بدعنوان سیاست داں اور تابعدار انتظامیہ

اشوک کھیمکا کی ان کہی کہانی۔۔

 

کتاب کانام
Just Transferred
The untold Story of Ashok Khenka
مصنف : بھاو دیپ کنگ اور نمیتا کلا
ناشر : ہر پر کولنس
صفحات : 250
قیمت : ؍599 روپے
سن اشاعت : 2020
تبصرہ و تلخیص : مقبول احمد سراج
ڈھائی سو صفحات پر محیط یہ کتاب ایک IAS آفیسر کی داستان ہے جنہیں رشوت ستانی کے خلاف رخنہ انداز ہونے کی بنا پر اپنی 27برس کی سرویس میں 53 دفعہ ٹرانسفر کیا گیا۔ آفیسر اشوک کھیمکا وہ اوالعزم آفیسر تھے جنہوں نے نہ صرف خود کو رشوت اور بدعنوانی سے محفوظ رکھا بلکہ جب بھی موقع ملا سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کا بھی پردہ فاش کیا۔ اشوک اب بھی ہریانہ میں کسی عہدے پر ہوں گے کیونکہ ان کی سرویس کی میعاد ابھی باقی ہے۔ جناب کھیمکا قومی طور پر اُس وقت سرخیوں میں آئے جب انہوں نے 2012 میں لینڈ ریکارڈ اور کنسالیڈیشن کے ڈائرکٹر جنرل کی حیثیت سے Robert Vadra DLF ڈیل کو طشت از بام کیا۔ جیسا کہ معلوم ہے کہ رابرٹ وڈرا پرینکا گاندھی کے شوہر ہونے کی وجہ سے سونیا گاندھی کے داماد اور ملک کی سب سے اہم سیاسی فیملی کے رکن تھے۔ اس ڈیل کے تحت دہلی کے نواح میں واقع شکوہ آباد گاوں کی سینکڑوں ایکڑ زمین ہریانہ حکومت نے کسانوں سے لے کر شہری ترقیات کی خاطر ملک کو نمبر ون تعمیری کمپنی DLF کو سونپ دی تھی اور DLF نے اسے رابرٹ وڈرا کی کمپنی SKY LIGHT کو بیچ ڈالا تھا جبکہ SKY LIGHT کے بینک کھاتوں میں ان تاریخوں میں محض ایک لاکھ روپے تھے۔ رجسٹریشن کے کاغذات میں سیکڑوں کروڑ روپوں کی ادائیگی کو کئی برس کے لیے موخر بھی کیا گیا تھا۔ اس پر مزید نوازش یہ کہ اس موخر شدہ ادائیگی پر کوئی سود بھی مقصود نہ تھا۔ زمینات کے رجسٹریشن میں بے شمار بے ضابطگیاں بھی تھیں جنہیں نظر انداز کر کے تعمیرات کے لائسنس جاری کردیے گئے۔ SKY LIGHT اور گاندھی خاندان کے داماد پر ان نوازشوں کی بارش پر اشوک کھیمکا کے کان کھڑے ہو گئے اور انہوں نے لائسنس مسترد کر کے بے ضابطگیوں کے خلاف مقدمات دائر کر دیے۔ ہریانہ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ بھوپندر سنگھ ہوڈا اس ڈیل کو قطعی بنانے پر مصر تھے۔ مگر فرض شناس کھیمکا نے ان کی ایک نہ چلنے دی۔ ۔۔۔ ڈیل کانگریس اور اس کی مرکزی حکومت و ہریانہ کے سرکار کے گلے کا طوق بن گئی۔ اروند کجریوال نے اسے ایشو بنا کر کانگریس کے خلاف مہم شروع کی جسے نربھیا کیس اور انا ہزارے کی شمولیت سے مہمیز ملی۔ بی جے پی نے اسے 2014 کا انتخابی ایشو بنایا اور اس کے بعد کیا کچھ ہوا اور سیاست کس طرح پلٹ گئی یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ بن گیا جس کی تفصیل کی مطلقاً ضرورت نہیں۔
راست اور حق گو اور ذاتی طور پر انتظامیہ کو بدعنوانی اور کرپشن سے پاک کرنے کے جذبہ سے معمور اشوک کھیمکا ملک کے وہ آئی اے ایس آفیسر ہیں جنہوں نے سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کا مسلسل پردہ فاش کیا ہے اور عہدوں سے ٹرانسفر سے بے خوف رہ کر ہر قسم کے چیلنجز قبول کیے۔ اشوک ایک مارواڑی خاندان کے رکن ہیں۔ ابتدائی زندگی انتہائی عسرت میں گزاری۔ کلکتہ کے معمولی ہندی میڈیم اسکول کے طالب علم کی حیثیت سے بچپن انتہائی معاشی تنگی میں گزارا۔ ان کی غیر معمولی ذہانت کی بنیاد پر کولکتہ کے سینٹ زیوئیر کالجنٹ اسکول نے انہیں رعایتی فیس پر داخلہ دیا اور یہ تاکید کی کہ وہ رعایتی فیس کو صیغہ راز میں رکھیں گے۔ کھیمکا لنچ کے لیے کوئی ٹفن باکس نہیں لاتے اور دوستوں کے لنچ میں ہاضمہ کے ضعف کا حیلہ تراش کر شریک ہونے سے کتراتے۔ انہیں احساس تھا کہ شرکت کا احسان انہیں کسی نہ کسی شکل میں ادا کرنا ہوگا اور وہ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بارہویں کلاس میں امتیازی کامیابی اور آئی آئی ٹی کھڑگپور میں داخلے نے ان کو کامیاب زندگی کی راہ پر گامزن کر دیا۔ اگرچہ انہوں نے کمپیوٹر انجینرنگ میں B.tech کیا لیکن ان کی طبعیت سول سرویسز کی طرف مائل تھی اور وہ پہلی دفعہ میں ہی آئی اے ایس کے لیے منتخب کر لیے گئے۔ اسی درمیان ان کی شادی دلی میں جیوتی نامی گریجویٹ لڑکی سے ہو گئی۔
کھیمکا کی پہلی تقرری دلی کے قریب نرنول شہر میں سب ڈیویژنل آفیسر (SDO) کے عہدے پر ہوئی۔ تقرری کے ساتھ ہی انتظامیہ اور افسر شاہی کی بدعنوانی اور رشوت ستانیوں سے ان کا سامنا تھا۔ ان کے ضلعی کمشنر نے انہیں کسی غیر سرکاری رقص کے پروگرام کے لیے عوامی عطیات جمع کرنے کا حکم دیا۔ کھیمکا نے حکم ماننے سے انکار کر دیا جس کے صلہ میں انہیں Annual Confidential Record (ACR) میں ایک منفی ریمارک کی قیمت ادا کرنی پڑی۔
رفتہ رفتہ انتظامیہ، سیاستدانوں اور بزنس مینوں کے درمیان مثلث کی کڑیاں واضح ہونے لگیں۔ نرنول میں ڈپٹی کمشنر کی شکایت پر انہیں ایک چھوٹے توپازہ نامی شہر میں ٹرانسفر کر دیا گیا جو پنجاب میں نہروں کا شہر کہلاتا ہے۔ وہ 1994کا سال تھا، نرسمہاراو کی حکومت کے تین سال پورے ہونے کو تھے اور دہلی میں کانگریس کی ریالی کا انعقاد کیا جا رہا تھا۔ ان کے ڈپٹی کمشنر نے انہیں حکم دیا کہ وہ کسی پرائیویٹ ٹرانسپورٹر سے متعدد بسیں حاصل کر کے کانگریس ورکروں کو دلی کی ریلی میں پہنچانے کا نظم کریں۔ اس کے صلے میں ٹرانسپورٹر کو چند ناجائز
مراعات کا وعدہ کیا گیا تھا۔ کھیمکا نے پوری ہمت کے ساتھ کسی سیاسی پارٹی کے لیے ٹرکوں کا نظم کرنے سے انکار کر دیا۔ ڈپٹی کمشنر نے مطالبہ کیا کہ وہ یہ جواب تحریر میں دیں اور اس میں حکم عدولی کا تذکرہ کریں۔ کھیمکا نے جواباً مطالبہ کیا کہ وہ پہلے تحریراً انہیں ایسا کرنے کا حکم دیں جس کے بعد وہ جواب بھی تحریری طور پر دیں گے۔ ڈپٹی کمشنر (DC) نے سر پیٹ لیا اور اسی رات ان کا تبادلہ چندی گڑھ میں محکمہ زراعت کے انڈر سکریٹری کے طور پر کر دیا گیا۔ اس کے بعد کی باغی طبعیت کے صلے میں مسلسل تبادلے ہوتے رہے۔
1995 میں روہتک میں پوسٹنگ کے دوران انہوں نے ایک پٹاخہ اسٹور کا لائسنس منسوخ کر دیا۔ ان کے بالائی آفیسر نے اس منسوخی کو رد کر دیا۔ زیادہ دن نہ گزرے کہ اسی اسٹور میں آتشزنی میں کئی بچوں کی اموات واقع ہوئیں اور کھیمکا کے فیصلے کی خبر میڈیا میں سراہی گئی۔
اسی برس دسمبر میں وہ ہریانہ زراعتی یونیورسٹی کے رجسٹرار مقرر ہوئے۔ انہوں نے وائس چانسلر کی جانب سے کی گئی تقرریوں کو بے ضابطہ ہونے کی بنیاد پر منسوخ کر دیا۔ چار ماہ بعد وہ ضلع جند کے اڈیشنل ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے۔ یہاں انہوں نے منریگا اسکیم کے تحت نہروں کی کھدائی مشینوں سے ہوتی ہوئی پائی جب کہ اس اسکیم کے تحت دیہی عوام کو ملازمت کی فراہمی کا منصوبہ تھا۔ بالائی حکام فرضی مزدوروں کی فہرست بتا کر سرکاری خزانہ لوٹتے پائے گئے۔ اس اسکام کو افشا کرنے کے الزام میں انہیں کو آپریٹیو سوسائٹیز کا رجسٹرار بنا کر جند سے چندی گڑھ روانہ کردیا گیا۔
ان مسلسل تقرریوں اور تبادلوں سے واضح تھا کہ سیاسی سربراہ اور وزرا منفعت کی خاطر ٹھیکیداروں اور تاجروں سے گہرے مراسم رکھتے ہیں اور فرض شناس افسروں کی ایمانداری اور قانون کے اطلاق اور ضابطوں کی پابندی ان کی آخری ترجیح ہوتے ہیں۔ اب انہیں یقین ہو چلا تھا کہ انتظامیہ میں ایماندار اور فرض شناس افسروں کی بجائے سیاستدانوں کی بلاچوں و چرا تابعداری (conformism) کرنے والے حکام کی تقرریاں پائیدار ہوتی ہیں۔ سیاستدانوں اور تاجروں کو راست باز اور حق گو اہلکار ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ انتظامیہ کے پہیے رشوت کی گریز (Grease) سے ہی متحرک رہتے ہیں اور بے داغ افسروں سے ملکی انتظامیہ خالی ہے۔
کھیمکا پھر بھی ڈٹے رہے اور ایمانداری اور یوں راست روی کا دامن نہ چھوڑنے کا عزم مستحکم ہوتا گیا۔ کہیں انہوں نے وزیر اعلیٰ کی جانب سے اساتذہ کی تقرریوں میں سفارش کو نظر انداز کرنے کی سزا بھگتی اور کہیں کسی وزیر کے منظور نظر دیہی ڈاکٹر کے عہدے سے بلا اجازت غائب رہنے پر تنخواہ میں کٹوتی پر اعلیٰ حکام کے عتاب کا شکار ہوئے۔ 2004 میں جب وہ سکنڈری تعلیم کے محکمہ کے سکریٹری مقرر ہوئے تو محکمہ کو ٹرانسفر انڈسٹری میں تبدیل پایا۔ اساتذہ کی جانب سے 800 عرضیاں تبادلے کی منتظر تھیں۔ انہوں نے ٹرانسفر کے پروسیس کو کالعدم کر کے محکمہ کے نوٹس بورڈ پر ٹرانسفر کے خلاف عام حکم چسپاں کروایا۔ 2007 میں محکمہ مالیات کے اسپیشل سکریٹری مقرر ہونے پر انہوں نے ریلائنس کے اسپیشل اکنامک زون (SEZ) کو خصوصی رعایات دینے پر اعتراضات اٹھائے۔ کیتھل میں تقرری پر مقامی بینکوں میں کئی فراڈ کے کیسوں کو افشا کیا۔ 2007 میں محکمہ زراعت کے سکریٹری کے عہدے پر فائز ہونے پر انہوں نے انتہائی عرق ریزی سے کسانوں کو دی جارہی برقی سبسیڈی کے نام پر برقی سرقہ کا سراغ لگایا۔ دراصل حکام کسانوں کے نام پر بجلی کا بل منڈھ کر اس بجلی کو صنعتوں کو سپلائی کر دیا کرتے تھے اور اس میں نیچے سے اوپر تک تمام اہل کار ملوث تھے اور موٹی رقمیں وزیر ترقیات کو بھی دی جاتی تھیں۔ انہوں نے اعداد وشمار سے ثابت کیا کہ ہریانہ برقی سربراہی محکمہ جتنی برقی سپلائی کی سبسیڈی وصول کرتا ہے اس کے مطابق ہر کسان سالانہ 2236 گھنٹے پانی کے پمپ چلاتا ہے جبکہ ایک اوسط کسان کو 400 سے 500 گھنٹے پمپ چلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کھیمکا کے مطابق برقی محکمہ کے اہل کار سالانہ 1700 کروڑ روپیوں کی بجلی کا سرقہ کر رہے تھے۔ ان کی اس اسٹڈی کے میڈیا میں آنے پر حکام بلبلا اٹھے اور دوسری صبح کھیمکا کا ہریانہ اسٹیٹ ویئر ہاوزنگ میں تبادلہ کر دیا گیا جہاں بھی انہیں محض 50 دن برداشت کیا گیا۔
عوامی مفادات کے تئیں اشوک کھیمکا کی یہ وفاداری ہمیشہ سیاستدانوں کی نگاہ میں کھٹکتی رہی۔ رابرٹ وڈرا اور ڈی ایل ایف ڈیل کے افشا ہونے پر انہیں بی جے پی کا وفادار ثابت کرنے کی کوشش بھی ہوئی مگر ہریانہ کی کھٹر سرکار نے بھی انہیں خطرہ گردانا اور ان کو غیر اہم پوسٹنگس دیں جس سے عیاں تھا کہ کرپشن، بدعنوانی اور ایماندار انتظامیہ کے تئیں بی جے پی کا رویہ کانگریس سے مختلف نہ تھا۔ کھٹر سرکار نے ان کے ACR کو Downgrade بھی کرنے کی کوشش کی مگر سول سرویسز بورڈ (CSB) نے ان کی راست روی اور شفافیت کی قدر کرتے ہوئے دوبار ان کو 9.92 گریڈ عطا کیا۔ کسی ایک معاملے میں وزرا ان سے اتنے خفا ہوئے کہ ان کی سرکاری کار واپس لے لی اور میڈیا نے انہیںچنڈی گڑھ کے فٹ پاتھوں پر پیدل چلتے ہوئے تصاویر دکھائیں۔
کھیمکا کے مطابق ہندوستانی انتظامیہ میں ایماندار افسر نایاب ہیں۔ تمام انتظامی فیصلے غیر جانب داری اور انصاف کے اصولوں کے برعکس حکومتی وزرا کے مفاد کے مطابق کیے جاتے ہیں۔ وزرا کے احکام سے رو گردانی تبادلوں پر منتج ہوتی ہے۔ افسران تبادلوں کے خوف سے وزرا کی تابع داری کرتے ہیں۔ انتظامیہ غیر شفاف طریقوں کو اختیار کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ دستور اور محکماتی اصولوں اور ضابطوں کی خلاف ورزی عام ہے۔ حکومت جوابد ہی کے احساس سے مبرا ہے اور عوامی مفادات سے چشم پوشی کر کے پارٹی اور وزرا کے مفادات کی پاسداری کی راہ پر عامل ہوتی ہے۔ حکام میں بے اعتدالی، عدم مستعدی، کاغذی کارروائی کو طول دینے کی علت جاگزیں ہے۔ افسر شاہی رشوت کے عوض ہر ضابطے کی خلاف ورزی کو تیار ملتے ہیں۔ نچلے درجے کے ملازمین کام چور اور کام سے غائب رہنے کے عادی ہیں۔ مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد کھیمکا کو PMO لانے کے مسئلے پر غور بھی ہوا مگر بعد میں اعلیٰ حکام نے سرد مہری اختیار کر لی۔ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے افسروں کو میوزیم، آثار قدیمہ، لائبریری یا آرکیالوجی سروے جیسے محکموں کو تبادلہ کر دیا جاتا ہے جہاں کسی تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور افسروں کا کوئی مصرف نہیں۔ یہ تبادلے رشوت ستانی کی مکمل پردہ پوشی کر دیتے ہیں۔
کتاب کی مصنفین بھاودیپ کانگ اور نمیتا کلا نے آخری صفحات میں انتظامیہ کی اصلاح کی خاطر ہوئی کوششوں کا احاطہ بھی کیا ہے۔ ان کے مطابق اشوک کھیمکا کے تبادلے غیر معمولی ہیں۔ مگر اس سے قبل تمل ناڈو کیڈر کے پوسگایم کو بھی 20 برسوں میں 20 بار ٹرانسفر کیا گیا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے معدنیات کی کانوں میں ایک اسکام کا پردہ فاش کیا تھا۔ ایک اور افسر ارون بھاٹیہ کو 24 برسوں کی سرویس میں 24 مرتبہ ٹرانسفر کیا گیا۔ بھاٹیہ کے مطابق ٹرانسفر وزرا اور حکام کے جرائم اور کرپشن کی پردہ پوشی کے لیے کیے جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں ملک کی عدالت عظمیٰ نے اپنی ایک رولنگ میں یہ ہدایت کی تھی کہ بالائی افسروں کو چاہیے کہ اپنے ما تحت افسروں کو تحریری حکم دیں اور کسی افسر کو دو برس سے کم عرصے میں ٹرانسفر نہ کیا جائے مگر ظاہر ہے کہ وزرا اور اعلیٰ حکام غیر دستوری، ضابطے کے خلاف اور رشوت کو فروغ دینے والے احکام تحریر طور پر نہیں دے سکتے۔ لہذا عدالت عظمیٰ کی اس ہدایت کو Mandotry بتانے کی ضرورت ہے اور حکومت چاہے جس پارٹی کی ہو وہ ایسا کرنا خطرے سے خالی نہیں سمجھتی۔ Just Transferred ہندوستانی انتظامیہ کے dilemmas کو بخوبی Highlight کرتی ہے اور ہندوستانی political economy کے منہ پر بھرپور طمانچہ ہے اور ملک کے crony capitalism کی تصویر کشی ہے جہاں کوئی فیصلہ راست روی، شفافیت اور انصاف پر مبنی نہیں ہوتا۔ ہر فیصلے کے پیچھے کوئی مالی منفعت، سیاسی فائدہ یا کوئی انتخابی رعایت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ایسے میں اشوک کھیمکا جیسے افسر کیونکر پیدا ہوں جو ذاتی خطرات اور ٹرانسفرز کی پروا کیے بغیر سیاست دانوں کے غیر قانونی احکام کو مسترد کرنا اپنا فرض تصور کرتے ہیں اور جمہوریت کی اعلیٰ اقدار یعنی عوامی مفاد کے تحفظ کی خاطر اپنی جانیں جوکھم میں ڈالنے سے گریز نہیں کرتے۔
اس کتاب کو ہر وہ شخص پڑھے جو ہندوستانی انتظامیہ کی بدحالی اور بدعنوانی کے پس پشت وجوہات کے مطالعہ کا خواہاں ہے۔
***

راست اور حق گو اور ذاتی طور پر انتظامیہ کو بدعنوانی اور کرپشن سے پاک کرنے کے جذبہ سے معمور اشوک کھیمکا ملک کے وہ آئی اے ایس آفیسر ہیں جنہوں نے سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کا مسلسل پردہ فاش کیا ہے اور عہدوں سے ٹرانسفر سے بے خوف رہ کر ہر قسم کے چیلنجز قبول کیے۔ رشوت ستانی کے خلاف رخنہ انداز ہونے کی بنا پر 27برس کی سرویس میں جنہیں 53دفعہ ٹرانسفر کیا گیا

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 فروری تا 6 مارچ 2021