ہیلتھ سیکٹر میں لوٹ مار۔ دواؤں کی دوگنی قیمت۔ ذمہ دار کون؟

حکومت خامو ش تماشائی ۔ غریب بےحال۔ کیا یہی ہے’ آتم نر بھر بھارت‘؟

افروز عالم ساحل

وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال قوم کے نام اپنے خطاب میں کہا تھا کہ آفت کو موقع میں تبدیل کرنا ہے اور اب صرف ایک ہی راستہ ہے ’آتم نربھر بھارت‘۔ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پی ایم مودی کی اس بات کو اگر سب سے زیادہ کسی نے صحیح طور پر سمجھا ہے تو وہ ہے اس ملک کی ہیلتھ انڈسٹری۔ اس وقت ہندوستان کی ہیلتھ انڈسٹری نے کورونا نامی اس آفت کو نہ صرف اپنے لیے موقع میں بدل لیا ہے بلکہ ملک کے عام لوگوں کو یہ انڈسٹری ’آتم نربھر‘ بنانے کا کام بھی بخوبی انجام دے رہی ہے۔ اس کام میں اسپتالوں کے ساتھ ساتھ دوائیں بنانے والی کمپنیاں سب سے آگے ہیں۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سنٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈی اِن ہسٹری کے پروفیسر محمد سجاد نے ایک دوا کا نام لکھتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’میتھائل پریڈنیسولون سالٹ کی دوا کو تیار کرنے والے انتہائی سفاک ڈاکوؤں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ ہر ہفتے/ مہینے وہ اس جان بچانے والی دوائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔ اس کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ آفت میں موقع’۔

اس ٹویٹ کے تعلق سے جب ہفت روزہ دعوت نے پروفیسر محمد سجاد سے بات چیت کی تو انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دس دنوں میں انہوں نے تین بار Pfizer کمپنی کی Medrol (16mg) نامی دوا بازار سے منگائی اور تینوں بار اس کی قیمت الگ تھی۔

ان کے مطابق جب پہلی بار انہوں نے یہ دوا منگوائی تو دس ٹیبلیٹ کی قیمت سو روپے کے آس پاس تھی، یہی ٹیبلیٹ جب دوسری بار منگائی تو اس کی قیمت ایک سو چوبیس روپے ہو گئی، تیسری بار منگوانے پر اس کی قیمت ایک سو چونتیس روپے تھی۔ اب سوال ہے کہ اتنے کم وقفے میں اس کی قیمت اتنی کیوں اور کیسے بڑھ گئی؟ یہ لوٹ نہیں بلکہ ڈکیتی ہے۔ آج جبکہ دواؤں کی قیمتیں کم کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تب یہ دوا ساز کمپنیاں من مانی انداز میں قیمتیں بڑھا رہی ہیں اور ہماری حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے۔ کم از کم دواوں کی قیمتوں کو تو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

عالیہ یونیورسٹی کولکاتا میں شعبہ ماس کمیونیکیشن اینڈ جرنلزم کے اوفیسیٹنگ ہیڈ محمد ریاض ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں بتاتے ہیں کہ ’وبا کے اس دور میں سب سے ضروری چیز ماسک تک کو مہنگا کر دیا گیا ہے۔ میں نے گزشتہ سال نومبر میں امیزون پر 110 عدد ماسک 300 روپے میں خریدے تھے اب اس کی قیمت 600 روپے ہے۔ یہاں کوویڈ ٹیسٹ میں بھی خوب لوٹا جا رہا ہے۔ مغربی بنگال میں حکومت نے ٹیسٹ کی قیمت 950 روپے طے کیا ہے لیکن یہاں کے زیادہ تر اسپتالوں میں 1200 سے لے کر 1500 روپے تک وصول کیے جا رہے ہیں۔ وہیں گھر آ کر ٹیسٹ کرنے والے دو ہزار روپے تک وصول کر رہے ہیں، مگر بل 950 روپے کا ہی دے رہے ہیں۔ پورے ہیلتھ سیکٹر میں بلیک مارکیٹنگ کافی بڑھ گئی ہے اور اس کھیل میں سب شامل ہیں’۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ خاص طور پر نجی اسپتالوں میں ڈاکٹر مخصوص کمپنی کی دوا لکھ رہے ہیں اور مریض کے ساتھ آئے لوگوں پر دباؤ ڈال رہے کہ وہ اسی برانڈ کی دوا لے کر آئیں۔ اب ڈاکٹر کسی خاص برانڈ کی دوا لانے کو کیوں کہتا ہے، یہ سب کو پتہ ہے۔

محمد ریاض بتاتے ہیں کہ میرے ایک دوست کولکاتا کے نجی اسپتال میں ایڈمٹ ہیں، ڈاکٹر نے انہیں Remdesivir انجکشن لکھا اور ایک خاص برانڈ کا ہی خرید لانے کے لیے کہا۔ دو دنوں کی مشقت کے بعد تین انجیکشن پچیس ہزار روپے میں خریدے گئے جبکہ دوسرے برانڈ کا Remdesivir 800 روپے میں دستیاب تھا لیکن وہ ڈاکٹر کو منظور نہیں تھا۔ اور یہی تین انجیکشن دوسری بار اٹھارہ ہزار روپوں میں ملے جبکہ اصل قیمت دو ہزار روپے فی انجیکشن ہے۔ یہی انجیکشن دوسرے شہروں میں لوگوں نے ستر ہزار روپوں میں تک خریدا ہے۔ غور طلب بات ہے کہ بلیک میں لوگوں کو ہر دوا کیوں مل جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوا بازار میں موجود ہوتی ہے لیکن ڈیلر اور دکاندار آپس میں مل کر اس کی بلیک مارکیٹنگ کرتے ہیں۔ تصور کریں کہ غریب، نچلے اور متوسط طبقے کے لوگوں کا کیا حال ہوتا ہو گا؟ ہو سکتا ہے کہ وہ کورونا سے تو بچ جائیں گے لیکن اس کے بعد وہ کتنے مقروض ہو جائیں گے؟

واضح رہے کہ جہاں ایک جانب Remdesivir کی بلیک مارکیٹنگ ہو رہی ہے، وہیں بازار میں نقلی Remdesivir بھی موجود ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آکسیجن کنسنٹریٹر جس کی قیمت محض 31 ہزار روپے ہے اسے 1 لاکھ 65 ہزار روپوں میں فروخت کیا گیا۔ وہیں 40 ہزار روپے کا آکسیجن سلنڈر 1 لاکھ 45 ہزار روپے میں فروخت ہوا ہے۔

دہلی کے خان پور علاقے میں رہنے والے انوار احمد بتاتے ہیں کہ ان کے گھر پر دو لوگ کوویڈ کے شکار ہیں۔ ڈاکٹر کے ذریعے تجویز کی گئی دوا خریدنے کے لیے وہ ایک دکان میں گئے، وہاں تمام دوائیاں تو مل گئیں لیکن وہ دواؤں کی قیمت ایک سادہ کاغذ پر راؤنڈ فیگر میں لکھ رہا تھا، جب اس نے ایک دوا کی قیمت 600 روپے لکھی تو وہ چونکے اور اس دوا کو ہاتھ میں لے کر دیکھا جس پر قیمت 583 روپے درج تھی۔ جب انہوں نے دکاندار کو اس جانب متوجہ کیا تو وہ بھڑک گیا اور تمام دوائیں چھین لیں اور واپس رکھنے لگا، انوار احمد پریشان ہوئے، وہاں آس پاس کوئی اور دکان تھی نہیں تھی وہ جلدی سے دوا لے کر گھر پہنچنا چاہتے تھے کیونکہ افطار کا وقت قریب تھا چنانچہ انہوں نے 2750 روپے کی دوا خرید لیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے گھر آ کر تمام دواؤں کی قیمتوں کو جوڑا تو وہ تمام دوائیاں 2390 روپے کی تھیں۔ وہ واپس دکاندار کے پاس پہنچے اور اسے یہ بات بتائی تو وہ مزید بھڑک گیا اور مارپیٹ پر اتر آیا چنانچہ وہ خاموشی کے ساتھ گھر آ گئے۔

ایسی ہی کہانی لکھنؤ کے انیل کمار کی بھی ہے۔ ان کے بھائی کوویڈ پازیٹیو ہیں۔ ڈاکٹر نے فیبی فلو نام کی ایک دوا لکھی جس کی قیمت 1190 روپے ہے۔ انہوں نے آس پاس کے تمام میڈیکل اسٹورز کے چکر کاٹ لیے لیکن وہ کہیں نہیں ملی۔ سب یہی کہتے تھے کہ وہ کمپنی سے منگوا کر دیں گے، لیکن قیمت تین ہزار روپے سے زیادہ مانگتے تھے۔ وہ واپس گھر لوٹ آئے۔ تبھی ایک دکاندار نے انہیں کال کر کے 2800 روپے میں دوا کی آفر کی۔ یعنی 1190 روپے کی دوا انیل کمار کو 2800 روپے میں خریدنی پڑی۔

آپ کو جان کر حیرانی ہو گی کہ فیبی فلو ایسی دوا ہے جو کبھی فلو کے علاج میں کام آتی تھی لیکن اب وہ کورونا کا علاج کر رہی ہے۔ کمپنیاں یہ بھی جانتی ہیں کہ یہ کورونا کی دوا نہیں ہے لیکن مریضوں کے لواحقین مجبور ہیں اور ڈاکٹروں کے لکھنے کی وجہ سے مہنگی قیمت میں خرید رہے ہیں۔ دراصل یہ ریمیڈیسیویر کی ہی طرح کا ایک ملٹی اسپیکٹرم اینٹی وائرل ہے اور یہ فیوی پیراویر کا ایک بہتر ورژن ہے جو اس برانڈ نام کے نام سے بکتی ہے۔ چونکہ اس دوا کا کوئی ریڈمائزڈ کنٹرول ٹرائل نہیں ہوا ہے جو کہ اشد ضروری ہے، اس لیے اسے صرف ہنگامی صورت حال میں محدود مقدار میں استعمال کی اجازت ہے مگر کون اس کی پروا کر رہا ہے؟

سوستھ بھارت ابھیان نامی ایک تنظیم کے بانی ورکن نیشنل کوآرڈینیٹر آشوتوس کمار سنگھ ہفت روزہ دعوت سے بات چیت میں کہتے ہیں کہ دوا بنانے والی کمپنیوں اور دکانداروں کی من مانی پہلے بھی رہی ہے۔ یہ وہی سیکٹر ہے جہاں یہ لوگ 250 فیصد سے لے کر 1737 فیصد تک منافع کماتے رہے ہیں۔ لیکن کورونا کے اس دور میں بھی ان کی یہ من مانی جاری ہے تو یہ ایک بڑے جرم سے کم نہیں ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ جب ملک اتنے بڑے بحران سے گزر رہا ہے تب بھی آپ سب سے ضروری چیز دوا کی قیمت بڑھا رہے ہیں یا بلیک مارکیٹنگ کر رہے ہیں تو ایسے لوگوں کے خلاف ’بڑے پیمانے پر نسل کشی‘ کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

بتا دیں کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے 2018 میں جاری کردہ ہیلتھ فائنانشیل پروفائل میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان میں ہیلتھ سروسیز پر ہونے والے خرچ کا 67.78 فیصد عام لوگوں کی جیب سے جاتا ہے، جبکہ اس معاملے میں عالمی اوسط محض 18.2 فیصد ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں اس خرچ کا بھی سب سے بڑا حصہ تقریباً 43 فیصد ادویات پر خرچ ہوتا ہے۔ تازہ حالات میں ملک میں مریضوں کی تعداد کافی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور لوگوں کو اپنی صحت کے لیے خرچ بھی خوب کرنا پڑ رہا ہے اور یہ انسان کی مجبوری بھی ہے۔ آپ دوسری چیزوں میں کمی کر سکتے ہیں لیکن صحت ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے غفلت برتی جائے تو نتیجہ موت کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے، ایسی صورت میں صحت کے لیے جتنا خرچ ضروری ہے وہ بہرحال کرنا پڑتا ہے۔ چاہے اس کے لیے گھر بیچنا پڑے یا کچھ اور کرنا پڑے۔

ان سب کے درمیان غور طلب بات یہ ہے کہ دوا ساز کمپنیاں اپنی دواؤں کی ایم آر پی یعنی قیمت فروخت کس بنا پر اتنا بڑھا کر رکھتی ہیں؟ کیا حکومت کو پتہ نہیں ہے کہ دوا بنانے میں اصل خرچ کتنا آتا ہے؟ اگر حکومت کو نہیں معلوم تو یہ شرم کی بات ہے اگر وہ یہ جانتے ہوئے بھی اندھی بنی ہوئی ہے تو یہ اور زیادہ شرم کی بات ہے۔

ملک میں یہ حالات تب ہیں جب مرکزی حکومت نے ’نیشنل فارماسوٹیکل پرائسنگ اتھارٹی (این پی پی اے) کے نام سے ایک خود مختار ریگولیٹری باڈی بنا رکھی ہے، جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں فروخت کی جا رہی دواؤں کی قیمتیں کنٹرول کرے۔ اس کے لیے کئی قوانین بھی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کمپنیوں کے ذریعہ ادویات کی من مانی قیمتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ این پی پی اے اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

واضح ہو کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں ہندوستان میں غریبوں کی تعداد 364 ملین یا آبادی کا 28 فیصد ہو گی۔ اصل اعداد وشمار اس سے بھی زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ایسے ابتر معاشی حالات کے شکار ملک میں دواوں کی بلیک مارکیٹنگ عروج پر ہونا ملک کے لیے نہایت بد بختی کی بات ہے۔ منافع کمانے کے لیے مقابلہ آرائی ہو رہی ہے؟ حالانکہ یہ مقابلہ آرائی لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے ہونی چاہیے تھی۔ صحت کے معاملہ میں حکومت کے نکمے پن کا فائدہ اٹھا کر عوام کو لوٹا جا رہا ہے۔ عوام دیوالیہ ہو رہے ہیں اور دوا ساز کمپنیاں، دوا خانے، ڈاکٹرز اور فارمیسی والے مالا مال ہو رہے ہیں۔

انڈین فارما مارکیٹ اور دواؤں کا بڑھتا کاروبار

9 فروری 2021کو لوک سبھا میں وزارت کیمیکلز اینڈ فرٹیلائزرس کے وزیر ڈی وی سدانند گوڑا نے اپنے ایک تحریری جواب میں بتایا کہ سال 2018 میں انڈین فارما مارکیٹ میں ایک اندازے کے مطابق 9 فیصد اضافہ کی شرح پائی گئی اور اس سال 128884 کروڑ روپے کا کاروبار ہوا۔ سال 2019 میں اضافہ کی شرح 9.4 فیصد رہی اور اس سال 141033 کروڑ روپوں کا کل کاروبار ہوا۔ سال 2020 میں اضافہ کی شرح 3.1 فیصد درج کی گئی اور اس سال 145354 کروڑ روپوں کا کاروبار ہوا۔

اگر غیر شیڈول دواؤں کی بات کریں تو ہندوستان میں سال 2018 میں 9.7 فیصد اضافہ کی شرح پائی گئی اور اس سال 106342 کروڑ روپوں کاروبار ہوا۔ سال 2019 میں اضافہ کی شرح 9.6 فیصد رہی اور اس سال 116582 کروڑ روپوں کا کل کاروبار ہوا۔ سال 2020 میں اضافہ کی شرح 3.1 فیصد درج کی گئی اور اس سال 120250 کروڑ روپوں کا کاروبار ہوا۔

اگر شیڈول دواؤں کی بات کریں تو ہندوستان میں سال 2018 میں 5.9 فیصد اضافہ کی شرح پائی گئی اور اس سال 22543 کروڑ کا کاروبار ہوا۔ سال 2019 میں اضافہ کی شرح 8.5 فیصد رہی اور اس سال 24450 کروڑ روپوں کل کاروبار ہوا۔ سال 2020 میں اضافہ کی شرح 2.7 فیصد درج کی گئی اور اس سال 25104 کروڑ روپوں کاروبار ہوا۔

غیر ملکی دوا ساز کمپنیاں اس طریقے سے منافع نہیں کما سکتی ہیں: بامبے ہائی کورٹ

7 مئی 2021 کو بامبے ہائی کورٹ نے کہا کہ ’’کسی کو بھی ضروری دواوں کی فروخت سے ضرورت سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ آپ کو آگے بڑھ کر سوچنا ہو گا۔ ہندوستان میں غیر ملکی دوا ساز کمپنیاں اس طریقے سے منافع نہیں کما سکتیں۔‘‘ بامبے ہائی کورٹ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے کوویڈ مریضوں کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی درآمد کردہ دوائیوں کے بجائے مقامی ادویات کو متبادل کے طور پر فروغ کیوں نہیں دیا؟

دواؤں کی قیمت میں اوور چارجنگ کے 881 معاملے زیر التوا

’نیشنل فارماسوٹیکل پرائسنگ اتھارٹی‘ (این پی پی اے) ایک خود مختار ریگولیٹری باڈی ہے، جس کی ذمہ داری ملک میں فروخت کی جا رہی دواؤں کی قیمتیں کنٹرول کرنا ہے۔ یہ مستقل بنیاد پر شیڈول اور غیر شیڈول دونوں طرح کے ادویات کے قیمتوں کی نگرانی کرتا ہے۔ جب بھی کمپنیاں دوا کے فروخت میں صارفین سے زیادہ قیمت وصول کرتی ہیں، این پی پی اے ایسی کمپنیوں کو نوٹس بھیجتا ہے۔ لیکن آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ کچھ سالوں پہلے جب راقم الحروف نے این پی پی اے سے آر ٹی آئی کے تحت یہ سوال پوچھا تھا کہ اس ملک میں کتنی دوا ساز کمپنیاں ہیں؟ تو ان کا جواب تھا کہ انہیں یہ نہیں معلوم کہ ملک میں کتنی کمپنیاں دوائیں بناتی ہیں۔ یہی نہیں، ابھی تک اس سرکاری ادارے نے کسی بھی فارما کمپنی کو بلیک لسٹ بھی نہیں کیا ہے۔

2 فروری 2021 کو لوک سبھا میں وزارت کیمیکلز اینڈ فرٹیلائزرس کے وزیر ڈی وی سدانند گوڑا نے ایک تحریری جواب میں بتایا کہ ابھی تک این پی پی اے نے 2116 معاملے درج کیے ہیں۔ اس وقت اوور چارجنگ کے 881 معاملے، جن میں 8184.19 کروڑ روپے کی رقم شامل ہے، زیر التوا ہیں۔ ان میں سے 324 معاملوں میں 6550 کروڑ روپے مختلف عدالتوں میں انصاف کے انتظار میں ہے۔

وہیں 16 مارچ 2021 کو بتایا کہ سال 18-2017 سے لے کر 21-2020 تک اوور چارجنگ کے کل 12 معاملے درج ہوئے ہیں۔ جن میں تلنگانہ میں 4، دہلی میں 3، ہریانہ میں 2 اور مغربی بنگال، مہاراشٹر اور کرناٹک میں ایک ایک معاملہ درج ہے۔

بتا دیں کہ اگر آپ کو بھی لگتا ہے کہ کوئی دواساز کمپنی کسی دوا کی قیمت زیادہ وصول کر رہی ہے تو آپ ہیلپ لائن نمبر +91-11-23746647 یا 1800111255 پر کال کر کے اپنی شکایت درج کرا سکتے ہیں۔ کوویڈ سے جڑی ہوئی ادویات کے ساتھ ضروری سامان جیسے ماسک، سینٹائزر وغیرہ سے متعلق چیزوں کے لیے ہیلپ لائن نمبر 1800111255 پر شکایت درج کرائیں۔ اس کے علاوہ اپنی شکایت ای میل [email protected] بھی کرسکتے ہیں۔

غور طلب ہے کہ این پی پی اے نے ریمیڈیسیویر کی قیمت بھی طے کر رکھی ہے، دوا ساز کمپنیاں اس سے زیادہ قیمت پر فروخت نہیں کر سکتیں۔ اگر کوئی کمپنی اس طے شدہ قیمت سے زیادہ قیمت وصول کر رہی ہے تو اس کی شکایت این پی پی اے سے کی جا سکتی ہے۔

کوویڈ سے جڑی ادویات پر جی ایس ٹی ہٹانے کا مطالبہ

موجودہ حالات میں بھی ویکسین کی گھریلو فراہمی اور تجارتی درآمد کرنے پر پانچ فیصد کی شرح سے جی ایس ٹی لگتا ہے، وہیں کوویڈ ادویات اور آکسیجن کنسنٹریٹر پر 12 فیصد کی شرح سے جی ایس ٹی نافذ ہے۔

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا ہے، جس میں انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ آکسیجن کنسنٹریٹر، سلنڈر، کرایوجینک اسٹوریج ٹینک اور کوویڈ سے متعلق ادویات کو جی ایس ٹی سے چھوٹ دی جائے۔نیشنلسٹ کانگریس پارٹی رہنما اور مہاراشٹر کے وزیر آبی وسائل جینت پاٹل نے بورڈ آف انڈسٹری اینڈ کامرس آف انڈیا (ایسوچیم) کی جانب سے مرکزی وزارت خزانہ کو لکھے گئے ایک خط کو ٹویٹ کیا ہے اور کوویڈ کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی آکسیجن، آلات اور دیگر تمام قسم کی دواوں پر جی ایس ٹی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

بتا دیں کہ ایسوچیم کے ذریعے 6مئی کو لکھے گئے خط میں وزارت خزانہ سے آکسیجن مصنوعات اور دواوں پر جی ایس ٹی اور دیگر تمام فیسوں کو 31 مئی 2022 تک کے لیے ہٹانے کی گزارش کی ہے۔

بہار کے نائب وزیر اعلیٰ سے وزیر خزانہ تارکشور پرساد نے بھی جی ایس ٹی کونسل کی فٹمنٹ کمیٹی سے درخواست کی ہے کہ میڈیکل گریڈ آکسیجن کو جی ایس ٹی سے پاک رکھا جائے۔

وہیں ایک غیر سرکاری تنظیم ’پبلک پالیسی ایڈووکیٹس‘ نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کر کے کوویڈ کے علاج میں کام آنے والی دوا ریمیڈ یسیویر، توسیلیزوماب، فیوی پیراویر اور ایسی جنریک دواؤں پر وبا کے اس دور میں جی ایس ٹی سے چھوٹ دلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس عرضی میں اس تنظیم نے سپریم کورٹ سے حکومت کو مناسب ایڈہاک ہدایات کے احکامات اور نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا حکم دیے جانے کی گزارش کی ہے۔

جی ایس ٹی ہٹانے سے مہنگی ہو جائیں گی دوائیں: وزیر خزانہ سیتارامن

لیکن وزیر خزانہ نرملا سیتارامن کا کہنا ہے کہ کوویڈ کی ادویات، ویکسین اور آکسیجن کنسنٹریٹرس کی گھریلو فراہمی اور تجارتی درآمد پر جی ایس ٹی ہٹانے سے ایسی دوائیں اور سامان خریداروں کے لیے مہنگے ہو جائیں گی۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی ہٹنے پر ان کے مینوفیکچرر ان میں استمال کیے گئے خام / انٹرمیڈیٹ مال اور سامان پر چکائے گئے ٹیکس کے لیے انپٹ ٹیکس کریڈٹ کا دعویٰ نہیں کر سکیں گے۔ ایسے میں جی ایس ٹی سے چھوٹ دیے جانے کا صارفین کو نقصان ہو گا۔

جلد ہی دوائیں مزید ہوں گی مہنگی

جہاں ایک جانب ضروری ادویات کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، وہیں حکومت نے ’نیشنل فارماسوٹیکل پرائسنگ اتھارٹی‘ (این پی پی اے) کے ذریعے دسمبر 2019 میں ہی دوا ساز کمپنیوں کو 21 ضروری دواوں کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت دے دی تھی۔ ان دواوں میں کچھ اینٹی بائیوٹکس، ایسکوربک ایسڈ (وٹامن سی کی گولیاں)، بی سی جی ویکسین اور سیرپ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جذام اور ملیریا کے علاج میں کام آنے والی کچھ دوائیں بھی اس فہرست میں ہیں۔ وٹامن سی کی گولیاں اس وقت کوویڈ کے علاج میں بھی ڈاکٹر خوب لکھ رہے ہیں۔

این پی اے اے نے ان 21 اہم ادویات کی سیلنگ پرائس میں 50 فیصد اضافے کی منظوری دی ہے۔ این پی پی اے نے کہا ہے کہ عوامی مفاد کے پیش نظر ہم نے دوا ساز کمپنیوں کو قیمت بڑھانے کی اجازت دی ہے۔ مارکیٹ میں ان دواوں کی کمی تھی۔

وہیں مرکزی حکومت کی جانب سے 2020 کے لیے ریٹیل پرائس انڈیکس میں میں 0.5 فیصد سالانہ تبدیلی کا نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے۔ اس کے باوجود فارما کمپنیاں اس اضافے پر ناراض ہیں۔ کمپنیوں کا کہنا ہے کہ دوا بنانے کی لاگت میں 15 سے 20 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں دوا کمپنیاں اس بنیاد پر دواؤں کی قیمتوں میں اوسط 20 فیصد تک اضافے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ اور یہ سب کچھ حکومت کی دیکھ ریکھ میں ’عوام کے مفاد‘ کے نام پر ہو رہا ہے۔

تو کیا مرکزی حکومت دوا ساز کمپنیوں سے بی جے پی کو ملنے والے چندے کی قیمت ادا کررہی ہے؟

سوال یہ ہے کہ وبا کے دور میں بھی اس ملک میں ہیلتھ سیکٹر کی اتنی من مانی کیوں ہے؟ ان دوا ساز کمپنیوں کو اتنا بھاری منافع کمانے کی چھوٹ آخر ملی کیسے؟ جب ہفت روزہ دعوت نے ان سوالوں کے جوابات حاصل کرنے کے لیے مزید تفتیش کی تو دلچسپ کہانی سامنے آئی۔ پتہ چلا کہ ملک کے ہلیتھ سیکٹر سے جڑے کئی ادارے اپنی کمائی کا ایک حصہ ہمارے ملک کی سیاسی پارٹیوں کو دے رہے ہیں۔ خاص طور پر ملک کی بہت سی دوا ساز کمپنیاں سیاسی جماعتوں کو چندہ دیتی ہیں تاکہ وہ ان کی چھتر چھایا میں خوب من مانی کر سکیں۔

ہفت روزہ دعوت نے سال 17-2016 سے لے کر سال 19-2018 تک کی چندے کی فہرست پر نظرثانی کی اور اس میں ہلیتھ سیکٹر سے جڑے ناموں کی ایک فہرست تیار کی۔

بتا دیں کہ سال 20-2019 کی چندے کی فہرست بی جے پی نے ابھی تک الیکشن کمیشن کو نہیں سونپی ہے حالانکہ کانگریس سال 20-2019 کی چندے کی فہرست سونپ چکی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے عطیہ دہندگان کی فہرست کو دیکھیں تو اس میں نہ صرف دوا ساز کمپنیاں ہیں بلکہ کئی اسپتال، ڈاکٹرز اور دکاندار بھی شامل ہیں۔ اس اسٹوری میں شامل فہرست میں آپ ان کے کچھ نام دیکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ رقم ہے جو دوا ساز کمپنیوں نے علانیہ طور پر سیاسی جماعتوں کو دی ہیں۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے کہ اپنی من مانی کو جاری رکھنے کے لیے کمپنیاں عقبی دروازے سے کتنی رقم ان سیاسی جماعتوں کو پہنچاتی ہوں گی؟

حیرانی کی بات یہ ہے کہ بی جے پی کے چندے کی اس فہرست میں شامل کئی کمپنیاں کوویڈ کے علاج سے جڑی دوائیں ودیگر چیزیں بنا رہی ہیں یا فروخت کر رہی ہیں وہ ہندوستان میں سب سے زیادہ منافع کمانے والی کمپنیاں ہیں۔ اس سے بھی زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ عام انتخابات 2019 سے عین قبل بی جے پی کو ہیلتھ سیکٹر کی کمپنیوں اور اداروں سے خوب چندہ ملا ہے۔ 2014 کے عام انتخابات سے قبل بھی بی جے پی کو چندے کی موٹی رقم دینے والی کمپنیوں میں دوا ساز کمپنیاں سر فہرست نظر آتی ہیں۔ شاید اسی چندے کے عوض میں کمپنیاں زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتیں بڑھا کر عام آدمیوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہیں اور حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشہ دیکھ رہی ہے۔

ہفت روزہ دعوت نے سال 2017 سے لے کر سال 2019 تک کانگریس کو ملنے والی چندے کی فہرست کو غور سے دیکھا تو پایا کہ اس پارٹی کو ہیلتھ سیکٹر سے بہت کم چندہ ملا ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں محض پانچ دوا ساز کمپنیوں نے ہی اسے چندہ دیا ہے۔ وہیں 2014 عام انتخابات سے قبل سال 15-2014 میں چھ کمپنیوں نے اور 14-2013 میں صرف ایک کمپنی نے ہی کانگریس کو چندہ دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کمپنیاں اب بی جے پی کو چندہ دے رہی ہیں۔

غور طلب امر ہے کہ قانون عوامی نمائندگی (1951) میں سال 2003 میں ایک ترمیم کے تحت یہ قاعدہ بنایا گیا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو دفعہ 29 (سی) کی ذیلی دفعہ (1) کے تحت فارم 24 (اے) کے ذریعے الیکشن کمیشن کو یہ جانکاری دینی ہوگی کہ انہیں ہر مالی سال کے دوران کن کن افراد اور اداروں سے کُل کتنا چندہ ملا۔ سیاسی جماعتوں کو اس اصول کے تحت صرف 20 ہزار روپے سے اوپر کے چندے کے بارے میں معلومات دینی ہوتی ہے۔ یہ تمام معلومات الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔

سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کی پسندیدہ پارٹی ہے بی جے پی

کوویڈ ویکسین بنانے والی کمپنی سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کی پسندیدہ پارٹی بی جے پی رہی ہے اور یہ کمپنی بی جے پی کو آن ریکارڈ 6.05 کروڑ روپے چندے میں دے چکی ہے۔ وہیں Adar Poonawala Finvest Pvt Ltd. نے سال 17-2016 میں 15 لاکھ روپے کا چندہ بی جے پی کو دیا ہے۔

بی جے پی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو دیے گئے عطیات کی فہرست کے مطابق 2014 عام انتخابات کے پہلے سال 14-2013 میں سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا لمیٹیڈ نے 1.55کروڑ روپیوں کا چندہ پارٹی فنڈ میں دیا تھا۔ یہ رقم اس کمپنی نے تین چیکوں کے ذریعے دی تھی۔

وہیں بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی اس کمپنی نے دوبارہ سال 15-2014 میں 2.5 کروڑ کا چندہ بی جے پی کی جھولی میں ڈال دیا۔ اس کمپنی کی بی جے پی سے ’محبت‘ اگلے سال بھی بخوبی نظر آتی ہے۔ سال 17-2016 میں سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا لمیٹیڈ نے بی جے پی کو 2 کروڑ روپوں کا چندہ دیا۔

سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا لمیٹیڈ کی جو ’محبت‘ آج بی جے پی کے لیے ہے، کیا وہ دیگر سیاسی پارٹیوں کے لیے بھی ہے؟

اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہفت روزہ دعوت نے دیگر نیشنل پارٹیوں کی جانب سے الیکشن کمیشن کو دیے گئے عطیات کی فہرست کی بھی چھان بین کی لیکن اس کمپنی کی ان پارٹیوں کے ساتھ ’محبت‘ دور دور تک نظر نہیں آئی۔

***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 16 مئی تا 22 مئی 2021