مسلم یونیورسٹی سے وزیر اعظم کے خطاب کے معنی

حکمراں پارٹی اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو کم کرنے کے لیے خلوص کی ضرورت

آسیہ تنویر، حیدرآباد

 

ابھی عوام کے ذہنوں سے وہ بات زائل نہیں ہوئی ہے جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہال میں آویزاں ایک سابقہ طالب علم محمد علی جناح کی تصویر کو لے کر پولیس اور پر تشدد عناصر نے کس طرح معصوم طلبا پر زیادتیاں کی تھیں۔ ان کی حب الوطنی کو کس طرح نشانہ بنایا تھا۔ اس کے بعد چند دن ہی گزرے ہوں گے کہ کس طرح یہ طلباء سی اے اے مخالف احتجاجی تحریک کے دوران مودی اور یوگی کی پولیس کے لاٹھی اور ڈنڈوں کی زد پر تھے، جن پر آنسو گیس کے گولے پھینکے گیے تھے اور جنہیں حراست میں لے کر سخت ترین دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا اور کال کوٹھڑیوں میں ڈال دیا گیا تھا ۔ لوگوں کو 15 دسمبر 2019 کی کالی رات، پولیس کا قہر اور یو پی کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی کا جھوٹ آج بھی یاد ہے، بھلے ہی وزیر اعظم بھول گئے ہوں کہ یوگی نے کیا کہا تھا جن کے مطابق اس یونیورسٹی کے 15 ہزار طلبا علی گڑھ کو جلانے کے لیے سڑکوں پر اترے تھے جس کے بعد پولیس کیمپس میں داخل ہوئی تھی اور حالات کو قابو میں کیا تھا گویا کہ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ فسادی تھے۔ سی اے اے کے خلاف احتجاج بھی تو اسی حق کی جنگ تھی جو آئین نے دی ہے، اور جو بالکل آئینی ڈھنگ سے لڑی جا رہی تھی، لیکن متنفر مشنری نے اسے تشدد میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس علاوہ سب سے بڑا زخم جو ابھی بھرا نہیں ہے جس میں موجودہ مرکزی حکومت نے عدالت عالیہ میں ایک درخواست داخل کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔یعنی مسلم یونیورسٹی مسلم ادارہ نہیں ہے۔
دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں وہاں کے طلبا سے معززین کا خطاب ایک عام بات ہے۔ طلبا کے عزائم کو نکھارنا، ان کے مستقبل کے خوابوں کے تحفظ کا یقین دلانا اور ان کے حوصلوں کو پَر عطا کرنا یونیورسٹی کی معمولات میں سے ایک ہے لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صدی تقاریب سے وزیر اعظم نریندر مودی کے خطاب کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر ایک عجیب قسم کی بے زاری دیکھی گئی۔ عام طور پر علمی علاقوں میں معروف علمی شخصیات مدعو کی جاتی ہیں چاہے ان کا تعلق سیاست سے ہی کیوں نہ ہو اور وہ بھی اس مقام کے تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے مشاغل اور مشمولات کو ان اداروں سے باہر رکھتے ہوئے صرف تعلیمی نظام کی سربلندی کوشاں نظر آتے ہیں ۔لیکن یہاں کسی اور معروف ، معزز و علمی شخصیت کے مقام پر سیاسی شخصیت کو اس تقریب میں شرکت کیلئے بلانے سے ملک و دنیا بھر میں ناراضگی رہی۔ کیونکہ نریندر مودی جب سے ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں ان کی حکومت کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ بہرحال مساوات اور احترام کا نہیں ہے۔ ان حالات میں جو رد عمل سامنے آیا ہے وہ غیر متوقع بھی نہیں ہے۔ مسلم یونیورسٹی کے طلبا کے ساتھ ملک بھر میں نئے نئے قوانین کے ذریعہ مسلمانوں کی دل آزاری کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور بھی بہت کچھ ایسا ہوا اور ہو رہا ہے جس سے مسلم ملت کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو گئی کہ مودی حکومت مسلم مخالف ذہنیت سے کام کر رہی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کی ٹوپی سے دور رہنے والے وزیر اعظم کا سیدھے یونیورسٹی تقریب میں حصہ لینا اور اپنے خطاب میں وہی اپنے مخصوص انداز میں دلکش جملوں کی ادائیگی، اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے کہ چلو یہ تو بہت ہوگیا ابھی زخموں پر مرہم کا نمک رکھ کر کچھ زخم بھرنے کی کوشش بھی کر کے دیکھتے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی اپنے خطاب میں کہتے ہیں کہ ’’ترقی کی خاطر نظریاتی اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے اور کسی کو بھی ان کے مذہب کی وجہ سے ترقی کے راستے پر پیچھے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ سیاست انتظار کر سکتی ہے، سماجی انتظار کر سکتا ہے لیکن ملک کی ترقی انتظار نہیں کر سکتی ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اس کے تنوع کی وجہ سے ’’منی انڈیا‘‘ قرار دیا اور اس کی ستائش کی اور کہا کہ ’’ملک ایک ایسی راہ پر چل رہا ہے جہاں لوگوں کو کسی جانب داری کے بغیر ترقی کے فوائد حاصل ہوں گے اور انہیں ان کے دستوری حقوق کی ضمانت دی جا رہی ہے۔ آج ملک ایک ایسے راستے پر چل رہا ہے جہاں مذہب کی وجہ سے کوئی بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس، سب کا وشواس کے مقصد کے سبب حکومت کی فلاحی اسکیمات سے بلا کسی امتیاز تمام افراد کو فائدہ پہنچا ہے‘‘۔ اس کے بعد نریندر مودی نے کہا فوائد سب کو ملنا چاہیے۔
ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ کیے گئے اس خطاب میں وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’’ترقی کو سیاست کی عینک سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سیاست سماج کا اہم پہلو ہے لیکن کسی سماج میں سیاست سے زیادہ اہم مسائل ہیں۔ سیاست اور سپتاہ یعنی اقتدار کے درمیان ایک فاصلہ ہے اور اے ایم یو جیسے کیمپس کو اس کا جائزہ لینا چاہیے۔ یہ فطری بات ہے کہ سماج میں اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن جب بات قومی اہداف کی ہو تو ان اختلافات کو درکنار کرنا چاہیے‘‘۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں حسین اضافہ کرتے ہوئے ملک کے مشترکہ اہداف میں معاشی ترقی، تعلیم، معیار زندگی اور قوم پرستی یا راشٹر واد کو شامل کیا اور کہا کہ ’’یہ وہ مسائل ہیں جن پر ہم ہماری سیاسی یا نظریاتی مصلحتوں کے نام پر فرق نہیں کرسکتے۔ جب ترقی کے مقصد کے لیے لوگ متحد ہوتے ہیں تو بعض عناصر کو بے چینی ہوتی ہے، ایسے عناصر دنیا کے ہر سماج میں پائے جاتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور ان کی تکمیل کے لیے انتشار پسند حربہ آزما سکتے ہیں یا منفی کام کر سکتے ہیں۔ جب ایک نیا ہندوستان بنانے کا مقصد درپیش ہو تو ایسے افراد سمٹ جائیں گے‘‘۔ نریندر مودی نے کہا کہ غریب اور محروم افراد اور نوجوان مزید انتظار نہیں چاہتے۔ ہمیں اختلافات پر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اور ایک نیا ہندوستان آتم نربھر بھارت بنانے کے لیے مشترکہ بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے۔ اس خطاب میں وزیر اعظم نے نشان دہی کی کہ مسلم لڑکیوں میں اسکول ڈراپ آوٹ کی شرح 70 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے مسلم یونیورسٹی کو ’’منی انڈیا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں اردو، ہندی، عربی اور سنسکرت سب زبانیں پڑھائی جاتی ہیں۔ قرآن کے ساتھ گیتا اور رامائن کے تراجم بھی لائبریری میں رکھے ہوئے ہیں‘‘۔
مذکورہ بالا خطاب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم کو تمام حالات کا بہترین اندازہ ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا بلکہ اگر اسی نہج پر مودی حکومت کام بھی کرنے لگے تو اس سے بہتر بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ وزیر اعظم نے راست طور پر جد وجہد آزادی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور مسلمانوں کے کردار کو سراہا ہے اور یہ اپنے آپ میں بہرحال ایک اچھا اشارہ ضرور ہے۔ لیکن مسلم یونیورسٹی کے بانیوں سے لے کر آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے ان ہزاروں طلبا کو مزید کسی توصیف کی اب ضرورت بھی نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اپنی تقریری مہارت کے لیے شہرت رکھنے والے وزیر اعظم کیا اپنے خطاب میں کہی جانے والی ان باتوں کا وہی مطلب لے رہے تھے جو وہ کہہ رہے تھے اور جس کا مفہوم واقعی بڑا حسین اور جاذب تھا یا پھر یہ باتیں بس تقریر برائے تقریر تھیں؟
وزیر اعظم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صدی تقریبات میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اگر واقعی وہ انہی خیالات وخطوط پر حکومت بھی چلائیں تو یقیناً مسلمانوں کے بہت سے غم غلط ہوں گے اور انہیں بھی یہ موقع مل سکے گا کہ وہ یہ ثابت کر سکیں کہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے ان کے اور ان کی حکومت کے بارے میں جو باتیں پھیلائی ہیں ان کا حقیقت سے کچھ ویسا تعلق نہیں ہے۔ جس طرح سے مسلمانوں کے ساتھ ان کے دور حکومت میں امتیاز برتا گیا اور ناقابل برداشت ناروا سلوک کیا جاتا رہا اس کی وجہ سے برسرِ اقتدار پارٹی اور مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیوں کی ایک بڑی خلیج در آئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں جہاں انہیں فائدہ نظر آتا ہے وہاں وہاں وہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں لیکن عملاً ان الزامات کو غلط ثابت کرنا بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ اتنے طویل خطاب میں جن باتوں کا ذکر وزیر اعظم نے کیا وہی باتیں دراصل ملک کی سالمیت کو برقرار رکھ سکتی ہیں جب ان پر پوری ایمان داری سے عمل پیرا ہوں کیونکہ ملک کی اتنی بڑی آبادی کو نظر انداز کرکے ملک کی ترقی کے خواب نہیں دیکھے جا سکتے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021