میڈیا کے سمندر میں بڑی مچھلیوں کو چھوٹی مچھلیوں سے خطرہ۔۔۔!

کیا واقعی نفرت انگیز مواد کی بنیاد پر ریپبلک ٹی وی سے غائب ہو رہے ہیں اشتہارات؟

حسن آزاد

 

کیا یہ دور میڈیا ٹرائل کا دور ہے؟ کیا نیوز روم میں بیٹھے پینل پر نیوز اینکرس خود ہی جج، جیوری اور جلاد کی حیثیت سے احکام صادر کر دیا کرتے ہیں؟ زیادہ دور جانے کی ضروت نہیں ہے بس حالیہ دنوں میں کورونا کے دوران حکومت کے پروردہ چند مین اسٹریم میڈیا کی رپورٹنگ کا جائزہ لیا جائے تو شاید مسئلہ دو اور دو چار کی طرح عیاں ہوجائے گا۔ کس طرح تبلیغی بھائیوں کے ذریعے تمام مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ نفرت و عداوت کے بیج بونے والوں میں ایک چینل ریپبلک ٹی وی بھی تھا جسے آج اپنی بدنامی کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ حال ہی میں ریپبلک ٹی وی کے مالک ارنب گوسوامی نے بیسٹ میڈیا انفو ڈاٹ کام (BestMediaInfo.com) کے بانی اور ایڈیٹر ان چیف نیرج شرما کو لیگل نوٹس بھیجا۔ ریپبلک ٹی وی کی طرف سے فینکس لیگل (Phoenix Legal) کے ذریعے بھیجے گئے اس قانونی نوٹس میں بیسٹ میڈیا انفو ڈاٹ کام کے ذریعے شائع کی گئی تحقیقی رپورٹ کو جعلی اور فرضی بتایا گیا۔در اصل رپورٹ میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ نفرت انگیز مواد نشر کیے جانے کی پاداش میں مشہور ومعروف کمپنیاں ریپبلک ٹی وی کو اشتہارات دینا بتدریج بند کر رہی ہیں۔ ارنب گوسوامی اور BARC کے سابق سی ای او کے بیچ مبینہ واٹس ایپس لیک معاملے کے بعد ریپبلک ٹی وی کو صرف جنوری میں 30 اشتہاری ایجنسیوں نے اپنے اشتہارات دینے بند کر دیے تھے۔ فینکس لیگل کے ذریعے بھیجے گیے نوٹس میں ’بیسٹ میڈیا انفو‘ کو اس طرح کی خبریں شائع کرنے سے باز رہنے کے لیے کہا گیا بصورت دیگر سخت کارروائی کرنے کی دھمکی دی گئی۔
اس سے پہلے بھی ٹی آر پی گھوٹالا معاملے میں ریپبلک ٹی وی کے مالک ارنب گوسوامی کے خلاف ایک خبر شائع کرنے پر اس نے انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کو قانونی نوٹس بھجوایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ انڈین ایکسپریس نے تمام صحافتی اخلاقیات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود ہی جج، جیوری اور جلاد کا رول ادا کیا ہے۔ اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ان کے خلاف اس طرح کی ہتک عزت والی خبریں شائع کرنے سے باز رہے اور غیر مشروط طور پر معافی بھی مانگے۔ ریپبلک ٹی وی نے 25 جنوری کو انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والی ایک خبر کی مخالفت کی تھی۔ قابل غور ہے کہ 18 جنوری 2021 کو بامبے ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں جن الفاظ کا استعمال کر کے ریپبلک ٹی وی کو ہدف تنقید بنایا تھا تقریباً انہی الفاظ میں ریپبلک ٹی وی نے انڈین ایکسپریس کو قانونی نوٹس بھیجا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق بامبے ہائی کورٹ نے میڈیا ٹرائل مقدمہ کے فیصلہ میں ریپبلک ٹی وی اور ٹائمز ناؤ کی کوریج بادی النظر میں توہین قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ "اگر آپ ہی تفتیشی آفیسر، استغاثہ اور جج بن جاتے ہیں تو ہمارے ہونے کا کیا فائدہ؟ ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چند میڈیا ہاؤسز ٹی آر پی کے لیے معاشرے میں سنسنی پھیلانے کی غرض سے نفرت کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ خاص طور پر کردار کشی ان کا شیوہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معروف اداکار سلمان خان، شاہ رخ خان، عامر خان، اکشے کمار، اجے دیوگن اور کرن جوہر کے دھرما پروڈکشن سمیت بالی وڈ کی تقریباً چالیس فلم ساز کمپنیوں، سنیما ایسوسی ایشنز اور پروڈکشن ہاؤسز نے مشترکہ طور پر دہلی ہائی کورٹ میں ریپبلک ٹی وی، ٹائمز ناؤ چینل اور ان کے سینیئر مدیروں کے خلاف ایک درخواست دائر کی تھی۔ اس عرضی میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ان چینلز کو فلمی صنعت اور اس سے وابستہ شخصیات کے خلاف غیر ذمہ دارانہ، توہین آمیز اور بیہودہ تبصرہ کرنے، شائع یا نشر کرنے سے باز رکھا جائے۔
خاص طور پر اگر ریپبلک ٹی وی کے تعلق بات کی جائے تو حال ہی میں برطانیہ میں میڈیا پر نظر رکھنے والے سرکاری نگراں ادارے ’آفس آف کمیونیکیشن‘ (آفکام) نے ایک شو میں نفرت انگیز مواد اور غیر مہذب زبان استعمال کرنے کے لیے ریپبک ٹی وی پر 20 ہزار برطانوی پاونڈ یعنی تقریباً 19 لاکھ روپوں کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ دراصل 22 جولائی 2019 کو اسرو کے ذریعے چندریان ٹو خلا میں روانہ کیا گیا تھا جس کی چاند پر اترنے کی کوشش پوری طرح سے ناکام رہی تھی لیکن ارنب گوسوامی نے اس بحث کو بھارت بمقابلہ پاکستان میں بدل دیا تھا۔ ارنب نے بھارت کے کامیاب خلائی مشنوں اور تکنیکی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے بھارت کا موازنہ پاکستان سے کیا اور کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان پر شدید تنقید کی تھی۔ انہوں نے پاکستان کا نام لے کر کہا تھا کہ ’’ہم سائنس دان پیدا کرتے ہیں اور آپ دہشت گرد۔‘‘
اب ذرا ٹائمس گروپس کی بات کی جائے۔ Bennett Coleman Co. Ltd.& (BCCL) نے ٹائمز ناؤ کے ایڈیٹرز کو مبینہ طور پر بدنام کرنے پر نیوز لانڈری میڈیا پرائیوٹ لمیٹڈ (Newslaundry Media Pvt. Ltd) اور اس کے نو ملازمین کے خلاف بامبے ہائی کورٹ میں سو کروڑ روپے پر مشتمل ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے اور ٹائمز ناؤ کے ایڈیٹرز، ناویکا کمار اور راہول شیو شنکر کے خلاف نیوز لانڈری کے ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردہ مواد کے لئے غیر مشروط معافی کا مطالبہ کیا ہے۔ جب ان کے خلاف سخت تبصرہ کیا گیا تو وہ فوری حرکت میں آ گئے۔ لیکن ٹائمس گروپ کے ٹائمس آف انڈیا نے گمشدہ نجیب احمد کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی تب انہیں ہتک عزت کس چڑیا کا نام ہے شاید نہیں معلوم تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے گمشدہ طالب علم نجیب احمد کی والدہ فاطمہ نفیس نے ٹائمز آف انڈیا کو قانونی نوٹس بھیجا تھا۔ یہ نوٹس انہوں نے اس غلط خبر کو نشر کرنے کی وجہ سے بھیجا تھا جس میں ان میڈیا گھرانوں نے کہا تھا کہ نجیب دہشت گرد تنظیم داعش سے وابستہ ہونے کی کوشش میں تھا۔ قابل ذکر ہے کہ ٹائمز آف انڈیا اخبار نے 21مارچ 2017 کے اپنے نیشنل ایڈیشن میں ایک خبر شائع کی تھی جس میں کہا تھا کہ نجیب گوگل اور یو ٹیوب پر دہشت گرد تنظیم آئی ایس آئی ایس کے بارے میں معلومات حاصل کر رہا تھا۔ وہ آئی ایس کے نظریات، طریقہ کار اور نیٹ ورک کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ تاہم بعد میں دلی پولیس نے ایسی کسی بھی رپورٹ کو یکسر خارج کر دیا تھا۔
ٹائمس آف انڈیا نے سال 2007میں ‘اے ایم یو وہیر دی ڈگریز آر سولڈ لائیک ٹافیز’ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا تھا جس میں گمنام ذرائع کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ یونیورسٹی میں ٹافیوں کی طرح ڈگریاں بانٹی جاتی ہیں۔ اس کے بعد ایک سابق اسٹوڈنٹ یونین لیڈر نے اخبار پر مقدمہ دائر کیا تھا۔ جس کے بعد ٹائمس آف انڈیا نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر توہین آمیز اور گمراہ کن مضمون شائع کرنے کے لیے معافی مانگی تھی۔ اخبار نے دہلی کی ایک سِول عدالت میں 14 جنوری کو معافی نامہ داخل کیا تھا۔ یہ مضمون 14سال پہلے 29ستمبر 2007میں شائع کیا گیا تھا۔
حال ہی میں وفات پائے سپریم کورٹ کے جج پی بی ساونت نے بھی ٹائمس ناؤ کے خلاف ہتک عزت کا معاملہ درج کرایا تھا۔ جس کے بعد بامبے ہائی کورٹ نے سو (١٠٠) کروڑ روپے ہرجانے کے طور پر جسٹس ساونت پی بی کو ادا کرنے کا حکم چینل کے خلاف جاری کر دیا تھا۔ نتیجتاً پانچ روز تک مسلسل ٹائمس ناؤ چینل نے اپنی غلطی کا اظہار کرتے ہوئے معافی مانگی تھی۔حالانکہ ٹائمس ناؤ کے مطابق 10ستمبر 2008کو چھپنے والی کئی کروڑ کے ملٹی پروویڈنٹ گھوٹالے کی ایک رپورٹ میں غلطی سے سامنت اور ساونت ناموں کی ملتی جلتی آوازوں کے سبب پی بی ساونت کی تصویر استعمال کرلی گئی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ دی ٹائمز گروپ کے تحت دی ٹائمز آف انڈیا ملک میں انگریزی زبان کا سب سے قدیم اور سب سے زیادہ شائع ہونے والا روزنامہ ہے۔ اس کا آغاز 3 نومبر، 1838 میں ہوا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ٹائمس گروپ 16 پبلشنگ سنٹرس، 15پرنٹنگ سنٹرس، 55سیلس آفسس، 11ہزار سے زائد ملازمین، 2لیڈ میگزینس اور 32 ریڈیو اسٹیشنس پر مشتمل ہے۔
یوں تو کورونا وائرس کے دور میں تبلیغی جماعت سے متعلق کئی چینلوں نے فرضی اور جعلی خبریں نشر کیں لیکن زی نیوز کی چوری پکڑ لی گئی جس کے بعد تبلیغی جماعت کے بارے میں غلط خبریں نشر کرنے پر زی نیوز کو معافی مانگنی پڑی تھی۔ اصل میں زی نیوز نے اطلاع دی تھی کہ اروناچل پردیش میں 11 افراد میں کورونا مثبت پایا گیا ہے اور ان سب کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ لیکن اروناچل پردیش کی پولیس نے زی نیوز کے جھوٹ کو بے نقاب کر دیا۔ اروناچل پردیش پولیس کے مطابق اروناچل پردیش میں صرف ایک شخص کورونا مثبت پایا گیا تھا اور اس کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اروناچل پردیش کے اس انکشاف کے بعد جعلی اور غلط خبریں نشر کرنے والے زی نیوز نے ملک سے معافی مانگ لی تھی۔ لیکن جعلی خبریں تو پھیل چکی تھیں۔ تیر تو نکل چکا تھا۔ تبلیغی جماعت والوں کو بدنام کیا جا چکا تھا۔
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
***

‘حال ہی میں ریپبلک ٹی وی کے مالک ارنب گوسوامی نے بیسٹ میڈیا انفو ڈاٹ کام کے بانی اور ایڈیٹر ان چیف نیرج شرما کو لیگل نوٹس بھیجا۔ ریپبلک ٹی وی کی طرف سے فینکس لیگل (Phoenix Legal) کے ذریعے بھیجے گئے اس قانونی نوٹس میں بیسٹ میڈیا انفو ڈاٹ کام کے ذریعے شائع کی گئی تحقیقی رپورٹ کو جعلی اور فرضی بتایا گیا۔در اصل رپورٹ میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ نفرت انگیز مواد نشر کیے جانے کی پاداش میں مشہور ومعروف کمپنیاں ریپبلک ٹی وی کو اشتہارات دینا بتدریج بند کر رہی ہیں۔’

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 فروری تا 6 مارچ 2021