ٹک ٹاک پر پابندی،الجزیرہ پر شکنجہ! اظہار کی آزادی پرامریکی حملہ

مسعود ابدالی

 

غالباً 1984 کی بات ہے۔ جامعہ نیو یارک دہلی (SUNI-Delhi) میں اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (اکنا) کا سالانہ اجتماع ہو رہا تھا۔ دہلی ریاست نیو یارک کے جنوب مشرق میں سوا تین مربع میل رقبے اور 3000نفوس پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو اسی جامعہ کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کا درست تلٖفظ تو ڈلہائی ہے لیکن دیسی لوگ اسے دہلی پکارتے ہیں۔ اتفاق سے ہم امریکہ کے مشہور ماہر طبعیات ڈاکٹر لودھی اور اکنا ہیوسٹن کے ناظم اسد غوری صاحب کے ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ جماعت اسلامی ہند کے معروف رہنما اور ادیب م نسیم مرحوم وہاں آئے۔ م نسیم صاحب کے ساتھ ایک نوجوان بھی تھا جو چہرے مہرے سے مشرقی یورپ کا لگ رہا تھا۔ نوجوان سے معذرت کر کے اپنے مخصوص انداز میں م نسیم صاحب نے کہا کہ” آج تو تاریخ کا نیا باب رقم ہو رہا کہ دلی میں ابدالی، غوری اور لودھی ایک دوسرے کا خون پینے کے بجائے اطمینان سے بیٹھے چائے پی رہے ہیں“ اللہ مرحوم کی قبر کو نور سے بھر دے کہ اس قسم کے بروقت اور حسب حال شائستہ جملوں سے م نسیم مرحوم محفل کو گُل وگلزار بنا دیا کرتے تھے۔
اس لطیف سے مذاق کے بعد م نسیم صاحب نے اس نوجوان کا تعارف کروایا کہ یہ پولینڈ کے مزدور رہنما ہیں جنہوں نے حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے۔ پہلے یہ بگڈان کہلاتے تھے لیکن اب انہوں نے اپنا نام عطا اللہ رکھ لیا ہے۔ یہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی ہیں چنانچہ ڈاکٹر عطا اللہ کوپانسکی کہلاتے ہیں۔ میں اس وقت ہفت روزہ تکبیر کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتا تھا۔ اچانک خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ ڈاکٹر صاحب کا انٹرویو کر لیا جائے۔ ہم نے جب اس خواہش کا اظہار کیا تو ڈاکٹر کوپانسکی فوراً بولے بسم اللہ یعنی گفتگو شروع کر دیجیے۔ میں نے کہا ابھی تو آپ اور ہم دونوں ہی مصروف ہیں کیوں نہ آج رات کھانے کے بعد بیٹھ جائیں جس پر انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ شریعتِ لینن میں کمیونسٹ پارٹی کی اجازت کے بغیر باقاعدہ انٹرویو دینا سنگین جرم ہے۔ لی والیچا بھی بس چلتے پھرتے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دے دیتے ہیں۔ یہ بات ڈاکٹر صاحب نے مذاق میں کہی تھی چنانچہ ہم نے ان کو اسی لہجے میں یاد دلایا کہ اب آپ کمیونسٹ پولینڈ میں نہیں بلکہ جمہوری امریکہ میں ہیں جہاں آپ جو چاہے کہہ سکتے ہیں۔ جس پر عطا اللہ کوپانسکی کا کہا ہوا جملہ ہمیں اب تک یاد ہے کہ ’کمیونسٹ دنیا میں دل کی بات کہنے کی اجازت نہیں اور آزاد دنیا میں بات کہنے کی فرصت نہیں‘ یعنی ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا۔
اس تفصیلی تمہید کی وجہ یہ ہے کہ اب امریکہ میں بھی آزادی اظہار رائے قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے۔ اور معاملہ صرف جذبات کے اظہار کا نہیں بلکہ آزاد تجارت اور افراد کی نقل و حرکت کا بھی ہے کہ اس پر بھی پہرے عام ہیں۔ یعنی ہر گام پہ چند آنکھیں ہر موڑ پہ ایک لائسنس طلب والا معاملہ ہے۔
پندرہ سے ساٹھ سیکنڈ کی ویڈیو کی سہولت فراہم کرنے والی چینی سوشل میڈیا کمپنی ٹک ٹاک TicTok پر پابندی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ٹک ٹاک چینی کمپنی ByteDance کا ذیلی ادارہ ہے۔ بائٹ ڈانس نے ٹک ٹاک کا آغاز 2016 میں کیا جو بنیادی طور پر رقص و موسیقی کی ویڈیو کا پروگرام ہے اور مختصر دورانیے کی وجہ سے انٹرنیٹ پر بار نہیں بنتا۔ چنانچہ یہ بہت جلد مقبول ہوگیا اور اب اس کے صارفین کی تعداد فیس بک، یوٹیوب اور انسٹا گرام سے زیادہ ہے۔ 2017میں ٹک ٹاک نے کیلی فورنیا میں اپنا دفتر قائم کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے امریکی صارفین کی تعداد 4 کروڑ سے تجاوز کر گئی جس میں ایک تہائی سے زیادہ 19 سال سے کم کے نوخیز نوجوان ہیں۔ ٹک ٹاک کی مقبولیت کی بنا پر بہت سے گلوکاروں نے اپنے ایک آدھ بند کے نغمات بھی ٹک ٹاک پر جاری کرنا شروع کر دیے جس سے یہ پلیٹ فارم مزید مقبول ہو گیا۔ کچھ منچلے رقص و موسیقی کے ساتھ سیاسی پیغامات بھی پوسٹ کر دیتے ہیں۔ منیا پولیس (Minneapolis) سانحے کے بعد جس میں ایک نہتے سیاہ فام شخص کو گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا امریکہ میں نسلی مساوات و سماجی انصاف کا مطالبہ عام ہوا اور Black Lives Matter تحریک نے مختصر دورانیے کہ نغمے ٹک ٹاک پر جاری کیے جو نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئے۔ فیس بک اور دوسرے پلیٹ فارموں سے اسے مزید پھیلا دیا گیا۔
ٹک ٹاک کے خلاف سب سے پہلے ہندوستان میں چینئی کی عدالت عالیہ میں مقدمہ کیا گیا۔ اپریل 1919ء کو دائر کی جانے والی درخواست میں کہا تھا کہ ٹک ٹاک فحش اور مخرب اخلاق مواد کی اشاعت کا سبب بن رہا ہے۔ درخواست گزاروں نے بتایا کہ نوجوان لڑکیاں اپنے قابل اعتراض رقص ٹک ٹاک کے ذریعے دوستوں کو بھیج رہی ہیں۔ ان ویڈیو کو ہتھیار بنا کر مجرم پیشہ افراد نے بلیک میلنگ کا بازار گرم کر رکھا ہے اور کئی مقامات پر لڑکیوں پر مجرمانہ حملوں کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ عدالت نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیتےہوئے نشریاتی اداروں کو حکم دیا کہ یہ ویڈیوز اس وقت تک نشر نہ کیے جائیں جب تک ٹک ٹاک کی انتظامیہ فحش و قابل اعتراض مواد پر مؤثر پابندی (سینسر) کا یقین نہ دلا دے۔ چنانچہ گوگل اور ایپل نے ٹک ٹاک کی اپلیکیشن حذف کر دیں۔ جلد ہی ٹک ٹاک نے عدالت میں بیانِ حلفی جمع کرایا جس میں کہا گیا تھا کہ مواد کی جانچ پڑتال کا ایک جامع نظام نافذ کر کے 60 لاکھ سے زیادہ قابل اعتراض ویڈیوز ہٹادیے گئے ہیں۔ تاہم جون 2020 میں ہندوستانی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ٹک ٹاک اور ڈھائی سو کے قریب چینی ایپلیکیشنز پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔ غیر جانب دار حلقوں کا خیال ہے کہ نئی دلی کا یہ قدم ہند حالیہ چین تناو کا شاخسانہ ہے۔
امریکہ میں ٹک ٹاک کی مقبولیت بڑھتی جا رہی تھی اور اس کے ذریعے چبھتے ہوئے سیاسی چٹکلوں سے صدر ٹرمپ بہت پریشان تھے۔ اس سال جون میں صدر ٹرمپ نے اپنی تقریروں میں ٹک ٹاک پر پابندی کا عندیہ دیا اور 7 جولائی کو اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ ٹک ٹاک پر پابندی کے لیے وزارت انصاف سے مشورہ کیا جا رہا ہے۔ یہ خبر سامنے آتے ہی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا۔ قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک پر پابندی آزادی اظہار رائے پر قدغن کی ایک شکل ہوگی اور ان اقدامات سے امریکہ کی جمہوری اقدار کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوگا۔
خود کو عقلِ کُل سمجھنے والے صدر ٹرمپ ان باتوں پر کان نہیں دھرتے۔ 31 جولائی کو امریکی صدر نے بائٹ ڈانس کو متنبہ کیا کہ اگر اس نے اپنے ذیلی ادارے ٹک ٹاک کی امریکی شاخ مقامی سرمایہ کاروں کے ہاتھ فروخت نہ کی تو اس پر صدراتی حکم کے ذریعے پابندی لگا دی جائے گی۔ صدر ٹرمپ کی یہ دھمکی آزادی اظہار رائے پر حملے کے ساتھ آزادانہ تجارت کے اصولوں کے بھی خلاف تھی۔ آزاد تجارت سرمایہ دارانہ معیشت کی روح ہے اور امریکہ کے قدامت پسند بہت فخر سے کہتے پھرتے ہیں کہ حکومت تو بس دیانتدار ریفری ہے اور کاروبار تاجروں کا کام ہے۔ امریکہ میں تیار ہونے والی فلموں کے مواد کی بھی جانچ پڑتال نہیں کی جاتی بس حساسیت کے اعتبار سے بے باک مناظر والی فلموں پر X اور R کی مہر لگا دی جاتی ہے۔ ایسی فلمیں جن میں تشدد اور خوفناک مناظر ہوں ان پر Parental Guidance- لکھ دیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ نوخیز افراد فلم دیکھنے سے پہلے اپنے سرپرستوں سے مشورہ کر لیں۔
15 اگست کو صدر ٹرمپ نے اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے انتظامی حکم جاری کر دیا۔ صدارتی حکم کے مطابق اہم حساس اداروں اور مستند ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کے بعد امریکہ کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے پیش نظر ٹک ٹاک پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ حکم نامے میں بائٹ ڈانس کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ٹک ٹاک کے امریکی صارفین کے متعلق حاصل کردہ ڈیٹا بھی واپس کر دے۔ وہائٹ ہاؤس کی ترجمان کیلی مک اینی (Kayleigh McEnany) نے حکم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ نے قومی سلامتی سے متعلق ہنگامی حالت کے قانون مجریہ 1977 کے تحت حاصل کردہ اختیارت استعمال کرتے ہوئے پابندی لگائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹک ٹاک ان اپلیکیشنز میں شامل ہے جو امریکی شہریوں کی ذاتی نوعیت کی حساس معلومات اکھٹا کرتی ہے اور ٹرمپ انتظامیہ اپنے شہریوں کو سائبر حملوں اور ان تمام ایپس کے مضر و پرخطر اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔
امریکی کمپنیوں مائیکروسافٹ اور اوریکل Oracle نے ٹک ٹاک کی امریکی شاخ خریدنے میں دلچسپی ظاہر کہ ہے۔ ٹک ٹاک انتظامیہ کو شکایت ہے کہ صدارتی حکم کے اجرا سے پہلے امریکی حکومت نے کمپنی کے ان اقدامات کو یکسر نظر اندزا کر دیا جو ٹک ٹاک انتظامیہ اعتماد کی بحالی اور واشنگٹن کے خدشات دور کرنے کے لیے ایک سال سے کر رہی ہے۔ کمپنی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت نے حقائق پر کوئی توجہ نہیں دی اور نجی کمپنیوں کے مابین جاری بات چیت میں خود کو ملوث کر کے مول تول کے دوران ٹک ٹاک کی پوزیشن کمزور کر دی ہے۔
سوشل میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کی وزارت انصاف نے الجزیرہ کے آن لائن نیوز پلیٹ فارم المعروف AJ+ کو قطری حکومت کا ترجمان قرار دیتے ہوئے اسے بطور غیر ملکی ایجنٹ رجسٹر ہونے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ الجزیرہ کو عالمی ابلاغ عامہ کے ایک آزاد ادارے کے بجائے قطری حکومت کا ترغیب کار یا Lobbyist تصور کیا جائے گا۔
اب امریکی ایوان صدر، کانگریس اور حکومتی دفاتر میں الجزیرہ کے نمائندوں کا داخلہ محدود کرنے کے ساتھ سرکاری اہلکاروں سے ملاقات کی تفصیل اور گفتگو کا ریکارڈ طلب کیا جا سکتا ہے۔ مختصر طور پر یوں سمجھیے کہ اب الجزیرہ کے لیے امریکہ میں کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔
الجزیرہ کے ترجمان نے اس حکم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جس شام متحدہ عرب امارات، بحرین اور اسرائیل نے واشنگٹن میں معاہدہ امن المعروف معاہدہ ابراہیم پر دستخط کیے اس کے چند ہی گھنٹوں بعد ادارے کو یہ نوٹس وصول ہوئی۔ خیال ہے کہ متحدہ عرب امارات نے معاہدے پر دستخط کے لیے پابندی کی شرط لگائی تھی۔ تاہم امریکہ میں امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت کے دوران کسی مرحلے پر الجزیرہ یا قطر کا ذکر تک نہیں ہوا۔ فاضل سفیر نے کہا کہ الجزیرہ یا قطر اتنے اہم نہیں جتنا وہ خود کو سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب، امارات، بحرین اور مصر میں الجزیرہ کی نشریات پر پہلے ہی پابندیاں عائد ہیں۔صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی غیر ملکی تارکین وطن پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کر کے امریکی امیگریشن نظام کو خلیجی ممالک کے ہم پلہ کردیا تھا اور سوشل و الیکٹرانک میڈیا پر پابندی کے بعد آزادی صحافت کے حوالے سے بھی اب امریکہ عرب دنیا کے برابر آگیا ہے۔اظہار رائے کے ساتھ تفتیشی صحافت کے عالمی اتحاد International Consortium of Investigative Journalists یا ICIJ کے حالیہ چشم کشا انکشاف سے یورپ و امریکہ کے بینکنگ نظام کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ ICIJ نے جے پی مورگن JP Morgan، چیس Chase,
ایچ ایس بی سی HSBC، ڈوئچے Deutsche اور امریکہ و یورپ کے چند دوسرے بڑے بینکوں پر منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے ہیں۔ ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ 1999سے 2017کے دوران 2000ارب ڈالر کا کالا دھن سفید کیا گیا۔ منی لانڈرنگ کے مفروضوں کو بنیاد بنا کر ایران وشمالی کوریا پر پابندیاں لگانے والے اب کس کو سلیٹی (Gray) یا سیاہ (Black) فہرست میں ڈالیں گے؟ دوسروں کی آنکھوں میں تنکا تلاش کرنے والوں کو اپنی آنکھ کا شہتیر کہاں نظر آتا ہے؟
(مسعود ابدالی معروف کالم نویس ہیں جو مشرق وسطیٰ ، مسلم دنیا اور عالمی سیاست پر لکھتے رہے ہیں)

خود کو عقلِ کُل سمجھنے والے صدر ٹرمپ ان باتوں پر کان نہیں دھرتے۔ 31 جولائی کو امریکی صدر نے بائٹ ڈانس کو متنبہ کیا کہ اگر اس نے اپنے ذیلی ادارے ٹک ٹاک کی امریکی شاخ مقامی سرمایہ کاروں کے ہاتھ فروخت نہ کی تو اس پر صدراتی حکم کے ذریعے پابندی لگا دی جائے گی۔ صدر ٹرمپ کی یہ دھمکی آزادی اظہار رائے پر حملے کے ساتھ آزادانہ تجارت کے اصولوں کے بھی خلاف تھی۔ آزاد تجارت سرمایہ دارانہ معیشت کی روح ہے اور امریکہ کے قدامت پسند بہت فخر سے کہتے پھرتے ہیں کہ حکومت تو بس دیانتدار ریفری ہے اور کاروبار تاجروں کا کام ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020