ہندوتوا کی عوامی پذیرائی کے لیے سنگھ کے جتن

مقصد پرسمجھوتے کے بغیر سماجی تقاضوں سے ہم آہنگی۔بدری نارائن کی نئی کتاب پر ایک نظر

شبیع الزماں،پونے

 

پروفیسر بدری نارائن کی نئی کتاب ”Republic of Hindutva” کوعلمی حلقوں میں کافی سنجیدگی سے لیا جارہا ہے۔کتاب دو بنیادی باتوں پر زور دیتی ہے اول یہ کہ سنگھ ہندوستانی سماج میں ابھرنے والی تحریک ہے اس لیے اسے بیرونی زاویہ نگاہ بالخصوص لیفٹ کے زاویہ سے نہیں سمجھا جا سکتا ہے دوسرا یہ کہ سنگھ کو سمجھنے کے لیے جو طریقے اپنائے جاتے رہے ہیں وہ اب فرسودہ ہوگئے ہیں،سنگھ کے مخالفین اس کے سائے سے لڑ رہے ہیں، کیونکہ سنگھ وقت کے ساتھ بدل چکا ہے۔سنگھ کو جاننے کے لیے نئی سمجھ کی ضرورت ہے۔یہ کتاب نئے فہم کے ساتھ سنگھ کو سمجھنے کی کوشش ہے۔ سنگھ کو سمجھنے کے دو طریقے رائج ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو لٹریچر کے ذریعے سمجھا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ زمینی سطح پر اس کی سرگرمیوں اور افراد سے سمجھا جائے۔ پروفیسر بدری نارائن نے زمینی سطح پر سنگھ کے کارکنوں سے ملاقاتیں کیں۔ تقریبا ۳۵ شاکھائوں کا انھوں نے سروے کیا ہے جس کے نتیجہ میں یہ کتاب وجود میں آئی ہے۔
بدری نارائن کے مطابق نئی آر ایس ایس بالکل ایک الگ تنظیم ہے،جو متحرک طور پر میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہے اور ہندوستان کی سب سے بڑی این جی او بن کر خدمت خلق کا کام کرتی ہے۔جس نے نہ صرف تنظیم کے طریقہ کار کو بدلا ہے بلکہ نئے سماج میں ابھرے بیانیوں اور تبدیلیوں کو بھی اپنے اندر جگہ د ی ہے ۔جدیدیت اور جمہوریت نےجو نئے تصورات اور دلائل پیدا کیے ہیں سنگھ نے انھیں اپنی پالیسی میں جذب کیا ہے۔مثلاً سماجی مسائل جیسے خواتین کے حقوق،مساوات مر دوزن،ہم جنس پرستی ۔اس سے پہلے سنگھ کو مردوں کی تنظیم سمجھا جاتا تھا اور خواتین کا رول تقریباً نا کے برابر تھا لیکن اب سنگھ کی خواتین ونگ ، راشٹریہ سیویکا سنگھ نےکافی ترقی کرلی ہے اوراسے لیڈر شپ میں بھی جگہ دی جارہی ہے۔
سنگھ اپنی توسیع کے لیے سماج کے ہر طبقے بالخصوص دلت،آدی واسی، خانہ بدوشوں میں مستقل کوشش کررہا ہے۔ جسےامت شاہ نے سمگر ہندوتوا (متحدہ ہندوتوا) کا نام دیا ہے۔ جس کے لیے سنگھ ساماجک سمرستا सामाजिक समरसता( سماجی ہم آہنگی) کے نام سے تحریک چلا رہا ہے دلتوں کو قریب کرنے کے لیے سنگھ ان کی تمام ہی شکایات کو رفع کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ جیسے بابا صاحب امبیڈ کر کو بھی سنگھ اپنا رہا ہے اور انھیں نیشنل ہیروز کی صف میں جگہ دے رہا ہے۔دلتوں کی سب سی بڑی خواہش، مذہبی شناخت کا حصول رہی ہے وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مندر ہوں جہاں وہ خدا سے تعلق کو مضبوط کرسکیں اور جہاں مذہبی اور سماجی رسوم کو ادا کیا جاسکے۔ دلتوں کی اس ضرورت کی تکمیل سنگھ کر رہا ہے۔ہرذات کے لیے اس کے اپنے عقیدے کے مطابق مندروں کی تعمیر کر وارہا ہے۔سنگھ یہ بھی کوشش کررہا کہ ہندووں کی مختلف ذاتیں اور برادریاں ایک دوسرے کے قریب آئیں۔۲۰۱۹ میں ہونے والا کمبھ میلا اس کی واضح مثال تھی جس میں ہرکاسٹ اور کمیونٹی کے لوگوں کو ہندستان بھر سے مدعو کیا گیا تھا۔ یہ میلہ سمگرہ ہندوتوا کا علامتی ثبوت تھا۔ اسی طرح سنگھ کبھی ریزرویشن کا شدید مخالف تھا لیکن ریزویشن کی پالیسی میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔
سنگھ کی ہندوستانی سماج کی سمجھ بہت گہری ہے اسے پتہ ہے کہ یہاں مغربی ممالک کی طرح صرف دلائل اور منطق کام نہیں کرتے بلکہ مذہب ، سماج اور کلچر کی زیادہ اہمیت ہے اس لیے سنگھ ہندو دھرم کے مقبول واعظین یا قصہ گو حضرات کو بھی اپنا دائرہ وسیع کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے جیسے مشہور رام کتھا پرواچک مراری باپو،جگد گرو رام سوروپ اچاریہ مہاراج،پریم بھوشن جی مہاراج،انو رادھا سرسوتی جی،دیوکی نندجی،دعوی پرینکا اور پنڈت رام جی شرما و دیگر۔ یہ سبھی کہیں نہ کہیں ہندوتوادی فکر سے وابستہ ہیں اور اپنی تقاریر کے دوران رام مندر، آرٹیکل ۳۷۰، ٹریپل طلاق اور ہندوتوا سیاست سے جڑے موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں۔
کتاب جہاں سنگھ کی توسیع اور اس کے بدلتے منظر کو خوبصورات انداز میں پیش کرتی ہے۔وہیں بعض نتائج اور تجزیے ایسے ہیں جن سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا اور خود مصنف نے ان کے لیے کوئی مضبوط دلائل نہیں دیے ہیں۔بدری نارائن نے لکھا ہےکہ سنگھ اب ہنسا میں یقین نہیں رکھتا بلکہ سماج میں ہورہی ہنسا اور تشددکرنے والے عناصر سے وہ خود پریشان ہے۔ لیکن پچھلے سات سال کے واقعات ،حالات اور ڈاٹا اس بیان کی تصدیق نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کے خلاف تشدد اسی زمانے میں عام ہوا۔ ماب لنچنگ جیسا بھیانک جرم تکرار کے ساتھ ہونے لگا، دہلی ،بہار،بنگال، نارتھ انڈیا اور کرناٹک میں فسادات اسی دور میں ہوئے،کورونا اور تبلیغی جماعت کے ایپی سوڈ کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں پر حملے ہوئے اور ان سب سے بڑھ کر تشدد کی زبان بالکل عام ہوگئی ، چاہےہوم منسٹر امت شاہ ہو یا سرکار کے دوسرے منتری،بی جے پی اور آرایس ایس سے جڑے ہوئے لوگ ہوں یا دوسرے ہندوتوا وادی کسی کو بھی مسلمانوں کے خلاف تشدد کی زبان استعمال کرنے یا ان کی نسل کشی پر اکسانے میں کوئی عار نہیں ہے۔ ان سب واقعات کو روکنے کے لیے سنگھ کی طرف سے کوئی سنجیدہ کوشش تو دور برائے نام بھی کوئی حرکت دکھائی نہیں دیتی۔ نہ ہی اس کی مرکزی لیڈر شپ اور نہ ہی اس کے ٓآرگن پانچ جنیہ اور آرگنائزر کبھی تشویش کا اظہار کرتے ہیں بلکہ وہ تو تشدد کی تاویل ہی کرتے نظر آتے ہیں، پھر پتہ نہیں بدری نارائن نے کن بنیادوں پر یہ دعویٰ کردیا۔
مصنف نے پوری کتاب میں سنگھ کے ذریعے کیے جانے والی سیوا کے کام یعنی خدمت خلق کے کاموں کا ذکر مثبت انداز میں کیا ہے۔ جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ سنگھ کے اندر انسانوں کے لیے خدمت کا جذبہ پیدا ہوگیا ہے حالانکہ ایسا ہونا دو وجوہ سے ممکن نہیں ہے ۔اول یہ کہ عموماً مذہبی اور نظریاتی تنظیمیں جب خدمت خلق کا کام کرنے لگ جاتی ہے تو اس سے فی الواقع خدمت خلق مقصود نہیں ہوتا بلکہ اپنا دائرہ اثر بڑھانا اور تنظیم کو لوگوں کے لیےزیادہ قابل قبول بنانا ہوتا ہے۔
دوسرا یہ کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے یہاں مذہبی طور پر انسانوں کی خدمت کا تصور پایا جاتا ہے لیکن ہندوکلچر میں ایسا کوئی تصور مذہبی بنیادوں پر نہیں پایا جاتا ہے ۔ اس لیے یہ واضح رہنا چاہیے کہ سنگھ کی سیوا کے بنیاد سیاسی ہے نہ کہ خدمت انسانی کا سچا جذبہ۔
تیسری چیز جس کو بدری نارائن سنگھ کی تبدیلی سے تعبیر کر رہے ہیں تو یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ سنگھ اپنے نظریات میں کبھی بھی نہیں بدلا ہے۔اس کے بنیادی نظریات وہی ہیں کہ مسلمان اور عیسائی اس ملک میں بیرونی قوتیں ہیں اور انھیں یہاں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنا ہے اور ہندو سماج کے ڈھانچے میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔واقعہ یہ ہے سنگھ بخوبی جانتا ہے کہ بدلتے حالات میں کیسے خود کو زندہ رکھا جائے اور سماج میں ایک فعال کردار ادا کیا جائے۔سنگھ کی نزدیک اصل اہمیت مقصد کی ہے طریقہ کار اور پالیسی و پروگرام وقت اور حالات کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں اور سنگھ کو اس بات کی بالکل بھی فکر نہیں رہتی کہ لوگ اس کے بارے میں کیا نتائج اخذ کریں گے۔ماضی میں وہ اس طرح کے کئی سمجھوتے کر چکا ہے ، جیسے سنگھ کے ہندوستانی دستور، قومی پرچم پر اعتراضات تھے لیکن بدلتے حالات میں اس نے اسے تسلیم کرلیا۔گاندھی جی کے قتل پر سنگھ نے مٹھائی تسلیم کی تھی اور سردار پٹیل نے سنگھ پر گاندھی جی کے قتل کےلیے ماحول سازی کے جرم میں پابندی بھی لگائی تھی لیکن بعد میں حیرت انگیز طور پر سنگھ نے گاندھی جی کو اپنا لیا اور انھیں گاتھا امرنیے بنالیا۔اس لیے اب سنگھ اگر امبیڈ کر کو بھی اپنا رہا ہے تو یہ کوئی نظریاتی تبدیلی نہیں بلکہ وہی پرانی پالیسی ہے جس میں صرف مقصد اہم ہے طریقہ کار نہیں۔
ان باتوں کے باوجود کتاب سنگھ کی بدلتی پالیسی و پروگرام کو سمجھے میں ایک معاون کتاب ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سنگھ دلتوں اور پچھڑی ذاتوں میں اپنے کام کو کس طرح آگے بڑھا رہا ہے، اور ہندوستانی جمہوریت کس طرح ہندوتوا جمہوریت میں بدل رہی ہے۔
***

یہ کتاب سنگھ کی بدلتی پالیسی و پروگرام کو سمجھے میں معاون ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سنگھ دلتوں اور پچھڑی ذاتوں میں اپنے کام کو کس طرح آگے بڑھا رہا ہے، اور ہندوستانی جمہوریت کس طرح ہندوتوا جمہوریت میں بدل رہی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021