بی جے پی کی طفیلی سیاست کی تاریخ

سید افتخار، عثمان آباد، مہاراشٹر

قوموں کی سیاسی و سماجی زندگی میں معمول کے مطابق یا غیر معمولی واقعات رونما ہورہے ہوتے ہیں. اس وقت کے عوام اور خواص اور ایک طرف دانشور طبقہ بھی ان سے یا تو صرف نظر کیے رہتا ہے جب یہ واقعات حادثات میں تبدیل ہوکر ماضی میں کھوچکے ہوتے ہیں یا ایک تاریخ مرتب کرچکے ہوتے ہیں۔ اور ماضی کی تاریخ جب مستقبل کی شاہراہ پر رواں دواں ہوکر پہلے سے طے شدہ شاہراہ کو چھوڑ کر چلتے ہوئے کسی دوسری شاہراہ پر مڑ جاتی ہےتو جس منزل سے ہم قریب تر ہورہے ہوتے ہیں وہ منزل ہماری طے شدہ منزل نہیں ہوتی ہے اور قوم پھر یکایک بیدار ہوجاتی ہے اور اس میں کشاکش کا عمل جاری و ساری ہوجاتا ہے۔

ہندوستان کے موجودہ حالات اور مسائل سے دانشور، دولتمند، خواص سے لے کر ایک عام آدمی بھی اچھی طرح واقف ہے، ان حالات و مسائل کا تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ملک کی سیاسی و قومی زندگی کے دھارے کا رخ جہاں سے تبدیل ہوا وہ اصل میں وہ تحریک ہے جو آج سے 47 سال قبل جے پرکاش نارائن نے پٹنہ بہار سے شروع کی تھی۔ یہ کہنا غلط ہوگا جیسا کہ عام طورپر لوگوں کا خیال ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک کے حالات میں یہ تبدیل آئی ہے۔ نہیں، بلکہ ان کی جڑیں جے پرکاش نارائن کی ملک میں رشوت ستانی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں پوشیدہ ہیں۔ رشوت ستانی کے خلاف ملک کی تحریک کا آغاز پٹنہ کے کسی کالج کے ایک ہاسٹل میں طلبا نے کالج انتظامہ کے خلاف شروع کی تھی۔ یہ محض ایک معمولی واقعہ ہے جو عام طور پر چھوٹے موٹے دفاتر میں اہلکاروں کی رشوت طلبی سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن دراصل یہ محض رشوت ستانی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک نہ تھی بلکہ ایک بہت بڑے منصوبے کے تحت اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے چلائی جانے والی تحریک تھی۔

1971عیسوی میں مشرقی پاکستان میں چلائی جانے والی علاحدہ بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی، جو مجیب الرحمن نے شروع کی تھی، اندرا گاندھی نے محض سیاسی تائید ہی نہیں کی تھی بلکہ عسکری مدد کرکے مجیب الرحمن کی قیادت میں پاکستان کو دو دھڑوں میں تقسیم کردیا تھا۔ ہندوستان کی تقسیم سے پاکستان کے قیام کے سبب ہندوستانی عوام میں جو غم و غصہ پایا جاتا ہے اس کے لیے پاکستان کو توڑ کر اس کو دو حصوں میں تقسیم کردینے سے زیادہ اور کیا عزیز ہوسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی عوام کے ساتھ ساتھ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اندرا گاندھی کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوگئی تھیں۔ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے نتیجہ میں ایک سے دیڑھ کروڑ بنگلہ دیشی عوام جن میں ہندو اور غریب عوام بڑی تعداد میں تھے، ہندوستان میں مہاجر کی حیثیت سے قبول کرلیے گئے تھے۔ یہ ایک ایسا بوجھ تھا جس کو ہندوستان جیسا ملک بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ یہی وجہ رہی کہ بنگلہ دیش کے قیام کے اعلان کے بعد یہاں کی عوام اور سیاسی پارٹیوں کو اب یہ فکر لاحق ہوئی کہ کیا ان دیڑھ کروڑ بنگلہ دیشیوں کو واپس بھیجنے میں اندرا گاندھی کامیاب ہوسکیں گی؟ کسی کو بھی اس بات کا یقین نہیں تھا مگر اندرا گاندھی کو یقین تھا اور ان کا یقین صحیح ثابت ہوا۔ انھوں نے نہ صرف پاکستانی فوج کو ہندوستانی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا بلکہ ان بنگلہ دیشی مہاجرین کوبھی ان کے وطن واپس بھیج دیا۔ پاکستان کو اپنی شکست پر نہیں بلکہ فتح پر یقین تھا اور یہ یقین امریکہ کے دم پر تھا۔ امریکہ نے اپنا ساتواں بحری بیڑہ بحر ہند کی طرف روانہ کیاتوپاکستان نے سمجھا کہ وہ اب بھارت کی فوج کو ہندوستان واپس بھیج دے گا جو بنگلہ دیش میں گھس کر پاکستانی فوج سے جنگ کررہے تھے۔ اس کا یقین غلط ثابت ہوا۔ اس ملک کو شکست تسلیم کرنی پڑی۔ اس لیے کہ امریکہ کا بحری بیڑہ ہفتہ دو ہفتہ بحر ہند کی سیر کرکے واپس ہوگیا۔ 16دسمبر 1971کو ہندوستان فوج نے سابق مشرقی پاکستان میں گھس کر پاکستان کو شکست دی۔

یہ اندرا گاندھی کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ انھوں نے اس شاندار فتح کے باوجود ملک میں کہیں بھی فتح کا جشن نہیں منایا نہ عوامی سطح پر نہ حکومتی سطح پر۔ آج کے کم ظرف حکمرانوں کے دور میں اگر یہ فتح ہوتی ملک بھر میں ایک طرف فتح کے جلوس نکلواتے اور دوسری طرف فسادات کا سلسلہ جاری رکھتے۔

اب اندرا گاندھی ملک کی سب سے زیادہ طاقتور عوامی رہنما اور سیاسی حکمراں تھیں۔ اندرا گاندھی نے اپنی سیاسی حیثیت اور قوت کو مزید مستحکم کرنا شروع کیا۔ وہ جس بلندی پر تھیں وہاں تک کسی دوسرے سیاسی رہنما کی رسائی نہ تھی۔ اندرا گاندھی اپنی بلندی سے اپنے ہمنواؤں اور حریفوں دونوں پر نگاہ رکھی ہوئی تھیں۔ انھوں نے اپنی اس طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ملک کی جن ریاستوں میں غیر کانگریسی حکومتیں قائم تھیں ان کو برخاست کردیا۔ 1972میں جو انتخابات ہوئے اس میں کانگریس کو ملک بھر کے 2529حلقہ انتخابات میں 1926پر فتح حاصل ہوئی۔ جن سنگھ اپنے آغاز سے ہی ملک کے اقتدار پر نظر جمائے بیٹھی تھی اس کو اب اپنی منزل پہلے سے دور نظر آنے لگی ۔ آر ایس ایس نے اندرا کی طاقت کو آنکا تو ان کی بھنویں تن گئیں۔ اس وقت انتخابی سیاست سے دور رہ کر بھی حکومتی اداروں اور سیاسی حلقوں میں اپنا اثر و رسوخ رکھنے والی ایک شخصیت جے پرکاش نارائن کی تھی آ رایس ایس کی آنکھیں ان پر اٹھیں۔ جے پرکاش نے انھیں دیکھا اور دونوں میں مفاہمت ہوگئی۔ جن سنگھ نے ان کا طفیلی (Parasite) بن کر اپنے خوابوں کو تلاشنا اور تراشنا شروع کیا۔ یہاں سے بی جے پی کی طفیلی سیاست کا آغاز ہوا۔ جیسا کہ ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں، پٹنہ بہار کے کسی کالج کے ہاسٹل میں ہونے والے رشوت ستانی کے معاملے پر طلبا جو تحریک چلارہے تھے، اس تحریک پر جے پرکاش کی نظر پڑی اور وہ اس تحریک میں شریک ہوئے تو وہ ایک ملک گیر سطح کی تحریک بن گئی۔ جے پرکاش نارائن نے اس تحریک کا اغوا کیا اور آر ایس ایس کے کارکنوں کو اس میں شریک کرکے اس کو ملک بھر میں پہنچادیا۔ اب رشوت ستانی کے خلاف اس مہم کو جے پرکاش نے مکمل انقلاب کی تحریک میں بدل دیا۔

مکمل انقلاب کا خاکہ تیار کیا گیا۔ جن کے اغراض و مقاصد میں ملک کی سیاسی اور سماجی زندگی کی تشکیل نو تعلیمی و تہذیبی اقدار کی نشو و نما کے ساتھ ساتھ روحانیت کے ارتقا کو شامل کیا گیا تھا۔ صرف ایک ہی پارٹی کی حکومت کو قائم کرنا بھی اس میں شامل تھا۔ ملک بھر میں وقتاً فوقتاً ہونے والے انتخابات کو ختم کرکے سارے ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات کروانا بھی اس منصوبے کا حصہ تھا۔ اندرا گاندھی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور سیاسی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے انھوں نے دیہات سے لے کر ضلع کے صدر مقام تک کمیٹیوں کو قائم کرنے کا پروگرام بنایا۔ عوام سے یہ کہا جانے لگا کہ ملک کو آمریت کا خطرہ لاحق ہے اس لیے ہم سب کو متحدہوکر ایسی طاقتوں کو قابو میں رکھنا ہوگا۔ ایک طرف ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ایک ہی پارٹی حکومت قائم کرے دوسری طرف وہ کہنے لگے کہ جمہوریت کے ذریعہ ہم آمرانہ طاقتوں کو ختم کرسکتے ہیں۔ ان دونوں میں تضاد ہے ایک ہی پارٹی کی حکومت میں جمہوریت کا کیا مقام ہوگا؟

ان کے اس تضاد کے پیچھے دو وجوہات تھیں ایک تو یہ کہ وہ ایک عرصہ تک مارکسی نظریات کے حامی رہے تھے، جس میں جمہوریت کا جو مقام ہے وہ دنیا جانتی ہے۔ دوسری طرف ان کو آر ایس ایس کی طاقت کا استعمال کرنا تھا جس نے ان کے انقلابی منشور میں وہ سارے مقاصد شامل کردیے تھے جو موجودہ بی جے پی حکومت ملک میں نافذ کرنا چاہتی ہے، جیسے ایک ملک ایک انتخابات، ایک راشن کارڈ، ایک طرح کا ٹیکس، ایک تعلیمی پالیسی، ایک تہذیب اور ایک مذہب وغیرہ۔ جے پرکاش نے آر ایس ایس کا ساتھ دیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ایک فسطائی تنظیم ہے۔ ان تمام تضادات سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ صرف اتنی کہ ان خوش نما نعروں کے ذریعہ ان کا واحد مقصد عوام کو اندرا گاندھی کے خلاف متحد کرنا تھا۔ انھوں نے متحد کردیا۔ ملک گیر تحریک چلائی مگر اس کے نتیجے میں ان کا اپنا کوئی مقصد واضح طور پر حاصل نہ ہوسکا سوائے اس کے کہ انھوں نے آر ایس ایس کو ملک کی عوامی تحریک بنادیا تھا جس کا خواب وہ عرصے سے ملک کے ایک کونے میں بیٹھ کر دیکھ رہی تھی۔ جے پرکاش نارائن نے آگے چل کر اپنی تحریک کو ملک کے گوشے گوشے میں پھیلادیا۔ گجرات میں نو نرمان تحریک جاری تھی اس نے بی جے پی کی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی اب لوگوں کو یہ بتایا جانے لگا کہ ملک میں ایک مضبوط اپوزیشن کی ضرورت ہے۔

ملک کے مشہور سماج وادی قائد راج نرائن نے 1971کے عام انتخابات میں رائے بریلی سے اندرا گاندھی کے خلاف انتخاب میں حصہ لیا۔ بنگلہ دیش کی کامیاب تحریک کے بعد ہونے والے ان انتخابات میں اندرا گاندھی کو بڑی کامیابی ملی۔ راج نرائن، اندرا گاندھی سے ہارگئے۔ تاہم انھوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں اندرا گاندھی کی جیت کو چیلنج کیا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ اندرا گاندھی نے اپنی انتخابی مہم میں سرکاری مشنری کا بے جا استعمال کیا۔ یہ محض اتفاق تھا یا سوچا سمجھا منصوبہ کہ جیسے جیسے الہ آباد کی عدالت میں مقدمے کی سماعت جاری رہی ویسے ویسے جے پرکاش نے 1974کی اپنی تحریک کی شدت میں اضافہ کیا۔ جوں جو ں فیصلے کی تاریخ قریب ہوتی گئی ویسے ویسے پورے ملک میں ہنگامے شروع ہوگئے، ایک ایک شہرمیں دن بھر میں کئی کئی جلوس نکلنے لگے ۔ بدامنی پھیلتی گئی اور ہر طرف تشدد بڑھتا گیا۔ اندرا گاندھی نے حالات کو پرامن کرنے کی کوششوں میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ گجرات میں نونرمان سینا کی تحریک نے، جو بجائے خود مکمل انقلاب کی شکل میں جے پرکاش کی عوامی تحریک کا حصہ بن چکی تھی، تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ گجرات کے اپنے دورے میں جب ایک جلسے میں اندرا گاندھی خطاب کررہی تھیں تو ان پر چاروں طرف سے جوتے چپل پھینکے گئے۔ ادھر الہ آباد کی عدالت میں جج جگ موہن لال سنہا کی عدالت میں سماعت جاری تھی۔ اس مقدمہ کا فیصلہ کس سمت میں جاسکتا ہے۔ یہ معلوم کرنے کے لیے خفیہ ایجنسیوں نے جج سنہا کے نجی سکریٹری منا لال پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ 11جون 1975کو فیصلے کی تاریخ مقرر تھی مگر اس سے پہلے فیصلے کی ایک نقل حاصل کرنے کی اس وقت کی مرکزی حکومت کی کوششیں ناکام ہوگئیں۔ موجودہ دور کے عدلیہ کے زمانے میں اب کوئی مقدمہ دائر تو ہوسکتا ہے مگر فیصلہ کس کے حق میں جائے گا اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 11جون 1977کو فیصلہ آگیا اندرا گاندھی مقدمہ ہارگئیں، راج نرائن مقدمہ جیت گئے۔

ملک میں اس وقت جے پرکاش نارائن کی تحریک کی وجہ سے اندرا گاندھی کے خلاف جو سیاسی ماحول پیدا ہوگیا تھا ان حالات کا اس فیصلے پر کوئی اثر ہوا یا نہیں ہوا اس وقت کسی نے سوچا نہیں ہوگا۔ جب سیاسی واقعات انتہائی سرعت کے ساتھ وارد ہوتے رہتے ہیں تو عوام اور خواص دونوں ہی عوامی نفسیات سے متاثر ہوتے ہیں۔ کسی تحریک کے دور رس نتائج کیا ہوں گے اس پر غور نہیں کرتے۔ خواص میں دور اندیشی کا فقدان اس وقت بھی تھا آج بھی ہے۔ اور آئندہ کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ آج بھی شاید کسی گوشے سے یہ سوال پوچھا جاتا ہوگا کہ اندرا گاندھی کے خلاف عدالت کے فیصلہ پر ملک کے اس وقت کے حالات پر کوئی اثر ہوا تھا یا نہیں۔ البتہ ملک کے موجودہ حالات اسی تحریک کی دین ہیں جس نے جن سنگھ کو پہلے جنتا پارٹی اور بعد میں موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں تبدیل کیا اور اس کو اقتدار تک پہنچادیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جگ موہن لال سنہا نے اندرا گاندھی کے انتخاب کو کالعدم ٹھہراتے ہوئے آئندہ چھ (6) سالوں تک ان پر ملک کے کسی بھی سیاسی انتخاب میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اس وقت ٹائمز آف انڈیا نے کہا تھا کہ:

Firing the Prime Minister for a traffic ticket

(ٹرافک کی معمولی غلطی کے لیے وزیراعظم کو دی گئی سزا)

اندرا گاندھی کے خلاف ہونے والے عدالتی فیصلہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ جے پرکاش نارائن کی تحریک کو بےحساب تقویت حاصل ہوئی۔ دوسری جانب اندرا گاندھی کے خلاف پورے ملک میں تحریک شروع ہوئی۔ پورا ملک جے پی اور اندرا گاندھی کے حامیوں میں تقسیم ہوگیا۔ اندرا گاندھی نے عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہا مگر اس وقت عدالت کی چھٹیاں چل رہی تھیں (موجودہ دور میں ایک صحافی کو ضمانت دینے کے لیے آدھی رات میں بھی عدالت لگائی جاسکتی ہے اور ضمانت دی جاسکتی ہے اس وقت یہ چلن نہیں تھا)، یہ اندرا گاندھی کی بدقسمتی تھی۔ ملک کی وزیراعظم کو عدالت کے دروازے سے واپس لوٹنا پڑا۔ جے پرکاش نارائن نے اپنی تحریک کو تشدد کا راستہ دکھایا۔ ملکی افواج اور پولیس اور انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ اندرا گاندھی کے بے جا احکام کو نہ مانیں اور ان سے کسی قسم کا تعاون نہ کریں۔ وزیراعظم کے پاس ایک ہفتہ کا وقت تھا۔ انہوں نے ملک میں ایمرجنسی لگانے کا فیصلہ کیا۔ وجوہات بتائیں کہ:

۱) جے پی کی تحریک کی وجہ سے ملک کی جمہوریت کے لیے خطرات پیدا ہوگئے ۔

۲) ملک کی اقتصادی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ اقدام ضروری ہے۔

۳) ملک کے اندرونی معاملات میں باہر کی طاقتیں مداخلت کررہی ہیں۔

اندرا گاندھی صرف ایک وجہ کا تذکرہ کرتیں کہ جے پی نے ملک کی انتظامیہ، فوج اور پولیس محکمے سے حکومت کے جو اقدامات کی خلاف ورزی کرنے کی اپیل کی ہے وہ ملک سے بغاوت کے سوا کچھ نہیں؟ تب بھی ایمرجنسی کو نافذ کرنا حق بجانب تھا۔ کیا جے پی کا اس وقت کا اعلان قوم سے بغاوت (Sedition) کے زمرے میں نہیں آسکتا تھا۔ اندرا گاندھی نے ایسا کوئی الزام جے پرکاش پر نہیں لگایا یہ ان کی کشادہ ذہنیت، اعلیٰ ظرفی اور نیک نیتی کی دلیل ہے۔

ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ملک میں حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کردیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس، جماعت اسلامی ہند، آنند مارگ وغیرہ دیگر تنظیموں پربھی پابندی عائد کردی گئی۔ ان کے اکابرین اور کارکنان کو جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ سیاسی مخالفین اور آر ایس ایس کی بات سمجھ میں آتی ہے مگر جماعت اسلامی ہند اور دیگر تنظیموں کو جن کا جے پی کی تحریک سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا، ان کو کس جرم کے لیے سزا دی گئی ؟۔ آر ایس ایس کے مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد یعنی اندرا نہرو گاندھی کو ملک کی رہنمائی سے بے دخل کرنے کا مقصد اسی جے پی کی تحریک سے حاصل ہوگیا۔ آج ملک کے جو حالات ہیں وہ اس پر گواہ ہیں۔ عدلیہ، انتظامیہ، پریس، معیشت، قومی تجارتی ادارے، الیکشن کمیشن سب پر بھاجپا نے قبضہ جمالیا ہے۔ سارے ادارے بالواسطہ آر ایس ایس کے کنٹرول میں آگئے ہیں۔ ایمرجنسی کے نفاذ نے ان کے لیے مزید راستے اور مواقع کھول دیے۔ جس طرح سے آر ایس ایس نے ایمرجنسی کے خلاف پروپگنڈا چلاکر (بی جے پی یعنی جن سنگھ) اندرا گاندھی گھرانے اور کانگریس کے خلاف ماحول تیار کیا اور اس کے نتیجے میں کانگریس ایمرجنسی کے داغ کو چھپاتی پھرتی ہے اور موجودہ سرکار بغیر ایمرجنسی کا نام لیے وہ سب کچھ کررہی ہے جو خود اندرا گاندھی اور کانگریس بھی نہیں کرپائے تھے۔ جے پرکاش نارائن نے اپنی تحریک کی ابتدا کرتے ہوئے جن مقاصد کو ملک کی عوام کے سامنے رکھا تھا اس میں سے ایک مقصد ملک میں طاقتور حزب اختلاف فراہم کرکے جمہوریت کی حفاظت کرنی تھی۔ اب جب کہ ان کی تحریک کو مکمل انقلاب کا مقصد واضح طور پر دکھائی دینے لگا تو انھوں نے اپنی تحریک کا یہ مقصد قرار دیا کہ ملک میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہونی چاہیے۔ مرکز سے لے کر ریاستی اسمبلیوں کے لیے ایک ہی وقت میں انتخابات ہوں یہ انتخابات کس کے درمیان ہوں؟ جب ایک ہی پارٹی کو حکومت کرنا ہے تو انتخابات ہی کیوں ہوں! اس کا جواب 2019کے عمومی انتخابات کے دوران ملک کے موجودہ وزیر داخلہ نے دے دیا ہے۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ آپ کو 2024کے بعد پھر کبھی زحمت نہیں دی جائے گی یعنی اس کے بعد ایک ہی پارٹی کی حکومت ہوگی۔

جے پرکاش یہیں پر نہیں رکے۔ انھوں نے آر ایس ایس کو پہلی مرتبہ یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اس تحریک کے ذریعہ چلائے جانے والے جلسوں کو خطاب کریں۔ اس طرح آر ایس ایس جو اب تک ایک سیاسی گمنامی کی زندگی گزار رہی تھی، ملک کے قومی دھارے میں شامل ہوگئی اور صرف شامل ہی نہیں ہوئی بلکہ اس دھارے کے رخ کو بھی موڑدیا جس کا تذکرہ ابتدائی سطور میں کیا گیا۔ لوگوں نے جے پی سے کہا کہ آپ آر ایس ایس کے نمائندوں کو اپنے اسٹیج پر نہ بلائیں اور ان کو قوم سے مخاطب ہونے کا موقع نہ دیں ۔ جے پی نے جواب میں ایک ایسے ہی جلسے سے یہ اعلان کیا کہ اگرآپ کی (یعنی عوام کی) نظر میں آر ایس ایس ایک فسطائی تنظیم ہے تو آج سے میں بھی فسطائیت کا حامی ہوں۔ جے پی کے حلیفوں نے لاکھ سمجھایا کہ آپ دوسرے کسی ایسے جلسے میں نہ جائیں جہاں آر ایس ایس کے لوگ مخاطب کرنے والے ہوں لیکن جے پی نے ان کی سنی ان سنی کی اور پھر اپنے اسی اعلان کو دہرایا۔

آر ایس ایس نے ان کے ذریعے اپنی اس تعریف کا حق ادا کرتے ہوئے پبلک پلیٹ فارم سے اعلان کردیا کہ جے پرکاش نارائن ملک کے نئے فادر گاڈ (God Father) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مزید یہ بھی اعلان کردیا کہ جے پرکاش نارائن صرف مہاتما گاندھی کی تعلیمات پر ہی عمل پیرا نہیں ہیں بلکہ آر ایس ایس کے مدھو دنڈوتے نے اسی اسٹیج سے یہ بھی اعلان کردیا کہ جے پی ونو با بھاوے اور آر ایس ایس کے گرو گولولکر کی بھی پیروی کرتے ہیں۔ جے پی نے صحیح کہا تھا کہ اگر آر ایس ایس فسطائی تنظیم ہے تو وہ خود بھی فسطائی ہیں اس کا ثبوت مدھو دنڈوتے نے دے دیا۔

1978میں اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کو ختم کرکے انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کرکے تمام گرفتار سیاسی و غیر سیاسی رہنماؤں کو آزاد کردیا۔ جیل میں رہتے ہوئے بھی آر ایس ایس اپنی جن سنگھ کے لیے سیاسی زمین تیار کررہی تھی۔ جب اسے دیگر سیاسی پارٹیوں سے ملاقات کا موقع فراہم ہوا تو سب نے جن سنگھ کے ساتھ انتخابات میں شمولیت کا فیصلہ کرلیا۔ ملک کی واحد کمیونسٹ پارٹی کو چھوڑ کر باقی تمام سیاسی پارٹیوں نے کانگریس کے خلاف محاذ بنالیا جسے جنتا پارٹی کا نام دیا گیا۔ انتخابات میں کانگریس پارٹی کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جنتا پارٹی کو فتح حاصل ہوئی مرار جی دیسائی کو وزیراعظم بنایا گیا۔ اندرا گاندھی کے خلاف جنتاپارٹی حکومت نے بدلے کی سیاست شروع کی۔ ایمرجنسی کی زیادتیوں اور دیگرمعاملات کی تحقیقات کے لیے 48 کمیشن قائم کیے گئے۔ شاہ کمیشن آف انکوائری صرف ایمرجنسی میں ہونے والے مظالم کے لیے بنایا گیا۔ ملک کے تمام حکومتی افسروں اور پولیس افسران کو اندرا گاندھی کی چھوٹی سے چھوٹی غلطیوں کو تلاش کرنے کے کام پر لگادیا گیا۔

جس جنتا پارٹی کی تشکیل دی گئی تھی اس کے لیے نانا جی دیشمکھ (آر ایس ایس کے قائد) کی قیادت میں لوک سنگھرش کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ نا نا جی کو اس کا صدر جے پی نے بنایاتھا۔ جنتا پارٹی میں شامل جن سنگھ کو لوک سبھا کے 31 فیصد امیدواروں کے لیے ٹکٹ دیے گئے تھے۔ بڑی مشکل سے یہ حکومت ڈھائی سال قائم رہی۔ جن سنگھ کی دوسری رکنیت آر ایس ایس اور جنتا پارٹی کے معاملہ پر مدھو لمئے نے تحریک چلائی اس طرح آپسی اختلافات کے چلتے 1979میں حکومت ختم ہوگئی اس کے بعد کے انتخابات میں اندرا گاندھی پورے زور شور سے پھر اقتدار میں واپس آگئیں۔ ادھر بھنڈران والا نے خالصتانی تحریک شروع کی تھی معاملہ طول پکڑتا گیا تو اندرا گاندھی نے گولڈن ٹمپل پر فوج کشی کی جسے آپریشن بلیو اسٹار کہا گیا۔ اسی کے نتیجے میں اندرا گاندھی کا قتل ہوگیا۔ یہ 1984کی بات ہے۔ راجیو گاندھی کو وزیراعظم بنایا گیا۔ 1989میں ہونے والے انتخابات میں وی پی سنگھ نے راجیو گاندھی کے خلاف بوفورس میں رشوت ستانی کا الزام لگایا۔ انتخابات میں راجیو گاندھی ہارگئے۔ جنتا پارٹی کی جیت ہوئی۔ وی پی سنگھ وزیراعظم بنے تو انھوں نے منڈل کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ جنتا پارٹی میں شامل جن سنگھ نے مخالفت شروع کی۔ رام مندر کی تحریک جاری کی ۔ وی پی سنگھ سے حمایت واپس لے کر جنتا پارٹی نے اپنی طفیلی سیاست چھوڑ کر خود ہی بھارتیہ جنتا پارٹی قائم کی جو مکمل طور پر تمام پارٹیوں کی طفیلی (parasite) بن کر ابھری تھی۔ اس وقت اس کے ارکان پارلیمان 90 تک پہنچ چکے تھے۔ 1992میں بابری مسجد کی شہادت کے دوران کانگریس کی حکومت تھی۔ 1998میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے دیگر چھوٹی بڑی پارٹیوں کا محاذ کھڑا کر کے مرکزی حکومت پر قبضہ کرلیا۔ 1904میں اس کو شکست ہوئی اور پھر 2014 تک کانگریس کی حکومت قائم رہی۔ 2012 میں بی جے پی کو پھر کسی تن آور درخت کا طفیلی بننا پڑا۔ اس مرتبہ اس کی نظر مہاراشٹرا کے سماجی کارکن انا ہزارے پر پڑی۔ اس نے ان کو بھی گاندھی قرار دیا۔ جے پرکاش کے بعد دوسرے گاندھی اور دوسرے فسطائی پارٹی کی تائید میں کھڑے ہونے والے رہنما۔ اس مرتبہ دوسرے قائدین نے بھی ان کا ساتھ دیا جس میں کیجریوال سرفہرست ہیں۔

انا ہزارے احمد نگر کے تعلقہ پارنر کے ایک دیہات رلے گن سدھی میں رہتے ہیں۔ ان کی آر ایس ایس نظریات سے اتفاق کی تاریخ نریندر مودی تک پہنچتی ہے۔ کسی زمانے میں دونوں ایک ساتھ کام کررہےتھے۔ بعد میں مودی گجرات کی سیاست میں پہنچ گئے تو انا ہزارے نے مہاراشٹرا میں کانگریس پارٹی کی حکومت کے خلاف رشوت ستانی کی مہم کا مورچہ کھول دیا۔

کانگریس کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی کسی حکومت کے خلاف انھوں نے ایک لفظ نہیں کہا۔ موجودہ کسانوں کی تحریک کے بارے میں جب بھی ان سے تعاون کی اپیل کی جاتی ہے تو وہ مون برت رکھ لیتے ہیں۔ 2011میں انھوں نے کانگریس کے خلاف رشوت ستانی اور لوک پال کے تقرر کے لیے تحریک شروع کی، جسے ساری دنیا جانتی ہے۔ یہ تحریک بی جے پی کے تعاون سے چلی۔ کانگریس 2014 کے انتخابات ہارگئی۔ ملک میں ایک سے بڑے ایک کروڑوں کے گھپلے ہوئے اور جاری ہیں۔ انا ہزارے نے ایک بات بھی نہیں کہی۔ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہر معاملے میں انا ہزار نے لوک پال والا معاملہ ایسے بھلادیا جیسے کبھی تھا ہی نہیں اور مودی حکومت کے دوران ہونے والی نوٹ بندی کی طرف سے ایسی آنکھیں بند کرلی جیسے وہ اس ملک کی نہیں دوسرے ملک کی بات ہو۔

بات صرف یہی نہیں کہ بی جے پی نے طفیلی بن کر بالآخر مرکزی حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اصل بات یہ ہے کہ خود آر ایس ایس طفیلی نظریات پر قائم ہونے والی تنظیم ہے۔ اس نے اپنی آئیڈیا لوجی جرمنی کے ہٹلر اور مسولینی کے نازی ازم (Nazism) سے مستعار لی ہے۔ نازی ازم دراصل نیشنلزم یعنی قوم پرستی کو کہتے ہیں۔ آر ایس ایس کے پاس ایسی کوئی قومی فکر نہ تھی اس لیے اس نے اپنی فکر کو اٹلی سے درآمد کیا۔ ویسے سچ بات تو یہ ہے کہ خود قوم پرستی ہندوستان کے سیدھے سادھے کم ہمت صدیوں کی غلامی کے ستائے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کا ایک پرفریب نعرہ ہے جس کا استعمال آرایس ایس کرتی ہے۔ آر ایس ایس کی فکر قوم پرستی سے بھی زیادہ محدود ہے۔ وہ صرف اور صرف نسل پرستی میں یقین رکھتی ہے۔ قوم پرستی کی آڑ میں وہ ہندوستانی عوام کو فریب دے رہی ہے۔ ملک کے عام ہندو سادگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ’’ہندوتوا‘‘ ہندوستان کی قومیت کو کہتے ہیں اور آر ایس ایس بھی ان کو یہی سمجھانے کی کوشش کرتی ہے مگر خود اس کا ہندوتوا سے کوئی لینا دینا نہیں۔ وہ صرف یہاں کے عوام کا استحصال کرنے کے لیے ہندوتوا کا نام لیتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ نسل پرستی کے نام پر کوئی اس کا ساتھ نہیں دے گا۔ جس دن عوام کی سمجھ میں یہ بات آئے گی، اس وقت وہ قوم کا ہی بیڑا غرق کرنے کی کوشش کرے گی۔ آج کل وہ اسی مرحلے میں ہے۔ ہندوتوا کے ذریعے جتنے عوام کا ساتھ اس نے حاصل کیا وہ اپنی انتہا کو پہنچا ہے۔ اب مزید ان میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اس لیے اب وہ ہندوستان کی معیشت، معاشرت اور تمام حکومتی و جمہوری اداروں کو پامال کررہی ہے۔ یہ اس کا آخری حربہ ہے۔ دراصل کوئی تنظیم یا قوم صرف منفی نظریات اور پروگرام کو اپنا کر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی اور آر ایس ایس کے پاس مثبت فکر کبھی نہیں تھی صرف نسل پرستی ہی اس کا مکمل سرمایہ ہے۔ یہ سرمایہ اب ختم ہونے کو ہے۔ اس نے کبھی انسانیت کے لیے کوئی فکر نہیں دی نہ اپنی خدمات پیش کیں۔ اگلے انتخابات میں ہوسکتا ہے پھر سے بی جے پی اقتدار پر قابض ہوجائے مگر جیسے ہی آر ایس ایس اپنا آخری داؤ ہندوراشٹرواد کے قیام کا چلے گی، نہ بی جے پی باقی رہے گی نہ آر ایس ایس۔ کسانوں کی موجودہ تحریک کی کامیابی یا ناکامی پر بی جے پی کا سیاسی مستقبل اور آر ایس ایس کی موجودہ طاقت کی بقا کا انحصار ہے۔

(مضمون نگار مراٹھی ہفت روزہ شودھن کے مدیر، مصنف و مترجم قرآن ہیں)