڑھتی ہیں۔ 32 فیصد سے زیادہ خواتین کی تعلیم ہندی میڈیم سے ہے، جب کہ 21 فیصد نے انگریزی میڈیم سی تعلیم حاصل کی تھی۔ مسلم خواتین میں تعلیم کی کمی کی بنیادی وجہ خراب مالی حالت تھی۔