کشمیر کی اَن کہی سرگزشت

خطہ مینو نظیر کےعاشق علامہ اقبال

ش م ۱حمد، کشمیر

 

’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی لاہور‘‘ 1931سے 1935تک عالمِ وجود میں رہی۔ اس کے بعد یہ کمیٹی بکھر کر تاریخ کی دھول میں غائب ہو گئی۔ اس کی کئی وجوہات تھیں مثلاً کمیٹی کی نگاہ میں کشمیریوں کی قانونی امداد اور ان کے بحالی حقوق کے نام سے ایک محدود الاثر نصب العین تھا مگر کمیٹی اس منزل کو پانے میں کس قدر سنجیدہ تھی اس کی ایک جھلک یہ تھی کہ نہ اس کا رسمی طور دستور پر کوئی العمل تھا نہ اس کی پالیسیاں اور ترجیحات واضح تھیں، عہدیداروں کے اختیارت بھی مبہم تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ کمیٹی کے نظم ونسق پر قادیانیوں کا غلبہ تھا۔ بہت جلد کشمیر کمیٹی میں موجود ان کمیوں کوتاہیوں کا غیر قادیانی اراکین نوٹس لینے لگے اور اب وہ اس کی فوری تلافی چاہتے تھے۔ انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ اس تنظیم کے نام سے پردہ زنگاری میں کوئی اور ہی گل کھلائے جا رہے ہیں۔ خاص کر صدر انجمن مرزا بشیر الدین محمود احمد کمیٹی کو کھلے عام اپنے گروہی مفاد اور جماعتی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ جب کمیٹی کو گروہی مفادات کی اجارہ داری سے بالا تر رکھنے کے لیے آوازیں کمیٹی کے اندر اٹھنے لگیں تو مرزا بشیرالدین محمود نے ان کو نظر انداز کیا۔ وہ جانتے تھے کہ کمیٹی کا دستور قواعد کے مطابق وضع ہونا اُن کے غیر معمولی اختیارات کے پَر کاٹے جانے پر منتج ہوگا۔ پھر بھی مرزا صاحب اس مطالبے کی زیادہ دیر تک اَن سنی نہ کر سکے کیوں کہ لوگوں نے زور وشور سے مطالبہ شروع کیا کہ کشمیر کمیٹی لاہور کا ایک باضابطہ آئین مرتب کیا جائے۔ عہدیداروں کے اختیارات واضح ہوں کمیٹی کے اغراض و مقاصد پر کوئی ابہام نہ رہے، تمام امور پر نہ اشتباہ رہے نہ کسی کی من مانیاں چلیں۔ کشمیر کمیٹی کا لاہور میں اجلاس ہوا تو دستور سازی کا مطالبہ شدومد سے ہوا۔ اجلاس میں قادیانی مخالف ’’مجلس احرار‘‘ کے نمائندوں نے بھی شرکت کی اور خاص طور سے دستور کی تدوین پر بحث وتکرار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا مگر قادیانی شرکائے اجلاس نے اس تجویز کی جی توڑ مخالفت کی۔ دستور کے حامی اراکین نے اُن کی ایک بھی نہ چلنے دی۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ مرزا بشیرالدین محمود احمد نے کمیٹی سے احتجاجاً مستعفی ہونے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
مرزا صاحب کی کشمیر کمیٹی سے علیحدگی کے بعد علامہ اقبال مسند صدارت پر بٹھائے گئے مگر کمیٹی کی آڑ میں مرزائی برادری کی بہت ساری حرکات وسکنات نے علامہ کو اس قدر دل برداشتہ کیا کہ وہ بالآخر کشمیر کمیٹی سے کچھ عرصہ بعد ہی الگ ہو گئے۔ ہر بار چوں چوں کے مربے کا یہی حشر ہوتا رہا ہے۔
مرزا بشیر صاحب کی کمیٹی سے کنارہ کشی کے فوراً بعد وہ تمام سرگرم قادیانی رضا کار بھی کمیٹی سے عملی طور پر لا تعلق ہو گئے جو قبل ازیں انجمن کے روح رواں مانے جاتے تھے۔ حد یہ ہوئی کہ جو مرزائی وکلا کشمیری نظر بندوں کے مقدمات لڑ رہے تھے اُنہوں نے اپنے خلیفہ کا اشارہ پاتے ہی بے یارو مددگار کشمیری موکلین کو سرِ راہ چھوڑ دیا۔
تاریخ شاہد و عادل ہے کہ علامہ اقبال کشمیری الاصل ہونے کے ناطے عمر بھر کشمیر کے ساتھ ایک جذباتی اور وجدانی تعلق میں بندھے رہے۔ اس ضمن میں اُن کے اشعار، مکتوبات، سوانح عمریاں، یاداشتیں، کشمیر کے دورے، ماہرینِ اقبالیات کے تحقیقی مقالے وغیرہ مفصل روشنی ڈالتے ہیں۔ ان سبھی چیزوں سے موٹے طور پر باور ہوتا ہے کہ وہ کشمیر کے لیے سچے دل سے مخلص اور خیرخواہ تھے۔ یا بالفاظ دیگر ایک منجھے ہوئے عاشقِ کشمیر تھے ؎
تنم گُلے زخیابانِ جنتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز ونوا از شیراز است
(مجھے میرا جسم جنت نظیر کشمیر کے باغ نے دیا، حجاز نے دل کی دھڑکنیں اور شیراز نے نغمے دیے)
کشمیر کمیٹی کی صدارت سے پہلے بھی علامہ اپنی نجی سطح پر مہاراجی ظلم کے شکار مظلوم کشمیریوں کی قانونی امداد کے لیے لاہور اور دیگر جگہوں سے وکلا ٹیمیں کشمیر بھیجا کرتے تھے۔ قانونی ماہرین کی اسی پلٹن میں پٹنہ کے ایڈووکیٹ نعیم الحق بھی شامل تھے۔ ایک موقع پر ایڈووکیٹ صاحب اقبال کے ایماء پر کشمیر جانے کے لیے رختِ سفر باندھ ہی رہے تھے کہ صدر مرزا بشیر نے اپنے نامی گرامی قادیانی پیروکار اور معروف قانون دان سر ظفراللہ خان (جو بعد ازاں پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہے) کو ان کے مقدمات کی پیروی کے لیے کشمیر روانہ کردیا۔ علامہ کو اس معاملے میں قادیانیوں کی اصل نیت کا پتہ چلا تو انہوں نے ایڈووکیٹ نعیم الحق کے نام مکتوب لکھا:
’’جس مقدمہ کی پیروی کے لیے میں نے آپ سے درخواست کی تھی اس کی پیروی چودھری محمد ظفر اللہ خان کریں گے؟ عبدالحمید صاحب نے مجھے اطلاع دی ہے اور میں نے ضروری سمجھا کہ آپ کو ہر قسم کی زحمت سے بچانے کے لیے فی الفور آپ کو مطلع کرنا چاہیے۔ چودھری ظفراللہ خان کیوں کر اور کس کی دعوت پر وہاں جا رہے ہیں یہ مجھے نہیں معلوم۔ شاید کشمیر کانفرنس کے بعض لوگ ابھی تک قادیانیوں سے خفیہ تعلقات رکھتے ہیں‘‘
ماخوذ: رئیس احمد جعفری ’’اقبال اور سیاستِ ملّی‘‘
مرزا صاحب کا استعفیٰ منظور ہوا تو رد عمل میں سر ظفر اللہ خان نے زیر حراست کشمیری نظر بندوں کی وکالت سے ہاتھ اٹھا لیے۔ اس پر علامہ اقبال کو بہت ذہنی کوفت ہوئی۔ اس بابت انہوں نے ایک اخباری بیان ان الفاظ میں جاری کیا:
’’بدقسمتی سے کمیٹی میں کچھ ایسے لوگ تھے جو اپنے مذہبی فرقے کے سوا کسی دوسرے کا اتباع کرنا سرے سے گناہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ احمدی وکلا میں ایک صاحب نے جو میر پور کے مقدمات کی پیروی کر رہے تھے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں واضح طور پر اس خیال کا اظہار کر دیا۔ انہوں نے صاف طور پر کہا کہ وہ کسی کشمیر کو نہیں مانتے اور جو کچھ اُنہوں نے یا اُن کے ساتھیوں نے اس ضمن میں کیا وہ اُن کے امیر کے حکم کی تعمیل تھی ۔۔۔ میں کسی صاحب پر انگشت نمائی نہیں کرنا چاہتا، ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ سے کام لے اور جو راستہ پسند ہو اُسے اختیار کرے۔ حقیقت میں مجھے ایسے شخص سے ہمدردی ہے جو کسی روحانی سہارے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کسی مقبرے کا مجاور اور کسی زندہ نام نہاد پیر کا مرید بن جائے‘‘
ماخوذ: رئیس احمد جعفری ’’ اقبال اور سیاست ملّی‘‘
کشمیر کمیٹی کی تحلیل کے بعد مرزائی قیادت برابر اپنے کشمیر ایجنڈے پر گامزن رہی۔ ان لوگوں کی اُمیدوں پر اگرچہ کشمیر کمیٹی کی سرگرمیوں میں علامہ کی بر وقت مداخلت اور احراریوں کی فعالیت نے پانی پھیر دیا تھا لیکن وہ بھی کہاں نچلے بیٹھنے والے تھے، ان کے پیش نظر کشمیر کو ایک قادیانی ریاست و سلطنت میں ڈھالنے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جسے نہ صرف انگریز آقا کی طرف سے پذیرائی حاصل تھی بلکہ اس کے لیے بہت پہلے شہر خاص سری نگر کے روضہ بل خانیار محلہ میں یوزآصف نامی ایک درویش کی قبر کو مرزا غلام احمد قادیانی خاکم بدہن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر قرار دے دیا تھا۔ حالاں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اَزروئے قرآن وحدیث نہ صلیب چڑھے نہ قتل ہوئے بلکہ اللہ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا۔ مرزائیت کا یہ چیستاں بھی ایک معمہ ہے سمجھنے اور سمجھانے کا۔ مگر یہاں اس کے تذکرے کا موقع ومحل نہیں۔ کشمیر کو اپنے وسیع تر منصوبے کے لیے نرم نوالہ سمجھنے والے احمدیوں نے کشمیر کمیٹی کے بعد اب ’’تحریکِ کشمیر‘‘ سے موسوم ایک اور انجمن بنا ڈالی۔ انجمن کو عوامی ساکھ اور اعتباریت کی سند دلانے کے لیے قایادنیوں نے وقت کی جانی مانی مستند ہستی علامہ اقبال کو صدارت کی پیش کش کی مگر ان کی دور اندیش نگاہ اور مومنانہ بصیرت نے تاڑ لیا کہ قادیانیوں کی اس ’’دریا دلی‘‘ کے پسِ پشت اصل راز کیا ہے۔(محمد احمد خان: ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ‘‘): ڈاکٹر صاحب اب قادیانی تحریک کے سخت مخالف بن چکے تھے، اُن کا خیال تھا کہ تحریکِ کشمیر کے نام سے قادیانی اپنے عقائد کی نشر واشاعت کرنا چاہتے ہیں اس لیے انہوں نے اس آفر کو قبول کر نے سے انکار کر دیا‘‘
کشمیر کا درد وکرب علامہ اقبال کی رَگ وپے میں بسا ہوا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ کشمیریوں کی کسمپرسی اور ان کی حالتِ زار پر سرد آہیں بھریں۔ علامہ اقبال کے قلب وجگر میں ہمیشہ کشمیر مچل رہا تھا۔ واضح رہے کہ کشمیری نژاد پنڈت جواہر لعل نہرو کو بھی کشمیر کے مناظر قدرت سے قلبی لگاؤ تھا۔ وہ اپنے والد موتی لعل نہرو کے ہمراہ ڈل جھیل کی سیر کو دو سال کی عمر سے ہی آیا کرتے تھے۔ اقبال کشمیر میں فطرت کے حسن وجمال کے پرستار ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیری مسلمانوں کی غربت، ناخواندگی، غلامانہ ذہنیت، مریضانہ عادتیں، توہمات، قبر پرستیاں، اقتصادی استحصال، سیاسی بدحالیاں وغیرہ.. غرض کشمیر کے بارے میں ہر منفی چیز اُن کے حریمِ قلب کو تڑپاتی اور آنکھوں کو خون کے آنسو رُلاتی تھی۔
( ش م أحمد، کشمیر کے آزاد صحافی ہیں)

اقبال کشمیر میں فطرت کے حسن وجمال کے پرستار ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیری مسلمانوں کی غربت، ناخواندگی، غلامانہ ذہنیت، مریضانہ عادتیں، توہمات، قبر پرستیاں، اقتصادی استحصال، سیاسی بدحالیاں وغیرہ.. غرض کشمیر کے بارے میں ہر منفی چیز اُن کے حریمِ قلب کو تڑپاتی اور آنکھوں کو خون کے آنسو رُلاتی تھی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020