کورونا کے بعد: نئی دنیا بنی تو اِس سے بالکل مختلف ہو گی

آج کے مضمون کے لئے میں نے جو موضوع منتخب کیا تھاوہ کچھ اور ہی تھا۔حسبِ معمول ذہن میں موضوع سے متعلق خاکہ اور بیانیہ ڈھانچہ تک خود بخود تشکیل پا گیا اور بس بیٹھ کر اسے کاغذ پر منتقل کرنے کی دیر تھی کہ ایک پرانے دوست کا فون آیا اور معمول کی علیک سلیک کے بعد لاک ڈاؤن ،اس سے پیدا شدہ مسائل اور بیزاری کی باتیں ہونے لگیں۔دورانِ گفتگو انہوں نے اچانک ایک سوال جڑ دیاـ’’ آپ کے خیال میں یہ لاک ڈاؤن کب تک چلے گا۔اور اس کے ختم ہونے کے بعد حالات کیا پھر ویسے ہی ہو جائیں گے جیسے کورونا وائرس آنے سے پہلے ِ تھے؟ ‘‘ بس ایسا ہی محسوس ہوا جیسے کسی نے ذہنی اور جسمانی دونوں طرح سے جھنجھوڑ دیا ہو۔ذہن میں مجوّزہ مضمون کا جو ڈھانچہ بنا تھا وہ اڑا ڑا دھڑام سے گر گیا اور فکر کی رو اسی سوال کی جانب منتقل ہو گئی۔

انسان پر جب بھی کوئی بڑی آفت،وبا یا جنگ نازل ہوئی ہے تو اس کے اختتام پر بہت کچھ یکسر بدل جاتا ہے جیسے یہ تبدیلی کوئی قانونِ قدرت ہو۔اور شاید ہے بھی۔سب سے بڑی تبدیلی آتی ہے اس آفت سے بچ کر زندہ باقی رہ جانے والے انسانوں کی نفسیات، طرزفکر اور ان کے سماجی رویّوں میں۔دونوں عالمی جنگوں کے بعد دنیا کا نقشہ نہ صرف جغرافیائی بلکہ سیاسی اور سماجی نقطہ ہائے نظر سے جس طرح تبدیل ہوا اس سے تاریخ کا ہر طالب علم بخوبی واقف ہے۔پچھلے پانچ ہزار کی تحریر شدہ انسانی تاریخ میں درجنوںمہیب آفاتِ ارضی وسماوی کا ذکر ہے جنہوں نے پوری پوری بستیاں کیا ملک کے ملک تباہ کر دیئے اور جن کے حملے سے لاکھوں انسان لقمۂ اجل ہوئے۔ان آفات میں آتش فشاں پہاڑوں کے دہشتناک انفجار سے لے کر زلزلے،جنگلوں کی آگ،سیلاب،قحط اور سونامی جیسے قیامت خیز طوفان تک شامل ہیں۔ان قدرتی آفات کے علاوہ انسان کو بے شمار غیر قدرتی مصائب اور حادثات سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا ہے جن میں سب سے مہلک ثابت ہوئیںعالمی سطح کی جنگیں اور وبائیں۔ان کو میں غیر قدرتی اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جنگ اور وبا دونوں ہی انسان کی غفلت،بے احتیاطی اور بے مغز جارحیت کے نتیجے میں رونما ہوتی ہیں اور دونوں کو ہی بر وقت احتیاطی تدابیر اور تدبّر کے استعمال سے ٹالا جا سکتا ہے۔ مزید بر آں دونوں ہی انسان کے ایجاد کردہ ذ رائع اور اسباب کے شعوری یا حادثاتی استعمال پر مبنی ہیں۔ہم اس وقت ایک عالمی وبا سے روبرو ہیں لہذٰا صر ف وباؤں پر بات ہوگی۔

عالمی سطح پر وباؤں کی تاریخ چھٹی صدی کے طاعون سے شروع ہوتی ہے جسے جسٹینین طاعون کہا گیا اور جس نے تین بر اعظموں ایشیا،افریقہ اور یوروپ میں پھیل کر جو تباہی پھیلائی اس میں چار سے دس کروڑ تک ہلاکتوں کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔بعد کی تیرہ صدیوں کی وبائی تاریخ تو طوالت اور تفصیل طلب ہے لیکن بیسویں صدی میں دنیا پر تپِِ دق، چیچک،خسرہ ، انفلوئینزا اور ملیریا نے بڑا شدید حملہ کیا جن میں مہلک ترین حملہ رہا تپ ِ دق کا جس کے سبب انیسویں اور بیسویں صدی میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد تقریباً ایک ارب رہی۔ شکر ہے کہ ملیریا کے علاوہ ان تمام وبائی امرض کو نیست و نابود کیا جا چکا ہے ۔دوسرے نمبر پر مہلک ترین رہا ملیریا جس نے اب تک کم و بیش پچیس کروڑ انسانوں کی جان لی ہے اور جس کی بعض اقسام و اشکال کا ابھی تک مکمل طور سے تدارک نہیں کیا جا سکا ۔پچھلی بڑی وبا جو دنیا پر نازل ہوئی وہ تھی سوائن فلو (H1N1 ) جس میں 2009-2010 کے عرصے میں بین الاقوامی سطح پر ایک ارب چالیس کروڑ لوگ مبتلا ہوئے اور تقریباً پونے چھ لاکھ جانبر نہ ہو سکے۔

بر سر ِ اولادِ آدم ہر چہ آید بگذرد۔ہر بڑی جنگ،تباہی یا مہلک وبا کے بعد انسانوں نے مکمل طور پر چھٹکارا پا کر نئے سرے سے دنیا ترتیب دی اور نئے ڈھنگ سے زندگی شروع کی۔یہ نیا آغاز ہمیشہ بعض اہم تبدیلیوں کے ساتھ ہوا جن میں اہم ترین ہیں طرزِ فکر اور معاشرتی رویّوں کی تبدیلیاں۔دنیا میں درجنوں ایسے آزاد ادارے ہیں جو ان تبدیلیوں کا باقاعدہ مطالعہ کر کے ان پر رپورٹ اور مقالے مرتب کرتے ہیں۔اس کے علاوہ تمام بڑی اور اہم جامعات کے شعبہ ہائے نفسیات اور سماجیات ان عوامل کی تحقیق کر تے ہیں جن کے زیرِ اثر یہ تبدیلیاں وجود میں آتی ہیں۔آج ہی یعنی دو اپریل ۲۰۲۱ کو بی بی سی ( Future ) نے سائنسی صحافی ڈیوڈ رابسن کا تحریر کردہ نہایت دلچسپ اور چشم کشا مضمون شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے’’ کورونا وائرس کا خوف ہماری نفسیات تبدیل کر رہا ہے‘‘ اس مضمون میں میں فاضل مصنّف نے مدلل طور پر بیان کیا ہے کہ اس مہلک وبا کے خوف سے انسانی رویّوں میں کس قسم کی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اور ذتی نیز معاشرتی رشتوں کی صورتِ حال پر اس کا کیا اثر پڑا ہے۔

اس وقت پوری دنیا کو جس چیز نے ایک لڑی میں پرو دیا ہے وہ ہے موت کا خوف۔موت بھی ایسی جو نہایت تکلیف دہ ہے اور جس کے بعد وائرس کی عفونت اور قہرمانی کے باعث مناسب تکفین و تدفین یا داہ سنسکار بھی ممکن نہیں۔عالمی سطح پر جو لاک ڈاؤن ہے اس سے دنیا کی تقریباً دو تہائی آبادی متاثر ہے۔ہندوستان میں یہ لاک ڈاؤن ان معنی میں مکمل ہے کہ تمام عوامی ادارے ،اسکول کالج ،باز ار،تفریح گاہیں،مسجد،مندر،چرچ اور گوردوارے مقفّل ہیں۔لوگ اپنے گھروں میں محبوس ہیں ،کارخانے،ملیں اور کاروبار بند ہیں اور زندگی پورے طور سے مفلوج ہے۔لیکن یہ تمام احتیاطی تدابیر کس قدر ضروری ہیں اس کا ادراک بھی عوام کو ہو چکا ہے۔ ہندوستان کے لئے یہ پہلا لاک ڈاؤن ہے اور وہ بھی مکمل۔یہ کب تک چلے گا اس کا جواب اس واسطے اور بھی مشکل ہو گیا ہے کہ مارچ کے تبلیغی اجتماع کے بعد جماعت کی غلطی اور متعلّقہ افسران کی بد عنوانی اور غفلت کے نتیجے میں تبلیغیوں کے ساتھ انفیکشن ملک کے دور دراز حصّوں تک پہنچ گیا ہے اور اب وائرس کے متاثرین کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن میں توسیع کے امکانات میں بھی اضافہ ہو گا۔لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لاک ڈاؤن جب بھی کھولا جائے گا متوسّط اور نچلے طبقے کے افراد کو اپنی زندگی ایک نئے زاویئے اور اپنے کاروبارِ زندگی کو صفر سے شروع کرنا ہو گا، اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس نئی ابتدا کے لئے مھنتِ شاقّہ درکار ہوگی۔لیکن ا س لاک ڈاؤن کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔جو لوگ ذرا بھی علم سے بہرہ ور ہیں ان کو وافر وقت اور گھروں تک محدود ہونے کی وجہ سے پوری یکسوئی حاصل ہے جس کے استعمال سے وہ خود احتسابی کرکے اپنی خامیوں کا جائزہ لے سکتے ہیں،زندگی کے تمام رکے ہوئے فیصلے کر سکتے ہیں،اولاد ہے تو اس کی بہتر تربیت کر سکتے ہیں اور عمیق غورو فکر کر کے اپنے تعصبّات سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔ابھی جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اطلاع ملی کہ پڑوس میں ایک شخص کورونا پازیٹو پایا گیا ہے۔اگر وائرس سے متاثرین کی تعداد میں ملک گیر پیمانے پر اسی قسم کا اضافہ جاری رہا جیسا خدشہ ظاہر بھی کیا گیا ہے تو اکیس دن بعد بھی لاک ڈاؤن کا ہٹایا جانا ممکن نہیں ہو سکے گا۔اور اگر یہ تعطّل دو تین ماہ مستقل رہا تو فی الوقت یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ آخرش لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد کس قسم کی پریشانیاں سامنے آئیں گی اور زندگی کو واپس پٹری پر لانے کے لئے کتنی اور کس قسم کی جدو جہد درکار ہو گی۔ ایک بات تو طے ہے کہ اس وبا کے ختم ہونے کے بعد ہم ایک نئی دنیا سے روشناس ہوں گے جو موجودہ دنیا سے یکسر مختلف ہو گی لیکن وہ مرحلہ اسی صورت میں درپیش ہو گا جب زندگی برقرار رہے،لہذٰا پہلی ترجیح تو یہی سمجھی جانی چاہیئے کہ پوری احتیاط سے کام لیتے ہوئے عالمی ادارۂ صحت کے کی تمام ہدایات اور مشوروں پر عمل کیا جائے جو حکومت کے توسط سے ہم تک پہنچائے جارہے ہیں۔اس متوقع نئی دنیا کے موضوع پر مزید لکھوں گا۔

مضمون نگار سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ موصوف مختلف سماجی اور ادبی کازوں سے وابستہ ہیں۔ آپ موقر ادارے عالمی اردو ٹرسٹ کے چیئرمین بھی ہیں۔