تذکیر بالقرآن

حقیقی مؤ من کون ہیں؟

لئیق اللہ خاں منصوری، ایم اے (بنگلورو)

 

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْن
’’حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں‘‘ (الحجرات:۱۵)
قرآن حکیم کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک مؤمن کا جامع تعارف کرادیا ہے۔ اگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ مؤمن کسے کہتے ہیں تو یہ آیت اس کے سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
٭ اس آیت میں تاکید کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ شروع میں ہے کہ حقیقت میں تو مؤمن وہی ہیں۔۔۔آیت کے آخر میں ہے کہ یہی لوگ اپنے ایمان کے دعوے میں سچے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ مؤمن تو بس اسی کو کہا جا سکتا ہے جس کے اندر یہ اوصاف پائے جائیں جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیں ورنہ وہ محض ایک عام قسم کا مسلمان ہے۔
٭ پچھلی آیت میں عرب کے بدوؤں کے اسلام لانے کا ذکر کیا گیا ہے ’’یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے‘‘ ان سے کہو، تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہو گئے ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری اختیار کر لو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا، یقیناً اللہ بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے‘‘ اس آیت کریمہ کی روشنی میں پہلا مرحلہ اسلام کا ہے پھر ایمان کا مرحلہ ہے۔ اسلام ظاہری تعلق کا نام ہے، جبکہ ایمان دل کی کیفیت کا نام ہے۔ ہر مؤمن لازماً مسلمان بھی ہوگا لیکن ہر مسلم مؤمن ہی ہوگا یقینی نہیں۔ ایک اسلامی ریاست میں شہریوں کا اعتبار ’اسلام‘ کی بنیاد پر ہو گا لیکن آخرت میں اللہ کے ہاں ہر شخص کے معاملات کا فیصلہ ایمان کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ اس لحاظ سے ہر مسلمان کو اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ وہ شعوری ایمان والا بھی بن پایا ہے کہ نہیں۔
٭ واضح رہے کہ ان آیتوں میں لفظ ’’اسلام‘‘ ابتدائی تعلق کے اظہار کے لیے آیا ہے، جبکہ ’’اسلام‘‘ کا ایک تکمیلی مفہوم بھی ہے جو قرآن میں اور مقامات پر بیان ہوا ہے۔
٭ سورہ حجرات آیت ۱۵ میں حقیقی مؤمنین کے تعارف میں پہلی بات یہ بیان کی جا رہی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان حقیقت میں ایمانیات کے باقی تمام امور پر ایمان کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے یہاں صرف ان بنیادی امور کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے۔
٭ دوسری بات یہ بیان کی گئی کہ ایمان لانے کے بعد پھر شک میں مبتلا نہیں ہوئے۔ یعنی ان کا ایمان پکا اور پختہ ہوتا ہے۔ وہ سچے دل سے ایمان لاتے ہیں۔ ان کو اپنے ایمان پر شرح صدر ہوتا ہے۔ ان کا ایمان ایک ایسے یقین کی صورت اختیار کرتا ہے جو متزلزل نہ ہو سکے۔ اس نکتے کی مزید وضاحت آگے آرہی ہے۔
٭ اس آیت میں تیسری بات یہ بیان ہو رہی ہے کہ حقیقی مؤمنین اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو پچھلی گفتگو کا تسلسل ہے۔
یعنی جن لوگوں کا ایمان مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ جن کے ایمان میں شک اور تذبذب ہوتا ہے وہ جہاد سے گریز کرتے ہیں۔
٭ اس آیت کی ایک اہم اصطلاح ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔ یعنی اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنا۔ یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ کی راہ سے کیا مراد ہے۔ اللہ کی راہ سے مراد اس کے دین کی سر بلندی کی جدوجہد ہے۔ اللہ کا دین دنیا میں غالب ہونے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اسلام صرف وعظ و نصیحت کا نام نہیں بلکہ مکمل نظام حیات ہے جو دنیا میں قائم ہونے کے لیے آیا ہے۔ حضرات انبیاء علیہم السلام نے اسی مقصد کے لیے دنیا میں جدوجہد کی۔ حضور ﷺ نے اس مقصد کے لیے جہاد کرتے ہوئے ایک مثالی اسلامی ریاست قائم کر دی جسے حضرات خلفائے راشدین نے خلافت کے ذریعہ قائم رکھا۔ یہی کام امت مسلمہ کے ذمے ہے۔ یہی اللہ کی راہ ہے۔ اسی راہ میں جہاد ایک مؤمن کی ذمہ داری ہے۔ جہاد کے معنی جدوجہد اور کوشش کے ہیں۔ ہر مؤمن کو مجاہد بننا ہے۔ جو خدا کی راہ میں جہاد نہیں کرتا اس کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔
٭ حقیقی مؤمن اپنے مال اور اپنی جان دونوں سے اس مقصد کے لیے مجاہدہ کرتے ہیں۔ اپنے وجود اور اپنے وسائل سب کچھ اس راہ میں کھپا دینا ہی ایمان کا تقاضا ہے۔
٭ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی زبانی اس آیت کا خلاصہ یہ ہوا کہ ’’مؤمن تو ہیں ہی صرف وہ لوگ جن کے دلوں میں ایمان نے ’’یقین‘‘ کی شکل اختیار کرلی اور پھر انہوں نے اپنے مال اور اپنی جان کو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کھپا دیا۔ اور صرف یہی لوگ ہیں جو اپنے ایمان کے دعوے میں سچے ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان مؤمنین میں شامل فرمائے جو کسی شک اور تذبذب میں مبتلا نہیں ہوتے اور اللہ کے دین کے غلبہ کے لیے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں۔ آمین

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 21 مارچ تا  70 مارچ 2021