کردار کے غازی

ڈاکٹر بشیر احمد:میرے استادمیرے مربی

نذیر احمد (کویت)

 

مغرب کی اذان ہونے کو تھی۔ میں ’ہمارا دین‘ کے مسودے کا مطالعہ کر رہا تھا کہ موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ اسکرین پر چچا زاد بھائی عامر (قطر) کا نام دیکھ کر کال ریسیو کی۔ سلام کے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی عامر نے کہا ’ نذیر بھیا! ابا کو ہارٹ اَٹیک ہوا ہے اور انہیں ہاسپٹل لے جایا جا رہا ہے۔ میں نے اسے حوصلہ دیا اور کال ڈسکنکٹ کر کے کسی تاخیر کے بغیر برادرم نثار احمد اور برادرم معین احمد (کریم نگر) سے رابطہ قائم کرنے کوشش کی لیکن پھر اس خیال سے کہ شاید وہ دونوں اسپتال کی کارروائیوں میں مصروف ہوں گے، چچازاد بہن کو کال کی، کال ریسیو ہوئی۔انہوں نے روتے ہوئے بمشکل اتنا ہی کہا: نذیر بھیا! ’ابا کا انتقال ہو گیا‘ اور فون ڈسکنکٹ ہو گیا۔
مجھ پر یہ روح فرسا خبر بجلی بن کر گری۔ بلند آواز میں ’اِنّاللہ ِوَ اِنّا اِلیہ راجعُون ‘ سُن کر باورچی خانہ سے میری بڑی بیٹی ثناء کمرے میں آ گئی اور میری آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ اپنے آپ پر کنٹرول کرتے ہوئے میں نے اُس کی تشویشناک خاموشی سے پوچھے جانے والے سوال کا جواب دیا۔ وہ صبر کی تلقین کر رہی تھی لیکن میری آنکھوں میں چچا کے ساتھ گزارے ہوئے مناظر ایک ایک کر کے فلم کی رِیل کی طرح آ جا رہے تھے۔
چچا جان سے میرا تعلق کچھ مہینوں یا کچھ سال کا نہیں بلکہ کم و بیش ۵۴ سال کے عرصے پر محیط تھا جن میں سے ۱۴ سال تو میں راست ان کی زیرِ نگرانی رہا۔ میں صرف چھ سال کا تھا جب وہ مجھے اپنے ساتھ کورٹلہ (کریم نگر) لے گئے اور ۲۰ سال کی عمر تک میں مسلسل ان کے زیر عاطِفت رہا۔ میرا بچپن، اسکول اور جونیر کالج کے تعلیمی سال ان کی راست نگرانی وسرپرستی میں گزرے۔ ایک بچہ جب مشترکہ خاندان میں رہتا ہے تو اُسے ماں باپ کے علاوہ دادا دادی یا نانا نانی اور دیگر افراد کی محبتیں اور چاہتیں ملتی ہیں۔ لیکن جب وہ اپنے کسی عزیز کے پاس منتقل ہوتا ہے تو وہ اِن میں اکثر محبتوں سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کی ساری محبتوں کا محور و مرکز وہ شخص ہو جاتا ہے جو اُس پر تھوڑی بہت ہی سہی توجہ دیتا ہے۔ چاہے بدلے میں اسے محبت یا شفقت ملے یا نہ ملے۔ چچا تو میرے لیے شفقت اور محبت کا ایک بحرِ بیکراں تھے اور یہی صفت اُن سے میری والہانہ وابستگی کا باعث بنی اور عمر میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ان سے میرا تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ کوئی بھی بچہ ماں باپ سے جدائی برداشت نہیں کر سکتا اور نہ بچے سے بچھڑ کر ماں باپ خوش رہ سکتے ہیں۔ میرےوالد ولیج ڈیولپمنٹ آفیسر تھے، اُن کا تقرر بالعموم قصبوں کی پنچایت سمیتی پر ہوتا تھا اور قصبوں میں دینی تعلیم کا تصوّر ہی ممکن نہ تھا۔ کسی بھی مقصد کے لیے بچہ کو اپنے سے جُدا کرنا بہت بڑی قربانی ہے۔ امی مجھے بھیجنے کے لیے راضی نہ تھیں۔ بہر کیف میری تعلیم کے پیشِ نظر ‘دل پر پتھر رکھ کر ابّا اور امی نے مجھے چچا کے ساتھ بھیج دیا۔ کچھ دن بعد امی ابا کی جدائی نے مجھے بیمار کر ڈالا۔ چچا نے علاج کیا اور چچی نے تیمارداری کی اور اِس طرح پہلی مرتبہ میں نے اپنے لیے اُن دونوں کی توجہ محسوس کی۔ چچا اور چچی نے مجھے سنبھالا‘ تیمارداری کی اور بے حد خیال رکھا۔ اس دوران اتنی توجہ اور محبت ملی کہ ۶ سالہ لڑکا اپنے ماں باپ کی جدائی کا غم بھول گیا۔ پھر ۱۴ سال کیسے گزر گئے پتہ ہی نہ چلا۔ چھٹیوں میں ڈیڑھ دو ماہ امی ابا اور بہنوں کے ساتھ گزارتا پھر چچا کے پاس آ جاتا۔ چچا کا تبادلہ کورٹلہ سے ماناکنڈور اور پھر وہاں سے کریم نگر ہو گیا۔ چچا جو کریم نگر آئے تو وہیں کے ہو رہے۔ اہلِ خاندان نے بہت کوشش کی کہ وہ اپنے وطن نلگنڈہ یا حیدرآباد تبادلہ کروالیں اور منتقل ہو جائیں لیکن جماعت اسلامی ہند سے تعلق اور بچوں کی دینی تعلیم کے پیشِ نظر مدرسہ لطیفیہ اور جامعہ دارالھدیٰ سے قلبی لگاو نے اُنہیں وہیں کا بنا کر رکھ دیا۔ چنانچہ میں اور میرے تمام چچا زاد بھائی بہنوں نے انٹرمیڈیٹ تک وہیں تعلیم حاصل کی۔ انہیں جامعہ دارالھدیٰ سے اتنا زیادہ قلبی لگاو تھا کہ اس کی حیدرآباد منتقلی کے بعد بھی میرے چچا زاد بھائیوں نے اپنی پرائمری اور ہائی اسکول کی تعلیم جامعہ دارالھُدیٰ (حیدرآباد) ہی سےحاصل کی۔
چچا بشیر احمد صاحب پیشے سے ڈاکٹر اور سرکاری ملازم تھے، انہوں نے ایک طویل عرصہ تقریباً ۲۷ سال یونانی دواخانہ کریم نگر میں بحیثیتِ ڈاکٹر اپنی خدمات انجام دیں۔ وہ ایک ایمان دار اور دیانت دار ڈاکٹر تھے۔ دواخانہ اور رہائش ایک ہی عمارت میں تھے لیکن اس کے باوجود ان ۱۴ برسوں میں اُنہیں ایک دفعہ بھی ڈیوٹی کے اوقات میں گھر پر وقت گزارتے نہیں دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ دواخانہ کا عملہ بھی کبھی بلا عذر غیر حاضر نہیں ہوتا۔ اُن کے لیے عملہ گھر کے افراد کی طرح تھا۔ سارا عملہ اُن کی تعظیم کرتا تھا۔ملازمت سے سبکدوشی کے بعد وہ دینی و تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نہ صرف کریسنٹ ہائی اسکول اور بی ایڈ کالج قائم کیا بلکہ وقت ضرورت آٹھویں، نویں اور دسویں کی کلاسوں کو زبانِ دوّم ’اردو‘ کی اس طرح تدریس کی کہ بقول اُن کے ایک سال میں طلباء ’دینیات ‘ پڑھنے کے قابل ہو گئے۔ انہوں نے مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی کی طبع شدہ بنیادی درسی کتب ’اسلامیات‘ کا انگلش اور تلگو زبان میں ترجمہ کیا اور کریم نگر کے گاؤں گاؤں میں تقسیم کا طویل منصوبہ اور پروگرامس بنا کر اس پر عمل آوری میں مصروف ہوگئے تھے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد اکثر لوگ آرام کرنا چاہتے ہیں لیکن چچا نے اپنی مصروفیات میں اور بھی اضافہ کرلیا تھا۔ میرے والد اور چچا دونوں اپنی عمر کے ۸۸ اور ۸۴ سال میں داخل ہو چکے تھے۔ جب والد صاحب صحت پر توجہ دینے اور آرام کرنے کے لیے کہتے تو جواب دیتے کہ بھائی جان! ہم بونس زندگی گزار رہے ہیں آخرت کے لیے جو کچھ ممکن ہے کر لینے دو۔
گزشتہ سال لاک ڈاؤن کی وجہ سے میں حیدرآباد نہیں آ سکا تو مجھے فون کیا اور کہا: میں تین زبانوں؛ اُردو، انگلش اور تلگو میں ایک ایسی دینی بنیادی کتاب تیار کروانا چاہتا ہوں جس میں دین کی بنیادی باتیں، اسلام اور ایمان کی مختصر تعلیمات، عبادات اور اُن کا طریقہ ‘حضورؐ کی مختصر سیرت، صحابہ و صحابیات اور اُمہات المومنات (رض) اور تابعین کے مختصر حالات، آخری پارہ کی ۲۰ سورتیں، مسنون دُعائیں، طہارت، وضو اور نماز کا طریقہ وغیرہ شامل ہوں اور یہ کتاب گاؤں کے ہر مسلم گھر تک پہنچے اور گاؤں میں بسنے والے مسلمان اور کم پڑھے لکھے افراد اِس کتاب سے فیض یاب ہو سکیں۔ پھر مجھ سے کہا کہ تین چار دِنوں میں اِس کتاب کے لیے فہرستِ موضوعات مرتب کر کے بھیج دوں۔ اور یہ بھی کہا کہ لاک ڈاؤن اور رمضان کی شب بیداریوں میں یہ کام بہ آسانی ممکن ہے۔ میں نے اُسی رات فہرست تیار کی اور نظرِ ثانی کے بعد بھیج دی۔ دوسرے دن رات فون پر بے اِنتہا خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس فہرست پر چند اور رفقاء سے رائے کے بعد کتاب کا مسودہ تیار کیا جائے گا۔ انتقال سے ایک ماہ قبل فون پر اطلاع دی کہ رفقاء نے کتاب کا نام ’ہمارا دین‘ تجویز کیا ہے۔پھر کتاب کا مسوّدہ مجھے بھیج کر تاکید کی کہ جلد از جلد نظر ثانی کروں۔
چچا صرف گفتار کے نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی تھے۔ اُنہوں نے عملی طور پر ہماری فکری و عملی تربیت کی۔ یہ تحریر لکھنے کا مقصد دراصل اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ اولاد کی تربیت ایک طویل مدتی کام ہے۔ یہ اسی وقت سے شروع ہونی چاہیے جب بچہ اپنے ارد گرد کے رشتوں کو جاننے لگتا ہے۔ اس وقت سے ماں باپ کے دنیا سے رخصت ہونے تک اولاد اُن سے شعوری یا لاشعوری طور پر تربیت حاصل کرتی رہتی ہے۔ لڑکے اپنے والد کی بہت ساری صفات کو اپنے اندر جذب کرتے جاتے ہیں۔ میں نے اس مضمون میں چچا کی زندگی کے اُن پہلووں کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو اِنشاءاللہ تحریکی افراد کو اپنی اولاد کی عملی تربیت کرنے میں کار آمد ثابت ہوں گے۔
چچا کے گھر میں ہماری صبح کا آغاز فجر کی اذان کے بعد چچا کی آواز سے ہوتا۔ نذیر! نذیر! نثار! اس آواز کے ہم اتنے عادی ہو گئے تھے کہ کبھی کبھی ہم جاگتے ہوئے بھی لا شعوری طور پر چچا کی اس آواز کے منتظر رہتے۔ الغرض چچا کی آواز پر ہم سب جاگ جاتے اور چند لمحوں میں نماز کے لیے گھر سے نکلتے۔ چچا آگے میں، نثار اور جاوید ان کے پیچھے پیچھے جامع مسجد جاتے اور فجر کی نماز ادا کرتے۔ نمازِ فجر کے بعد چچا اور ہم سب قرآن کی تلاوت کرتے۔ تلاوت کے بعد پندرہ منٹ ہم تمام کو ہلکی ورزش کرواتے۔ ناشتہ تک ہم اپنا ہوم ورک کرتے اور چچا چھوٹے بھائی بہنوں کو پڑھاتے۔ ناشتہ پر ہر ایک سے گزشتہ کل کی نمازوں اور اُس دن کی فجر کی نماز کا پوچھتے۔اگر کسی سے کوئی نماز چھوٹی ہو تو ان کو نماز کی قضاء پڑھنے کے بعد ہی ناشتہ ملتا۔جماعتِ سوم اور چہارم میں داخلہ تک ہم کو ہر روز صبح فجر سے ناشتہ تک پڑھاتے تھے۔ اگر کسی دن کسی بہانے سے ہم اسکول نہ جاتے تو ڈانٹنے یا غصّہ کرنے کے بجائے اِتنا ہوم ورک کرواتے کہ ہمارے لیے اسکول سے غیر حاضر ہونے کا تصوّر بھی محال تھا۔ عصر کے بعد وہ ہمیں کھیل کود کی تاکید کرتے تھے اور ہمیں گھر میں بیٹھے رہنے سے منع کرتے۔یہی وجہ تھی کہ گھر کے صحن میں ہم تینوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ کبھی کرکٹ، کبھی فٹ بال اور کبھی ہاکی کھیلی۔ ہم بیمار ہوتے تو صبح نمازِ فجر کے بعد آ کر بازو بیٹھ جاتے، ٹمپریچر چیک کرتے، منہ ہاتھ دھونے اور خصوصی ناشتہ کے لیے کہتے، دوا دیتے، انجکشن بھی لگاتے۔ دوپہر میں قیلولہ سے پہلے پھر چیک کرتے۔ دوا پابندی سے لینے کی تاکید کرتے۔ رات میں کلینک سے واپس آتے تو چچی سے غذا اور دوا کے بارے میں استفسار کرتے، عشائیہ سے پہلے چیک کرتے اور کچھ دیر قریب بیٹھ کر حوصلہ دیتے۔وہ جہاں ہماری کامیابیوں پر تعریف و توصیف کرتے وہیں غلطیوں پر سزا بھی دیتے۔ چھوٹی غلطی پر سرزنش کی جاتی اگر زیادہ ناراض ہو جاتے تو ایک وقت کا کھانا روک دینے کا حکم ہوتا۔ لیکن پھر چچی سے کہہ کر جاتے کہ اُن کے غیاب میں کھانا کھلایا دیا جائے اور ہمیں یہ احساس ہو کہ سزا برقرار ہے لیکن چچی ہمیں بھوکا نہیں دیکھ سکتیں۔
ہمارے دوستوں کے ساتھ بھی شفقت سے پیش آتے، انہیں پُرخلوص مشوروں سے نوازتے، کھانے کا وقت ہوتا تو اصرار کر کے کھانا کھلاتے۔
اِنٹر میڈیٹ میں میرے دو نئے دوست بنے پرکاش راؤ اور مرُلی کرشنا، مجھ سے ملنے اکثر آتے تھے اِن دونوں کے ساتھ بھی مشفقانہ رویہ تھا۔ امتحانات سے دو تین ماہ قبل کوئی بھی میچ کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔ مگر یہ دونوں آتے اور چچا سے اجازت لیتے اور مجھے کھیلنے کی اجازت مل جاتی۔ اب پرکاش راؤ اِسرو میں کسی ڈویژن کے ڈائرکٹرہیں جبکہ مرُلی کرشنا ایک یم ین سی میں مینیجر کی حیثیت سے بر سرِروزگار ہیں۔ یہ دونوں چچا کی بہت عزّت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے۔
چچا جب بھی رشتے داروں سے ملاقات کرتے تو ان کے بچوں کی تعلیم کا ضرور پوچھتے اور جو تعلیمی میدان میں امتیازی نشانات سے کامیاب ہوتے ان کی ستائش کرتے اور خاندان کے نوجوانوں کی تعلیمی، معاشی کاوشوں اور کوششوں کو سراہتے۔ برملا ان کی تعریف و توصیف کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے۔
میری دوسری بیٹی کو انگریزی ترجمہ کے ساتھ قرآن کو مکمل پڑھنے کے لیے کہا اور کہا کہ جب تم مکمل کرلو تو مجھے بتانا۔ بیٹی نے پورا ترجمہ پڑھنے کے بعد چچا کو بتایا تو چچا نے بطور انعام اسے ایک ہزار روپے دیے۔ میری بیٹی نے خوشی سے بتایا کہ چچا نے پڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی بھی کی اور پھر ایسے سراہا۔
بچوں کی تعلیم میں دلچسپی
چچا جان کو بچوں کی دینی تعلیم میں بے انتہا دلچسپی تھی اور ہمیشہ ہماری تعلیمی استعداد کو بلند کرنے اور درخشاں مستقبل کی بے انتہا فکر کرتے تھے۔ چنانچہ مجھے ہی نہیں بلکہ اپنی نسبتی ہمشیرہ اور نسبتی برادر معین الدین کو بھی مدرسہ لطیفیہ میں داخل کروایا۔ وہ اپنے ماموں جناب حبیب الدین اسلم صاحب سے بہت زیادہ مانوس تھے چنانچہ اُن کے تین فرزندوں نصیر الدین، مظہرالدین اور عارف الدین کو مدرسہ لطیفیہ اور جامعہ دارالہدیٰ میں حصولِ تعلیم کے لیے حیدرآباد سے کریم نگر لے آئے۔
امّی مرحومہ نے بتایا تھا کہ میں جب پڑھنے کی عمر کو پہنچا تو ابا جان میرے لیے ’منّی کتاب‘ لائے ۔دو تین ماہ بعد چچا بھی یہی ’منّی کتاب‘ میرے لیے لے آئے۔ اِس طرح چچا کا پہلا تحفہ میرے لیے ایک کتاب ہی تھی۔
چچا کا تبادلہ ماناکنڈور ہوا تب سے گھر پر ہماری تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ پہلے مجھے اور نثار کو مسجد کے مدرسہ داخل کیا جہاں ہم دونوں نے کچھ مہینوں میں ناظرہ قرآنِ مجید ختم کیا۔ گھر پر ہم دونوں کو خود اُنہوں نے اِس طرح پڑھایا کہ مجھے جامعہ دارالھدیٰ میں جماعت ششم میں اور نثار کو مدرسہ لطیفیہ جماعت پنجم میں راست داخلہ ملا۔ اس سے پہلے میں اور نثار نے کسی اسکول میں داخلہ نہیں لیا تھا۔ چچا کی دی گئی اِس بنیادی تعلیم کی بنیاد پر نہ صرف جامعہ میں داخلہ ملا بلکہ میں ہر جماعت میں اوّل رہا۔
چچا اپنے زمانہ طالبِ علمی میں یونانی طبی کالج کی فٹ بال ٹیم کے کپتان تھے۔ وہ جب ماناکنڈور میں برسرکار تھے تو وہاں کی لائنس کلب بیاڈمنٹن ٹیم کے ممبر تھے اور پابندی سے کھیلتے تھے۔چنانچہ ہمیں بھی ہر تقریری، تحریری، کوئز، پیننگ اور اسپورٹس کے ہر مقابلے میں حصہ لینے کی ترغیب دیتے تھے۔ ان کی اسی حوصلہ افزائی کے سبب جونیر کالج کے آخری سال کالج ڈے فنکشن پر میں نے نو انعامات حاصل کیے۔ ان سرٹیفیکیٹس کو انہوں نے اس طرح لیا گویا خود اُنہوں نے وہ انعامات حاصل کیے ہوں۔ چچا کی ستائشی نگاہیں آج بھی نگاہوں میں محفوظ ہیں اور تعریفی و توصیفی کلمات آج بھی میرے کانوں میں مرتعش ہوتے رہتے ہیں۔
چچا جان اور اُستاذِ محترم جناب عباداللہ صاحب کی خواہش تھی کہ جامعہ کے ان ۱۷ طلباء کا گروپ میڈیسن اور اِنجنیئرنگ کے انٹرنس میں کامیابی حاصل کرے۔ چنانچہ اُن دونوں نے اس وقت کریم نگر کے بہترین لیکچررز کو ہمیں پڑھانے کے لیے منتخب کیا۔ چنانچہ خلیل اللہ حسینی صاحب نے طبعیات، عبدالقیّوم صاحب اور لیلا راج میڈم نے کیمیا، نقوی صاحب نے حیاتیات اور ریاضی کی تدریس پدما ریڈی صاحب اور لکشمن راؤ صاحب نے کی۔ چچا جان کی اس دل چسپی کے سبب طلبائے جامعہ کے اس گروپ کے تقریباً تمام ہی نے تعلیم میں بہت اچھی پوزیشن حاصل کی۔
تحریک سے تعلق
تحریک اسلامی سے ہمارے تعلق کی مضبوطی میں بھی چچا جان کا اہم رول رہا۔ جامعہ کے طالبِ علم کی حیثیت سے ہم جماعت ہی کے مستقبل تھے۔ مگر بہت کم والدین ایسے تھے جو اپنے بچوں کے ساتھ جماعت کے اِجتماعات میں شرکت کرتے تھے۔ مسجدِ جعفری میں ہفتہ وار دروس میں خود بھی شریک رہتے اور ہمیں بھی شرکت کی تاکید کرتے۔ ماہانہ اجتماع عام میں اپنے ساتھ لے جاتے۔ نمازِ ظہر کےبعد تنظیمی نشست ہوتی تھی تو ہم بچے واپس آجاتے۔
اِسٹوڈنٹس اِسلامک یونین آندھرا پردیش کے قیام کے لیے جب ہر مقامی جماعت سے دو دو طلباء کو حلقہ بھیجنے کے لیے کہا گیا تو ناظمِ ضلع کریم نگر جناب عبد الخالق لطیفی مرحوم نے عبد اللطیف جاوید (نیلوفر میڈیکل) اور چچا سے مشورہ کر کے مجھے منتخب کیا۔ یہیں سے میرے تحریکی سفر کا آغاز ہوا۔ وہ سہ روزہ اِجلاس سابق نائب امیرِ جماعت مولانا عبدلعزیزؒ صاحب کی زیرِ نگرانی منعقد ہوا تھا اور اُس اِجلاس کے کو-آرڈینیٹر محترم شکیل احمد انور صاحب تھے۔اِجلاس میں اُس وقت کے حلقہ طلباء حیدرآباد کے ممبرس جناب عبد الباسط انور صاحب اور خواجہ عارف الدین صاحب مرحوم (بعد میں یہ دونوں اُمرائے حلقہ آندھراپردیش منتخب ہوئے)، مرحوم غیاث صدیقی، مرحوم انوار الحسن صاحب، نعیم احمد صاحب اور عبدالعزیز صاحب نظام آباد (موجودہ صدر یم پی جے تلنگانہ)، لطیف قریشی صاحب، ڈاکٹر خواجہ احمد شمسی ورنگل، شیخ داؤد صاحب وجے واڑہ و دیگر طلباء شریک تھے۔ اِس میٹنگ میں ایڈھاک کمیٹی کی تشکیل ہوئی اور اُس کے چار اجلاسوں میں مجھے شرکت کا موقع ملا اور ہر میٹنگ سے واپسی پر چچا ساری روداد دلچسپی سے سنتے تھے۔
تحریکی افراد کے ساتھ ان کا تعلق نہایت ہی مخلصانہ تھا۔ مولانا عبدالرزّاق لطیفی وبرادران، صلاح الدین صاحب مرحوم اور معین الدین صاحب سے پر خلوص تعلق تھا۔ تحریکی احباب کے علاوہ بھی اُن کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔
چچا بے حد صابر اور شاکر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ہمیشہ خاندان کو جوڑنے اور تمام افرادِ خاندان کو آپسی تعلقات مضبوط رکھنے پر زور دیتے تھے۔ میرے چچا صرف میرے ہی چچا نہیں تھے بلکہ میری پانچوں بیٹیوں کے بھی چچا تھے، میری بیٹیاں بلکہ میرے نواسہ نواسی بھی انہیں چچا ہی کہتے ہیں۔ چچا جب بھی گھر آتے والد صاحب سے دیر رات گئے تک گفتگو کرتے رہتے۔ رات کتنی بھی کیوں نہ ہو، میرے نواسے نواسی بھی اُن کو گھیرے رہتے، ان کے ساتھ باتیں کرتے، چچا ان بچوں کی طفلانہ باتوں سے محظوظ ہوتے اور خندہ دلی سے ان کی باتیں سنتے اُن کی شرارتوں اور شور شرابہ کو جبیں پر کوئی شکن لائے بغیر برداشت کرتے۔
بچوں کی تربیت کے اس مشکل کام میں چچی مرحومہ نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اللہ تعالیٰ دونوں کی مغفرت فرمائے، غریقِ رحمت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
***

ملازمت سے سبکدوشی کے بعد اکثر لوگ آرام کرنا چاہتے ہیں لیکن چچا نے اپنی مصروفیات میں اور بھی اضافہ کرلیا تھا۔ میرے والد اور چچا دونوں اپنی عمرکے ۸۸ اور ۸۴سال میں داخل ہوگئے تھے، جب والد صاحب صحت پر توجّہ اور آرام کا کہتے تو اکثر کہتے کہ بھائی ہم بونس زندگی گذار رہے ہیں آخرت کے لیے جو کچھ ممکن ہے کرلینے دو۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 21 مارچ تا  70 مارچ 2021