بھارت جوڑو یاترا یا بھارت توڑو یاترا

ندیم خان
بارہمولہ کشمیر
رابطہ/ 6005293688
بھارت جوڑو یاترا آخر اپنی منزل سری نگر کے لال چوک میں بخیر و عافیت اختتام پذیر ہوئی ۔ یہ پیدل سفر 135دنوں کے درمیان میں پورا ہوا اس میں 9 دن کا وقفہ تھا ۔ یاترا نے کل 4080 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور یہ تمل ناڈو کے کنیا کماری سے شروع ہوکر کیرالہ، کرناٹک، آندھرا پردیش ، تلنگانہ، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، راجستھان ،ہریانہ، اترپریش، پنجاب، ہماچل پردیش اور جموں کشمیر سے گزرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچی ۔ اس نے یاترا نے 75 ضلعوں میں اپنے قدموں کے نشان چھوڑے جن میں جموں کشمیر کے 10 ضلع شامل تھے۔ اس یاترا میں کل 116 دن پیدل چلا گیا اور ہر روز اوسط 23 یا 24 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا گیا۔
 راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے آخری مرحلہ کے دوران جموں و کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے تاریخی لال چوک پر پرچم کشائی کی۔ لال چوک پر راہل گاندھی کے ترنگا لہرانے کے پروگرام کے حوالہ سے پولیس انتظامیہ پوری طرح مستعد تھی۔
سکیورٹی انتظامات کے پیش نظر لال چوک کو سیل کر دیا گیا تھا اور عام شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس دوران راہل گاندھی کے ساتھ ان کی بہن اور پارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی اور پارٹی کے دیگر سینئر لیڈر بھی موجود رہے۔
وادی کشمیر میں بھارت جوڑو یاترا کو کافی حمایت ملی۔ یہاں 27 جنوری کو نو یوگ ٹنل عبور کرکے یاترا کے وادی کشمیر میں داخل ہونے کے بعد لوگ بڑی تعداد میں راہل گاندھی کا خیر مقدم کرنے کے لیے سامنے آئے۔ جب بھارت جوڑو یاترا چرسو مقام سے آگے بڑھی تو جگہ جگہ پر لوگوں کا ہجوم نظر آیا، جن میں خواتین، بچے اور عمر رسیدہ لوگ بھی شامل تھے۔ دعوت نیوز سے بات کرتے ہوئے مقامی عمر رسیدہ خواتین نے کہا کہ وہ راہل گاندھی کو دیکھنے کے لئے کافی دور سے پیدل چل کر آئی ہیں۔ وہ راہل گاندھی کی ایک جھلک پانے کے لیے بیتاب ہیں، جس کے لئے وہ بڑی بے صبری سے صبح سے انتظار میں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں راہل گاندھی سے کافی امیدیں وابستہ ہیں۔ ان میں وہ صلاحیت ہے کہ وہ وادی کشمیر کے لوگوں کی  پریشانیوں کو ختم کرسکے گے۔ دعوت نیوز کے ساتھ لوگوں نے مزید بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگ موجودہ حکومت سے کافی تنگ آچکے ہیں۔ جب سے یہ حکومت قائم ہوئی ہے تب سے وادی کے لوگ ظلم و زیادتی، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے پریشان ہیں۔ اب صورتحال یہاں تک آچکی ہے کہ حکومت ان سے ان کی زمینیں چھین رہی ہے۔ ان کے گھر منہدم کرکے انہیں بے گھر کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ وہ اس ظلم و زیادتی کی وجہ سے ذہنی کوفت کا شکار ہو چکی ہیں، لہذا ہمیں بھروسہ ہے کہ راہل گاندھی کی اس یاترا سے یہاں کے سیاسی نظام میں تبدیلی آئے گی اور یہاں کے جمہوری نظام کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے یہ یاترا مددگار ثابت ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ یہاں امن، ترقی اور خوشحالی کی خواہاں ہیں اور یہ یاترا وہی پیغام لے کر آئی ہے۔
پارٹی کے سینئر لیڈروں میں جے رام رمیش، وکار رسول وانی اور غلام احمد میر نے کہا کہ جموں و کشمیر کو فوری طور پر دوبارہ ریاست کا درجہ دیا جائے اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات مزید تاخیر کیے بغیر کرائے جائیں، اس کے علاوہ کشمیر کے سابق وزیرِ اعلٰی اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ بھی اس یاترا میں شامل ہوئے اور کہا کہ وہ ملک میں منفی سوچ کو بدلنے کے لیے اس میں شامل ہوئے ہیں۔ سابق وزیرِ اعلٰی محبوبہ مفتی اور ان کی بیٹی التجا مفتی بھی یاترا میں اُس وقت شامل ہوئیں جب یہ سرینگر کے مضافات سے گزررہی تھی۔ محبوبہ مفتی نے بھی بی جے پی اور آر ایس ایس پر بھارت کے سیکولر تشخص کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا۔ وادی کشمیر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے راہل گاندھی اور یاترا کا استقبال کرنے پر اپنےردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے وقار رسول وانی نے جو کانگریس پارٹی کی مقامی شاخ کے صدر ہیں کہا کہ "یہاں کے لوگ ستائے ہوئے ہیں۔ بے روزگاری عام ہے اور مہنگانی نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس لیے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے خود کو یاترا کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔
بھارت جوڑو یاترا کے دوران کشمیری پنڈتوں کے ایک وفد نے راہل گاندھی سے ملاقات کی اور انہیں جگتی میں اپنے کیمپ میں مدعو کیا۔اس کے ساتھ ہی کشمیری پنڈتوں کے وفد نے جموں میں اپنے مسائل ،’ٹارگیٹ کلنگ‘ کے خوف اورمودی سرکار کے خلاف طویل عرصے سے جاری اپنے احتجاج سے آگاہ کیا ۔ اس موقع پر راہل گاندھی نےکہا کہ کشمیری پنڈت مسلسل ناانصافی کا سامنا کررہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی وزیراعظم پیکیج کے تحت جن افراد کو جموں میں ملازمت فراہم کی گئی ہے،ان کے مطالبات پر لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے اس بیان کی راہل گاندھی نےمذمت کی جس میں انہوں نے پنڈتوں سے کہا تھا کہ ’’بھیک نہ مانگیں۔‘‘ کانگریس لیڈر نے منوج سنہا سے اس پر بیان پر معافی کا مطالبہ کیا۔ سرینگر میں داخل ہوتے وقت راہل گاندھی نے ضلع پلوامہ میں 14 فروری کو ہونے والے حملے کے مقام کا بھی دورہ کیا جہاں 2019 کو ایک حملے میں وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے 40 اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
 راہل گاندھی نے مہنگائی، بے روزگاری اور نفرت کی سیاست کے موضوع پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ انہوں نے ساتھ ہی بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیر داخلہ امت شاہ کو جموں سے کشمیر کے سرینگر لال چوک تک یاترا نکالنے کا چیلنج دیا ۔ راہل گاندھی نے کہا کہ اگر جموں و کشمیر کے حالات ٹھیک ہیں تو بی جے پی والے جموں و کشمیر سے سری نگر لال چوک تک یاترا کیوں نہیں نکالتے؟ راہل گاندھی نے کہا وہ لوگوں سے ملے لیکن لوگ خوش نہیں، ان میں کوئی جوش نہیں ہے ۔راہل گاندھی نے کہا ان کا ماننا ہے کہ جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ ملنا چاہئے اور جمہوری نظام نافذ ہونا چاہئے ۔راہل گاندھی کا مزید کہنا تھا کہ جب میں جموں کشمیر کو دیکھتا ہوں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے ، میرا کشمیر سے آبائی رشتہ ہے، میرا خاندان کشمیر سے ہی الہ آباد جاکر آباد ہوا، جب میں اپنی آبائی ریاست واپس آیا تو کھلے دل کے ساتھ آیا۔ بھارت جوڑو یاترا کے بارے میں راہل گاندھی نے کہا کہ یاترا ختم نہیں ہوئی، یہ پہلا قدم ہے، ہم آگے بھی ایکشن میں نظر آئیں گے، مجھے یاترا کے دوران زبردست رسپانس ملا، یہ کانگریس کی یاترا نہیں تھی کیونکہ یاترا میں کانگریسی کارکنوں سے زیادہ ملک کے عوام اور  افراد شامل ہوئے ۔ اس یاترا کے دوران مجھے کسانوں نوجوانوں اور جن لوگوں کی آواز دبانے کی کوشش کی گئی ان کی آواز سننے کو ملی ۔
میرے خیال میں بھارت میں یاترائیں تو بہت نکالی جاچکی ہیں لیکن مقاصد سب کے سیاسی ہی رہے ہیں، اور اقتدار حاصل کرنا یہی اصل مقصد رہا ہے کسی زمانے میں ملائم سنگھ یادو نے کرانتی رتھ یاترا نکالی تھی، لال کرشن اڈوانی نے رام رتھ یاترا نکالی تھی اور سابق وزیر اعظم چندر شیکھر نے بھی ایک بار پد یاترا نکالی تھی لیکن اس کا نام بھی واضح تھا اور مقصد بھی واضح تھا اور بیشمار ایسی چیزیں ملیں گی کہ جن کے نام سے مطلب اور مقاصد دونوں واضح ہوتے ہیں اور کسی بھی چیز کا اور مہم کا نام ایسا ہی رکھنا بھی چاہئے کہ نام سے ہی خیالات و نظریات اور اغراض و مقاصد واضح ہو جائیں، مگر کانگریس نے ایک یاترا نکالی ہے کہ جس کے نام سے اغراض ومقاصد کی تصویر واضح نہیں ہو رہی ہے۔ وادی کشمیر میں کثیر آبادی کا یہی ماننا ہے کہ راہل گاندھی ان کے مشکلات کا ازالہ کرینگے، لیکن کچھ لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ کیا بھارت ہر لحاظ سے ٹوٹا ہوا ہے جو راہل گاندھی بھارت کو جوڑنے آئیں ہیں، راہل گاندھی کا مقصد صرف اور صرف کرسی حاصل کرنا ہے:
بہر حال اب دیکھنا یہ ہے کہ راہل گاندھی کی محنت کتنا رنگ لاتی ہے اور کانگریس کی کھوئی ہوئی سیاسی زمین کتنی سرسبز و شاداب ہوتی ہے اس کا صاف نظارہ تو 2024 میں ہی دیکھنے کو ملے گا،
یہ وقت ہی بتائے گا۔ تب تک ساحر لدھیانوی کی یہ مشہور نظم گنگناتے رہیے:
وقت کی ٹھوکر میں ہے
کیا حکومت کا سماج
وقت ہے پھولوں کی سیج
وقت ہے کانٹوں کا تاج
آدمی کو چاہیے
وقت سے ڈر کر رہے
کون جانے کس گھڑی
وقت کا بدلے مزاج