کشمیر کورونا کے نرغے میں

وادی میں داخل ہونے والوں کا نہ ٹسٹ نہ قرنطینہ!

ش م احمد، کشمیر

 

کشمیریوں کی نظر میں انتظامیہ کی خیرخواہی مشکوک،احتیاطی تدابیر میں کوتاہی!
وادی کشمیر میں کورونا کا ہلاکت خیز سفر ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ قیامت خیز وبا پر قابو پانے کے لیے ما سوائے ضلع بانڈی پورہ، شمالی کشمیر پورے کشمیر میں لاک ڈاؤن کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے۔ وائرس کی قہرمانی کا ڈراپ سین کیا ہوگا، اس بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی البتہ آثارو قرائین سے محسوس ہوتا ہے کہ وادی میں مہلک وبا اپنے پیر جماتی رہے گی۔ جموں میں اس تعلق سے نسبتاً حالات قابو میں ہیں مگر یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ حالات کب کہاں کیا رُخ اختیار کریں۔ تادمِ تحریر کشمیر اور جموں خطوں میں کووڈ١٩ کے متاثرین کی کل تعداد پندرہ ہزار دو سو اٹھاون ہے جس میں سے چھ ہزار پانچ سو چالیس فعال ہے جب کہ علاج ومعالجہ کے بعد شفایاب ہونے والے مریضوں کی تعداد آٹھ ہزار پانچ سو چالیس ہے جبکہ مرنے والوں کی تعداد پونے تین سو ہے۔ وائرس سے شفا پا چکے مریضوں کی شرح حوصلہ افزاء ہے لیکن خدشہ یہ ہے کہ اگر کورونا پھیلنے کی موجودہ رفتار اگر نہیں ٹوٹتی ہے تو یہ سطور آپ تک پہنچتے پہنچتے وادی اور جموں میں کووڈ١٩ اپنے بال وپر مزید پھیلا چکا ہوگا۔
کشمیر میں چار ماہ قبل اس عالمی وبا نے اپنی آمد کا بگل بجا دیا تھا، اول اول لوگوں نے اس جانب زیادہ دھیان نہیں دیا لیکن جوں ہی سری نگر کی پاش کالونی حیدر پورہ کے ایک تبلیغی بزرگ اور شہر خاص سری نگر کی ایک خاتون پازیٹو قرار پاکر اللہ کو پیارے ہوگئے تو لوگوں میں سراسیمگی پھیلی۔ چلتے چلتے ۲۵ مارچ کو لاک ڈاؤن کا سخت گیر نفاذ ہوا۔ اس سے یقیناً لوگ گھروں میں محصور ہو گئے پھر بھی مہلک وبا کے پھیلاؤ کا سفر مدھم نہ پڑا۔ لاک ڈاؤن میں کئی بار توسیع کی گئی مگر حالات میں کوئی سدھار نہ آیا۔ حتیٰ کہ عیدا لفطر کو مساجد اور عیدگاہوں میں نمازِ عید پر پابندی رہی تب بھی کورونا کا تعاقب جاری رہا ۔ آگے’’جان بھی جہان بھی‘‘ کی منطق کے ساتھ دفاتر، دوکانیں، عبادت گاہیں، پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ کھل جانے کے علاوہ بستیوں اور بازاروں میں بظاہر زندگی کی چہل پہل بحال ہوئی، تجارتی مراکز پر بھیڑ بھاڑ کے لیے ایک نظام الاوقات روبہ عمل لایا گیا، تاہم پانڈیمک کی پکڑ ڈھیلی نہ پڑ سکی بلکہ سری نگر میں خاص کر متاثر ہ لوگوں کے ریکارڈ معاملات مسلسل سامنے آتے رہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ کچھ دن قبل وادی میں لاک ڈاؤن دوبارہ نا فذ کیا گیا۔ اسکول، کالجز، یونیورسٹیاں اور مدرسے مقفل ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ کم وبیش بندہے، مسجدیں کھلی ہیں مگر بہت کم نمازی اُن کا رُخ کرتے ہیں کیونکہ خوف کا پہرہ لوگوں کے دل و دماغ میں بیٹھا ہو اہے۔ مزید براں کشمیری عوام کی نگاہ میں اربابِ اقتدار اس قدر بے اعتبار اور مشکوک الحال ہیں کہ وائرس کے بارے میں وہ کتنا بھی کھرا سچ بولیں، لوگ ان پر ذرہ برابر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس عوامی سوچ کے پس پردہ ٹھوس وجوہات کارفرما ہیں۔ آج کی تاریخ میں کووڈ١٩ کے تعلق سے ہر چیز کو لوگ ’’کشمیر کے خلاف سازش‘‘ کہہ کر طبی ہدایات تک کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ شک و شبے کی اس نفسیات کو یہ معمہ تقویت پہنچاتا ہے کہ ایک ایسے وقت جب تجارتی مراکز، کاروباری ادارے، دوکانیں اور تعمیراتی سرگرمیاں ٹھپ ہیں غیر ریاستی مزدوروں کی فوج درفوج وادی میں کیوں داخل ہو رہی ہے۔ لوگ شک کرتے ہیں کہ ہو نہ ہو غیر ریاستی شہریوں کی وادی میں ’’پُر اسرار‘‘ آمد کا مقصد یہاں کے آبادیاتی تشخص کو درہم برہم کر نا ہے۔ واللہ اعلم۔ بہر صورت غیر ریاستی مزدوروں کی وادی میں آمد ہو اور ان کا کورونا ٹیسٹ بھی نہ ہو تو اس کی کیا توجیہہ کی جائے؟ جب کہ لداخ کی حدود میں کسی بھی فرد بشر کا داخلہ اس کا کورونا ٹیسٹ نگیٹو آنے سے مشروط ہے۔ وادی کشمیر میں کووڈ١٩ مریضوں کی تعداد میں اضافہ در اضافہ ہونے سے اب اسپتالوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں بچی ہے۔ اسپتالوں میں ونٹیلیٹر پہلے ہی مطلوبہ تعداد دستیاب نہ تھے، اب بیڈ بھی دسیتاب نہیں ہیں۔ اللہ نہ کرے اگر یہی حال رہا تو کشمیر، اٹلی اور اسپین بن جائے گا کہ جہاں بے شمار مریض ہسپتالوں میں جگہ نہ پاکر سڑکوں پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے بعض سرکردہ ڈاکٹر صاحبان مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا کی وساطت سے لوگوں کو برابر فہمائشیں کر رہے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ محتاط رہیں۔ اس سلسلے کی ایک کڑی ڈاکٹرز ایسوسی ایشن آف کشمیر کے ایثار پیشہ صدر ڈاکٹر نثار الحسن صاحب کا وہ وائرل ویڈیوز بھی ہے جس میں وہ عوام وخواص کو کرونا سے بچنے کے حوالے سے تمام ضروری معلومات پہنچا رہے ہیں اور دردِ دل کے ساتھ لوگوں کو خود احتیاط بر تنے کی اپیلیں کرتے ہیں ۔ بلا شبہ حساس ذہن کے لوگ کووڈ ۱۹ سے متعلق بچاؤ تدابیر پر عمل پیرا ہو کر کے نجی زندگی سے لے کر شادی غمی، مذہبی اور سماجی تقاریب میں سوشل ڈسٹنسنگ اور دیگر احتیاطیں کرر ہے ہیں مگر عام لوگ طبی ہدایات سے غافل ہونا ’توکل علی اللہ‘ کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ اُدھر سرکای ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والوں پر جرمانے عائد کیے جا رہے ہیں مگر کورونا کشمیر میں سرعت کے ساتھ اپنے پنجے گاڑتا جا رہا ہے۔ اس کے زیر اثر عوام میں نفسیاتی ہلچل کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ دنوں سری نگر کے کووڈ اسپتال میں دو مختلف مواقع پر اپنی زندگیاں داؤ پر لگا نے والے ڈاکٹروں پر تیمار دار حملہ زن ہوئے۔ اس کے ردعمل میں ریزیڈینٹ ڈاکٹروں اور نیم طبی عملہ نے ہڑتالیں کر کے اپنا غم وغصہ ظاہر کیا جسے انتظامیہ نے اپنی مداخلت کے ذریعے ٹھنڈا کیا تاہم مسئلہ بدستور باقی ہے۔ اُدھر کووڈ١٩ کے اس مشکل دور میں بھی انتظامیہ نے دو بڑے عجیب فیصلے لیے۔ ایک یہ کہ مغل باغات سیر سپاٹے کے لیے کھلے چھوڑ دیے گئے، دوم یہ کہ سالانہ امر ناتھ یاترا کی اجازت دے دی گئی۔ اس فیصلے کو اب پھر ۲۱جولائی کو منسوخ کیا گیا۔ مغل باغات کو کھلا چھوڑ دینا کشمیریوں کے لیے ایسا ہی ثابت ہوا جیسے دلی میں لاک ڈاؤن کے باوجود شراب فروشی کی اجازت دی گئی۔ وادی میں خطرناک وائرس سے پیدا شدہ زمینی صورت حال کے پیچ در پیچ کئی تکلیف دہ پہلو ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک جانب کووڈ١٩ کی قہرمانیاں رُکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں دوسری جانب حاکمانِ وقت اور اربابِ سیاست اس ہنگامی دور میں بھی کشمیریوں کے تئیں دکھاوے کی مسیحائی اور ہمدردی جتانے سے بھی گریزاں ہیں۔ یہ لوگ اپنے کشمیر ایجنڈے کی تعمیل میں ایک ثانیے کی تاخیر کے بھی روادار نہیں۔ وقت کا تقاضاہے کہ عوام اور حکام اپنی اپنی سطح پر تمام تر توجہات، آدم خور وبا پر مرکوز رکھیں مگر اس کی اُلٹی سمت میں کشمیر کی انتظامیہ ڈومسائل قواعد لاگو کرنے یا اراضی و تعمیراتی ضوابط کی خاکہ بندی میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ اس کے بجائے اگر ایڈمنسٹریشن کورونا کا پھیلاؤ روکنے میں ترجیحی طور زیادہ انہماک دکھاتی تو اس سے ممکنہ طور یہ نتیجہ نکلتا کہ گیارہ ماہ سے مسلسل نفسیاتی دھکوں سے دوچار کشمیری عوام محسوس کر تے کہ کوئی تو ہے جو سیاست سے بالاتر ہو کر ان کی بقائے حیات میں سنجیدہ اور مخلص ہے۔
پانڈیمک کی حوصلہ شکن فضا میں کسی گوشے سے دست مسیحائی یا ہمدردی تو دور کی بات آج کی تاریخ میں کشمیری خود کو بے یار و مددگار پاتے ہیں۔ روزمرہ مسائل کا گھنا جنگل اُن کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے اور نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مثل انہیں ان دنوں نہ کہیں سے کسی موہوم اُمید کی کرن نظر آرہی ہے اور نہ یقین کی کوئی ہلکی سی پرچھائی دِکھائی دے رہی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اگست ٢٠١٩ سے اب تک کشمیر کی پوری معیشت جان کنی کی حالت میں ہے، سیاحت کا بیڑہ غرقآب ہوچکا ہے، شہرۂ آفاق دست کاریاں اور گھریلو صنعتیں روبہ زوال ہیں، زراعت اورمیوہ صنعت اربوں روپے کے خسارے سے دوچار ہیں، تعلیم وتدریس کا شعبہ حالتِ نزع میں ہے، روز روز کی جھڑپیں، مسلح تصادم، ہلاکتیں اور آتش زنیاں لوگوں کا آرام و چین مسلسل چھین رہی ہیں۔ اس نازک صورت حال میں اب وبا کے باعث کشمیر میں زندگی کی شمعیں تواتر کے ساتھ بجھ رہی ہیں، یوں لگتا ہے جیسے چاروں اطراف تیزی سے اندھیرا چھا رہا ہے۔
یہ جملے پڑھ کر قارئینِ کرام کے ذہن میں لا محالہ یہ سوال کلبلائے گا کہ اگر وادی کی حقیقتِ حال یہ ہے تو وہ کون سا معجزہ ہے کہ اہلِ کشمیر ان جان لیوا حالات میں بھی جی رہے ہیں؟ لوگ گزر اوقات کیسے کرتے ہیں؟ زندگی کا قافلہ درماندہ ہونے کے سبب کیا کشمیریوں کی سانسیں کسی آسمانی من وسلویٰ کی رہینِ منت ہیں؟ ان سوالوں کا جواب دینا مشکل بھی ہے اور ناممکن بھی کیونکہ گزشتہ تیس سال سے ’جنت مینو نظر‘ میں زندگی کا پہیہ عملی طور جام ہونے کے باوجود اہلِ کشمیر میں زندگی کی گہما گہمی جوں کی توں برقرار ہے۔ اس ٹھوس حقیقت کی وجوہات جاننے کی آج تک جتنی بھی محققانہ اور صحافیانہ کا وشیں ہوئیں وہ سب یا تو ناتمام رہیں یا تحیر کے پردے میں اَنگشت بدنداں ہوئیں۔ عام زبان میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے۔ کشمیریوں پر یہ کہاوت من وعن صادق آتی ہے۔ اسی ایک معاملے کو لیجئے، بھارت میں جب ۲۵ مارچ کو رات آٹھ بجے لاک ڈاؤن فرسٹ کا الل ٹپ اعلان ہوا تو ملک بھر میں غریب لوگ پانچ سات دن کے اندر اندر ہی بھوکوں مرنے لگے، ان کی زندگیاں سختیوں کے بھنور میں پھنس گئیں ذہنی انتشار اور مالی پریشانیوں کے سامنے پسپا ہوکر غیر مقامی غریب مزدروں کے تو جان کے لالے ہی پڑگئے ۔انہوں نے گھر واپسی کے لیے پیدل مارچ کر کے دنیا کو خون کے آنسو رُلا دیا اور پھر تاریخِ انسانی نے بہ نگاہِ حسرت جو جو وقوع پزیر ہوتے ہوئے دیکھا، وہ سب انسانی ضمیر پر ایک سیاہ دھبے کی طرح ثبت ہے۔ اس کے برعکس کشمیر آج ہی نہیں بلکہ گزشتہ سال دفعہ ۳۷۰ کالعدم قرار دیے جانے سے پہلے اور مابعد اپنی نوعیت کے عجیب وغریب تالہ بندی سے نبرد آزما ہے۔ ۲۰۱۹ میں ماہ اگست سے دسمبر کے اواخر تک بغیر کسی وقفہ کے وادی عملاً ایک شہر خموشاں بنی رہی، نظام ہست وبود منجمد رہا، طویل کرفیو اور ہڑتال کا دور دورہ رہا، مواصلاتی نظام ٹھپ رہا، تعلیم وتعلم نابود رہی مگر کشمیریوں نے اُن قیامتوں میں بھی جی کر دکھایا کہ وہ ظاہری سہاروں کے بغیر بھی جینے کے فن سے آگاہ ہیں۔ یہ محض پچھلے سال کی ہی کہانی نہیں ہے بلکہ گزشتہ تیس برس سے کشمیری قوم نے اَن گنت کریک ڈاؤنوں کے ہمالیائی درد وکرب کو اپنا سینہ پھلاتے ہوئے جھیلا ہے۔ وادی میں وائرس کا مقابلہ کرنے میں انتظامیہ نے پہلے پہل اچھی کار کردگی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ لوگ انتظامی مشنری کے کل پُرزوں کی تعریفیں کررہے تھے مگر اب جبکہ وبا عروج پر ہے اور نظم و نسق کے ذمہ داروں کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنے کا وقت آیا ہے یہ لوگ عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہے ہیں۔ ظاہراً متعلقہ ادارے اپنی کارروائیوں اور سرگرمیوں سے فعالیت کا بخوبی تاثر دے ر ہے ہیں مگر متاثرہ لوگ اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنا پرشکوہ کناں ہیں کہ انتظامیہ محض زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہی ہے۔ جب کہ شفاخانوں اور عارضی قرنطینہ مراکز کی صورت حال عملاً بد سے بد تر ہورہی ہے۔ علاوہ ازیں کشمیری مسلمان ان دنوں عیدا لاضحٰی کی تقریب سعید اور فریضہ قربانی کے بارے میں بڑے متفکر ہیں۔ کئی مدارس نے اجتماعی قربانی کا اس سال بھی اہتمام کر رکھا ہے۔ اس کے بین بین عوامی سطح پر فعال اور سر گرم رفاہی تنظیمیں اور خیراتی انجمنیں کثیر الجہت مشکلات اور دشواریوں سے دوچار ہونے کے باوجود کماحقہ محتاجوں اور مساکین کی جنس و نقد کی امداد کر کے انسانیت کی جوت جگا رہے ہیں ؎
آدمیاں گم شدند ملکِ خدا خر گرفت
شامتِ اعمال ما صورت ’’وائرس‘‘ گرفت
(ش م احمد وادی کشمیر کے آزاد صحافی ہیں)

بھارت میں جب ۲۵ مارچ کو رات آٹھ بجے لاک ڈاؤن فرسٹ کا الل ٹپ اعلان ہوا تو ملک بھر میں غریب لوگ پانچ سات دن کے اندر اندر ہی بھوکوں مرنے لگے، ان کی زندگیاں سختیوں کے بھنور میں پھنس گئیں ذہنی انتشار اور مالی پریشانیوں کے سامنے پسپا ہوکر غیر مقامی غریب مزدروں کے تو جان کے لالے ہی پڑگئے ۔انہوں نے گھر واپسی کے لیے پیدل مارچ کر کے دنیا کو خون کے آنسو رُلا دیا اور پھر تاریخِ انسانی نے بہ نگاہِ حسرت جو جو وقوع پزیر ہوتے ہوئے دیکھا، وہ سب انسانی ضمیر پر ایک سیاہ دھبے کی طرح ثبت ہے۔ اس کے برعکس کشمیر آج ہی نہیں بلکہ گزشتہ سال دفعہ ۳۷۰ کالعدم قرار دیے جانے سے پہلے اور مابعد اپنی نوعیت کے عجیب وغریب تالہ بندی سے نبرد آزما ہے۔