کرن کے بعد کوشیاری کی باری !

گورونروں کے تبادلے کی سیاست سے کس کا مفاد وابستہ؟

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

 

کرن بیدی اور بھگت کوشیاری میں فرق یہ ہے کہ ایک کو بی جے پی نے اپنی مخالف صوبائی سرکار میں گورنر بنایا تھا اور دوسرے کو ہنوز بنا رکھا ہے۔ جی ہاں ’تھا‘ اور ’ہے‘ کے علاوہ باقی بہت کچھ مشترک ہے۔ ویسے بعید نہیں کہ یہ فرق بھی بہت جلد دور ہو جائے۔ اس بات کا امکان تو کم ہے کہ 71 سالہ کرن بیدی کی خدمات پھر سے حاصل کی جائیں گی ہاں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ بھگت سنگھ کوشیاری کو سبکدوش کر کے بھجن کیرتن کرنے کے لیے کیلاش پربت روانہ کر دیا جائے جو ان کے آبائی وطن اتر اکھنڈ میں واقع ہے۔ کرن بیدی 1972 بیچ (batch) کی نہایت مقبول آئی پی ایس افسر رہ چکی ہیں۔ انا ہزارے نے جب بدعنوانی کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تو ان کے ساتھ اروند کیجریوال کے علاوہ دوسرا سب سے معروف چہرہ کرن بیدی کا تھا۔ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ کبھی حلقہ بگوش بی جے پی ہو سکتی ہیں لیکن گردشِ زمانہ نے یہ بھی کر دکھایا۔ کرن بیدی کی مقبولت کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً انہیں 1972 میں پہلی خاتون آئی پی ایس افسر بننے کا اعزاز حاصل ہوا لیکن اس سے پہلے وہ قومی سطح پر جونیر ٹینس چمپین کے طور پر نام کما چکی تھیں۔
دہلی میں پولیس کارکردگی کے لیے انہیں صدارتی اعزاز سے نوازا گیا۔ ایشین گیمس کے دوران ٹرافک کے انتظامات نے ان کی مقبولیت میں چار چاند لگا دیے تھے لیکن دلی کے ایک وکیل کے ساتھ پولیس کی زیادتی کے معاملے میں اپنے ماتحت افسر کی بیجا حمایت اور اس کے خلاف وکلاء کا احتجاج ان کے میزورم تبادلہ کا سبب بن گیا۔ وہاں پر اپنی بیٹی کو مقامی کوٹے میں داخلہ دلانے کا تنازع اتنا بڑھا کہ ان کو دلی واپس لانا پڑا۔ تہاڑ جیل میں آئی جی کے طور پر غیر معمولی اصلاحات کے لیے انہیں عالمی سطح پر سراہا گیا اور وہ بین الاقوامی انعام رامن میگسےسے ایواڈ سے بھی نوازی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں اقوام متحدہ کی پولیس کا سربراہ بنایا گیا۔ اس عہدے پر فائز ہونے والی وہ نہ صرف پہلی ہندوستانی بلکہ پہلی خاتون تھیں۔ اس بیچ ان کا دہلی کے بی جے پی وزیر اعلیٰ مدن لال کھرانا سے اختلاف ہو گیا جو چندی گڑھ تبادلے پر منتج ہوا اور دہلی واپس آنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد انہوں نے 2007 میں اختیاری سبکدوشی لے کر عوامی خدمات کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔
ان واقعات سے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کرن بیدی کس قدر آرزو مند اور سیماب صفت طبیعت کی مالک ہیں۔ 2010 میں اروند کیجریوال نے انہیں بدعنوانی کے خلاف تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی جس پر انہوں نے بصد شوق لبیک کہا لیکن 2014 کے آتے آتے دونوں کے راستے بدل گئے۔ ایک طرف نریندر مودی کے خلاف اروند کیجریوال وارانسی سے انتخاب لڑ رہے تھے اور دوسری جانب کرن بیدی مودی کی حمایت کر رہی تھیں۔ 2014 میں قومی انتخاب جیتنے کے بعد بی جے پی نے مہاراشٹر، جھارکھنڈ اور ہریانہ میں پہلی بار اقتدار پر قبضہ کیا تو ایسا محسوس ہوا جیسے بہت جلد سارا ملک زعفرانی ہو جائے گا۔ 2015 میں پہلا انتخاب دہلی کا تھا۔ دہلی کے اندر تحلیل شدہ حکومت میں بی جے پی کے پاس ۳۱ نشستیں تھیں اور عآپ کے پاس ۲۸ مگر اس نے کانگریس کی مدد سے سرکار قائم کی تھی جو بہت جلد وزیر اعلیٰ کے استعفیٰ کی وجہ سے گر گئی۔ بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے صرف ۵ نشستوں کی ضرورت تھی جو کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
دہلی میں بی جے پی کئی سال راج کر چکی تھی۔ دارالحکومت کے تین سابق وزرائے اعلیٰ مدن لال کھرانا، سشما سوراج اور صاحب سنگھ ورما مرکزی وزیر رہ چکے تھے۔ ایک زمانے تک اس کے ریڑھ کی ہڈی پنجابی مہاجر اور بنیا تاجر تھے۔ مہاجرین کی اولاد کے اندر سے جب احساس محرومی ختم ہوا تو ان کی نئی نسل کانگریس کی جانب راغب ہوگئی اور بنیا اپنے ذاتی بھائی اروند کیجریوال کی جانب کشش محسوس کرنے لگے۔ اس صورتحال میں بی جے پی کے جعلی چانکیہ نے ایک نئی حکمت عملی وضع کر کے اصلی چانکیہ کی قبر پر لات مار دی۔ انہوں نے اروند کیجریوال کو کمزور کرنے کے لیے ان کی ساتھی کرن بیدی کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ جن لوگوں کے اندر خود اعتمادی کا فقدان ہوتا ہے اور جو اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں ان کے پاس مخالفین کو کمزور کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہوتا۔ اس لیے ہر صوبائی انتخاب سے قبل مخالف خیمے میں سیندھ لگانا بی جے پی کا مستقل طریقۂ کار ہے۔
مغربی بنگال اور پڈو چیری میں فی الحال یہ کھیل جاری ہے۔ ہر دن ترنمول کانگریس کے کسی نہ کسی رہنما کے دل بدل کر بی جے پی میں شامل ہونے کی خبر آتی ہے۔ جب خود سے دال نہیں گلتی تو چاچا، تاو یعنی سنگھ کی مدد لی جاتی ہے۔ اسی چکر میں گزشتہ دنوں سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نے کولکاتہ میں متھن چکرورتی سے ملاقات کی۔ موہن جی کا قیام سنگھ کے مرکزی دفتر ناگپور میں ہے۔ مہاراشٹر میں بالی ووڈ واقع ہے۔
انہیں ابھی تک ممبئی کے کسی اداکار سے ملنے کی توفیق نہیں ہوئی اس لیے لیکن چونکہ بہت جلد بنگال میں انتخاب ہونے والے ہیں اس لیے وہ وہاں پہنچ گئے۔ پڈوچیری میں ان لوگوں نے کانگریسیوں کو توڑ توڑ کر صوبائی حکومت کو اقلیت میں پہنچا دیا ہے لیکن اس حکمت عملی کا کامیاب ہونا ضروری نہیں ہے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی نے این سی پی کو 41 سے گھٹا کر 17 تک پہنچا دیا تھا مگر انتخاب کے بعد اس کے ارکان کی تعداد 54 ہو گئی۔ اسمبلی میں اس نے کانگریس کے لیڈر کو توڑ لیا اس کے باوجود اس کے ارکان 42 سے بڑھ کر 44 ہو گئے۔ اس کے برعکس شیوسینا کا ساتھ ہونے کے باوجود خود بی جے پی 122 سے گھٹ کر 105 پر آگئی اور سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود حکومت سازی میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
امیت شاہ نے دہلی میں سارے قدیم رہنماوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر کرن بیدی کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنا دیا۔ یہ حکمت عملی بری طرح ناکام رہی عآپ نے نہ صرف ۷۰ میں سے ۶۷ نشستوں پر کامیابی حاصل کی بلکہ کرن بیدی خود بی جے پی گڑھ میں شکست فاش سے دوچار ہو گئیں۔ انہوں نے ہار کی ذمہ داری اپنے سر لینے کے بجائے پارٹی اور اس کے اعلیٰ رہنماوں کے سر تھوپ دی۔ ان نتائج نے کل یگ کے چانکیہ کو نہایت احمق سیاستداں ثابت کرکے ان کی پول کھول دی۔ کرن بیدی کے ردعمل سے بی جے پی کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ ان کا دہلی میں رہنا خطرناک ہے۔ اس لیے ڈیڑھ سال بعد جون 2016میں گورنر بناکر ملک کے آخری سرے پڈوچیری میں بن باس پر بھیج دیا۔ لیفٹیننٹ گورنر کا عہدہ دراصل سیاست کا کوڑا دان ہے۔ اس طرح گویا بی جے پی نے بلا واسطہ یہ اعلان کر دیا کہ اب اس ٹیشو پیپر کا کام ختم ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود پڈوچیری پہنچ کر کرن بیدی نے کہا تھا: ’’میں حکومت کی شکر گزار ہوں کہ مجھے یہ ذمہ داری دی گئی۔ میں ملک کی خدمت کے لئے ہی یہاں آئی ہوں اور اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی ہر ممکن کوشش کروں گی‘‘۔
کرن بیدی نے ملک کی خدمت اس طرح سے کی کہ ریاستی حکومت کو دسمبر 2019 میں صدر کو خط لکھ کر شکایت کرنی پڑی۔ صدر مملکت کے دفتر سے وضاحت طلب کی گئی تو کرن بیدی نے اپنی صفائی میں کہا کہ وہ مرکزی ریاست کا ناظم ہونے کے ناطے قانون کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اس سے بات نہیں بنی تو پڈوچیری کے وزیر اعلیٰ وی نارائن سامی نے کرن بیدی پر بھی ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کر کے لیفٹیننٹ گورنر کی برطرفی کا مطالبہ کیا تھا۔
کرن بیدی کے ساتھ اس کھینچا تانی کے دوران 10 فروری 2021 کو صدر رام ناتھ کووند سے ملاقات کرنے کی خاطر وزیر اعلیٰ وی نارائن سامی دہلی پہنچ گئے۔ اس موقع پر انہوں نے ایک یادداشت میں ان اسکیموں کا ذکر کیا جن پر عمل درآمد میں کرن بیدی رکاوٹ ڈال رہی تھیں۔ نصف گھنٹے کی اس ملاقات میں نارائن سامی نے کرن بیدی کو لیفٹیننٹ گورنر کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا اور اس کی حمایت میں ایک لاکھ افراد کے دستخط والا خط پیش کیا۔ نارائن سامی برخواستگی کا مطالبہ تو کر رہے تھے لیکن انہیں تو بس یہ توقع رہی ہوگی کہ صدر مملکت صوبائی حکومت کے مسائل اور لوگوں کی ضروریات کے مد نظر لیفٹیننٹ گورنر کی فون پر سرزنش فرمائیں گے لیکن ایک ہفتہ کے اندر ان کی من کی مراد پوری ہوگئی۔ صدر مملکت نے 17 فروری کو لیفٹیننٹ گورنر کرن بیدی کی چھٹی کرکے تلنگانہ کی گورنر ڈاکٹر تلسمئی سندر راجن کو پڈوچیری کی اضافی ذمہ داری سونپ دی۔
کرن بیدی کی برطرفی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جبکہ دو ماہ کے اندر وہاں انتخاب ہونے والاہے اور کانگریس کے رکن اسمبلی جان کمار کے استعفیٰ سے ریاستی حکومت اقلیت میں آگئی ہے۔ پڈوچیری کے وزیراعلیٰ وی نارائن سامی پیر 22 فروری کو اسمبلی میں اکثریت ثابت نہیں کرسکے۔وزیر اعلیٰ نارائن سامی اعتماد ووٹ کی تحریک پیش کرنے کے بعد تقریباًایک گھنٹہ تک ایوان سے خطاب کیا اور پھر تمام ممبروں کے ساتھ واک آؤٹ کر گئے۔اس کے بعد اسمبلی اسپیکر وی شیوکولانتھو نے اعلان کیا کہ مسٹر نارائن سامی کی حکومت اکثریت سے محروم ہوگئی ہے۔ ایسی صورتحال میں گورنر کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے اس کے باوجود کرن بیدی کی برخواستگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی صلاحیت پر بی جے پی ہائی کمان اعتماد نہیں کرتا۔ ایک خیال یہ بھی ہے چونکہ کرن بیدی سیاسی جوڑ توڑ میں ماہر نہیں ہیں اس لئے انہیں ہٹایا گیا ہے۔ مرکز کے اس فیصلے پر کرن بیدی نے اپنے پرانے ردعمل کا اعادہ کر دیا کہ وہ ملک و قوم کی خدمت کرتی رہیں گی۔ اپنی صفائی میں کہا کہ انہوں نے آئین اور قانون کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے ہی سارے اقدامات کیے۔ حقیقت یہ ہے کہ کرن بیدی کی برطرفی بی جے پی کی ایک سیاسی مجبوری بن گئی تھی۔
نارائن سامی نے اس دوران بڑی چالاکی سے کرن بیدی کو بی جے پی کی علامت بنا کر اسے علاقائی وقار کے خلاف بیرونی مداخلت کا رنگ دے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ کرن بیدی کو ہٹانے کے بعد تمل ناڈو کے گورنر بنواری لال پروہت کو یہ اضافی ذمہ داری نہیں دی گئی۔ بنواری لال پروہت بڑے گھاگ سیاستداں ہیں۔ وہ ناگپور سے پہلے کانگریس اور پھر بی جے پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو چکے ہیں لیکن کرن بیدی کی مانند باہری آدمی ہیں۔ اس لیے آندھرا پردیش کی گورنر تلسمئی راجو کو یہ ذمہ داری دی گئی تاکہ پڈوچیری کے لوگ انہیں پرایا نہیں بلکہ اپنا سمجھیں اور نارائن سامی مرکزی حکومت کا خوف دلا کر کامیاب نہ ہونے پائیں۔ اس کرتب بازی سے قطع نظر کرن بیدی کا کام تو تمام ہو ہی گیا۔
کرن بیدی کے علاوہ گورنر جگدیپ دھنکر بھی فی زمانہ کبھی کبھار خبروں میں آجاتے ہیں کیونکہ مغربی بنگال پر انتخاب کے بادل منڈلا رہے ہیں مگر مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری تو بن بادل برستے رہتے ہیں۔ مہاراشٹر میں ادھر بی جے پی انتخاب ہاری اُدھر سابق گورنر ودیا ساگر راؤ کی پانچ سالہ معیاد ختم ہوئی۔ اس کا فائدہ اٹھا کر مرکزی حکومت نے ان کی جگہ آر ایس ایس کے تجربہ کار رہنما اور اتر اکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ بھگت سنگھ کوشیاری کو نیا گورنر مقرر کر دیا۔ کوشیاری سیاست کے پرانے چاول ہیں۔ ماضی میں وہ بی جے پی کے نائب صدر اور اتر اکھنڈ کے اولین پارٹی صدر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے 02-2001 میں اتر اکھنڈ کے وزیر اعلیٰ اور 07-2002 تک حزب مخالف کے رہنما کی ذمہ داری ادا کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اتر پردیش اسمبلی میں ایم ایل اے اور راجیہ سبھا و لوک سبھا کے رکن بھی رہے تھے۔ آگرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد کوشیاری نے تدریس اور صحافت سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا مگر پھر کالی ٹوپی اور خاکی نیکر پہن کر آر ایس ایس کے وفا دار سپاہی بن گئے۔
ان کی آمد پر سابق وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس نے انہیں مبارک باد دی تو جواب میں گورنر کوشیاری نے کہا کہ وہ مہاراشٹر کی ترقی اور بھلائی کے لئے کوشاں رہیں گے۔ ان کے نزدیک صوبے کی فلاح وبہبود سے کیا مراد ہے یہ اس وقت پتہ چلا جب انہوں نے صبح پانچ بجے پھڈنویس کے ساتھ اجیت پوار کی بغیر اکثریت کی جانچ کیے حلف برداری کروادی۔ اس کے بعد تو ایک لامتناہی تنازعات کا آغاز ہو گیا۔ مثلاً پالگھر کے معاملے میں متنازع بیان اور خواتین کے کمیشن کی سربراہ سے لَو جہاد کے قانون پر بنا مطلب کی گفت وشنید۔ وزیر اعلیٰ کو ودھان پریشد میں نامزد کرنے سے انکار و کورونا لاک ڈاون کے دوران عبادت گاہوں کو لے کر شیوسینا کے ہندوتوا پر سوالیہ نشان۔ سیاسی بیان بازی کے علاوہ انتظامی امور میں بھی مداخلت مثلاً ممبئی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو خط لکھ کر آئی آئی ایف سی ایل کمپنی کو ٹھیکہ دینے کی سفارش۔ صوبائی حکومت کی جانب سے تین ممکنہ ایم ایل سی کے سفارشی خطوط پر دستخط کرنے میں ٹال مٹول وغیرہ۔ ان متنازع حرکتوں سے مہا وکاس آگھاڑی کی حکومت کے ساتھ ان کے کئی معاملات پر شدید اختلافات پیدا ہو گئے۔
حکومت مہاراشٹر نے بھی موقع پاتے ہی گورنر کوشیاری کی تمام ہوشیاری کا انتقام لے لیا۔ 12فروری 2021کے دن بھگت سنگھ کوشیاری کو اپنے صوبے اتر اکھنڈ کی راجدھانی دہرادون میں گزیٹیڈ افسران کے ایک غیر سرکاری یعنی نجی پروگرام میں حصہ لینا تھا۔ اس کے لیے انہوں دو فروری کو نہ صرف سرکاری ہوائی جہاز کا مطالبہ کیا بلکہ گیارہ جنوری کو یہ جانے بغیر کہ اجازت ملی یا نہیں ہوائی اڈے پر جہاز میں جا کر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد ان کومطلع کیا گیا کہ انہیں سرکاری طیارے سے سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس بے عزتی کے بعد مجبوراً ان کے معاونین نے اسپائس جیٹ طیارے سے انہیں روانہ کر دیا۔ گورنر کی اس توہین پر حزب اختلاف کے رہنما دیویندر پھڈنویس نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کو ریاستی حکومت کا غرور بتایا۔ لیکن اس کے اصل ذمہ دار تو خود گورنر تھے۔ اول تو نجی دورے کے لیے سرکاری جہاز کا استعمال مناسب نہیں تھا۔ دوسرے اجازت ملی یا نہیں یہ معلوم کرنا ان کی اپنی ذمہ داری تھی۔ وہ اگر ایسا کرتے تو سرکاری جہاز میں بیٹھ کر اپنی عزت خراب نہیں کرواتے۔
دہرادون سے واپس آکر گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے ایک تہنیتی تقریب کے میں اپنا نزلہ اتارتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش میں کہا جاتا ہے کہ اگر مہاراشٹر میں سیاست کرنا ہو تو کو آپریٹیو بینک اور شکر کے کارخانے قائم کرو۔ انہوں نے ملک کے موجودہ حالات میں بینکوں کے کاروبار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ’’ ممبئی اور اطراف میں موجود بڑے بینکوں میں ہونےوالی بد عنوانی سے عوام کا بینکنگ سسٹم پر سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ ان حالات کو سدھارنے کے لیے سرکار اور کو آپریٹیو اداروں کو ایمانداری کا مظاہرہ کر نا ہوگا۔ اس طرح دوبارہ عوام کا اعتماد حاصل کرنا ممکن ہے۔ اس لئے سرکار اور کو آپریٹیو اداروں کے درمیان تعاون و اشتراک کی سخت ضرورت ہے‘‘۔
سنگھ پریوار کی سیاست میں اپنی عمر کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد بھاشن بازی کی جو عادت پڑی ہوئی اس سے مجبور ہو کر کوشیاری بولے کہ آج کے زمانے میں بینک انتظامیہ عوام کو دونوں ہاتھ سے لوٹ کر کنگال کر رہا ہے اس کا احساس وقتاً فوقتاً بینکوں کے دیوالیہ ہونے سے ہوتا رہتا ہے۔ دوسروں پر بدعنوانی کا طنز کسنے والے بھگت سنگھ کوشیاری بھول گئے گزشتہ سال ان کے خلاف ہائی کورٹ کے حکم پر عمل درآمد نہ کرنے کے معاملے میں توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جا چکا ہے۔ جسٹس شرد کمار شرما کی بینچ نے دہرادون کی غیر سرکاری تنظیم (این جی او) رورل لِٹیگیشن اینڈ اینٹائیٹلمینٹ کیندر کی جانب سے دائر توہین عدالت کی عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے نوٹس جاری کیا تھا۔ عرضی گزار نے عدالت کو بتایا تھا کہ سابق وزیر اعلیٰ بھگت سنگھ کوشیاری کے خلاف دائر توہین عدالت کی عرضی قابل سماعت ہے۔
یہ کوئی احتجاج یا مظاہرے کا فرضی مقدمہ نہیں بلکہ بدعنوانی کا معاملہ ہے۔ اتر اکھنڈ ہائی کورٹ نے ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ بھگت سنگھ کوشیاری کو سرکاری رہائش گاہ اور دیگر سہولتوں کے الاٹمنٹ کے معاملے میں گزشتہ برس تین مئی کو بازار کی شرح پر بقایا جمع کرنے کی ہدایت دی تھی لیکن کوشیاری نے عدالت کی ہدایت پر عمل درآمد نہیں کیا اور نہ جواب دینے کی زحمت کی اس لیے یہ توہین عدالت کا معاملہ بن گیا۔ یہ ہے سنگھ پریوار کے اپدیش (نصیحت) کرنے والوں کا کردار۔ ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جن کے مکان شیشے کے ہوتے ہیں وہ دوسروں کی جانب پتھر نہیں اچھالا کرتے۔ بھگت سنگھ کوشیاری اگر اپنی ناپسندیدہ حرکتوں سے باز نہیں آئے تو ادھو ٹھاکرے کو بھی گورنر ہاوس کے باہر دھرنا دینا ہوگا اور وہ بھی صدر مملکت سے ملاقات کے لیے مجبور ہو جائیں گے جبکہ انہوں نے مرکزی حکومت سے گورنر کو واپس بلانے کی درخواست تو کر ہی دی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کرن بیدی کی طرح کوشیاری کی باری کب آتی ؟ ان سے جتنی جلدی نجات مل جائے اتنا ہی اچھا ہے کیونکہ کرن بیدی نے پڈوچیری میں بی جے پی کا اتنا نقصان نہیں کیا جتنا بھگت سنگھ کوشیاری مہاراشٹر میں کر چکے ہیں اس لیے ان کو واپس بلا لینا خود بی جے پی کے بھی مفاد میں ہے۔
***

یہ ہے سنگھ پریوار کے اپدیش (نصیحت) کرنے والوں کا کردار۔ ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جن کے مکان شیشے کے ہوتے ہیں وہ دوسروں کی جانب پتھر نہیں اچھالا کرتے۔ بھگت سنگھ کوشیاری اگر اپنی ناپسندیدہ حرکتوں سے باز نہیں آئے تو ادھو ٹھاکرے کو بھی گورنر ہاوس کے باہر دھرنا دینا ہوگا اور وہ بھی صدر مملکت سے ملاقات کے لیے مجبور ہو جائیں گے جبکہ انہوں نے مرکزی حکومت سے گورنر کو واپس بلانے کی درخواست تو کر ہی دی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کرن بیدی کی طرح کوشیاری کی باری کب آتی ؟

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 فروری تا 6 مارچ 2021