کورونا کے بعد اب کالا فنگس !

بےجا اندیشوں کا شکار نہ ہوں

فاروق طاہر،حیدرآباد

 

دہلی اور احمد آباد جیسے شہروں سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ کووڈ سے صحت یاب افراد سیاہ فنگس والی بیماری کا شکارہوئے ہیں۔ایک یا دو دن میں ، اس بارے میں خوفناک خبر یں پھیل سکتی ہیں۔ کووڈ سے صحت یاب افراد کی خوشیاں کافور ہو جائیں گی اور ہزاروں افراد ایک بار پھر اضطراب اور ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو جائیں گے۔ ان حالات میں ہمیں غیر مصدقہ اطلاعات اور افواہوں کی بجائے صحیح معلومات اور مناسب رہبری و آگہی کی سخت ضرورت درپیش ہے۔
میوکر مائیکوسس کیا ہے:
میوکر مائیکوسس ایک بیماری ہے جو فنگس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ کوئی نئی بیماری نہیں ہے جو کئی سالوں سے لوگوں کو ہوتی آرہی ہے۔ یہ ایک فنگل بیماری ہے۔جسے کالا فنگس بھی کہتے ہیں۔میوکرمائیکوسس تحقیق کے مطابق آئی سی یو میں شریک مریضوں میں شاذو نادر ہی پائی گئی ہے۔اس سنگین صورتحال کی بنیادی وجہ مریضوں کو دی جانے والی آکسیجن میں نل کے پانی کو ہیمڈیفائیر (ڈسٹل واٹر) کے طور پر استعمال کرنا ہے جس کی وجہ سے فنگل انفیکشن میوکرمائیکوسس کے ہونے کے اندیشےبڑھ جاتے ہیں۔
جب وائرل نمونیا ہونے کا ثبوت ملتا ہے تو اسٹیرائیڈس کا استعمال ناگزیر ہوجاتا یے (جن میں مسلسل بخار – پانچ دن سے بھی زیادہ) ایک اہم علامت ہے۔
الجھنیں پیدا کرنے کے بجائے ڈاکٹروں سے اپیل کرنی چاہئے تھی کہ وہ Mucomycosis کی علامات ، ناک میں بلیک استر،منہ کے اندرونی اوپری حصے پر کالے دھبوں اور آنکھوں میں تکلیف اور مسلسل سردرد وغیرہ کی علامتوں پر نظر رکھیں اور ایسی کوئی علامت نظر آنے پر فوری ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
طبی علامات علامات:
1۔ چہرے کے پٹھوں میں بے حسی
2 آنکھوں کاسرخ ہونا اور ان کا سوج کر انڈے کی طرح بڑادکھائی دینا ۔
3۔ ناک کی نتھنوں میں سے کسی ایک کا بند ہونا۔
یہ کتناخطرناک ہے؟
کہا جاتا ہے کہ اگر اس کا مناسب علاج نہ کیا گیا تو متاثرہ افراد کی نصف تعداد کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ تین میں سے ایک متاثرہ فرد کی بینائی بھی مفقود ہونے کا خطرہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جبڑے کی ہڈی اور ناک بھی اس فنگس کے زیر اثرگل سکتے ہیں۔
یہ کیسے پھیلتا ہے؟
یہ فنگس (جو ایک قسم کی پاؤڈر پھپھوندی ہے جو فنگس کے کنبے سے تعلق رکھتی ہے) ہوا میں گردش کرتا ہے اور یہ کوئی نئی کھوج یا دریافت نہیں ہے ۔سائنس،سائنس دان اور ماہرین طب پہلے سے ہی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ یہ فنگس لوگوں کو متاثر کرتا آرہا ہے۔ یہ کم قوت مدافعت کے حامل افراد کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔
اس کا کورونا سے کیا تعلق ہے؟
ایک طرح سے اس کا کورونا سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی کوئی بیماری نہیں ہے۔ لیکن کچھ لوگ جو حال ہی میں کورونا سے صحت یاب ہوئے ہیں ان میں یہ متعدی مرض دیکھا گیا ہے۔ دہلی ، احمد آباد اور بنگلور جیسے شہروں میں ، کچھ لوگ اس بیماری کی شکایت سے اسپتالوں میں شریک ہوئے ہیں اوریہ سب لوگ حال ہی میں کورونا سے صحت یاب ہوئے ہیں۔
ڈاکٹروں نےکوویڈ سے صحتیاب مریضوں میں اسٹرائیڈس کے طویل یا زیادہ خوراک کے استعمال پر کوویڈ فنگس (پھپھوند) کی وجہ سے میوکرمائیکوسس یا اسپر جلوسس یا پھر دونوں مرض دیکھنے میں آئے ہیں جس میں گلیکو ما کی وجہ سے بینائی سے محرومی بھی شامل ہے –
نیوز پورٹل دی پرنٹ کے مطابق کئی سرجریز ، 30 لاکھ روپے سے زیادہ میڈیکل بلزاور صحتیابی سے ابھی تک دور گجرات کے 33 سالہ انٹرئیر ڈیزائنر سدھارتھ گوہل کی جن کی کوویڈ 19جیسے مرض سے صحت یاب ہونے کے بعد بھی تکلیفوں کا خاتمہ ہوتانظر نہیں آرہا ہے جوعلاج میں اسٹیرائیڈس کے استعمال کی وجہ اورکمزور جسمانی قوت مدافعت کی بنامیوکرمائیکوسس جیسی مہلک بیماری ہے کا شکار ہوگئے ہیں۔یہ ایک ایسی بیماری جو جسم میں ’’جنگل کی آگ کی طرح‘‘ پھیل جاتی ہے۔
گوہل کے معالج ڈاکٹرتانو سنگھل جوممبئی کے کوکلابین اسپتال میں متعدی بیماری کے کنسلٹنٹ ہے کا کہنا ہے کہ گوہل خوش قسمت ہیں کہ وہ اس بیماری سے بچ گئے ہیں کیوں کہ فنگس نے ان کے دماغ کو متاثر نہیں کیا تھا۔
کوویڈ کے بعد کی پیچیدگیوں کے تازہ ترین ثبوتوں کے پیش نظر ڈاکٹروں نے مریضوں میں مہلک خطرناک فنگل بیماریوں کے انفیکشن کے بڑھنےپر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ طویل عرصے تک یازیادہ مقدار میں اسٹرائیڈس استعمال کرنے والے مریض اس انفیکشن سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں mucormycosis ، ایک غیر معمولی فنگل انفیکشن جو ناک کی ہڈیوں سے نکلتا ہے اور دماغ سمیت چہرے کے علاقے کے آس پاس تیزی سے پھیلتا ہے ، اور Aspergillosis ، پھیپھڑوں کا ایک انفیکشن یے جو mucormycosis سے کم مہلک ہے۔ مریض کی بصری اعصاب( آپٹک نرو optic nerve ) کو نقصان (بیشتر گلوکوما) سے بینائی ضائع ہونے کے معاملات بھی سامنے آئے ہیں۔
پہلے سے ذیابیطس سے متاثر افراد کوان تینوں مشکلات سےمابعد کویڈ- 19 علاج سامنا ہوسکتا ہے۔
اسٹیرائیڈس جیسے ڈیکسامیتھاسون (dexamethasone)،اور میتھیل پریڈنیسولون(methylprednisolone)
کوویڈ سے اموات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں لیکن اس کا طویل استعمال ، یا زیادہ مقدار کی خوراک ، پیچیدگیوں کا باعث بن رہی ہیں ۔
مرکزی حکومت نے کوویڈ کے بارے میں جمعہ کو جاری اپنی ایک پریس میٹنگ میں بتایا کہ اس طرح کے فنگل انفیکشن کا وقوع پذیرہونا فطری بات ہے ۔ میوکرمائکوسس اور کوویڈ ۔19 کے درمیان کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔
نیتی آیوگ (صحت) کے ممبر وی کے پول کے مطابق’’یہ ایک فنگس ہے جو گیلی سطحوں پر پائی جاتی ہے۔ جن مریضوں کو ذیابیطس نہیں ہوتا ہے ان میں یہ انفیکشن دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ کوویڈ- 19 کے مریضوں میں اس فنگل انفیکشن کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ لیکن میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی بڑی وباءنہیں ہے اور ہم اپنی سطح پر کیسز کی نگرانی کر رہے ہیں۔‘‘لیکن ڈاکڑوں کے مطابق حالیہ عرصے میں اس فنگل انفیکشن میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ گروگرام میں واقع نارائن ہسپتال کے نگران،شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ڈگ وجئے سنگھ کے مطابق ایمس میں (2014-2002 )ایک دہائی سے زیادہ میری پریکٹس کے دورانیے میں مجھے ایک سال میں اس فنگل بیماری( میوکر مائیکوسس )کے صرف دویا تین کیسز دیکھنے میں آئےہیں لیکن آج ، میں ہر مہینہ اس طرح کے دو تین واقعات کی تشخیص کر رہا ہوں۔
ڈاکٹرسنگھ نے مزید کہا کہ ’’اسٹیرائیڈس کوویڈ سے واقع ہونے والی اموات کو کم کرنے کے لئے ضروری دوائیں ہیں ، ہم ان مریضوں میں میوکرمائیکوسس ، گلوکوما اور موتیا کی بیماری کے بڑھتے ہوئے معاملات کے رجحان کو سرخ نشان لگانا چاہتے ہیں کہ جن کو کویڈ کے علاج کے دوران اسٹیرائیڈس دیئے گئے تھے۔ ان مریضوں کی اکثریت ذیابیطس کے پرانے مرض سے دوچار تھیں۔‘‘
اس ضمن میں دیگرطبی ماہرین نے بھی اسی طرح کی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ممبئی کے سیون اسٹار اسپتال کے سربراہ اور گردن کے کینسر کے سرجن ، ڈاکٹر شیلیش کوتلھلکر نے بتایا کہ "پچھلے دو دہائیوں میں ، میں نےصرف 12 مریضوں کا mucormycosis کا آپریشن کیا ہوں۔ تاہم ، پچھلے دو مہینوں میں ، میں روزانہ تین سے چار سرجریز اس فنگل انفیکشن سے لاحق بیماری کے کر رہا ہوں۔ میوکرمائیکوسس میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔‘‘
طبی ماہرین کے مطابق کوویڈ ۔19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کو mucormycosis کی علامات ، جیسے بند ناک (Stuffy Nose) ، سر درد ، منہ کے اوپری حصے میں سیاہ دھبے ، چہرے میں درد اور بینائی کی کمی پر نگاہ رکھنا چاہئے۔ Aspergillosis کے لئے ، عام علامات میں سانس لینے ، کھانسی ، اور تھکاوٹ شامل ہیں. دیدووں پر دباؤ کا احساس اور مستقل سر درد گلوکووما کی بنیادی علامات ہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
شدید کورونا انفیکشن والے افراد کے علاج کےلیے اعلی طاقت والے اسٹیرائڈز دیئے جاتے ہیں۔ یہ اسٹیرائڈز بہت سی ذیلی اثرات و بدبختیوں کا باعث بنتے ہیں بالخصوص کمزورقوت مدافعت کے حامل افراد کے لئے نقصان رسا ثابت ہوتے ہیں۔ اسٹیرائیڈس کے استعمال سےجگر کوبھی نقصان پہنچتا ہے۔ اس سے بلڈ گلوکوز کی ریڈنگ بھی ایک وقت میں تین سے چار سو سے زیادہ بڑھ جانے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
ڈاکٹر اسٹیرائیڈس کو اس بنیاد پر استعمال کرتے ہیں کہ اگر کورونا جان لیوا خطرہ ہے تو پھر یہ ایک چھوٹا سا نقصان ایک بڑے نقصان کو روکنے کے لئے ناگزیر ہے۔ یہ ہی جوازاسٹیرائیڈس کے استعمال کاباعث ہے۔ لیکن حال ہی میں اسٹیرائیڈس کا اندھادھند اور بے دریغ استعمال کی اطلاعات عام ہیں۔ جب بیماری کاروایتی دوائیوں سے علاج نہیں ہوتا ہے تو انٹی بیوٹکس کے ساتھ اسٹیرائیڈس کواستعمال کیا جاتا ہے۔ معاملات اس وقت مزید خراب ہوگئے جب علاج معالجے کی جعلی ویڈیوز شوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں ہےکہ دمہ کے مریضوں کو کورونا انفیکشن سے بچنے کے لئے اسٹیرائیڈس کا استعمال کرنا چاہئے۔
اسٹیرائیڈ زہر ہیں۔ میں نے صرف اتنا کہا کہ ان کا اندھا دھند استعمال کرنا خطرناک ہے۔ کسی ڈاکٹر کی براہ راست نگرانی میں،براہ راست میڈیکل شاپ جاکر ایسی دوا استعمال کرنا چاہیے۔ڈاکٹر س کے مشورے اورنسخے کے بغیر اس کا استعمال اپنی مرضی سے کسی کوبھی نہیں کرنا چاہیے ۔
اب جو لوگ کورونا روک تھام کے حصے کے طور پر طاقتور اسٹیرائیڈس لیتے ہیں ان کا مدافعتی نظام کمزور ہونے کی وجہ سے ان میں ہوائی فنگل انفیکشن ہونے کا زیادہ امکان پایا جاتاہے۔ ایسے افراد جو ذیابیطس ، کینسر ، اور گردے کے انفیکشن جیسی بیماریوں سے متاثر ہیں اور جن کاکورونا انفیکشن مثبت آیا ہے ان میں اس بیماری سے متاثرہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ جو افراد ایسی بیماریوں کا سامنا کرتے ہیں ان کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔
اب کیا کیا جائے؟
ہمارا مدافعتی نظام ہمیں بہت سی متعدی بیماریوں سے بچاتا ہے۔ اگر یہ مضبوط ہو تو جب کورونا آتا ہے تو کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح جو لوگ سمجھتے ہیں کہ وٹامن سی کی گولیاں لیتے ہوئے کوروناسے بچا جاسکتا ہے وہ غلط سوچ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے کچھ لوگ قوت مدافعت پر یقین نہیں رکھتے ہیں بلکہ دواؤں پر بہت زیادہ یقین رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر بی پی ہی کو لجیئے۔ ہائی بی پی کو چلنے، نمک کو کم کرنے ، اور جذباتی کیفیات سے دور رہ کرکم کیا جاسکتا ہے۔ اگر ضرورت ہو تو دوائیں بھی استعمال کی جانی چاہیے۔ ان سب کے بعد بھی کیا لوگ بی پی کا شکار نہیں ہیں؟ گولیاں کھا کر اسے رفع کردینے والی سوچ نقصان دہ ہوتی ہے۔ قوت مدافعت کو بہتر بنانے والے اسباب و ورزش پر عمل درآمد کیا جائے تو گولیوں سے چھٹکارا ممکن ہے۔ ذیابیطس کی صورت میں ورزش کرنا بے حد ضروری اور سود مندبھی ہوتا ہے ۔
دن میں چالیس منٹ تک تیز چلیں۔ کم کاربوہائیڈریٹ ،زیادہ فائبر اور ہاضم غذائیں استعمال کریں۔ شوگر کے مرض میں کھانے سے پہلے کچھ مہینوں کے لئے انسولین کے انجیکشن کے بارے میں سوچنا اچھا نہیں ہے۔
خلاصہ گفتگو
ہرایک کو سیاہ فنگس کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے لوگوں سے بچو جن کو کینسر ، ذیابیطس ، گردوں کی پریشانی ہو اور وہ سنگین طور پر کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں اور جنھوں نے اسٹیرائیڈس لی ہیں ، اور وہ جنہوں نے مختلف ویڈیو دیکھنے کے بعد خوف سے غیر ضروری طور پر اسٹیرائیڈس لیے ہیں۔ چہرے کے پٹھوں کی بے حسی اور آنکھوں کی لالی جیسے علامات نظر آنےپرفوری طور پر اسپتال میں داخل ہوجائیں۔ غیر ضروری طور پر چہرہ بے شکل ہو جائے گا سوچ کرتناؤ کا شکار نہ ہوں۔
دہلی ، بنگلورو اور احمد آباد جیسے شہروں میں 10 سے 20 اس طرح کے کیسز رپورٹ ہونےکی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
جامع حل:
اگر آپ قوت مدافعت پر یقین رکھتے ہیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ ایک نوے سال کا بوڑھا بھی اچھا ہوسکتا ہے۔
صحت مند کھانے ، ورزش ،پرسکون نیند، خوف سے بچنے، دور رہنے اور زندگی سے لطف اندوز ہوکر قوت مدافعت کو بڑھاتےہوئے کورونا ہو یا سیاہ فنگس یا کوئی اور بیماری پرفتح حاصل کرسکتےہیں۔ اگر بیماری کا واحد علاج دوا ہے تو پھر دوا کی لازمی ضرورت ہے۔
ایک بار پھر دہرادوں کہ یہ خیال غلط ہے کہ دوا ہی علاج کا واحد راستہ ہے۔۔ایک بیماری ۔۔اس کی دو دوائیں ۔۔ پھر بونس کے طورپرمزید دو اور بیماریاں ۔۔ ان کے لئے اورچار دوائیں ۔۔ اس طرح شیطانی دائرے اور وسوسوں کے جال میں آپ پھنستے چلے جائیں گے۔ خبردار لوگو! ابھی جاگو! احتیاط علاج سے بہتر ہے۔احتیاط کو مضبوطی سے پکڑ لو۔افواہوں اور بے جا اندیشوں کا شکار نہ ہوں۔ کیوں کہ آپ جانتے ہیں بے جا اندیشے موت سے پہلے آدمی کو بے موت ماردیتے ہیں۔
[email protected]
***

اب جو لوگ کورونا روک تھام کے حصے کے طور پر طاقتور اسٹیرائیڈس لیتے ہیں ان کا مدافعتی نظام کمزور ہونے کی وجہ سے ان میں ہوائی فنگل انفیکشن ہونے کا زیادہ امکان پایا جاتاہے۔ ایسے افراد جو ذیابیطس ، کینسر ، اور گردے کے انفیکشن جیسی بیماریوں سے متاثر ہیں اور جن کاکورونا انفیکشن مثبت آیا ہے ان میں اس بیماری سے متاثرہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ جو افراد ایسی بیماریوں کا سامنا کرتے ہیں ان کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 16 مئی تا 22 مئی 2021