بھارتی کمپنیوں کا سودا: بحران ہوگا مزید گہرا

’مہارتن‘ بی پی سی ایل کو کھونا ’کوہ نور‘ کو کھونے کے مترادف

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

مرکزی حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں عوامی شعبے کی کمپنیاں بند ہونے کے دہانے پر ہیں یا حکومت انہیں خانگیانے کی کوشش میں ہے۔ عوامی شعبےکی منافع بخش کمپنیاں جیسے ایرانڈیا، بی ایس این یل، بی پی سی ایل وغیرہ کو بیچ کر حکومت کیا حاصل کرنا چاہتی ہے یہ سمجھ سے باہر ہے۔ یقیناً ان کمپنیوں کی فروخت سے حکومت کو یک مشت کچھ رقم تو حاصل ہوجائے گی لیکن اس کے منفی نتائج بڑے ہی خطرناک اور دور رس ہوں گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کمپنیوں کی فروخت سے اپنے سرمایہ دار آقاؤں کی وفاداری نبھانا چاہتی ہے۔ دوسری طرف معاشی بد حالی کی وجہ سے حکومت کی آمدنی تشویش ناک حد تک کم ہو گئی ہے۔ جی یس ٹی کے نا قابل فہم اور گنجلک قانون سے ٹیکس کی عدم وصولی بھی اس کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ جی یس ٹی کے نفاذ کی وجہ سے متعدد ریاستیں ٹیکس کی کمی سے پریشان ہیں۔ اسے توقع نہیں تھی کہ اس کا یہ منصوبہ اس قدر ناکام ہو جائے گا۔ آمدنی کی کمی کی وجہ سے حکومت کے خزانے خالی ہیں تو حکومت نے اپنی کمپنی کو فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ اس فروخت سے اس کے خزانے میں کچھ تو رقم جمع ہو جائے۔ لیکن اس فروخت سے سماج پر جس قدر منفی اثرات مرتب ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ فروخت سے نہ صرف ان کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین ہی متاثر ہوں گے بلکہ عوام پر مزید معاشی بوجھ پڑے گا اور وہ شدید مشکلات میں مبتلا ہو جائیں گے۔
اگر ان کمپنیوں کو کسی خانگی ادارے کو فروخت کردیا جاتا ہے تو حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل باقی نہیں رہ جائے گا اس کا کنٹرول ختم ہو جائے گا۔ پھر وہ اپنی من مانی کرنے لگیں گے۔ اس سے قیمتیں بے قابو ہو جائیں گی اس کی بنائی ہوئی اشیاء عام آدمی کی دست رس سے باہر ہو جائیں گی۔
ایک طرف حکومت غریب اور متوسط طبقہ کے اندر پکوان گیاس کو مفت میں تقسیم کر رہی ہے تو دوسری طرف وہ پٹرول و گیاس مہیا کرنے والی کمپنیوں کو فروخت کر رہی ہے۔ حکومت کے اس دوہرے معیار سے یہ بات اشکار ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے سرمایہ دار آقاؤں کی غلام ہے۔ وہ عوام کی نمائندہ نہیں بلکہ سرمایہ داروں کی نمائندہ ہے۔
بھارت کو اپنے قومی اثاثے کسی بھی بین الاقوامی یا کسی بھی قومی کمپنی کو فروخت نہیں کرنا چاہیے جب کہ وہ منافع دے رہی ہوں۔ کسی بھی منافع بخش کمپنی کو کسی خانگی کاروباری ادارے کو بیچنے کی کوئی منطق نظر نہیں آتی۔ یہ بات عقل سے پرے ہے کہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو بیچ دیا جائے۔ یہ محض ایک مفروضہ ہے کہ خانگی ادارے ہی ان کمپنیوں کو فعال انداز میں چلا سکتے ہیں۔ محض خدمات کی فعالیت کی بنیاد پر ان کو فروخت کرنا کسی بھی طرح سے عقل مندی کا کام نہیں ہے۔
بھارت پٹرولیم کا آپ نے نام سنا ہی ہوگا اور بہت ممکن ہے کہ آپ نے اس کمپنی کی گیس یا پٹرول بھی استعمال کیا ہوگا۔ یہ بھارت کی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ 1928 میں ایشیاٹک پٹرولیم (انڈیا) نے برما آئل کمپنی کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا اور بعد میں یہی برما آئیل کمپنی 24 جنوری 1976 کو 100 فیصد پبلک سیکٹر انٹرپرائز’ بھارت ریفائنریز لمیٹڈ‘ نے برما شیل کی مکمل ملکیت حاصل کر لی اور بعد میں اسی ’بھارت ریفائنریز لمیٹڈ‘ کو بھارت پٹرولیم کارپوریشن لمیٹڈ کا نام دیا گیا۔
بی پی سی ایل ایک بہت بڑی عوامی شعبہ کی کمپنی ہے جس کے تقریباً 15 ہزار پٹرول پمپ ہیں۔ اس کمپنی کے پاس 33 ملین ٹن خام تیل ریفائن کرنے کی استعداد موجود ہے۔ آپ کو جان کر بڑی حیرت ہوگی کہ ملک کے جملہ ریفائن کرنے کی استعداد کا یہ 13 فیصد ہے۔ اس کے تقریباً 13 ہزار ملازمین ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں اس کمپنی نے تقریباً 35 ہزار کروڑ روپیوں کا منافع حاصل کیا جو ایک بڑی رقم ہے۔ اتنا منافع کسی بھی پبلک سیکٹر یونٹ نے نہیں دیا۔ اس نے تقریباً 19 ہزار 600 کروڑ کا ٹیکس اور نو ہزار کروڑ کا منافع بھارت سرکار کو دیا۔
اس وقت اس کمپنی کی بازار میں قیمت (مارکیٹ کی قیمت) کے اعتبار سے تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے ہے۔ حکومت کے پاس اس کمپنی کی تقریباً 53 فیصد حصہ داری ہے یعنی حکومت کے پاس ہی اس کے مالکانہ حقوق ہیں۔ جو کوئی بھی اپنے مالکانہ حقوق بیچتا ہے تو اس کو پریمیم ملتا ہے یعنی زیادہ رقم ملتی ہے۔
مرکزی حکومت نے 2017 میں اپنی ہی ایک اور کمپنی ’ہیچ پی سی یل‘ کو بیچا تھا۔ اس کمپنی کو اس نے اپنی ہی ایک دوسری کمپنی ’او این جی سی‘ کو بیچ دیا۔ اسے بیچتے وقت حکومت نے 18 فیصد پریمیم کی قیمت لگائی تھی۔ اگر حکومت بی پی سی ایل کے فروخت میں بھی وہی 18 فیصد پریمیم کی قیمت لگاتی ہے تو اسے تقریباً 65 ہزار کروڑ روپے کی رقم مل سکتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ ایک مستقل آمدنی دینے والی کمپنی سے محروم ہو جائے گی۔ پچھلے پانچ سال میں حکومت نے اس ادارےسے تقریباً 30 ہزار کروڑ روپیوں کا منافع کمایا ہے۔ پٹرول، ڈیزل، سی ین جی اور ایل پی جی گیاس آج سماج کی بنیادی ضرورت بن گئی ہے۔ یہ چیزیں زندگی کے ہر شعبہ کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہیں۔ مطبخ سے لے کر اسپتالوں تک، کپڑوں کی ملوں سے لے کر کار خانوں تک، ہوٹلوں سے لے کر دفاعی شعبہ تک، یہ زندگی کا اہم ترین جز بن گئے ہیں۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں لگتا۔
پٹرول، ڈیزل اور گیس کمپنیوں کو خانگیانے کے بعد ان کو حکومت کا اپنے کنٹرول میں رکھنا ضروری ہے کیوں کہ اس کا راست تعلق ہماری معیشت سے ہے، ہمارے دفاعی شعبہ سے ہے۔ اگر یہ کمپنیاں کسی خانگی ادارے کے حوالے ہوتی ہیں تو اس سے ملک کی سالمیت کو خطر لاحق ہو سکتا ہے اور اگر یہ کسی غیر ملکی کمپنی کے حوالے ہوتی ہے تو اس کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔
یہ بڑی مضحکہ خیز بات ہے کہ جتنے بھی درباری قسم کے ماہرین معاشیات ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس کمپنی کو کسی غیر ملکی ادارے کو بیچ دینا چاہیے ان کا اصرار اس بات پر ہے کہ اس کو کسی خانگی کمپنی کو ہی فروخت کرنا چاہیے انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ حکومت کہیں اسے انڈین آئل کو نہ پیچ دے جس سے انڈین آئل ایک بہت بڑی کمپنی ہو جائے گی جس سے خانگی کمپنیوں کو نقصان ہوگا۔ یہ ماہرین معاشیات کارپوریٹس کے منافع کی سوچ رہے ہیں عوامی فائدے کی بات ان کے دل و دماغ میں دور دور تک موجود نہیں ہے۔
ایسی بھاری منافع کمانے والی کمپنی کو خانگیانے کی کیا ضرورت پیش آ گئی جب کہ اسی بی جے پی سرکار نے اس کمپنی کو اپنی بہترین کارکردگی پر 2017 میں ’ مہا رتنا ‘ کے اعزاز سے نوازا تھا؟ اگر سرکار اس کمپنی کو فروخت کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنا ایک بیش قیمتی ہیرا بیچ رہی ہے جس کا راست اثر اس کے مستقل ملازمین پر پڑے گا۔ اس منافع کمانے والی کمپنی کو خانگی ادارے کو بیچنے پر وہ مزید منافع کی چکر میں ان ملازمین کو چھانٹے گی اور ان کی تعداد کو کم کرے گی۔
حکومت نے اس کی پوری تیاری کرلی ہے وہ ابھی سے ملازمین کو رضاکارانہ ریٹائرمنٹ اسکیم تحت چھانٹ رہی ہے اس اسکیم کی آخری تاریخ کو بڑھا کر 30 تمبر کر دیا گیا ہے جو پہلے 20 اگسٹ تھی۔ اب تک تقریباً 1500 ملازمین نے اس اسکیم کے تحت اپنی ملازمتوں کو چھوڑ دیا ہے۔ یہ اسکیم جولائی کے مہینے میں شروع ہوئی تھی۔
کمپنی کو خانگیانے کے فیصلے کے خلاف پیر سے بھارت پٹرولیم کارپوریشن لمیٹڈ (بی پی سی ایل) کے 4800 سے زائد ملازمین 48 گھنٹے کی ہڑتال پر ہیں۔ بی پی سی ایل کی کوچی اور ممبئی ریفائنریز میں 15 یونینوں اور ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے مارکیٹنگ کے ملازمین نے بھی پیر کی صبح سے شروع ہونے والی ہڑتال میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ہڑتال میں خود برسرِ اقتدار پارٹی کی ’’بھارتیہ مزدور سنگھ‘‘ بھی شامل ہے۔ وہ کسی بھی عوامی شعبہ کے ادارے کو خانگیانے کے خلاف ہے۔ بی جے پی اور خاص طور پر وزیر اعظم نے اپنی انتخابی تقاریر میں ریلوے اور دیگر شعبوں کے خانگیانے کی مخالفت کی اور کہا کہ وہ ان کو خانگی اداروں کو فروخت نہیں کریں گے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو تیقن انہوں نے دیا تھا وہ اس کے برعکس کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ان کے قول وعمل کا یہ تضاد ملک میں معاشی عدم استحکام و سرمایہ دارانہ استحصال کو مزید فروغ دے گا۔ بی پی سی ایل جیسے مہارتن کو کھونا کسی ’کوہ نور‘ ہیرے کو کھونے سے کم نہیں ہوگا۔

یہ بڑی مضحکہ خیز بات ہے کہ جتنے بھی درباری قسم کے ماہرین معاشیات ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس کمپنی کو کسی غیر ملکی ادارے کو بیچ دینا چاہیے ان کا اصرار اس بات پر ہے کہ اس کو کسی خانگی کمپنی کو ہی فروخت کرنا چاہیے انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ حکومت کہیں اسے انڈین آئل کو نہ پیچ دے جس سے انڈین آئل ایک بہت بڑی کمپنی ہو جائے گی جس سے خانگی کمپنیوں کو نقصان ہوگا۔ یہ ماہرین معاشیات کارپوریٹس کے منافع کی سوچ رہے ہیں عوامی فائدے کی بات ان کے دل و دماغ میں دور دور تک موجود نہیں ہے۔
ایسی بھاری منافع کمانے والی کمپنی کو خانگیانے کی کیا ضرورت پیش آ گئی جب کہ اسی بی جے پی سرکار نے اس کمپنی کو اپنی بہترین کارکردگی پر 2017 میں ’ مہا رتنا ‘ کے اعزاز سے نوازا تھا؟ اگر سرکار اس کمپنی کو فروخت کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنا ایک بیش قیمتی ہیرا بیچ رہی ہے جس کا راست اثر اس کے مستقل ملازمین پر پڑے گا۔ اس منافع کمانے والی کمپنی کو خانگی ادارے کو بیچنے پر وہ مزید منافع کی چکر میں ان ملازمین کو چھانٹے گی اور ان کی تعداد کو کم کرے گی۔
حکومت نے اس کی پوری تیاری کرلی ہے وہ ابھی سے ملازمین کو رضاکارانہ ریٹائرمنٹ اسکیم تحت چھانٹ رہی ہے اس اسکیم کی آخری تاریخ کو بڑھا کر 30 تمبر کر دیا گیا ہے جو پہلے 20 اگسٹ تھی۔ اب تک تقریباً 1500 ملازمین نے اس اسکیم کے تحت اپنی ملازمتوں کو چھوڑ دیا ہے۔ یہ اسکیم جولائی کے مہینے میں شروع ہوئی تھی