کہیں کوئی اسے بتا نہ دے!

بچی کی پیدائش پر دل بھاری کرنے والوں کے لیے تازیانہ عبرت اور دل کو چھو لینے والی تحریر

برہان احمد صدیقی

 

آفس کی مصروفیت سے باہر جھانکنے کا موقع مشکل ہی سے ملتا تھا، فائلس کو الٹ پلٹ کرنا، فون کی ہر رِنگ پر لپکنا، باس کے بُلاوے پر دوڑنا، تعجب ہے! اس زندگی کے لیے درخواست بھی ہم ہی نے دی تھی اور اپنے انتخاب پر مٹھائیاں بھی ہم ہی نے تقسیم کی تھیں، اس عقلمندی میں ہم اکیلے شریک نہیں۔
جب سے اہلیہ کو بیمار گھر چھوڑ آیا تھا، جاب اور اس کی مصروفیتں، سقراط کو پیش کیے گئے زہر کے پیالے کی یاد دلاتی تھیں۔ لاچار اس نے زہر کے گھونٹ پیے تھے، بے بسی میں! مشکل وقت میں اہلیہ کے ساتھ رہنے اسے حوصلہ دینے اس کی صحت کا خیال رکھنے کے بجائے جاب کے کڑوے گھونٹ پی رہا تھا۔
موبائل کی گھنٹی بشارت کا پروانہ دے گئی۔ گھر میں میرے ایک کلی کھلی، خوشیوں کی سوغات لائی، اللہ نے مجھے پیاری بیٹی عطا کی۔ زباں کو ابھی شکر ادا کرنا تھا۔ قدم باس کی آفس کی طرف دوڑ پڑے۔ اٹھتے ہوئے شاید ٹیبل سے چوٹ لگی تھی خوشی سے میں جھوم رہا تھا ننھی جان کو گود میں لینے کے لیے میں تڑپ رہا تھا۔ باس کی کیبن کے قریب پہنچ کر دل بیٹھنے لگا۔ چھُٹی کے نام سے آنجناب کو عداوت تھی، ہماری جدائی سے ڈرتے تھے، یا باس نامی قبیلے کی یہ فطرت سلیمہ ہے نہیں معلوم۔ پھولی ہوئی سانس، بکھرے ہوئے جملوں کے درمیان ہم نے اپنا مُدعا رکھا۔ باس میرے اشتیاق کو میری چہک کو نہ جانے کیوں ٹک ٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے، بغیر کچھ بولے اجازت مرحمت فرمائی اور تاریخی جملہ ارشاد فرما یا: ٹرین سے جاو گے تو دو دن لگ جائیں گے، فلائٹ سے چلے جاو کرایہ ہماری طرف سے ادا کیا جائے گا۔ کانوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا من کر رہا تھا، ان کے اس جملے کو لکھوا کر آٹو گراف کے ساتھ دیوار پر آویزں کرلوں۔
واپسی پر باس کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھا مسکرا کر انہوں نے گلے لگایا، پاس کی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کر کے اپنی سیٹ سنبھال لی، عادت کے بر خلاف آج کافی فرصت میں لگ رہے تھے، چہرے پر اطمینان اور خاموشی ان کی شخصیت کو با رعب بنا رہی تھی، جھِجھک کر میں کلمات تشکر ادا کرنا ہی چاہتا تھا کہ بولے : اس کی ضرورت نہیں اس دن میں نے کوئی احسان نہیں کیا۔ برسوں سے دل پر ایک بوجھ ہے اسے ہلکا کرنے کی اکثر کوشش کرتا ہوں حالانکہ میں جانتا ہوں کہ کبھی اس بوجھ سے نکل نہیں پاؤں گا۔ کہتے ہیں:
’’لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی‘‘
میری شامت دیکھو! جب خطا کی، ندامت نہیں ہوئی اور جب ندامت کا سامنا ہوا ایک لمبا عرصہ گزر چکا تھا، اب اس کا کفارہ ادا کرنا بھی محال تھا۔ اپنی غلطی کو صحیح کرنے کا موقع ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ میں نے بہت دیر کردی تھی، زخم رِس رہے ہوں تو مرہم کیا جا سکتا ہے مندمِل ہو جائیں تو اپنے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ خطا! میرے وجود کا ایسا حصہ ہے جس کے کرب سے مفر نہیں اور کیسے ہو؟ غلطی پر غلطی جو کرتا رہا اور احساس تک نہ ہوا۔ کاش وقت پر غلطی کا احساس ہو جاتا خیر! یہ کہہ کر باس نے ایک لمبی آہ بھری۔ ہر لفظ میں افسوس اور پچھتاوا عیاں تھا، بزنس میں اتنا کامیاب شخص اندر سے اتنا ٹوٹا ہوا بھی ہو سکتا ہے۔ میں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
کن خیالوں میں گُم ہو گئے ہو؟ میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا اور پوچھ ہی لیا سر! وہ کونسی خطا ہے جسے آپ بھول نہیں پا رہے ہیں جو یوں آپ کو اداس کر دیتی ہے؟ آپ اس کو بھول کر آگے کیوں نہیں بڑھ جاتے؟
پیارے! اسے بھولا نہیں جا سکتا، اس کی پرچھائی تعاقب کرتی ہے، سایہ بن کر میرے ساتھ رہتی ہے، بس ایک ڈر ہمیشہ لگا رہتا ہے، ’’ کوئی اسے بتا نہ دے‘‘ اور میں اس کی نظروں سے گر نہ جاؤں، زندگی میں کئی بار گرا ہوں، لیکن ہر بار کھڑا ہو گیا البتہ اس کی نظروں سے گر گیا تو ۔۔۔ ۔ اُف !!!! ان سب کا یاد کرنا بھی گراں گزرتا ہے۔
اچھا ہوا تم نے ایسی بھول نہیں کی۔ تم نے اپنی بیٹی کا مسکرا کر استقبال کیا، میں ایسا نہیں کر سکا تھا۔ بیٹے کی خواہش دل میں تھی میری ماں بھی پوتے کی منتظر تھی، پیدائش سے بہت پہلے ہی بیوی سے بیٹے کی چاہت بتا دی تھی۔ وہ ہزار سمجھاتی یہ نہ میرے بس میں ہے اور نہ اس پر آپ کا کوئی اختیار ہے جس نے جہاں بنایا یہ اس کا نظام ہے۔ میں اپنی خواہش کا مارا یہ سب سمجھنے کو تیار نہیں تھا دوست کی گود میں بیٹا دیکھ کر میرا بھی من کرتا کہ اپنے بیٹے کو کندھے پر بٹھاؤں۔ یہ بھول گیا تھا کہ باپ، بیٹی کا فخر ہوتا ہے اس کا سایہ اس کا نگہبان ہوتا ہے جسے دیکھ کر بیٹی چہکتی ہے کھل کھلاتی ہے ہمت پاتی ہے اور خود کو طاقتور سمجھتی ہے۔ ایک عمر ڈھل جانے پر یہ سمجھ آیا۔ ضمیر صرف یہی کہہ سکا ’’بہت دیر کی مہرباں آتے آتے‘‘۔
میری بیٹی کی پیدائش کا وہ دن بھولے نہیں بھولتا جب میں ہاسپٹل پہنچا۔ ماں کا چہرہ اداس تھا، دل میں خیال آیا بیوی کی حالت تو خراب نہیں! پاس بیڈ پر لیٹی اہلیہ پر نظر پڑی وہ فکر میں ڈوبی ہوئی تھی۔ وہ میرے ری ایکشن کی منتظر تھی، اس کی گود میں ایک ننھی جان تھی، میں سمجھ گیا بیٹی ہوئی ہے، میرے ارمان بکھر گئے تھے، اسے گود میں بھی نہیں لیا بیوی کچھ کہنا چاہتی تھی، دیکھ کر آتا ہوں، ہاسپٹل سے چھٹی کب ہونے والی ہے کہہ کر میں باہر نکل آیا۔خفگی و اداسی دل میں لیے آنے جانے والوں سے مسکرا کر مبارک باد لیتا میں وہاں سے چلا آیا۔ ابا جان اپنی پوتی کو محبت سے گھر لے آئے، وہ ان کی دنیا بن گئی مجھ سے زیادہ وہ اس کا خیال رکھتے اور وہ بھی ان کی گود میں خوب کھیلتی۔ شاید وہ میری اداسی کو جانتے تھے لیکن انہوں نے کبھی کچھ کہا نہیں۔ وقت اپنی رفتار سے گزر رہا تھا۔ دادا پوتی نے اپنی الگ دنیا آباد کرلی تھی، میں اپنی اہلیہ پر وجہ بلاوجہ خفا ہونے لگا۔ ہمارے رشتوں میں تناؤ پیدا ہو گیا، جب کہ ایسا نہیں تھا، ویسے بھی زندگی اتنی لمبی نہیں کہ نفرتوں کو بسایا جائے گھُٹ گھُٹ کر جیا جائے۔
ابا جان کی طبیعت اچانک زیادہ خراب ہو گئی، وہ بار بار میرے بارے میں پوچھ رہے تھے فون پر مجھ سے کہا گیا کہ جلد از جلد ہاسپٹل پہونچ جاؤں والد کی طبیعت سنبھل نہیں رہی اور وہ صرف تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ مجھے اپنی ایک ایک نازیبا حرکت یاد آنے لگی۔ ہر وہ پل میری نظروں کے سامنے کھڑا تھا جس میں میں نے اپنے والد کی نافرمانی کی تھی یا ان کا دل دکھایا تھا۔ میں جوں ہی ان کے پاس پہنچا، مجھے اپنے قریب کیا اور سرگوشی کے انداز میں گویا ہوئے: بیٹا ایک لڑکی کی عمر دراصل بہت کم ہوتی ہے، والد کے گھر زندگی کی ایک بہار گزار کر اپنے شوہر کے گھر چلی جاتی ہے ایک اجنبی گھر کو اپنا بنا لیتی ہے، کہیں خوشیاں اس کا استقبال کرتی ہیں تو کہیں اداسیاں دامن گیر ہوتی ہیں اور تاحیات وہ گھر اس کا اپنا نہیں بن پاتا ہمیشہ اسے دوسرے گھر سے آئی اجنبی سمجھا جاتا ہے۔ بیٹا! اگر باپ کے گھر بیٹی کو محبت نہ ملے تو اور کہاں ملے گی؟ وہ کچھ اور بھی کہتے لیکن اس سے پہلے ان کی سانسیں بکھرنے لگیں اور وہ اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ میری آنکھیں کبھی ان پر آنسو بہاتی اور کبھی اپنی بیٹی کی پیدائش کے دن والے میرے رویہ پر۔ میں اپنی بیٹی سے معافی بھی نہیں مانگ سکتا تھا کہ اس کی نظروں میں گرنے سے ڈرتا تھا۔ میں نے اسے گلے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ اس کی آنکھوں سے بھی اشک چھلک رہے تھے۔ ساتھ ہی وہ اپنے ننھے ہاتھوں سے میرے آنسو بھی پونچھ رہی تھی۔ اس پل احساس ہوا کتنے قیمتی پل میں نے ضائع کر دیے، آج اپنے والد کو کھونے پر دل ماتم کر رہا تھا تو دوسری طرف ایک بیٹی کا باپ ہونے پر خوش اور مطمئن بھی تھا۔ تنہائی میں اپنی اہلیہ سے معافی مانگی اور التجا کی کہ میرے اس رویے کے بارے میں منی کو کبھی نہ بتانا۔ مجھے ہمیشہ یہ ڈر ستاتا ہے کہ ’’کہیں کوئی اسے بتا نہ دے‘‘۔
سر! میری دعا ہے کہ پیارے نبیﷺ کی بشارت کے آپ بھی مستحق ہوں کہ ’’جس شخص کے پاس بیٹی یا بہن ہو، وہ انہیں مارے نہیں اور ان کی توہین نہ کرے اپنے معاملات میں لڑکوں کو ان پر فوقیت نہ دے اللہ ایسے شخص کو جنت میں داخل کرے گا‘‘۔(ابو داؤد)
باس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا گویا وہ اس بشارت کو پانے کا عزم رکھتے ہوں۔
***

میں نے اسے گلے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ اس کی آنکھوں سے بھی اشک چھلک رہے تھے۔ ساتھ ہی وہ اپنے ننھے ہاتھوں سے میرے آنسو بھی پونچھ رہی تھی۔ اس پل احساس ہوا کتنے قیمتی پل میں نے ضائع کر دیے، آج اپنے والد کو کھونے پر دل ماتم کر رہا تھا تو دوسری طرف ایک بیٹی کا باپ ہونے پر خوش اور مطمئن بھی تھا۔ تنہائی میں اپنی اہلیہ سے معافی مانگی اور التجا کی کہ میرے اس رویے کے بارے میں منی کو کبھی نہ بتانا۔ مجھے ہمیشہ یہ ڈر ستاتا ہے کہ ’’کہیں کوئی اسے بتا نہ دے‘‘۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 21 مارچ تا  70 مارچ 2021