کانگریس میں داخلی خلفشار، نظریہ معنویت کھوچکا

2024 کے عام انتخابات کانگریس اور بی جے پی دونوں کے لیے فیصلہ کن

سلیم الہندیؔ، حیدرآباد

 

کانگریس کی پہلی صف کے قائدین کہتے ہیں کہ پارٹی کے مستقبل کو تہس نہس کرنے کے لیے مخالفین کے رکیک حملوں کا سلسلہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ ان کا راست اشارہ موجودہ حکومت، سرکاری ایجنسیوں، بنیاد پرست ہندو انجمنوں، فاشسٹ عناصر، بے پناہ دولت اور راست بی جے پی کی جانب ہے۔ ان الزامات کے علی الرغم کانگریس اپنی مسلسل ناکامیوں کو چھپا نہیں سکتی۔ وہ بی جے پی اور اس کی ہمنوا تنظیموں کے الزامات اور اعتراضات کا اطمینان بخش اور مؤثر جواب دینے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ملک میں جمہوریت کی بقاء، بہتر مستقبل، دستور کی پاسداری، پائیدار امن و امان کے قیام کے لیے اور ملک کی موجودہ ابتر صورت حال کے پیش نظر، سنجیدہ اور تعلیم یافتہ طبقہ کانگریس کی غیر کارکرد پالیسیوں کی وجہ سے ناراض ہے۔ مخالفین کا ڈٹ کر پامردی کے ساتھ مقابلہ کرنے میں ناکامی اور پارٹی کی بد حواسی پر پارٹی سے والہانہ وابستگی رکھنے والوں کی اکثریت کانگریس کی بے اثر پالیسیوں سے بدظن، ناامید، مایوس، نالاں اور بہت تیزی کے ساتھ منتشر ہو رہی ہے۔
حکومت کے زیر اثر کام کرنے والا میڈیا اکثریتی طبقے کو مذہب کے نام پر علیحدہ شناخت بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کبھی باضابطہ سازش کے تحت کبھی قانون سازی کے ذریعے ملک میں معاشی طور پر پریشان اقلیتوں میں خوف پیدا کیا جا رہا ہے۔ عوام کی بولنے کی آزادی عملی طور پر سلب کی جا چکی ہے۔ زبان یا تحریر سے ایسے الفاظ کا ادا کرنا بھی گویا تعزیری جرم قرار دیا جانے لگا ہے جو اکثریت کے مزاج کو ناگوار لگے یا جن سے حکومت کی کارکردگی پر تنقید کا اظہار ہوتا ہو۔ ہاں! لیکن اکثریت کو اس کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ اقلیتوں کی دل آزاری کے لیے اپنی زبان پر جو بھی آیا وہ بلا جھجک و بلا روک ٹوک علی الاعلان کہہ دے۔ ایسی بدترین اخلاقی، دستوری اور سماجی بے راہ روی کو اگر آج قابو میں کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تو وطن کا مستقبل کس قدر تاریک ہو سکتا ہے اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہوگا۔
سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ کے آخری دو سال کے دوران، برسر اقتدار یو پی اے حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کے لیے ان کے خلاف اسکامس کی تحقیقات کا راستہ ڈھونڈ نکالا تھا۔ اس دوران اپوزیشن نے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے پیدا ہونے والے خلاء کو محسوس کرلیا تھا اور بروقت اور صحیح قدم اٹھاتے ہوئے نریندر مودی کو بطور وزیر اعظم اپوزیشن کے متوقع امیدوار کا اعلان کر دیا۔ سیاسی مخالفین کو اپنے راستے سے ہٹانے، چاہے وہ خود اپنے ہوں یا غیر، ان سے نپٹنے اور معقول سیاسی انتقام لینے کا طریقہ، بی جے پی نے کانگریس ہی سے سیکھا ہے۔ دستوری بندشوں سے آزاد حکمرانوں نے ملک میں نوٹ بندی جیسے بے رحم قانون کے نفاذ کا اچانک اعلان کر دیا تھا۔ اس بے رحمانہ اور سنگدل قانون کے نفاذ کے بعد برپا ہونے والی معاشی اور صنعتی تباہ کاریوں کے خلاف کانگریس نے کوئی قابل ذکر رول ادا نہیں کیا۔ نوٹ بندی کے نفاذ کے بعد بھی ملک میں دور دور تک خوش حالی کی کوئی کرن تک نظر نہیں آئی۔ اس قانون سے متاثر ہونے والے لوگ آج بھی حکومت کو کوستے ہیں۔ بالفاظ دیگر، اس قانون کے نفاذ کے خلاف مؤثر مورچہ کھولنے کے اس سنہری موقع کو کھو کر کانگریس نے ایک اور فاش غلطی کی اور زوال کی طرف آہستہ آہستہ خود ہی لڑھکتی رہی۔ بد قسمتی سے اس ناکامی کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ سیاسی مخالفت کے ایک ایسے نادر موقع کو ہاتھ سے گنوانے کے بعد کانگریس نے اپنی کوتاہی کے اسباب تلاش کرنے اور ایک مضبوط اپوزیشن کی حیثیت سے اگلا قدم اٹھانے کی منصوبہ بندی میں طویل وقت برباد کیا۔ اس دوران پارٹی قائدین کے درمیان آپسی نفرت، داخلی اختلافات، شخصی رقابتیں اور الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک ریاست کے انتخابات میں پارٹی کی ناقابل یقین اور ذلت آمیز ناکامی کے بعد صدر کانگریس راہول گاندھی نے اس شکست کی ذمہ داری اپنے سر لیتے ہوئے، پارٹی صدر کی حیثیت سے استعفی دے دیا۔ اس وقت بھی ایک زرین موقع تھا کہ پارٹی کے سینیئر قائدین میں سے کسی ایک کو متفقہ طور پر صدر منتخب کرلیا جاتا لیکن پارٹی نے یہ سنہری موقع بھی کھو دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بھی کانگریس کی کشتی بغیر ملاح کے ادھر ادھر بھٹک رہی ہے۔ پارٹی کے ذمہ داروں کو آج بھی موقع حاصل ہے کہ اپنی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کسی تجربہ کار ملاح کے حوالے کردیں جو اسے کامیابی کے ساتھ طوفان سے باہر نکالنے اور کنارے لگانے میں مہارت رکھتا ہو۔ یقیناً پارٹی میں ماہرین کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دوسری طرف عوام تذبذب کا شکار ہیں کہ پارٹی صدر کی حیثیت سے باضابطہ استعفیٰ دینے کے باوجود، راہول گاندھی آج کس مقام پر کھڑے ہیں؟ کیا وہ پارلیمنٹ میں دستوری طور پر بطور قائد حزب مخالف تسلیم کئے جاتے ہیں؟ دہلی میں بھی کانگریس کی مرکزی قیادت کی غیر واضح اور دھندلی صورت حال کے پس پردہ، قائدین کی آپسی کشمکش اور شخصی رقابتوں کے چرچے، صحافت کی دنیا میں عام ہیں جو مستقبل میں پارٹی کے لیے ضرر رساں ثابت ہو سکتے ہیں۔ داخلی اختلافات اور رقابتوں کی تازہ ترین مثال جیوتی رادھیتیا سندھیا اور سچن پائلٹ کی پارٹی سے بغاوت ہے۔ اس واقعے کو کسی صورت میں نظریاتی اختلاف سے جوڑا نہیں گیا بلکہ اسے شخصی ناراضگی اور انتظامیہ میں ان قائدین کی عدم شمولیت سے تعبیر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سندھیا کو مقامی قائدین کی پالیسیوں سے سخت اختلاف بتایا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھیا نے پارٹی کو یوں ہی بیٹھے بیٹھے خیر باد نہیں کہہ دیا۔ ان کے اور وزیر اعلیٰ کمل ناتھ کے درمیان ابتداء ہی سے نظریاتی اختلاف رہا ہے۔ ایک با اثر مقامی لیڈر ہونے کے باوجود وہ نہ صرف پالیسی سازی میں نظر انداز کئے جاتے رہے بلکہ وز یر اعلیٰ کے ذلت آمیز سلوک کا شکار بھی ہوتے رہے ۔ سچن پائلٹ کو بھی وزیر اعلی گہلوٹ کی جانب سے مسلسل نظر انداز کئے جانے کی شکایت رہی ہے۔ ایک پریس کانفرنس میں خود گہلوٹ نے کہا تھا کہ ریاست میں حکومت تشکیل دینے کے بعد سے پارٹی چھوڑنے تک سچن پائلٹ نے وزیر اعلیٰ سے نہ کبھی فون پر بات کی نہ شخصی طور پر ملاقات کی۔ اس بات سے ان قائدین کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی گہرائی کا اندازہ ایک عام آدمی بھی بہ آسانی لگا سکتا ہے۔
بات صرف اختلافات کی حد تک نہیں ہے بلکہ ان قائدین کی بھی ہے جو کسی عہدے کی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن اہم عہدوں پر فائز کئے جانے کے متمنی اور منتظر ضرور رہتے ہیں۔ بعض اوقات ان کی نا اہلی کی وجہ سے عہدہ نہ دئے جانے پر وہ پارٹی کے ذمہ داروں سے دور ی اختیار کرلیتے ہیں۔ عہدوں کے متمنی ایسے نا اہل لیڈر، وسیع القلبی اور وسیع النظری سے گریز کرتے ہیں، ذاتی مفادات کو مقدم رکھتے ہیں اور حریف پارٹی میں شامل ہونے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ ایسے خود غرض قائدین کو اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے کے باوجود نہ انہیں ووٹ دے کر منتخب کرنے والے عوام کے احساسات کا لحاظ ہوتا ہے نہ یہ اپنے ضمیر کی آواز سننا چاہتے ہیں۔ انہیں اپنی تمناؤں کی تکمیل کے لیے اٹھایا جانے والا ہر قدم صحیح لگتا ہے۔ ایسے قائدین بہت جلد اپنا مقام، کشش اور حیثیت کھو دیتے ہیں جو دراصل ان کے سیاسی کیرئیر کی تباہی کا نقطہ آغاز ثابت ہوتا ہے۔ ماضی میں ایک موقع پر بحیثیت جنرل سکریٹری راہول گاندھی نے موروثی طرز حکمرانی کی شدید مخالفت کی تھی اور موروثی سیاست کو ختم کرنے کے لیے اس کا حل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی کے کسی بھی عہدے کے لیے داخلی انتخابات کروائے جانے چاہئیں۔ لیکن اس بیش قیمتی تجویز پر پارٹی نے آج تک عمل کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ موروثی سیاست کے خلاف یہ جذبہ پارٹی کیڈر میں عنقا ہے۔ اس عنوان پر پارٹی کا کوئی بھی قائد کچھ بھی کہنے سے کتراتا ہے۔ آج پارٹی کارکنوں میں جمہوری اصولوں کی اساس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آگے بڑھنے کا کوئی شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ برخلاف اس کے، موروثی حکمرانی کے حق میں گفتگو کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔
سینئیر سیاسی قائدین کے اہل خاندان اپنے آپ کو بغیر کسی قربانی یا قابل ذکر خدمت کے سیاست میں داخلے اور حکمرانی میں حصہ داری کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ اسی بنیاد پر ریاستی سطح پر بیشتر سیاست داں عمل پیرا بھی ہیں۔ برسر اقتدار حکومت میں شامل کسی قائد کی موت ہو جائے تو فوراً اس کی بیوی، بیٹی، بیٹے، بھائی یا داماد کو کونسل کا رکن بناتے ہوئے، حکومت میں شامل کر لیا جانا اور اہم عہدے سے سرفراز کیا جانا عام طریقہ بن چکا ہے۔ اکثر اوقات ایسے ریڈی میڈ سیاست داں نا اہل ثابت ہوئے ہیں۔ معاملہ چاہے صدر کانگریس راہول گاندھی کا ہو یا سندھیا اور پائلٹ کا ہو، ناکامی یا دَل بدلنے کی پالیسی کا ہو، اہم سیاسی عہدوں کو وہ اپنا خاندانی حق سمجھتے ہیں جو ان کے لیے سرفرازی اور ترقی کے لذیذ ثمر کے مماثل ہے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ کانگریس کو پارٹی کے بنیادی اصولوں کے مطابق اپنے ہر کارکن کو ملک میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خلوص دل کے ساتھ وقف کرنے کی ترغیب دی جانی چاہئے۔ لیکن سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد اس بنیادی اصول پر شائد ہی کہیں عمل پیرا ہوتے ہوں۔ جب راہول گاندھی کے ساتھ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر چلنے والے قائدین، پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں علی الاعلان شامل ہو رہے ہوں تو زمینی سطح کے کارکنوں کے دماغوں میں یقیناً کچھ نہ کچھ تو پک ہی رہا ہوگا۔
بی جے پی میں شامل ہونے کی دھمکی دینے والے کانگریس کے وہ قائدین جو یا تو عملی طور پر بی جے پی میں شامل ہو چکے ہیں یا شمولیت کے لیے قطار میں منتظر کھڑے ہیں، ان کے متعلق یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں روز اول ہی سے سیکولرزم اور جمہوریت پر پر رتی برابر بھی یقین نہیں تھا۔ اس موقع پرست ٹولے سے دوبارہ وفاداری کی امید رکھتے ہوئے ان پر بھروسہ کرنا، کانگریس کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوگا۔ ایسے کٹھن ماحول میں پارٹی کے حامیوں کو آج بھی پکا یقین ہے کہ پارٹی کا مستقبل تابناک ہوگا اور وہ ایک بار پھر نئی طاقت، جوش، ولولے اور مضبوطی کے ساتھ دوبارہ کھڑی ہوگی۔
ملک کے قومی انتخابات کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کسی بھی پارٹی نے نہ مسلسل تین مرتبہ کامیابی حاصل کی اور نہ مسلسل تین مرتبہ حکومت تشکیل دے پائی۔ چنانچہ آج ملک میں بی جے پی حکومت کی ہر محاذ پر لگاتار ناکامی کو دیکھتے ہوئے بیشتر سیاسی تبصرہ نگاروں کی متفقہ رائے ہے کہ 2024 کے عام انتخابات میں کسی صورت میں بی جے پی کو اقتدار حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ ملک کے موجودہ ابتر حالات گویا بی جے پی کی شکست کی پیش قیاسی کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ کانگریس کو 2024 کے عام انتخابات میں کامیابی مل جائے لیکن اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ اگر پارٹی میں موجودہ قیادت قائم رہی تو اس کے خلاف ان کے حامیوں میں ناراضگی اور مایوسی کا ماحول ختم نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ نظریہ بھی تقویت پا رہا ہے کہ کانگریس کے سینئیر قائدین کی غیر تربیت یافتہ، سیاسی اور انتظامی امور سے ناواقف، عوامی مسائل سے نابلد، اخلاقی طور پر تباہ، ضدی اور بگڑی ہوئی اولاد، سیاست سے وابستہ ہونے کی شدید خواہش رکھتی ہے۔ یہ نسل خود کوئی محنت کرنا نہیں چاہتی بلکہ اپنے باپ دادا کی عوامی اور سیاسی خدمات کو کیش کراتے ہوئے اقتدار کی کرسی پر بیٹھنا چاہتی ہے۔ چنانچہ کانگریس ہی کے حامی، راہول گاندھی کو بھی اسی صف میں کھڑا ہوا پاتے ہیں۔
ایک ریاست کے انتخابات میں کانگریس کی توقع کے خلاف شکست کے بعد راہول گاندھی کے بحیثیت پارٹی صدر، استعفیٰ دینے کے فیصلے کو ان کے اپنے حامیوں نے شدید بوکھلاہٹ اور غصے کی حالت میں کئے گئے اعلان سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ آج وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ جب استعفیٰ دے چکے ہیں تو پھر عہدے سے کیوں چمٹے ہوئے ہیں۔ اس نکتے پر بھی غور کیجئے کہ گزشتہ برسوں میں جن کانگریسی قیادت والی ریاستوں میں کانگریس کی مرکزی قیادت نے مقامی کانگریسی قائدین کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا وہاں سیاسی خلاء پیدا ہوا۔ چنانچہ ان ریاستوں میں مقامی جماعتوں کو اپنے لیے جگہ بنانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ مثلاً بنگال میں ترنمول کانگریس، دہلی میں عام آدمی پارٹی، مہاراشٹرا میں شیوسینا، آندھرا میں وائی ایس آر کانگریس اور تلنگانہ میں ٹی آر ایس۔
کانگریس کے حامیوں کو اس بات کا بڑا صدمہ ہے کہ بیشتر ریاستوں میں پارٹی کی شکست کے اسباب کا تحقیقی جائزہ لینے کی نہ اعلیٰ کمان نے پہل کی نہ ناکامیوں سے کوئی سبق سیکھا نہ پارٹی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی جستجو کی۔ چنانچہ داخلی انتشار میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ کانگریس کی مسلسل ناکامیوں کی ایک وجہ اندرونی اختلافات ہی ہے اور دوسری بڑی وجہ ریاست میں ریاستی سطح پر عوام میں مقبولِ عام قائدین کو مرکزی قیادت کا برداشت نہ کرتے ہوئے انہیں کوئی اہمیت نہیں دینا ہی ہے۔ اس تنگ نظری کو دور کرنا بے حد ضروری ہے۔
سیاسی مبصرین کا کانگریس کو مشورہ ہے کہ گزشتہ دو عام انتخابات میں پارٹی کی شکست کے اسباب کے پیش نظر اسے چاہئے کہ وہ باصلاحیت قائدین کو ذمہ داریاں دے، تجربہ کار قائدین کے مشوروں پر عمل کرے، پارٹی کی کمان کسی مقبولِ عام اور بے لوث خدمت کرنے والے نوجوان کو سونپے، مقامی سطح پر قائدین کی ہمت افزائی کرے۔ بار بار وہی غلطی کرنا اور اچھے نتائج کی توقع رکھنا عقل مندی نہیں بلکہ پاگل پن اور خبط کی علامت ہے۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ کانگریس کو پارٹی کے بنیادی اصولوں کے مطابق اپنے ہر کارکن کو ملک میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خلوص دل کے ساتھ وقف کرنے کی ترغیب دی جانی چاہئے۔ لیکن سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد اس بنیادی اصول پر شائد ہی کہیں عمل پیرا ہوتے ہوں۔ جب راہول گاندھی کے ساتھ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر چلنے والے قائدین، پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں علی الاعلان شامل ہو رہے ہوں تو زمینی سطح کے کارکنوں کے دماغوں میں یقیناً کچھ نہ کچھ تو پک ہی رہا ہوگا۔