مسلم ممالک میں اتحاد کا فقدان اور مفادات کی جنگ

داخلی انتشار اور ظاہری حیثیت کی برقراری، اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی اہم وجہ

سید اکبر زاہد

 

دنیا میں مسلم ممالک کی تعداد کل 57 ہے لیکن ان میں اتحاد کا فقدان ہے۔ ان سب کے اپنے اپنے سیاسی مفادات ہیں اور وہ آپس میں انہی مقاصد کے تحت برسرِ پیکار ہیں۔ کئی ملکوں میں خانہ جنگی کی صورت ہے اور یہ سب انتشار کا شکار ہیں۔ مغربی اور یوروپی ممالک بھی اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے امن کے نام پر مسلم ممالک میں مداخلت کرتے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات ہے جس نے لیبیا اور یمن میں اپنی عسکری قوت کا استعمال کیا ہے اور اب چاہتا ہے کہ جدید ترین اسلحہ سے اپنے آپ کو لیس کرے جن میں F-35 اسٹیلتھ فائٹر اور EA-18G گرولر الیکٹرانک جنگی ہوائی جہاز بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں جس کو امریکا اور اسرائیل بھی خطرہ تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح بحرین بھی ہے جس پر 1969 تک یہ دعویٰ کرتا رہا کہ بحرین پر اس کا حق ہے۔ لہٰذا یہ ممالک چاہتے ہیں کہ انہیں اپنی عسکری قوت میں اضافہ کرنا چاہیے۔ جبکہ اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس اڈوانس ٹکنالوجی اور جدید ترین اسلحہ جات موجود ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا اسرائیل کے لیے بہت اہم ہے اور اسی لیے اس نے سب سے پہلے اپنی عسکری قوت کو مضبوط بنانے اور جدید ترین اسلحہ جات کی تیاری میں اپنی ساری صلاحیتوں کو صرف کیا۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ بالآخر عرب اس بات کو سمجھیں گے کہ ان کے پاس اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سوا دوسرا چارہ نہیں ہے۔ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں اپنے آپ کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ مصر اور اُردن کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات اچھے نہیں رہے اور اس صورت میں اسرائیل، عرب امارات کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا اپنے مفاد میں بہتر سمجھتا ہے۔ ایران کے خلاف ایک مضبوط محاذ قائم کرنا بھی اسرائیل کا ایک بڑا مقصد ہے کیونکہ متحدہ عرب امارات سے ایران کی سرحدیں قریب ہیں اور یہاں سے اسرائیل کو ایران پر ہوائی حملہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ خلیجی ممالک کے ساتھ دوستانہ اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد ایران کو ایک طرح سے محصور کرنا ہوگا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ سب کچھ اسرائیل کو مضبوط بنانے کے لیے لگتا ہے۔ مسلم ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے تاکہ مسلم ممالک آپس میں متحد نہ ہوسکیں اور اسرائیل کے خلاف کسی متحدہ جارحیت کو بھی روکا جاسکے۔ مسلم ممالک میں آج دو بڑی عسکری طاقتیں ہیں۔ ایک ایران اور دوسرا ترکی۔ اسرائیل ان دونوں ملکوں کو اپنی بقا کے لیے سب بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔
اسرائیل کا قیام 14 مئی 1948 کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے فلسطینی سرزمین کو دو حصوں میں بانٹ کر کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ نے فلسطینی سرزمین کے کل رقبہ کا 56 فی صد رقبہ عطا کردیا اور44 فی صد رقبہ فلسطینیوں کے لیے مختص کردیا۔ عرب دنیا نے اس تقسیم کو ماننے سے انکار کردیا تھا اور اس کے بعد مسلم دنیا اور مغربی ممالک کے درمیان تنازعات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جو کبھی سفارتی سطح پر ہوتا تھا تو کبھی حملوں کی شکل میں یا پھر کبھی پر تشدد احتجاجات و قتل عام کی صورت میں ہوتا تھا۔ تاہم 1979 میں مصر نے اسرائیل کے ساتھ ایک امن معاہدہ کیا جس کے بعد اردن نے بھی 1994 میں امن معاہدہ کیا۔ ان دونوں کے بعد اب سن 2020 میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ طور پر سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں اور یہ خلیج کی چھ عرب ریاستوں میں پہلا ملک ہے جس نے ایسا کیا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین معاہدے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کیے جائیں گے۔ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ اس معاہدے کا مقصد خطے میں ایران کے خلاف قوتوں کو مضبوط بنانا ہے۔ اس معاہدے کے اعلان کے فوراً بعد ایرانی صدر روحانی نے اپنی تقریر میں متحدہ عرب امارات کو وراننگ دی کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو مضبوط بنانے کی کوششوں کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمتِ عملی بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہوگا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ لیکن اس کے بعد بحرین اور سوڈان نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے معاہدہ کرلیا تھا اور اب مراقش نے بھی اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے تعلق سے یہ بات کہی جارہی تھی کہ اس کے اور اسرائیل کے درمیان خفیہ طور پر تعلقات برسوں سے تھے لیکن اسے حالیہ معاہدے تک بھی خفیہ رکھا گیا تھا۔ اخبارات میں یہ خبریں عام ہیں کہ امارات کی وزارتِ خارجہ سے اس تعلق سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی کسی اور عرب ملک سے اس تعلق سے بات چیت کی گئی۔ اس اعلان کا سب سے زیادہ صدمہ فلسطینیوں کو ہوا ہے جنہیں آج تک ایک الگ ریاست نہیں دی گئی۔
10 ڈسمبر 2020 کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر امریکا کے صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ایک تاریخی پیش رفت میں اسرائیل اور مراقش دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے پر راضی ہوگئے ہیں جو مشرق وسطیٰ کے امن کے لیے ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔ خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق امریکی صدر اور مراقش کے شاہ محمد ہشتم میں بذریعہ ٹیلی فون رابطہ ہوا جس میں اس معاہدے کو حتمی شکل دینے پر بات چیت کی گئی۔ وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے میں صدر ٹرمپ نے مغربی صحارا پر مراقش کے دعوے کو قبول کرلیا۔ اس علاقے میں مراقش اور الجیریا کی حمایت کردہ پولیساریو محاذ کے مابین دہائیوں سے جھڑپیں جاری تھیں۔ پولیساریو اس خطے کو ایک آزاد ریاست بنانا چاہتے ہیں لیکن امریکہ کے اس اعلان کے بعد یہ علاقہ اب مراقش کے ماتحت ہوگا۔ اس معاہدے کے بعد اسرائیلی پروازوں کے لیے مراقش اپنی فضائی حدود کھول دے گا۔ ان مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ معاہدے نے فلسطینیوں اور دیگر مسلم ممالک کو جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا سخت صدمہ سے دوچار کیا ہے۔
یمن حالانکہ ایک خود مختار ملک ہے لیکن اس پر سعودی عرب کی نظریں ہیں اور اس کے علاوہ امریکا، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے بھی اپنا شکنجہ کسنا شروع کردیا ہے۔ یمن کو توڑنے کی کوشش جاری ہے اور اس کے بعض حصوں کو امریکا اور اسرائیل کے حوالے کیا جارہا ہے۔ ان میں سے ایک یمن کا صوبہ المہرہ ہے جو مشرق کی جانب عمان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہاں سعودی عرب کی فوج موجود ہے اور اس نے عمان جانے والے سرحدی راستوں کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ یمنی قبیلے بیرونی فوجی قوتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کررہے ہیں۔ سعودی عرب یہ چاہتا ہے کہ اس علاقے سے اپنی تیل کی پائپ لائن مکران تک بڑھا سکے۔ لیکن مقامی قبائلی باشندوں نے اپنی مسلح جدوجہد سے اس منصوبے کو روک دیا ہے۔ اب امریکا نے بھی یہاں اپنی فوجی سرگرمیوں کا آغاز کررکھا ہے۔ امریکا اپنے اس اقدام سے سعودی عرب کی فوجی مدد اور پشت پناہی کررہا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ یمن کے صوبہ المہرہ میں اپنا فوجی اڈہ قائم کرے تاکہ اسے جزیرہ سقطری میں موجود فوجی اڈے سے جوڑا جائے۔ ان دونوں فوجی اڈوں کا مقصد صومالیہ میں تعنیات امریکی فوجیوں کو وہاں سے نکال کر یہاں منتقل کرسکے۔ اور اسی مقصد کے لیے امریکا سعودی عرب کی مدد کر رہا ہے۔
ایک اور مسلم ملک آذربائیجان ہے جس کا آرمینیا کے ساتھ تنازعہ چل رہا ہے۔ نگورنو کاراباخ میں زبردست جھڑپیں جاری رہیں۔ دراصل آذربائیجان کے ماتحت کئی علاقے آرمینیا کے ہیں جنہیں آرمینیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان اور ترکی نے آذربائیجان کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ یہ جھڑپیں اتنی شدید تھیں کو صورتحال پر غور کرنے کے لیے سلامتی کونسل کو بند کمرے کا اجلاس طلب کرنا پڑا جس میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور برطانوی وزیر اعظم نے کاراباخ میں جھڑپوں کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ ترکی صدر اور برطانیہ کے وزیر اعظم کے درمیان رابطہ میں دونوں رہنماؤں نے جنگ بندی پرگفتگو کی۔ تقریباً چھ ہفتوں کی جنگ کے بعد آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ تھا لیکن 13 ڈسمبر کو آذربائیجان ڈیفنس منسٹری نے بتایا کہ متنازعہ نگورنو کاراباخ علاقے میں چار آذربائیجانی سپاہی ہلاک ہوگئے۔ اسی دوران آرمینیا نے بھی بتایا کہ اس کے بھی چھ سپاہی زخمی ہوئے ہیں۔ اس جنگ بندی کو آذربائیجان کی فتح کہا جارہا ہے کیونکہ معاہدے کے مطابق آرمینیا تین علاقوں سے اپنی فوجیں واپس بلا لے گا، آذربائیجان کو ترکی کی طرف لے جانے والے ایک زمینی راستے پر مکمل اختیار ہوگا۔
ایک عام تصوریہ ہے کہ مسلم دنیا میں بدامنی اور خلفشار گزشتہ دو دہائیوں میں ہونے والے متعدد واقعات ہیں جبکہ اس بدامنی، خانہ جنگی اور خلفشار کی وجہ روس، برطانیہ اور فرانس ہیں جنہوں نے جرمنی کے خلاف اتحاد قائم کیا تھا۔روس، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ اس اتحاد میں اٹلی، رومانیہ، جاپان اور متحدہ امریکہ بھی شامل ہوگئے۔ جرمنی کا ساتھ دینے والوں میں آسٹریا، ہنگری، بلغاریہ اور سلطنتِ عثمانیہ شامل تھے۔ اس جنگ کا اختتام جرمنی اور اس کے اتحادیوں کی شکست سے ہوا تھا۔ یہ جنگ جو کہ صرف ایک شخص ’’آرچکڈ فرانز فرڈینڈ‘‘ اور اس کی بیوی صوفیہ کے قتل کا انتقام لینے سے شروع ہوئی تھی، 16 ملین لوگوں کی ہلاکت پر ختم ہوئی جن میں فوجی اور شہری شامل تھے۔ اسی جنگِ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کو حصہ لینے پر مجبور کرنے کے لیے روس، برطانیہ اور فرانس نے سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِ اقتدار جتنے بھی علاقے تھے وہاں انتشار پیدا کیا۔ انہوں نے سلطان عبدالحمید کے خلاف سازشوں کا ایک جال بچھایا اور مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کے لیے سلطنتِ عثمانیہ کو ایک ظالم حکومت کی حیثیت سے جھوٹی خبروں کے ذریعے عو ام کو بہکانا شروع کردیا۔ خود سلطان کے محل کے اندر سازشوں کو پروان چڑھایا گیا اور بالآخر عظیم عثمانی سلطنت کو مختلف چھوٹے چھوٹے ممالک میں بانٹ دیا گیا اور خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرکے آزادی کے نام پر ایک چھوٹا سا قطعہ ’’ترکی‘‘ اُن باغیوں کے حوالے کردیا گیا جنہوں نے خلافتِ عثمانیہ کی مخالفت کی تھی۔ موجودہ دور کا آرمینیا، عراق، شام، اردن، فلسطین، لبنان، قبرص، بلغاریہ، رومانیہ ،یونان، مکہ اور مصر وغیرہ سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھے۔ بحرِ اسود سے بحرِ روم تک اور بحر احمر میں سلطنتِ عثمانیہ کا تسلط تھا اور اس عظیم سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے برطانیہ، فرانس اور روس نے ایک خفیہ منصوبہ بنایا اور سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِ اثر مختلف ممالک کو ان تینوں ممالک نے آپس میں بانٹ لیا اور اس پر سب نے مل کر کارروائی شروع کردی۔ یہ معاہدہ 16 مئی 1916 کو تینوں ممالک کے درمیان طے پایا۔ اس معاہدے کے مطابق روس کو بحرِ اسود سے موصل تک ساٹھ مربع میل دینا قرار پایا جس میں روم، ترکی کا آرمینیا اور کردستان وغیرہ شامل تھے۔ فرانس کو شام، ادانہ اور جنوب کے سرحدی علاقے دینا قرار پایا تھا۔ برطانیہ کو جنوبی الجزیرہ، بغداد اور فلسطین میں حائفہ اور اکرکی دو بندرگاہیں ملنی تھیں۔ فرانس اور برطانیہ کو جو علاقے ملنے والے تھے ان کے درمیان ایک آزاد عرب ریاست بھی شامل تھی تاہم یہ عرب ریاست فرانس اور برطانیہ کے ماتحت ہوگی۔ اس کے علاوہ برطانیہ کے حلقہ اثر میں فلسطین اور ایرانی سرحدی علاقے بھی شامل تھے۔ اسکندریہ کو آزاد بندرگاہ اور فلسطین کو بین الاقوامی علاقے قرار دیاگیا تھا۔ لیکن برطانیہ، فرانس اور روس کی سازشوں کی وجہ سے ان ممالک کی بنیاد فرقہ واریت اور لسانیت کی بنیاد پر رکھی گئی جس کی وجہ سے شام، عراق اور یمن جیسے ممالک میں آج خانہ جنگی اور بدامنی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان ممالک پر دہشت گردی اور ایٹمی ہتھیار رکھنے کا الزام لگا کر ان ممالک پر حملہ کرکے لاکھوں معصوم لوگوں کا خون بہایا گیا اور مکمل طور پر یہاں کی معیشت کو تباہ کرکے یہاں اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کو بٹھادیا گیا تاکہ اقتدار کی ڈور ان کے ہاتھوں میں رہے اور ان ممالک کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کیا جائے۔ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے برطانیہ، فرانس اور امریکا نے مسلم ممالک میں خانہ جنگی کو عام کیا اور باغیوں کی سرپرستی کرکے ان میں ہتھیاروں کی ترسیل کی اور مسلم ممالک کی معیشت کو اپنے قبضہ میں کرنے کے لیے سازشوں کا ایک جال بچھادیا۔ یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کی کوششیں ہونے لگیں اور پھر 1917 میں برطانیہ نے فلسطین کو اپنی تحویل میں لے لیا اور ایک یہودی ریاست کے قیام کا وعدہ کردیا۔ اس سے قبل ہی یہاں دنیا کے مختلف حصوں سے یہودی آکر بسنے لگے تھے۔
دنیا میں مسلم اکثریت والے ممالک 57 میں سے 62 فی صد مسلمان ایشیا میں ہیں۔ ایشیائی ممالک میں سب سے بڑا مسلم ملک انڈونیشیا ہے جہاں87 فی صد مسلمان بستے ہیں۔ غیر عرب ممالک میں ترکی اور ازبکستان بڑے مسلم اکثریت والے ممالک ہیں۔ جدید ٹکنالوجی نے پوری دنیا کو ایک عالمی گاؤں میں تبدیل کردیا ہے جس کی وجہ سے مختلف اقوام اور ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ مسلم دنیا جو تیل اور دیگر معدنیات سے مالا مال ہے سیاسی انتشار اور فکری بحران کا شکار ہورہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اختلاف، تفرقے اور داخلی جنگوں نے مسلم ممالک کو اندرونی طور پر کمزور کر دیا ہے۔ ہر ملک کے اپنے اندرونی مسائل ہیں، جو سیاسی بھی ہیں اور مذہبی بھی۔ مسلم ممالک بھی ان سے مبّرا نہیں ہیں۔ عیسائیت بھی کئی فرقوں میں بٹی ہوئی ہے جن میں دو بڑے فرقے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں میں بھی کئی فرقے ہیں جن کے اپنے عقائد اور روایات ہیں۔ ہر کوئی اگر اپنے عقیدے کو ڈھال بنائے گا اور اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا تو اس بحران سے نجات کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسائل عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ ترقی کی بنیاد پر حل کیے جائیں۔ مذاکرات کی میز اس کے لیے سب سے موزوں جگہ ہے۔
email: [email protected]
***

مسلم دنیا جو تیل اور دیگر معدنیات سے مالا مال ہے سیاسی انتشار اور فکری بحران کا شکار ہورہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اختلاف، تفرقے اور داخلی جنگوں نے مسلم ممالک کو اندرونی طور پر کمزور کر دیا ہے۔ ہر ملک کے اپنے اندرونی مسائل ہیں، جو سیاسی بھی ہیں اور مذہبی بھی۔ مسلم ممالک بھی ان سے مبّرا نہیں ہیں۔ عیسائیت بھی کئی فرقوں میں بٹی ہوئی ہے جن میں دو بڑے فرقے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں میں بھی کئی فرقے ہیں جن کے اپنے عقائد اور روایات ہیں۔ ہر کوئی اگر اپنے عقیدے کو ڈھال بنائے گا اور اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا تو اس بحران سے نجات کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسائل عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ ترقی کی بنیاد پر حل کیے جائیں۔ مذاکرات کی میز اس کے لیے سب سے موزوں جگہ ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021