معیشت کو اندھیرے غار میں دھکیل دیا گیا۔ جی ڈی پی منفی 23.9فیصد پر

’’ایکٹ آف گاڈیا ایکٹ آف فراڈ !‘‘

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

خدا جانے انجام کیا ہوگا؟ معیشت کو اندھیرے غار میں دھکیل دیا گیا۔ ملک کی معیشت میں بھاری گراوٹ اور سرکاری خزانے کی بے حد بگڑتی ہوئی حالت کے ساتھ کے ساتھ ملک کی مشرقی سرحد پر چین کی طرح طرح کی جارحیت اور کورونا قہر کی وجہ سے ملک کی حالت کیا ہوگی اندازہ لگانا مشکل ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے معیشت میں جاریہ سال کی سہ ماہی اپریل تا جون میں جی ڈی پی منفی 23.9 رہی ہے۔ حکومت نے وبا کو قابو میں کرنے کے لیے 25مارچ کو بڑی جلد بازی میں محض 4گھنٹوں کی نوٹس پر بغیر منصوبہ بندی کے سخت لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کا براہ راست بدترین اثر معیشت پر پڑا۔ مودی جی نے بتدریج 20اپریل سے جان ہے تو جہاں کو دیکھنا ہوگا کے اصول پر عمل پیرا ہو کر محدود معاشی تگ و دو کی منظوری دے دی۔ زیادہ تر ملکی اور غیر ملکی ریٹنگ ایجنسیوں نے اندازہ لگایا تھا کہ ملک کی جی ڈی پی منفی رہے گی۔ اسی درمیان چین کی معیشت میں اسی سہ ماہی میں 3.2 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے جب کہ جنوری تا مارچ کے درمیان اس کی جی ڈی پی کے شرح نمو میں 6.8فیصد کی گراوٹ درج کی گئی تھی۔ مگر اس نے بڑی ہوشیاری سے بہترین منصوبہ بندی اور محتاط تالہ بندی سے کورونا پر قابو پالیا۔ فی الوقت بھارت کے سرکاری خزانہ کا خسارہ 10.3 فیصد تک پہنچ گیا ہے بازار سے کل چار لاکھ کروڑ روپے قرض لینے کے باوجود 12لاکھ کروڑ روپے قرض لینے سے اپریل تا جولائی کی مدت میں 8.2لاکھ کروڑ روپے کا سرکاری خزانہ کا خسارہ ابھی بھی 68فیصد ہے۔ یہ خاص طور سے ٹیکس وصولی میں بدترین تنزلی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس سہ ماہی کے گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں ٹیکس وصولی میں 42فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ چیف معاشی مشیر کرشن مورتی سبرامنین نے کہا ہے کہ اپریل تا جون سخت لاک ڈاون کی وجہ سے اقتصادی تگ و دو بری طرح متاثر ہوئی ہے دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہت سخت لاک ڈاون کی وجہ سے یہ گراوٹ ہوئی ہے جو اندازہ کے عین مطابق ہے۔ بھارت میں وی شکل کی ریکوری کے ساتھ آئندہ سہ ماہی میں اچھے اعداد و شمار کی امید کر سکتے ہیں۔ یہ محض ان کا خواب و خیال ہے کیونکہ اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ معیشت کی ریکوری میں کم از کم ایک سال کی مدت لگے گی۔ دوسری طرف جی ڈی پی میں تنزلی چین اور بھارت کے سرحدی تنازعہ اور کورونا وائرس کے بڑھتے قہر سے شیئر بازار بڑھ کر دھڑام سے زمین بوس ہو گیا۔ حکومت اپنی تمام کوششوں کے باوجود کورونا وائرس پر قابو پانے سے قاصر ہے۔ جو نوکری تھی مودی جی کی غلط حکمت، عملی ناقص سوچ اور جلد بازی کی وجہ سے وہ بھی چلی گئی۔ سی ایم آئی ای کے اندازے کے مطابق 12کروڑ 10 لاکھ افراد بے روزگار ہوگئے۔ 40کروڑ ملک کی آبادی غربت کی سطح سے نیچے جاکر بھکمری کے شکار ہوسکتے ہیں۔ ہر سُو غیر یقینیت کا دور دورہ ہے لوگ پریشان ہیں اور سماجی، معاشی اور نفسیاتی مسائل سے دوچار ہو کر خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ پڑھنے والے بچوں کی پڑھائی ختم ہو گئی ہے کیونکہ 42فیصد بچوں کے پاس آن لائن پڑھائی کے لیے اسمارٹ فون نہیں ہے۔ دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کنکشن کا مسئلہ الگ ہے۔ نوجوانوں کے گھر کے باہر نکلنے اور عوامی میل جول پر پابندیاں عائد ہیں۔ ڈپریشن کا نیا دور ماہرین نفسیات کی تحقیق کے لیے ایک مشکل موضوع ہو گا۔ فی الحال جی ڈی پی میں جو گراوٹ آئی ہے اس کا کئی زاویوں سے تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ ایک ماہ قبل تک بھی جانب دار میڈیا کی بدولت وزیراعظم کی مقبولیت کا گراف خاصا اچھا تھا۔ مگر31 اگست کو کی گئی من کی بات پر کافی بھونچال آگیا ہے۔ 10لاکھ سے زیادہ لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے مودی جی کو ڈس لائیک کیا ہے۔ مودی جی ایک ایڈوینٹ مینیجر کے طور پر کافی مشہور ہیں۔ وہ لوگوں کا جملہ بازی کے ذریعہ اصل موضوع سے توجہ ہٹانے میں کافی مہارت رکھتے ہیں۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی پر تنقید کرنے والے اقتصادی ماہرین پروفیسر امرتیہ سین اور ڈاکٹر منموہن سنگھ پر طنز کرتے ہوئے کہا ’’کوئی کہتا ہے کہ دو فیصد جی ڈی پی کم ہو جائے گی کوئی کہتا ہے 4 فیصد جی ڈی پی کم ہو جائے گی لیکن سارے دیش نے دیکھ لیا ہے کہ ہارورڈ والے کی سوچ کیا ہوتی ہے اور ہارڈ ورک والے کی سوچ کیا ہوتی ہے؟ مگر ملک کی معیشت نے سب سے بڑا غوطہ لگایا ہے یعنی تقریباً 24 فیصد گراوٹ آئی ہے۔ دنیا میں ہم سب سے بدتر حالت میں پہنچ گئے ہیں۔ یہ ہے ہارڈ ورک والے کی سوچ۔ اب مرکزی قیادت نے چپی سادھ لی ہے۔ معیشت کی تباہی کی وجہ سے بے روزگاری، خود کشی اور لوگوں کے اندر بے چینی میں کافی اضافہ ہوا ہے اس وقت ملک میں ہر 10 افراد میں سے ایک فرد بے روزگار ہے۔ سنٹر فارمانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے ذریعے جاری بے روزگاری کے نئے اعداد وشمار نے کافی مایوس کیا ہے۔ اگست میں بے روزگاری 10فیصد کے آس پاس رہی۔ منظم شعبہ میں اس ماہ کی بے روزگاری کی شرح کا بہت برا حال ہے۔ لاک ڈاون کے بعد جولائی میں روزگار کے اعداد و شمار میں بڑی گراوٹ آئی۔ لاک ڈاون میں ملی رخصت کی وجہ سے امکان تھا کہ روزگار کے مواقع میں ترقی ہوگی لیکن سی ایم آئی ای کے ذریعے جاری بے روزگاری کے اعداد وشمار میں اگست میں بے روزگاری کو بڑی خراب حالت میں پایا۔ اس کے مطابق جولائی میں بے روزگاری کی شرح 9.15فیصد تھی مگر اگست میں بڑھ کر 9.83فیصد ہو گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ شہری علاقے میں ہر 10میں سے ایک فرد بے روزگار ہے۔ یہی حال دیہی علاقوں کا بھی ہے۔ یونائیٹیڈ نیشن ویمین اور یونائیٹیڈ نیشن ڈیولپمنٹ پروگرام کی جانب سے جاری کردہ ڈاٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں عورتوں کی بے روزگاری کی شرح مردوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ بے روزگاری کے معاملے میں سب سے زیادہ بد حال ریاست ہریانہ ہے جہاں بے روزگاری کی شرح 33.5فیصد ہے۔ اس کے بعد بعد تریپورہ کا نمبر 27.9فیصد کا ہے۔ راجستھان اور گوا میں بے روزگاری کی شرح بالترتیب 17.5فیصد اور 16.2فیصد ہے جبکہ ہماچل پردیش میں 15.8فیصد ہے۔ ملک میں بے روزگاری کی وجہ نفسیاتی امراض اور خود کشیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ قومی جرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے مطابق 2019میں بھارت میں روزآنہ 381لوگوں نے خود کشی کی ہے۔ اس طرح پورے سال میں ایک لاکھ 39 ہزار 123لوگوں نے خود کشی کی۔ اعداد وشمار کے مطابق 2018کے 1.3 لاکھ کے مقابلے 2019 میں خود کشی کے معاملات میں 3.4 فیصد کا اضافہ ہوا اور 2017میں ایک لاکھ 29ہزار 887لوگوں نے خود کو ہلاک کیا۔ اس کی واحد وجہ بے روزگاری بتائی جا رہی ہے۔ جو نوجوان پڑھ لکھ کر روزگار کے میدان میں آرہے ہیں انہیں نوکری اور روزگار نہ ملنے پر وہ خود ہی اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ تمام بے روزگار نوجوان میں غم وغصہ اور مایوسی انتہا پر پہنچ رہی ہے۔ گزشتہ ہفتہ ان نوجوانوں نے ساسا رام اسٹیشن پر زبردست مظاہرہ کیا اب وہ نوجوان یکجا ہوکر روزگار کے لیے تحریک چلانے کی تیاری میں ہیں We need unitکے نام سے ہیش ٹیگ SpeakupforSSCRaliwaystudents کا فیس بک اور ٹیوٹر پر ٹرینڈ ہو رہا ہے۔ لوگ اب کھل کر مودی کو ٹیوٹر کے ذریعہ روزگار کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مودی جی لوگوں کو مور کے ساتھ نچا رہے ہیں۔ مور اور کتوں کی باتوں سے دیش نہیں چلتا جی ڈی پی سے دیش چلتا ہے۔ جی ڈی پی جن شعبوں پر منحصر ہے اس کا حال بھی خراب ہے۔ مینو فیکچرنگ منفی 39.3فیصد کنسٹرکشن منفی 50فیصد، ٹریڈ، ہوٹل، ٹرانسپورٹ براڈ کاسٹنگ اینڈ کمیونیکیشن منفی 47فیصد کی سطح پر ہے۔ ملک کے سرویس سیکٹر کی حالت اگست میں جولائی کے مقابلے میں تھوڑی سی سنبھلی ہے۔ لیکن اس شعبہ میں اب بھی گراوٹ چل رہی ہے کیونکہ کورونا وائرس لاک ڈاون کی وجہ سے طلب اور کاروبار کی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ سروسز ایکیویٹی انڈیکس جولائی کے 34.2سے بڑھ کر اگست 2020 میں 41.8پر پہنچ گئی ہے۔ فی الوقت ملک میں کورونا قہر تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ متاثرین کی تعداد اوسطاً یومیہ 90 ہزار سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ 70ہزار سے زائد افراد موت سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔ اس آفت میں گرفتار امریکہ کے بعد ہمارا ملک دوسرے مقام پر ہے۔ ایسے حالات میں اگست میں تھوڑی بہتری کے بعد سرویس سیکٹر کا انڈیکس چھٹے ماہ میں بھی گراوٹ کے دائرے میں ہے۔ آئی ایچ ایس مارکیٹ انڈیا سروسز پر مینیجنگ منیجرس انڈیکس (پی ایم آئی) کے مطابق انڈیکس 50سے نیچے رہتا ہے تو مانا جاتا ہے کہ متعلقہ شعبہ میں گراوٹ ہے۔
جاریہ مالی سال 2020 کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی میں 23.9 فیصد کی تنزلی کو آر بی آئی کے سابق گورنر پروفیسر رگھو رام راجن نے باعث تشویش بتایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکومت اور ان کے نوکر شاہوں کو خود ستائشی سے باہر نکل کر مثبت کام کرنا چاہیے۔ موجودہ مصیبت کے موقع پر ایک بہت ہی ہوشیار اور متحرک حکومت کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے شروعات میں جو تگ و دو بڑی تیزی سے بڑھی تھیں اب پھر ٹھنڈی ہوگئی ہیں۔ پروفیسر راجن نے اپنے لنکڈان پیج پر پوسٹ میں لکھا ہے کہ معاشی ترقی میں اتنی بڑی گراوٹ ہم سبھوں کے لیے ایک تنبیہ ہے۔ غیر منظم شعبوں کے اعداد وشمار آنے کے بعد یہ گراوٹ اور زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ کووڈ۔ 19سے متاثر ملکوں میں برطانیہ 20فیصد، سنگا پور 16، فرانس 13.8، اٹلی 12.4، جرمنی 10.8، امریکہ 9.5، جاپان 7.6 اور چین (+3.2)ہے۔ پروفیسر راجن نے حکومت کو معیشت کی بہتری کے لیے چند مشورے بھی دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو طلب بڑھانے کے لیے لوگوں پر خرچ کرنا چاہیے۔ سرکاری بینکوں کو اس وبا کی وجہ سے جتنا نقصان ہو رہا ہے اس کے حساب سے ان بینکوں کو نقد فراہمی کے لیے حکومت کو پیسے الگ کرنے چاہیے۔ ایک متعین حد سے کمپنیوں کو ان کی آمدنی اور گزشتہ سال کیے گئے جی ایس ٹی کی ادائیگی کی بنیاد پر چھوٹ دی جانی چاہیے کمپنیوں کی بڑھتی جسامت کے ساتھ یہ رعایت گھٹتی جانی چاہیے۔
حکومت کو سرکاری کمپنیوں کے بقائے کی ادائیگی کرنی چاہیے تاکہ کمپنیوں کے پاس نقدی آئے۔ ملک کی جی ڈی پی میں پہلی سہ ماہی میں تقریباً ایک چوتھائی کی بھاری گراوٹ سے معیشت کو جاریہ مالی سال میں 20لاکھ کروڑ روپے کے نقصان کا امکان ہے۔ معیشت کی بہتری کے لیے دیگر ماہرین اقتصادیات نے حکومت کو مشورے دیے مگر حکومت سننے تیار نہیں۔ حکومت ایکٹ آف گاڈ کہہ کر اپنا پلو جھاڑ لیتی ہے۔ دراصل معیشت کی بربادی کے پشت پر ایکٹ آف فراڈ کام کرتا ہے۔ ایکٹ آف گاڈ ہونے پر زرعی پیداوار میں ترقی نہیں ہوتی۔ سابق وزیر مالیات اور معیشت کے جانکار پی چدمبرم نے طلب کو متحرک کرنے اور ملکی معیشت کو زندگی نو عطا کرنے میں مدد کرنے کے لیے حکومت کو چند مشورے دیے۔ انہوں نے روپے جٹانے کے لیے بھی مشورہ دیا ہے جس میں ایف آر بی ایم کے اسٹینڈرڈ میں سہولت، سرمایہ کاری میں تیزی اور عالمی بینکوں سے رقم لینا بھی ضروری ہے۔ طلب اور کھپت کو متحرک کرنے اور معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے ایسے ٹھوس قدم اٹھائے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے 50 فیصد بہت غریب خاندانوں کو کچھ نقدی رقم مہیا کی جائے۔ ایسے سبھی خاندانوں کو غلے گوداموں سے غذائی اشیاء دی جائیں۔ بنیادی ڈھانچہ کی بہتری پر خرچ بڑھائیں۔ بڑے عوامی تعمیراتی کام شروع کیے جائیں۔ بینکوں میں سرمایہ کاری کریں تاکہ وہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ رعایتی شرح پر قرض دے سکیں اور ریاستوں کو وعدہ کے مطابق جی ایس ٹی کا حصہ دیا جائے کیونکہ سبھوں کو پیسے کی شدید ضرورت ہے۔ قرض لیں تردد نہ کریں۔ اس سال زیادہ قرض لیں۔ آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ کی طرف سے 6.5 ارب ڈالر کی پیشکش کی گئی ہے۔ اس کو استعمال میں لائیں۔ آخری مشورہ ہے کہ سرکاری خزانہ کے خسارہ کو کم کرنے کے لیے مال مہیا کریں۔

ملک میں بے روزگاری کی وجہ نفسیاتی امراض اور خود کشیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ قومی جرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے مطابق 2019میں بھارت میں روزآنہ 381لوگوں نے خود کشی کی ہے۔ اس طرح پورے سال میں ایک لاکھ 39 ہزار 123لوگوں نے خود کشی کی۔ اعداد وشمار کے مطابق 2018 کے 1.3 لاکھ کے مقابلے 2019 میں خود کشی کے معاملات میں 3.4 فیصد کا اضافہ ہوا اور 2017میں ایک لاکھ 29 ہزار 887لوگوں نے خود کو ہلاک کیا