کیا خاندان اسی کو کہتے ہیں؟

نہ بزرگوں کا احترام نہ خواتین کی عزت نہ انسانوں سے محبت آر ایس ایس کے خطرناک عزائم ،راہول گاندھی کی نظر میں

(دعوت نیوز ڈیسک)

 

کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کو اکثر آر ایس ایس کے نظریات کے خلاف بیان دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ چنانچہ ہی میں انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میرا خیال ہے کہ آر ایس ایس اور اس سے متعلقہ تنظیموں کو سنگھ پریوار کہنا صحیح نہیں ہے۔ پریوار (خاندان) میں خواتین ہوتی ہیں، بزرگوں کے تئیں احترام ہوتا ہے، رحم دلی اور محبت کا جذبہ ہوتا ہے، جو آر ایس ایس میں قطعی نہیں ہے۔ اب میں کبھی آر ایس ایس کو سنگھ پریوار نہیں کہوں گا۔‘‘
راہل گاندھی نے یہ بیان اس واقعے کے بعد دیا ہے جب اتر پردیش میں جھانسی کے راستے ٹرین کے سفر کے دوران بجرنگ دل کے کارکنوں نے کیرالا سے تعلق رکھنے والی راہباؤں کو مبینہ طور پر ہراساں کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد کیرالا کے دورے پر گئے وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی کہا تھا کہ “میں کیرالا کے عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو جلد سے جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔” کیرالا کیتھولک بشپس کونسل (KCBC) نے بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ملک مخالف سرگرمیوں میں بھی ’سنگھ پریوار‘ کے ملوث ہونے کا الزام عائد ہوتا رہا ہے جس میں مالیگاؤں بم دھماکہ، حیدرآباد مکہ مسجد بم دھماکہ، اجمیر بم دھماکہ اور سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ جیسے واقعات سر فہرست ہیں۔
آر ایس ایس کے شدت پسند نظریات کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے عسکری بازو بجرنگ دل پر خود اب تک تین بار پابندی لگائی جا چکی ہے۔ پہلی بار 30جنوری 1948کو گاندھی جی کے قتل کے بعد اس پر پابندی لگی تھی۔ آر ایس ایس کے ایک کارکن ناتھو رام نے گاندھی جی کو صرف اس وجہ سے قتل کر دیا تھا کہ وہ ملک میں عدم تشدد کا فروغ چاہتے تھے۔ دوسری بار سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1975میں آر ایس ایس پر پابندی لگائی تھی۔ تیسری دفعہ 1992میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد اس پر پابندی لگائی گئی تھی۔قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک دفعہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اپنے خطاب میں بڑ ہانکی تھی کہ آر ایس ایس محض تین دنوں میں بیس لاکھ سیوم سیوکوں (کارکنوں) کو میدان جنگ کے لیے تیار کر سکتی ہے۔ جبکہ جنگ کے لیے فوجی جوانوں کو تیار کرنے میں مہینوں درکار ہوتے ہیں۔
آر ایس ایس کے سیاسی اثرات کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے بحیثیت وزیر اعظم اپنے امریکہ کے دورے پر کہا تھا کہ وہ وزیر اعظم رہیں یا نہ رہیں لیکن ہمیشہ سیوک رہیں گے۔ ہو سکتا ہے یہی وجہ رہی ہو کہ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے چھبیس دسمبر 2019کو ٹویٹ کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی کو آرایس ایس کا پی ایم کہا تھا۔ راہل گاندھی نے اپنے ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’’آرایس ایس کے وزیر اعظم دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں‘‘۔ دراصل ۲۰۱۹ میں متنازع شہریت ترمیمی قانون پر پورا ملک سراپا احتجاج تھا اس دوران وزیر اعظم مودی نے دہلی کے رام لیلا میدان میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں کہیں بھی حراستی مرکز نہیں ہے۔ اسی پر راہل گاندھی نے بی بی سی کی اس رپورٹ کو شیئر کیا جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ صرف آسام میں ہی کئی حراستی مراکز ہیں۔
یوں دیکھا جائے تو راہل گاندھی 2014پارلیمانی انتخابات کی تشہیری مہم سے ہی آر ایس ایس پر کھل کر وار کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے اسی وقت کہا تھا کہ گاندھی جی کو آر ایس ایس سے وابستہ لوگوں نے مارا ہے۔ اس بیان کی وجہ سے راہل گاندھی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ راہل گاندھی اکثر آر ایس ایس کو آئینہ دکھاتے ہیں اور ملک کے عوام کو خبر دار کرتے رہتے ہیں کہ آر ایس ایس ایک خطرناک عزائم رکھنے والی پارٹی ہے۔
یکم مارچ 2021کو تمل ناڈو کے کنیا کماری میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا تھا کہ’’وزیر اعظم مودی اور آر ایس ایس تمل زبان اور ثقافت کی توہین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ایک قوم، ایک زبان اور ایک ثقافت لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پھر عوام سے ہی سوال کیا کہ کیا تمل بھارتی شہری نہیں ہیں۔ بنگلہ بھارتی شہری نہیں ہیں، تمل ثقافت بھارتی ثقافت نہیں ہے؟ راہل گاندھی نے کہا کہ ملک کے سبھی اداروں میں آر ایس ایس کا قبضہ ہوتا جا رہا ہے جو تشویشناک ہے۔ 19مارچ 2021کو آسام کے تنسکیا میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ ’’بی جے پی آسام کو ناگپور سے چلانا چاہتی ہے، جہاں آر ایس ایس کا ہیڈکوارٹر ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ باہری لوگ آئیں اور جو کچھ آپ کا ہے اسے اپنے قبضے میں لے لیں، جیسے انہوں نے آپ کا ائیرپورٹ لے لیا ہے۔‘‘ ٹویٹر پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں راہل گاندھی نے لکھا کہ ملک میں فیس بک پر بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کا کنٹرول ہے۔
شاید یہی وجہ رہی ہو کہ راہل گاندھی، آر ایس ایس کو ایک خاندان تصور نہیں کرتے کیوں کہ ان کی نظر میں ایک عزت دار خاندان کبھی بھی اپنے افراد خاندان کو نقصان پہنچانے کا نہیں سوچ سکتا۔ لیکن آر ایس ایس کے نظریات و خیالات سے ہمیشہ خاص طبقے، خاص مذہب کے ماننے والوں اور خاص ذات کے افراد کو نقصان پہنچتا رہا ہے۔ ایک خاندان میں مختلف افکارو خیالات کے حاملین رہا کرتے ہیں لیکن آر ایس ایس ایک ملک ایک آئین کی بات کرتی ہے جبکہ کثرت میں وحدت ہمارے ملک کی شناخت ہے۔ جب آر ایس ایس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا عزم کر کے مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو الگ تھلگ کر دینا چاہتی ہے تو ایسی جماعت کو پریوار کہنا لفظ پریوار کی توہین ہے۔ راہل گاندھی کے ٹویٹر پر پوسٹ ڈالے جانے کے بعد سوال اٹھنے لگے کہ اسے خاندان نہ کہا جائے تو متبادل نام کیا ہو گا؟ ‘سنگھی، بھگوا، زعفرانی، گیروا، جھنڈ، بھیڑ، ٹولی، گروہ، گینگ، خاکی’ وغیرہ ایسے متبادل الفاظ ہیں جنھیں مختلف افراد، سیاست دان اور صحافی سنگھ پریوار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا  10 اپریل 2021