کس بر ہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے؟

حکومت ملک دشمن نہ سہی ملک دوست بھی نہیں

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

 

۲۰۲٠ آخری سانس لے رہا ہے۔ اس دوران مرکزی حکومت کی کارکردگی پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یہ سرکار ملک دشمن نہیں ہے تو ملک دوست بھی نہیں ہے۔ اس کو عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کورونا کی وبا کے تعلق سے حکومت نے بے شمار فیصلے کیے، پابندیاں لگائیں بلکہ ملک میں تالہ بندی تک کا اعلان کردیا لیکن اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا بالکل بھی اندازہ نہیں کیا۔ خیر مودی سرکار سے یہ توقع بھی نہیں تھی کہ وہ پیش آنے والے مسائل کا ادراک کرسکے گی۔ لیکن ان خطرناک اثرات کے منظر عام پر آجانے کے بعد جس بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا وہ توقع کے خلاف تھا۔ ایک خطرناک وبا کا حکمت کے ساتھ مردانہ وار مقابلہ کرنے کے بجائے تالی، تھالی اور دیا بتی جیسی نوٹنکیوں کا سہارا لیا گیا۔ عوام کے مسائل کا عملی حل پیش کرنے کے بجائے ان کو بھاشن اور پروچن سے بہلانے پھسلانے کی احمقانہ کوشش کی گئی۔
لاکھوں مہاجر مزدوروں نے سرکاری احکامات کو قدموں تلے روند کر اپنے گھروں کی جانب کوچ کیا۔ یہ ایک معنیٰ میں حکومت کے اوپر سے عدم اعتماد کا سرِ عام اعلان تھا لیکن مرکزی حکومت نے شتر مرغ کی مانند اپنا سر ریت میں چھپا لیا۔ عدالت عظمیٰ میں جا کر یہ جھوٹ کہا کہ کوئی مزدور سڑک پر نہیں ہے اور عدالت نے بھی آنکھیں موند کر اس پر یقین کر لیا۔ اس سال رونما ہونے والا یہ محیر العقول واقعہ بھلایا نہیں جا سکتا۔ غریب مزدور جب مرتے پڑتے اپنے گھروں کو پہنچ گئے تب عدالت کو ہوش آیا اور اس نے حکومت کو اس وقت احکامات دیے جب ان کی کوئی افادیت باقی نہیں رہی۔ یہ قدرتی نہیں بلکہ سرکاری آفت تھی جس میں مقننہ عدلیہ کو گمراہ کر رہی تھی اور وہ بصد شوق ہو رہا تھا۔ انتظامیہ ایک طرف مظلوم مزدوروں پر سرحدیں بند کر کے ڈنڈے برسا رہی تھی تو دوسری طرف جمہوریت کے چوتھے ستون پر سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے خیالی تبلیغی جہاد کا فتنہ پھیلانے میں مصروف تھی۔ کورونا وائرس نے ہندوستانی جمہوری نظام سیاست کو پوری طرح برہنہ کر دیا۔
کورونا وائرس نے ساری دنیا میں تباہی مچائی۔ اس آزمائش کی گھڑی میں مختلف حکومتوں نے اپنے عوام کے مسائل حل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی مثلاً امریکہ نے ایک ایسے غیر معمولی اقتصادی پیکیج کا اعلان کیا جس کے تحت ہر شہری کو ماہانہ ۸۵ ہزار روپیوں کی خطیر رقم دی گئی۔ برازیل اور یوروپ کے کئی ممالک میں اس طرح کی امداد دی گئی یہاں تک کہ پاکستان میں غریب لوگوں عوام کی براہِ راست مدد کا اہتمام کیا گیا لیکن اپنے ملک میں وزیر اعظم کے مطابق ۶۰ فیصد خاندانوں کو ماہانہ دس کلو چاول اور پانچ کلو چنا دینے کا اعلان کیا گیا۔ اس مدد سے کتنے لوگوں نے استفادہ کیا یہ تحقیق کا موضوع ہے۔ مرکزی حکومت نے کورونا پیکیج کے نام پر اپنے بجٹ کے منصوبوں کو اس میں شامل کرنے کا یہ تماشہ کیا۔ اس کے بیشتر فائدے بلا واسطہ تھے جس سے عوام براہِ راست استفادہ نہیں کر سکے اس لیے قومی سطح پر پیش کیا جانے والا کورونا پیکیج ایک سراب ثابت ہوا جس کے ذریعہ لوگوں کو پانی کے بجائے پیاس ملی۔
مرکزی حکومت نے بڑی چالاکی سے جی ایس ٹی کی معرفت صوبائی حکومتوں کا ٹیکس اپنے خزانے میں جمع کر کے خرچ کر دیا۔ اس کے بعد جب ریاستی حکومتوں نے اس کا مطالبہ تو بڑی ڈھٹائی سے انہیں قرض لے کر کام چلانے کی تلقین فرما دی۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ عوامی فلاح و بہبود کے زیادہ تر کام صوبائی حکومتوں کی معرفت انجام پاتے ہیں۔ ان کو اس طرح ٹرخا دینا دراصل عام لوگوں کے مفاد پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ ریاستی حکومتیں مرکز سے خصوصی مدد کی توقع کر رہی تھیں انہیں ان کے اصل حق سے بھی محروم کر دینا بڑے کمال درجے کی سفاکی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس حکومت کے پاس صوبائی حکومتوں کا حصہ ادا کرنے کے لیے روپیہ نہیں تھا اس کے خزانے میں پارلیمنٹ کی نئی بلڈنگ بنانے کے لیے دو ہزار کروڑ روپے کہاں سے آ گئے؟
اس سال یہ دلچسپ صورت حال سامنے آئی کہ کورونا وائرس نے عوام کی ایک بڑی اکثریت کو غربت و افلاس کی تاریک وادی میں دھکیل دیا ہے۔ لاکھوں کاروبار ٹھپ اور کروڑوں لوگ بے روزگار ہو گئے۔ اس دوران بے روزگاری شرح ۳۶ فیصد تک پہنچ گئی تھی لیکن دوسری جانب ملک کے مٹھی بھر سرمایہ داروں کے اثاثہ جات میں زبردست اضافہ بھی دیکھنے کو ملا۔ ان میں سرِ فہرست مودی جی کے قریبی دوست گوتم اڈانی ہیں جن کو وہ ایک زمانے میں اپنے کالر سے لٹکائے رکھتے تھے۔ اس سال کی ابتدا میں ان کا کل اثاثہ 11.4 بلین ڈالر تھا جو 3 گنا بڑھ کر اب 32.5 بلین ڈالر ہوگیا ہے۔ یہ تین سو فیصد کا اضافہ کوئی معمولی بات نہیں لیکن مودی ہے تو سب ممکن ہے۔ اس غیر معمولی 21.2 بلین ڈالر کے اضافے میں سب سے بڑا حصہ اڈانی کی کمپنی اڈانی گرین لمیٹیڈ کا ہے۔ اس کی آمدنی میں ۶ بلین ڈالر کے آرڈر سے ۶ گنا کا اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ کمپنی شمسی توانائی کے پینل بناتی ہے۔ اس لیے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم اپنی ہر تقریر میں بار بار شمسی توانائی کا ذکر کیوں کرتے ہیں؟ سورج کی تمازت میں عام لوگ جھلستے ہیں مگر اس کی ملائی کوئی اور ہی کھاتا ہے۔
اس سال اڈانی نے اضافہ کے معاملے میں تو امبانی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن پھر بھی مکیش امبانی ہی ایشیا کے امیر ترین آدمی ہیں۔ ان کے اثاثے میں اس سال 17.1بلین ڈالر کا اضافہ ہوا اور اب ان کا کل اثاثہ 75.7بلین ڈالر ہو گیا ہے۔ ویسے اس تنگی کے زمانے میں بھی 22.6فیصد کا اضافہ بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس سال کے آخر میں مودی اور امبانی کے لیے ایک غم کی خبر اور کسانوں کے لیے خوش خبری یہ آئی ہے کہ مکیش امبانی پچھلے سال تک دنیا بھر کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں چوتھے مقام پر تھے لیکن اس سال وہ ٹاپ ٹین سے باہر ہو کر اب گیارہویں مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ ویسے جس طرح امبانی کی مخالفت اور بائیکاٹ ہو رہا ہے اس کے مد نظر آئندہ سال کیسا ہوگا اس کا اندازہ مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح یہ عجیب و غریب صورت حال بن گئی ہے کہ جہاں سرکاری خزانہ خالی ہو رہا ہے وہیں برسرِ اقتدار پارٹی کی تجوری اُبلی پڑ رہی ہے۔ عوام غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں اور سرکار کے چہیتے سرمایہ دار امیر سے امیر ترین ہوتے جا رہے ہیں۔
اس تناظر میں آخرِ سال مختلف دانشور اپنے اپنے انداز میں موجودہ صورت حال پر تبصرے کر رہے ہیں۔ ایسے میں شیوسینا کے رکن پارلیمان سنجے راوت نے اپنے ہفتہ وار کالم روک ٹھوک میں سب سے تیکھا تبصرہ کیا ہے۔ راوت دراصل پارٹی کے ترجمان روزنامہ سامنا کے مدیر ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ سیاسی مفاد کی خاطر ہم عوام کا نقصان کر رہے ہیں۔ اس بات کا احساس اگر مرکزی اقتدار نے نہیں کیا تو جس طرح روس (سوویت یونین) کے صوبے ٹوٹ کر الگ ہو گئے اسی طرح اپنے ملک کے اندر ہونے میں وقت نہیں لگے گا۔ یہ کوئی معمولی انتباہ نہیں ہے۔ سنجے راوت کے بجائے کوئی مسلمان ایسی بات کہتا تو اسے شرجیل امام کی طرح پاکستانی ایجنٹ اور اگر کوئی سکھ کہتا تو اس کو خالصتانی کے لقب سے نواز دیا جاتا۔ بائیں بازو کے دانشوروں کے لیے اربن نکسل کی اصطلاح گھڑ کر انہیں چین نواز اور ملک دشمن قرار دیا جاتا تاکہ عوام کو دعویٰ کی دلیل سننے سے روکا جا سکے لیکن سنجے راوت کے ساتھ یہ حربہ کام نہیں آسکتا کیونکہ وہ بھی ایک ہندتوا وادی دانشور ہیں۔ شیوسینا برسوں تک بی جے پی کی حلیف رہی ہے اس لیے انہیں ملک دشمن قرار دینا نا ممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے۔ ویسے ای ڈی کو ان کی بیگم کے پیچھے لگا دیا گیا ہے اور انتقاماً ہراساں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سنجے راوت کے اس جملے کا سیاق و سباق بی جے پی رہنما وجئے ورگیا کا ایک اہم انکشاف ہے۔ اس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ مدھیہ پردیش کی کمل ناتھ سرکار کو گرانے میں وزیر اعظم نے خاص محنت کی۔ اس پر سنجے راوت سوال کرتے ہیں کہ صوبائی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے میں اگر وزیر اعظم خصوصی دلچسپی لینے لگیں تو ملک کیسے چلے گا؟ آگے وہ لکھتے ہیں وزیر اعظم پورے ملک کے ہیں اور ملک ایک وفاقی نظام پر قائم ہے۔ اس نظریہ کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ جن صوبوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے وہ بھی اسی ملک کا حصہ ہیں۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کو توڑ کر بی جے پی نے حکومت سازی کی۔ بہار میں تیجسوی یادو نامی نوجوان نے چیلنج کھڑا کر دیا۔ کشمیر کی وادی میں عدم استحکام قائم ہے۔ لداخ میں چین گھسا ہوا ہے۔ پنجاب کے کسانوں پر جبرو استبداد جاری ہے۔ کنگنا رناوت اور ارنب کو بچانے کی خاطر مرکزی حکومت میدان میں آگئی ہے۔ ممبئی میٹرو کا کام سیاسی فائدے کے لیے روک دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں سنجے راوت کا اندیشہ اس بات کا احساس اگر مرکزی اقتدار نے نہیں کیا تو جس طرح روس (سوویت یونین) کے صوبے ٹوٹ کر الگ ہو گئے اسی طرح اپنے ملک کے اندر ہونے میں وقت نہیں لگے گا ‘ درست معلوم ہوتا ہے۔
سنجے راوت کا اندیشہ بظاہر نا ممکن لگتا ہے لیکن دو ماہ پہلے تک کسانوں کے ذریعہ دارالحکومت دلی کا محاصرہ بھی غیر ممکن لگتا تھا۔ اب اس تحریک اثرات پھیل رہے ہیں۔ ہریانہ کے نائب وزیر اعلی دشینت چوٹالہ نے یہ اعلان تو کیا کہ اگر وہ مرکزی حکومت کو کسانوں کے مطالبات قبول کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو استعفیٰ دے دیں لیکن پھر یہ کہہ کر اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی کہ ریاست کی بی جے پی-جے جے پی اتحادی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ اس کے بعد ان پر نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے کر کسانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کا دباؤ بڑھنے لگا۔ کسانوں نے انبالہ میں وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کے قافلے کو سیاہ پرچم دکھائے اور نعرے لگائے تو ۱۳ کسان رہنماؤں کے خلاف قتل کی کوشش اور فساد کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی لیکن کسان اس سے نہیں ڈرے۔ ان لوگوں نے دشینت چوٹالہ کے لیے تیار کردہ ہیلی پیڈ کو کھود کر اپنا غصہ ظاہر کیا۔ یہ ہیلی پیڈ اس میں بنایا گیا تھا جہاں سے ایک سال قبل دشینت نے ۴۷ ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے بی جے پی کے بریندر سنگھ کی بیوی کو ریکارڈ ووٹوں کے فرق سے ہرایا تھا۔ اس کے باوجود کسانوں نے ہیلی پیڈ کھود کر ’دشینت چوٹالہ واپس جاؤ‘ کے نعرے لگائے۔ مخالفت کرنے والے کسانوں نے کہا کہ جب تک دشینت چوٹالہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی حمایت نہیں کریں گے اس وقت تک انہیں علاقے میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں جو بھی لیڈر آئے گا، اس کا استقبال اسی طرح کی مخالفت کے ساتھ ہوگا۔ ہریانہ کے کیتھل شہر میں بھی کسانوں کی مخالفت کے سبب برسرِ اقتدار جے جے پی کے رکن اسمبلی ایشور سنگھ کو ’سشاسن دیوس‘ کے موقع پر منعقدہ پروگرام چھوڑ کر پولیس کی حفاظت میں فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ کسان اگر اپنے ارکان اسمبلی کو حلقہ انتخاب میں داخل ہونے نہیں دیں گے تو وہی ہوگا جس کا اندیشہ سنجے راوت نے ظاہر کیا ہے۔
ہریانہ کے علاوہ پنجاب کے بھٹنڈا میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی جینتی پر منعقد ایک پروگرام میں اچانک کئی کسان گھس گئے اور انہوں نے وہاں رکھی ہوئی کرسیاں توڑ ڈالیں۔ اس دوران ناراض کسانوں نے مودی حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ پولیس نے پروگرام کے مد نظر جو بیریکیڈ لگا رکھے تھے، ان کو بھارتیہ کسان یونین (ایکتا اگراہاں) اور دیگر کسان تنظیموں نے توڑ دیا۔ اس موقع پر بھارتیہ کسان یونین کے لیڈر موتھو کوٹرا نے کہا کہ ’’کسان دہلی کی سرحدوں پر زبردست ٹھنڈ کے باوجود کھلے میں بیٹھے ہیں، اور بی جے پی یہاں (پنجاب میں) جشن منا رہی ہے۔ احتجاجاً ہم نے بھی انہیں تقریب منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ریاست کے بی جے پی لیڈروں کے خلاف ہمارا مظاہرہ گزشتہ تین مہینوں سے چل رہا ہے‘‘ اس طرح کے واقعات پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی رونما ہوئے جہاں بی جے پی والوں کو پولیس نے چھپا کر عقبی دروازے سے نکالا۔
بین الاقوامی سطح پر بھی وطن عزیز کے لیے یہ سال آزمائش سے پُر تھا۔ ایک طرف چینی وائرس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ت دوسری طرف چینی فوجی لداخ کی سرحد میں داخل ہو گئی۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے ساری دنیا کو فکر مند کر دیا لیکن ہمارے وزیر اعظم اعلان کر رہے تھے کہ کوئی چینی ہماری سرحد میں نہیں داخل ہوا اور نہ اس نے ہماری کسی چوکی پر قبضہ کیا۔ ایسے میں ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر چینی افسران سے مذاکرات کس بات پر ہو رہے تھے؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ سامنے آیا کہ آخر ہمارے فوجی کس طرح مارے گئے۔ وزیر اعظم کی منطق کے مطابق اگر چینی نہیں آئے تو کیا وہ خود چینی علاقہ میں گئے اور چینیوں نے انہیں مار ڈالا؟ مودی جی نے اپنی ہٹ دھرمی سے چینی موقف کی تصدیق کر دی کہ جہاں ہندوستانی فوجی تھے یہ ان کا علاقہ ہے اور اسی لیے انہوں ہندوستانی فوجیوں کو مار ڈالا۔
مودی جی کے اس دعویٰ پر اندھے بھکتوں کے سوا کسی نے یقین نہیں کیا اور بھکتوں کا تو یہ حال ہے کہ کل مودی جی کہہ دیں چین نام کا کوئی ملک موجود ہی نہیں ہے یا یوگی نے اس کا نام اکھنڈ بھارت رکھ دیا ہے تو وہ نندی بیل کی مانند سر ہلا دیں گے۔ مودی جی چینیوں کو کھدیڑ کر نکالنے کا جری فیصلہ تو نہیں کر سکے لیکن عوام کو بہلانے پھسلانے کے لیے چینی مصنوعات پر پابندی لگانے کا لالی پاپ چٹواتے رہے۔ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا کیونکہ چینی سرمایہ کاری رک گئی اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اس کی ایک مثال پونے کے قریب جنرل موٹرس کا پلانٹ ہے جس میں چین کی گریٹ وال موٹرس ۵ ہزار کروڑ روپیوں کا سرمایہ لگانے والی تھی مگر مرکزی حکومت کے فیصلے کی وجہ سے وہ رک گئی اس طرح 1800لوگوں کی ملازمت تو براہ راست چلی گئی لیکن جو لوگ بالواسطہ اس سے استفادہ کرتے تھے ان کا روزگار بھی چھن گیا۔
پچھلے سال کے اواخر میں مودی جی نے امریکا جا کر اب کی بار ٹرمپ سرکار کا نعرہ لگایا تھا۔ اس سال کی ابتدا میں ڈونلڈ ٹرمپ کو احمد آباد میں بلاکر مودی جی نے اتنی بار سلام کیا کہ وہ بھی بیزار ہوگئے ہوں گے۔ اس احسان مندی کے عوض ٹرمپ نے ملیریا کی دوائی کلوروکوین کی رسد پر حکومت ہند کو خطرناک نتائج کی دھمکی دے دی۔ مودی جی نے یہ اعلان کروایا کہ ہم اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد دوائی بھجوا دیں گے۔ ہندوستان میں چونکہ کورونا کا علاج اس سے نہیں ہو پا رہا تھا اس لیے امریکا بہادر کے لیے برآمدات کی پابندی اٹھا کر کلوروکوین روانہ کی گئی۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے عمران خان کو خوش کرنے کے لیے یہ اعلان کر دیا کہ جاپان میں مودی نے خود ان سے کشمیر کے مسئلہ میں ثالثی کرنے پیشکش کی تھی۔ اس کے بعد مودی سرکار پر تنقید ہونے لگی تو انہوں نے اعلان کروایا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ اس طرح یہ سال ٹرمپ کے ساتھ مودی کو بھی رسوا کر گیا۔ ویسے مودی جی اب جو بائیڈن سے پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ آئندہ سال یہ نیا معاشقہ کیا گل کھلاتا ہے بقول غالب ؎
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021