اداریہ

بات بہار میں بہار کی

کچھ سیاسی جماعتیں انتخابات جیتنے کی ایک ’سیاسی مشین‘ بن کر کام کرنے لگیں تو گدی پر بیٹھ جانے کے بعد پھر عددی اکثریت کا غرور ان کو ہر فرض سے بری الذمہ بنا دیتا ہے۔ مشہور میگزین ’ٹائم‘ نے پی ایم مودی کو دنیا کی سو با اثر شخصیات کی فہرست میں شامل تو کیا لیکن میگزین کے ایک ایڈیٹر کارل وِک (Karl Vick) نے ان کی ’توصیف‘ میں جو کلمات تحریر کیے ہیں ان کا اطلاق بہار کے انتخابات پر بھی ہوتا ہے۔ ’’جمہوریت کے لیے بنیادی بات محض آزادانہ انتخابات نہیں ہیں۔ انتخابات صرف اتنا ہی طے کرتے ہیں کہ کسے سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔ لیکن اس سے زیادہ اہمیت ان شہریوں کے حقوق کی ہے، جنہوں نے جیتنے والوں کو ووٹ نہیں دیا۔۔۔‘‘ عیسائی، مسلم، سکھ، بَودھ، جین اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں پر نریندر مودی حکومت نے شک کے سایے پھیلا رکھے ہیں۔ جھوٹے وعدوں کی بنیاد پر منتخب ہو کر اقتدار پر آنے والی ’ہندو قوم پرست بی جے پی‘ نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی تکثیریت (Pluralism) کو مسترد کر دیا ہے۔ کارل وِک مزید لکھتے ہیں کہ کورونا وبا کی آڑ لے کر حکومت سے اختلاف کرنے والوں کو کچلنے کی کوشش کی گئی۔
اسی ضمن میں اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی جسٹس آلوک کمار بینچ نے حال ہی میں کہا ہے کہ ’’غیر جانبدار اور پر امن انتخابات کے لیے تشہیری مہم کے دوران پارٹی یا امیدوار کو کسی بھی ایسی سرگرمی میں شامل نہیں ہونا چاہیے جس میں شہریوں کے مختلف طبقوں کے درمیان مذہب، نسل، ذات، فرقہ یا زبان کی بنیاد پر نفرت یا تناؤ پیدا ہو‘‘۔ انتخابی مہم کے دوران معاشرے میں دشمنی و نفرت انگیزی کرنے پر ایسے امیدوار کو تین سال تک قید و جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ کیا انتخابات کی راہ سے آنے والے حکمراں بین الاقوامی آراء اور خود اپنی عدالتوں کا کوئی لحاظ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں؟ جب تک آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو بہار میں پہلے مرحلے کی 71 نشستوں کے لیے امیدواروں کے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہوگا۔ حالانکہ ابھی تک اتحادوں کے بننے اور بگڑنے نیز، امیدواروں کے ناموں کو طے کرنے کا مرحلہ ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔
بہار کی پہچان جرائم، ذات پات اور بدعنوانی کے ساتھ ساتھ خوب محنت کرنے والے ذہین طلبا اور سخت جاں مزدوری کے لیے تیار رہنے والے مزدوروں سے بھی بنی ہے۔ لیکن ان ہی کو مہاجر اور تارکین وطن کہہ کر وبائی حالات میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا جن میں این ڈی اے اور دیگر پارٹی کی حکمرانی والی ریاستیں سبھی شامل رہیں۔ لیکن خود حکومت بہار کا رویہ اور کارکردگی سب سے بد تر درجے کی رہی۔ وزیر اعلیٰ نے لاک ڈاؤن کے بعد سے اپنے شہریوں اور ووٹروں سے کوئی مکالمہ ہی نہیں کیا اور اب پہلی بار باہر نکل کر پریس کو مخاطب کیا وہ بھی انتخابات کے اعلان کے بعد!
اس مرتبہ ایک نئی بات تو یہ ہے کہ کورونا وبا کے دوران انتخابات کروانے کے لیے انتخابی کمیشن نے نئی ہدایات جاری کی ہیں۔ مثلاً گھر گھر مہم کے لیے امیدوار کے ساتھ صرف چار لوگوں کو جانے کی اجازت ہوگی۔ وبائی احتیاطی تدابیر، ماسک، ہینڈ سینیٹائزر اور تھرمل اسکینر وغیرہ ہر تشہیری مرحلے میں فراہم کیے جائیں گے۔ صاف ہے کہ بڑی اور مال دار پارٹیاں تشہیری مہم میں تکنیک و آلات کا بہتر استعمال کرنے کے موقف میں ہوں گی جب کہ چھوٹی پارٹیوں کو کم خرچیلے لیکن براہ راست انسانی رابطے اور عوامی ریلیوں کے روایتی طریقوں کو اختیار کرنا ہوتا ہے لیکن نئے ضابطوں سے ان پر قدغن لگ گئی ہے۔ تین مراحل میں یعنی 28 اکتوبر اور 3 و 7 نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے، ووٹوں کی گنتی اور نتیجہ کا اعلان 10 نومبر کو ہوگا۔
بہار میں اس بار ایک علاقائیت پر مبنی شناخت کی سیاست کی جا رہی ہے۔ 243 اسمبلی نشستوں والی بہار اسمبلی میں 24 سیٹوں والے سیمانچل خطے میں معاشی پچھڑا پن نہایت نمایاں ہے۔ پچھلے تیس برسوں میں ترقیاتی کاموں سے پورے خطے کو محروم رکھنے کے لیے حیدرآباد کی کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی نے براہ راست نتیش کے پندرہ سال اور لالو کے پندرہ برسوں کے دور حکمرانی کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ دوسری جانب کشن گنج میں قریب 80 فی صد مسلمان ہیں، پورنیہ میں 38 فی صد، اَرَریہ میں 42 فی صد اور کَٹیہار میں 43 فی صد مسلمان آباد ہیں جہاں مجلس نے اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بہار میں چھ مسلم سیاسی جماعتوں نے انتخاب لڑا تھا۔ اویسی نے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد کے ’’مائی‘‘ یعنی مسلم۔یادو کی سوشل انجنیئرنگ فارمولے کو اختیار کر کے مسلم شناختی سیاست شروع کی ہے۔ سابق مرکزی وزیر دیویندر یادو کے ساتھ سیاسی اتحاد کر کے کل ہند مجلس اتحاد المسلمین نے اس بار اپنے مسلم ووٹ بینک کو پس ماندہ طبقات تک وسعت دینے کی کوشش کی ہے۔ اس مرتبہ بہار کی سیاست میں اور بھی نیا پن ہے۔ ’پلُورَلس‘ نامی ایک نئی پارٹی کی قائد پُشپ پریا چودھری نے بڑے اخبارات میں اشتہارات دے کر ریا

ست کی سیاست میں نیا باب شروع کیا ہے۔ پردیس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے واپس آنے والی اس خاتون کی پارٹی کو پہلی مرتبہ بہار کی گنجلک سیاست میں خود کو منوانا اتنا آسان نہ ہوگا۔ ایک تیسرا جدید ترین مشترکہ محاذ پروگریسیو ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈے اے) قائم ہوا ہے جس میں دلت، مسلموں کو ساتھ لے کر فرقہ پرستی اور ذات پات والے موجودہ محاذوں کو تیسرا متبادل فراہم کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ جن ادھیکار پارٹی (جے اے پی) کے صدر پپو یادو، دلت قائد چندر شیکھر آزاد، راؤنڈ آزاد سماج پارٹی، ایس ڈی پی آئی اور بی ایم پی کے اس محاذ نے اپنے دروازے کانگریس سمیت دیگر پارٹیوں کے لیے کھلے رکھے ہیں۔
سن 2015 کے اسمبلی انتخابات میں لالو پرساد کی آر جے ڈی اور کانگریس نے موجودہ سیاسی حریف وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جے ڈی یو کے ساتھ مل کر انتخاب لڑا تھا۔ جس بی جے پی نے گزشتہ انتخابات میں نتیش کمار کو برا بھلا کہا تھا، ان ’خراب ڈی این اے والے‘ نتیش کو لالو کے آر جے ڈی والے ’مہا گٹھ بندھن‘ سے توڑ کر اپنی مخلوط حکومت بنالی تھی۔ اس اتحاد کے باوجود مرکزی پالیسی کے خلاف اسی نتیش حکومت نے این آر سی کے خلاف متفقہ قرارداد ودھان سبھا میں منظور کی تھی۔ تب ہی سے سیاسی گلیاروں میں قیاس لگایا جا رہا تھا کہ شاید شیو سینا اور اکالی دل کے نقشِ قدم پر چل کر نتیش بھی این ڈی اے سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ اب تک تو ایسا نہیں ہوا لیکن کیا فی الحال ایک اتحاد میں رہ کر انتخاب لڑنا مجبوری ہے اور نتائج کے بعد بی جے پی نتیش سے علیحدگی کی صورت پیدا کرنے کی کوئی چال چلی سکتی ہے؟ کیونکہ پی ٹی آئی بھاشا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے نائب وزیر اعلیٰ اور سینئر بی جے پی لیڈر سشیل مودی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ بہار میں کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اکیلے اپنے بوتے پر حکومت بنا سکتا ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ بی جے پی کو ایک تو اپنی کامیابی کا یقین نہیں ہے، دوسرے اس کی اقتدار میں باقی رہنے کی خواہش، نتائج کے بعد پارٹی کو کسی اور رخ میں بھی لے جا سکتی ہے! مرکز و ریاست میں اتحاد کے باوجود رام ولاس پاسوان کے بیٹے نے لگاتار نتیش کمار پر زبانی حملے جاری رکھے ہیں۔
انتخابی جمہوریت کا ایک اہم پہلو سیاست میں جرائم پیشہ افراد کا نفوذ ہے۔ سنگین مجرمانہ پس منظر رکھنے والے امیدواروں کو ٹکٹ دیا جاتا ہے جس سے رائے دہندگان کے ایک ’بنیادی حق‘ کی خلاف ورزی ہوتی ہے کیوں کہ وہ غیر جانب داری و آزادی کے ساتھ اپنے ووٹ ڈالنے کے حق کو استعمال نہیں کر سکتے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ عدالت سیاسی جماعتوں کو حکم جاری کرے کہ وہ سنگین جرائم سے وابستہ لیڈروں کو ٹکٹ نہ دیں اور ایسے افراد کو انتخاب لڑنے ہی سے روکا جائے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے اپنے ستمبر 2018 کے ایک حکم نامے کی اسی سال فروری میں یاد دلائی تھی اور تمام ہی سیاسی جماعتوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے امیدواروں کی مجرمانہ کیسوں کی تفصیلات ویب سائٹ پر جاری کر دیں بلکہ، یہ بھی بتائیں کہ انہوں نے جرائم کے معاملوں میں مقدموں کا سامنا کرنے والے افراد کو آخر ٹکٹ دیا کیوں؟ نیز ایسے افراد کی مکمل تفصیلات کو سماجی رابطے کی ویب سائٹوں، ٹویٹر و فیس بُک پر جاری کر کے عوام کے علم میں لے آئیں۔ ایسی اطلاعات کو مقامی و قومی اخبارات میں شایع کروایا جائے اور وہی اطلاع امیدواری کا اعلان ہونے کے تین دنوں کے اندر انتخابی کمیشن کو بھی دی جائے۔ اتنا ہی نہیں امیدوار طے کرتے وقت اس کے ’’منتخب ہونے‘‘ کا معیار نہ رکھا جائے بلکہ اس کے ’میرٹ‘ کو ملحوظ رکھا جائے۔ انتخابی کمیشن ان ہدایات پر عمل آوری کیسے کرواتا ہے، دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
ریاست میں اغوا، ڈکیتی، بد عنوانی و جبری وصولی سے لے کر ’بال سُدھار گریہہ‘ میں طالبات کے جنسی استحصال، بگڑتی نظم و قانون کی صورتحال اور مزدوروں، سیلاب متاثرین کو ان کے حال پر بے سہارا چھوڑنے سے عوام میں ناراضگی بتائی جا رہی تھی لیکن کہنا مشکل ہے کہ رائے دہندوں کو پارٹیاں کب اور کس طرح ورغلا کر اصل ایجنڈے سے بہکا دیتی ہیں۔ اس کا ایک اہم حل یہی ہے کہ رائے دہندگان اور سیاسی قائدین کو قانونی طریقوں سے آگے نکل کر اخلاقی و انسانی بنیادوں پر ایک فلاحی ریاست کے قیام اور اس کی ہر دن نگرانی کے کام کی اہمیت سے عوام و خواص کو واقف کروایا جائے، ووٹروں کو ‘رائٹ ٹو ریکال’ مل جائے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ دس نومبر کو جب بہار کے چھ کروڑ ووٹرز اپنے من کی بات کو سن کر کسی ایک کا انتخاب جب کر چکے ہوں گے تو وہ ایک طرح سے لاک ڈاؤن کے دوران ریاست اور مرکز کی حکومتوں یعنی نتیش کمار اور نریندر مودی کی کارکردگی کا ٹیسٹ بھی ہوگا۔