کسان احتجاج: اگر کسان قوانین کی معطلی پر راضی ہوں گے تبھی مرکزی حکومت بات چیت کا دوبارہ آغاز کرے گی، وزیر زراعت کا بیان

نئی دہلی، فروری 25: مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے بدھ کے روز کہا کہ مرکز زراعت کے تین نئے قوانین پر کسان یونینوں کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے لیکن صرف اس صورت میں جب وہ حکومت کی طرف سے اس قانون کو 18 ماہ کے لیے معطل کرنے کی پیش کش کا جواب دیں۔ تومر نے کہا کہ مرکز اور کسانوں کے درمیان اختلافات کو مشترکہ کمیٹی کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔

وزیر زراعت مرکزی حکومت کی پی ایم-کسان اسکیم کے دو سال مکمل ہونے کے موقع پر ایک پروگرام میں میڈیا سے بات کر رہے تھے، جس کے تحت اہل کاشتکاروں کو سالانہ 6،000 روپے کی نقد امداد فراہم کی جاتی ہے۔

پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق کسان رہنما راکیش ٹکیت کے ذریعے پارلیمنٹ تک 40 لاکھ ٹریکٹر کے ساتھ مارچ کرنے کے اعلان پر ایک سوال کے جواب میں تومر نے کہا کہ مرکز کسانوں کے مطالبات کے بارے میں حساس ہے۔

انھوں نے کہا ’’حکومت ہند نے ہمیشہ کسانوں کے ساتھ بہت حساسیت کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ آج بھی، جب بھی ان کا جواب آتا ہے، حکومت ہمیشہ بات چیت کے لیے تیار رہتی ہے۔‘‘

واضح رہے کہ کسانوں اور مرکزی حکومت کے مابین مذاکرات 22 جنوری کو ہونے والے گیارہویں دور کی میٹنگ کے بعد سے تعطل کا شکار ہیں۔ اس اجلاس میں مرکز نے کسانوں سے کہا تھا کہ زرعی قوانین کے نفاذ کی عارضی معطلی کی تجویز پر غور کریں۔

اس سے قبل 20 جنوری کو کسانوں نے حکومت کی اس تجویز کو مسترد کردیا تھا اور تینوں قوانین کی منسوخی کے اپنے مطالبے پر قائم رہے تھے۔

دریں اثنا کسان یونینوں کی ایک مشترکہ تنظیم کسان سمیکت مورچہ نے بدھ کے روز صدر رام ناتھ کووند کو خط لکھا، جسے کسانوں نے ’’دامن ورودھی دوس‘‘ (جبر مخالف دن) کے طور پر منایا۔

خط میں کسانوں کی تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ جن مظاہرین کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے انھیں فوری طور پر رہا کیا جائے اور ان کے خلاف اور اس احتجاج سے ہمدردی رکھنے والوں کے خلاف درج مقدمات واپس لیے جائیں۔

انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ مرکزی ایجنسیاں مظاہرین کو نوٹس بھیجنا بند کریں اور دہلی پولیس دارالحکومت کی حدود میں لگائے گئے رکاوٹیں ہٹائے۔

ایک الگ پریس نوٹ میں کسانوں کے ادارہ نے منگل کے روز ماحولیاتی کارکن دشا روی کی منظور شدہ ضمانت کا خیرمقدم کیا اور احتجاج کے حامیوں کے خلاف پولیس کی کارروائی کی مذمت کی۔